Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2019 » December Magazine » المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

گھمن صاحب کی تیسری خیانت

 قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر اہل حدیثوں پر یہ الزام لگایا کہ یہ اپنے مدعا کوثابت کرنے کے لئے ائمہ دین اور علماء کی عبارتوں میںخیانت کرکے عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہیں، شاہ صاحب نے بھی ۔۔۔عبارت میں خیانت کرتے ہوئے اسے ادھورا نقل کیاہے۔ لیکن اس الزام کے محض چند سطور کے بعد ،ص:۵۴ پر خود یہ حرکت کربیٹھے جس کاباطل پر الزام لگایا،ملاحظہ کیجئے:

’’مولانا محمد جوناگڑھی صاحب کی رائے‘‘کے عنوان سے جو کچھ لکھاوہ درحقیقت مولانا جوناگڑھی کی رائے نہیں بلکہ مولانا صلاح الدین یوسف صاحب  حفظہ اللہ کی تحریر ہے،پھر گھمن صاحب نےعبارت ادھوری نقل کی مکمل نقل کرتے توحقیقت واضح ہوجاتی پوری عبارت ملاحظہ کیجئے ،مولانا صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتےہیں:

’’کرسی سے بعض نےموضع القدمین (قدم رکھنےکی جگہ) بعض نے علم، بعض نے قدرت وعظمت ،بعض نے بادشاہی اور بعض نے عرش مراد لیا ہے، لیکن صفات باری تعالیٰ کے بارے میں محدثین اور سلف کا یہ مسلک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جوصفات جس طرح قرآن وحدیث میں بیان ہوئی ہیں ان کی بغیر تاویل اور کیفیت بیان کیے ،ان پر ایمان رکھا جائے، اس لئے یہی ایمان رکھنا چاہئے کہ یہ فی الواقع کرسی ہے جو عرش سےا لگ ہے۔اس کی کیفیت کیا ہے،اس پر وہ کس طرح بیٹھتا ہے؟ اس کو ہم بیان نہیں کرسکتےکیونکہ اس کی حقیقت سےہم بے خبر ہیں۔‘‘

(تفسیر احسن البیان ،زیرآیت سورہ بقرہ :۲۵۵،ص:۱۱۱مطبوع سعودیہ عربیہ)

اس سے واضح ہے کہ مولانا صلاح الدین یوسف صاحب نے(نہ کہ مولانا محمد جوناگڑھی صاحب نے) بعض لوگوں کے بیان کردہ معانی کو ضرور ذکر فرمایا لیکن ان معانی کی تائید قطعا نہیں کی بلکہ ’’لیکن‘‘ کہہ کر واضح کردیا کہ سلف صالحین وائمہ محدثین کے اصول کے مطابق صفات کے بارے میں نصوص پر بغیرتاویل وکیفیت کے ایمان رکھاجائے، اس لئےیہی ایمان رکھنا چاہئے کہ یہ فی الواقع کرسی ہے۔یہی مولانا کی رائے ہے۔ یہ تو ہم پہلے واضح کرآئےہیں کہ نصوص اپنے ظاہر پرہی رہیں گے ،لیکن گھمن صاحب نے ادھوری عبارت نقل کرکےاسی کو’’مولانا جوناگڑھی کی رائے‘‘ قراردیا یہ ان کی واضح خیانت ہے چونکہ صاحب تفسیر کی یہ رائے توقطعا نہیں، اپنی رائے تو انہوں نے گھمن صاحب کی محولہ عبارت سے آگے پیش کی ہے۔دیکھ لیجئے خیانت کاجھوٹا الزام لگانے والے گھمن صاحب کی اپنی امانت ودیانت کایہ حال ہے!

گھمن :شاہ صاحب کا قیاس ہمارے لئے حجت نہیں:

قرآن وحدیث کا نام لے کر قیاس کی مخالفت کرنے والے اب خود قیاس کررہے ہیں ،چنانچہ شاہ صاحب لکھتےہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قدموں کی جگہ افضل ہے یا نبی ﷺ کی قبر کی مٹی؟ راقم الحروف کہتا ہے کہ حضرت یہ آپ کا قیاس ہے جو ہمارے خلاف حجت نہیں۔(المہند اور اعتراضات،ص:۵۵)

جواب: الحمدللہ اہل حدیثوں نے’’قیاس‘‘ کا علی الاطلاق انکار نہیں کیا،عندالضرورۃ قیاس کرنا حدیث سے ثابت ہے، ہاں قرآن وحدیث کی موجودگی میں یا ان کےمقابلہ میں قیاس کی مخالفت کی بھی اور کرتے بھی ہیں، اس مقا م پر شاہ صاحب نے کوئی قیاس نہیں کیا بلکہ ایک الزامی جواب دیا ہے آپ کے قیاس وغیرثابت عقیدہ کا کہ آپ نبی کریم ﷺ کی نسبت سے قبرمبارک کو کعبہ اور عرش وکرسی سےبھی افضل قرار دیتے ہیں حالانکہ کرسی کو توسیدنا ابن عباس  رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے نسبت ہے، اب انصاف سے بتائیے کہ اس جگہ کو افضلیت حاصل ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے یا اس جگہ کوجس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف؟ اسے قیاس قرار دینا آپ کا اپنا قیاس وخام خیالی ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے:

[ وَسِعَ كُرْسِـيُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝۰ۚ ]

اس کی کرسی نے سارے آسمانوں اور زمین کوگھیرا ہوا ہے۔

(البقرۃ:۲۵۵ترجمہ از مفتی عثمانی صاحب)

دیوبندیہ کے’’حکیم الامت ومجدد،اشرف علی تھانوی صاحب نے اس آیت کی تفسیرمیں لکھا:

اور کرسی ایک جسم ہے عرش سے چھوٹا اور آسمانوں سے بڑا جیسا روح المعانی میں بسند ابن جریر اور ابوالشیخ اور ابن مردویہ بروایت حضرت ابوذر مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کرسی کی نسبت پوچھا،آپ نے فرمایا اے ابوذر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین کرسی کے سامنے ایسے ہیں جیسے ایک حلقہ یعنی چھلہ ایک بڑے میدان میں پڑا ہو اور عرش اس کرسی سے اتنا بڑا ہے جیسے وہ میدان اس چھلے سے بڑا ہے۔ اور بسند دارقطنی وخطیب بروایت حضرت ابن عباس ؓ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس کی تفسیر پوچھی گئی آپ نے کرسی کو بتلا کرفرمایا کہ عرش کی کوئی حد ہی نہیں بتلاسکتا،اور علوحاصل نفی ہے صفات نقص کی اور عظمت کاحاصل اثبات ہے صفاتِ کمال کا۔(بیان القرآن ۱؍۱۷۴ مطبوع ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)

جب’’کرسی ایک جسم ہے‘‘تو وہ قدرت،عظمت، علم اور بادشاہی کیسے ہوسکتا ