Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » January Megazine » اربعینِ نووی

اربعینِ نووی

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

گذشتہ قسط کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے ایسے عمل کی بابت سوال کیاجو انہیں جنت تک پہنچادےاور جہنم سے دوری کا سبب بن جائے۔

اس قسم کے سوال کا جواب دینا رسول اللہ ﷺ سے ہی ممکن ہے اور صرف آپ ہی کا حق ہے،صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ  کی روایت سےمروی ایک حدیث کے ابتدائی الفاظ کچھ اس طرح ہیں:

إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ. (صحیح مسلم:1844)

بے شک مجھ سے قبل جتنے انبیاء آئےان کی ڈیوٹی میں یہ بات شامل رہی کہ اپنی امت کو خیر کا ہرراستہ بتائیں اور شرکے ہرراستےسے ڈرائیں۔

خیر کے راستے سے مراد جنت کار استہ ہے جبکہ شر کےر استے سے مراد جہنم کاراستہ ہے،جنت کےہرراستےکی نشاندہی انبیاءِ کرام ہی کا فرضِ منصبی ہے،جس میں کسی کی دخل اندازی قبول نہیں کی جاسکتی، نہ کسی کا ایسامقام ہے کہ وہ اپنی رائے سے جنت کے پروگرام پیش کرسکے۔

واضح ہو کہ جنت کا راستہ انتہائی آسان ہے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی حدیث میں (انہ لیسیر)فرمایا،یعنی:یہ راستہ آسان ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:[يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ](البقرۃ:۱۸۵)

یعنی: اللہ تعالیٰ کا اراده تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں۔

رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو آسانیاں پیداکرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے:(یسروا ولاتعسروا،بشروا ولاتنفروا)

یعنی:آسانیاں پیداکرواورتنگیاں پیدامت کرو،لوگوںکو خوشخبریاں سناؤ،متنفر نہ کرو۔(صحیح مسلم:1703)

دوسری حدیث میں ارشاد ہے:(فإنما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین)(صحیح بخاری:220)

یعنی:تم آسانیاں پیداکرنے کے لئے بھیجے گئے ہو ،نہ کہ تنگیاں پیدا کرنے کے لئے۔

ایک اورحدیث میں ارشادفرمایا:(إن ہذا الدین یسر،ولن یشاد الدین أحد إلاغلبہ)(صحیح بخاری:39)

یعنی:بے شک یہ دین آسان ہے،اور جو شخص پورے دین پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا ہے،دین اسے ہی بچھاڑ دیتاہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ اگرچہ دین انتہائی آسان ہے،پھر بھی اللہ تعالیٰ چلنے والوںکے لئے مزید آسانیاں پیدافرمادیتاہے،جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:[وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ يُسْرًا۝۴ ](الطلاق:۴)

ترجمہ: جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سےخطاب کرتے ہوئے فرمایاہے:

[وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرٰى۝۸ۚۖ ](الاعلیٰ:۸)

ہم اس دین کے لئےجوآسان ہےآپ کے لئےمزیدآسانیاں پیداکردیں گے۔

دوسرے مقام پرفرمایا:[فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى۝۵ۙ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى۝۶ۙ فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْيُسْرٰى۝۷ۭ](اللیل:۵تا۷)

ترجمہ:جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا ،تو ہم بھی اس کواس راستے کی جوکہ آسان ہے، مزیدسہولت عطافرمادیںگے۔

اس تقریر سے دوباتیں بخوبی ثابت ہوتی ہیں:

1دین انتہائی آسان ہے۔2جولوگ صدق واخلاص سے دین پر چلنے کا عزم کرلیتےہیں،انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید آسانی مہیاہوجاتی ہے،یہی بات اس آیتِ کریمہ سے مفہوم ہورہی ہے:

[وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۝۰ۭ وَاِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۶۹ۧ ](العنکبوت:۶۹)

ترجمہ:اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے۔(یعنی آسانیاں پیداکردیں گے) یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے ۔

 نبیﷺ نے جناب معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے سوال کا یہ جواب دیا:

(تَعْبُدُ اللهَ لاَتُشْرِكُ بِهِ شَيْئَا، وَتُقِيْمُ الصَّلاة، وَتُؤتِي الزَّكَاة، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ البَيْتَ. )

اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو،اور اس میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،اورنماز قائم کرو،اور زکاۃ دو،اور رمضان کے روزے رکھو،اور بیت اللہ کاحج کرو۔

رسول اللہ ﷺ کے اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ جنت کاحصول اور جہنم سے بچاؤکے لئے ان پانچ فرائض کی مکمل ادائیگی ضروری ہے، انہیں ایک حدیث میں ارکانِ اسلام کہاگیاہے،گویااسلام کی عمارت کا قیام ان پانچ بنیادوں پر ہے،ان کی حیثیت فرائض کی ہے،اللہ تعالیٰ کو بندوںکے اعمال میں سے سب سے زیادہ فرائض کی ادائیگی ہی پسند ہے،بلکہ ایک حدیث میں فرائض کی ادائیگی کو اپنے سب سے زیادہ قرب کاراستہ بتایاہے۔

وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ. (صحیح بخاری:6502)

یعنی:میرابندہ جس جس چیز سے میرے قرب کامتلاشی ہے،اس میں میرے نزدیک سب سے پسندیدہ وہ اعمال ہیں جو میں نے فرض قرار دیئے ہیں۔

پہلافریضہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بجالاناہے،ایسی عبادت جو ہر قسم کے شرک کی ملاوٹ سے پاک ہو،اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی جوہم پر فرض ہےکی عملی صورت یہی ہے کہ پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت پر قائم رہاجائے اورہمیشہ ہرقسم کے شرک کا انکار کیاجائے۔

واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی،رسول کریم ﷺ کی رسالت کی گواہی کے بغیر مکمل نہیںہوسکتی؛کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت فرض ہے اور عبادت کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی تصدیق اور آپ کی لائی ہوئی مکمل شریعت کی معرفت کے بغیر حاصل ہوہی نہیں سکتا،لہذا صرف وہی عمل اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث ہوسکتا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت کےمطابق ہو،جس کاماحصل یہ ہوا کہ مذکورہ دونوں گواہیاںآپس میں لازم وملزوم ہیںاور دونوں کی تکمیل ایک دوسرے سے مل کر ہی ہوتی ہے۔

دوسرافریضہ ادائیگیٔ نماز ہے،تمام اعمال میں نماز کی تقدیم اس کی زبردست اہمیت کی دلیل ہے؛کیونکہ نماز رب تعالیٰ اور بندے کے مابین رابطے کا انتہائی مضبوط عمل ہے،یہ سعادت دن میں پانچ بار حاصل ہوتی ہے،جسے حفظِ اوقات اور جملہ آداب کے ساتھ اداکرنا موجب سعادت ہے،جوروزافزوں اللہ تعالیٰ کے قرب کے بڑھنے کا سبب بنتا ہے،اسی لئے قیامت کے روز اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائےگا،جس کی حفاظت کامیابی کا باعث بنے گی اور جس کاضیاع ہر چیز کے ضیاع کا سبب بن جائے گا۔(واللہ المستعان)

تیسرا فریضہ ادائیگیٔ زکاۃ ہے،جوہرسال صاحبِ نصاب بندے پر فرض ہوتی ہے،زکاۃ کی ادائیگی مال کی پاکیزگی اور اللہ رب العزت کی رضاجوئی کا انتہائی محکم عمل ہے۔(واللہ الموفق)

چوتھافریضہ رمضان کے روزوں کی صورت میں ہے،یہ بھی سال میں ایک بار فرض ہیں،روزے دار انسان پورامہینہ دن بھربھوک اور پیاس برداشت کرکے، نیزخواہشاتِ نفس پہ پوری طرح کنڑول کرکے رب تعالیٰ کی محبت اور قربت کی منازل بڑی تیزی کے ساتھ طے کرلیتا ہے،یہ عظیم الشان عمل اگر اخلاص پر قائم ہو تو ایسے اجروثواب کے حصول کا موجب بن جاتا ہے جس کی مقدار ملائکہ بھی نہیں جانتے۔

پانچواں فریضہ حج بیت اللہ ہے،جو صاحبِ استطاعت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے،رسول اللہ ﷺ نے حجِ مبرور (یعنی حج مسنون) ادا کرنے والے کے لئےتمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے پاک صاف ہونے کی بشارت دی ہے۔

واضح ہو کہ ان تمام اعمال وفرائض کی صحت وقبولیت دو شرائط پر قائم ہے :1اخلاصِ نیت ؛کیونکہ رسول اللہ ﷺ کافرمان ہے:(إنما الاعمال بالنیات)یعنی: تمام اعمال کی صحت وقبولیت اخلاصِ نیت پر ہے،یہ حکم تمام امتوں کے لئے ہے،کما قال اللہ تعالیٰ:[وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ۝۵ۭ ](البینۃ:۵)

ترجمہ:انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا ۔

2دوسری شرط یہ ہے کہ عمل رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ مبارکہ کے مطابق ہو،اگرآپﷺ کے طریقہ پر نہیں ہے تو وہ مردودقرار پائے گا،جیساکہ صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کا ارشادگرامی ہے:(من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھورد)یعنی:جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امرنہ ہو (یعنی جسے ہماری تصدیق حاصل نہ ہو) تو وہ مردود ہے۔

اس عمل کا مردود ہونا قیامت کے دن واضح ہوگا،جب انسان کچھ نہ کرسکے گا،اور اپنی نگاہوں کے سامنے اپنی نیکیوں کو بکھرتاہوااور برباد ہوتا ہوا دیکھے گا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

[وَبَدَا لَہُمْ مِّنَ اللہِ مَالَمْ يَكُوْنُوْا يَحْتَسِبُوْنَ۝۴۷ ]

اور ان کے سامنے اللہ کی طرف سے وہ ﻇظاہر ہوگا جس کا گمان بھی انہیں نہ تھا ۔(الزمر:۴۷)

یعنی وہ اپنے پہاڑ جیسے اعمال دیکھ کر خوش ہوتے ہوں گے، مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ذرے بناکر بکھیردیاجائےگا۔

[وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا۝۲۳ ](الفرقان:۲۳)

اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نےان کی طرف بڑھ کر انہیں بکھرے ہوئے ذروں کی طرح کردیا ۔

اس دن ان اعمال کو کتاب وسنت کے سانچے میں ڈھالنا ممکن نہ ہوگا،آج کتاب وسنت ایک کھری کسوٹی کی طرح ہمارے درمیان موجود ہیں اور تمام اعمال کو ان کے سانچے میں ڈھالنا پوری طرح ممکن ہے، لہذا قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن خسارےکی تلافی کی کوئی شکل نہ ہوگی آج خوب سوچ بچار کرکے قوموں،برادریوں اور آباؤاجداد کی پیروی کے بندھن سے چھٹکاراپاکر رسول اللہ ﷺ کے مبارک طریقہ میں اپنی پناہ گاہ تیاراور اختیار کرلی جائےکہ یہی معیارِ ہدایت ہے،لقولہ تعالیٰ:[وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْا۝۰ۭ ](النور:۵۴)یعنی:اگرتم رسول کی اطاعت کروگے تو ہدایت یافتہ بنوگے۔

اس آیتِ کریمہ میں شرط (ان تطیعوہ)اور جزا(تھتدوا) میں موجود  حصر وقصرکااسلوب انتہائی قابلِ غور ہے،نتیجہ صاف ہےکہ ہدایت یافتہ ہوناصرف رسول اللہ ﷺ کی اطاعت پر موقوف اورقائم ہے،ورنہ ہدایت کی کوئی صورت باقی نہیں بچتی،خواہ جس کی بھی پیروی کرلی جائے،بلکہ خواہ پوری دنیا کی پیروی اختیار کرلی جائے۔

یہاں تک سیدنامعاذ رضی اللہ عنہ کے سوال کا جواب مکمل ہوچکا،اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے جناب معاذ کومزید علم دینے کا فیصلہ فرمایا،جو کہ آپﷺ کی معاذ بن جبل سے محبت کی دلیل ہے۔

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنامعاذ سےفرمایاتھا:(یامعاذ واللہ إنی لأحبک )(سنن ابی داؤد:1522)یعنی:اے معاذ !اللہ کی قسم میں تجھ سے محبت کرتاہوں،یہ اس محبت ہی کا تقاضا ہے کہ آپﷺ نے معاذ بن جبل کو بلاطلب مزید علم دیناچاہا،جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کو جس سے محبت ہواس کی سب سے بڑی خیرخواہی کا تقاضا یہی ہے کہ اسے ایسا علم دیاجائے جس کا نفع روزِ آخرت حاصل ہو۔

چنانچہ آپﷺ نےفرمایا: أَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الخَيْرِ: الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الخَطِيْئَةَ كَمَا يُطْفِئُ المَاءُ النَّارَ، وَصَلاةُ الرَّجُلِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ ثُمَّ تَلا: (تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ) حَتَّى بَلَغَ: (يَعْلَمُونْ) (السجدة: 16-17)

میں تمہاری خیرکے دروازوں کی طرف راہنمائی نہ کروں؟(وہ دروازے تین ہیں):1روزہ ڈھال ہے،اور2صدقہ گناہوں کوبجھادیتاہے، جیسا کہ پانی آگ کو بجھادیتاہے،اور3 آدمی کا رات کی تنہائی میں نماز پڑھنا (یعنی تہجد) پھر آپﷺ نے یہ آیاتِ کریمہ تلاوت فرمائیں: [تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۡوَّمِـمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۱۶ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْيُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۱۷] (السجدۃ:۱۶،۱۷)

ترجمہ:ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں ،کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے ۔

رسول اللہ ﷺ نے سیدنامعاذ کو فرائض یعنی:شہادتین،نماز،زکاۃ، روزہ اور حج کی تعلیم ارشاد فرمانے کے بعدکچھ ایسے امور کی نشاندہی فرمائی جو نوافل قرار پاتے ہیں،چنانچہ مذکورہ بالافرائض جنت کے داخلہ اور جہنم سے سلامتی کاباعث ہیں، جبکہ نوافل جن کا ذکر آگے آرہا ہے، ایمان میں اضافے،اجر میں زیادتی اور گناہوں کی بخشش کا سبب بنتے ہیں،وہ تین امور درج ذیل ہیں:

1الصوم جنۃ.یعنی: روزہ ڈھال ہے،ڈھال بچاؤکا کام دیتی ہے،چنانچہ روزہ دنیاوآخرت دونوں جہانوں میں ڈھال یعنی بچاؤ کا کام دےگا،دنیا میں گناہوں سے بچاؤفراہم کرےگا،جبکہ قیامت کے دن جہنم کی آگ سے۔

دنیا میں بچاؤفراہم کرنےکی دلیل درج ذیل حدیث ہے:

عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ ان رسول اللہ ﷺ قال:يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.(صحیح بخاری:1905صحیح مسلم:1400)

یعنی:عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اے نوجوانوںکی جماعت!تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہے وہ نکاح کرلے،اور جو طاقت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے؛کیونکہ روزے اس کی شہوت توڑنے کے لئے ڈھال کاکام دیں گے۔

روزے کا قیامت کے دن جہنم کے مقابلے میںڈھال بننے کی دلیل،نبیﷺ کا یہ فرمان ہے:(من صام یوما فی سبیل اللہ بعداللہ وجہہ عن النار سبعین خریفا)(بخاری:2840)

یعنی:جوشخص اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھ لے،اللہ تعالیٰ ستر سال کی مسافت کے بقدر اس کا چہرہ جہنم سے دورفرمادے گا۔

یعنی:روزہ ایک ایسی ڈھال ہے جو روزے دار بندے کو جہنم سے صرف بچاؤہی فراہم نہیں کرتا،بلکہ سترسال کی مسافت کے بقدر دور بھی کردیتا ہے۔                                    (جاری ہے)

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

اربعینِ نووی

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *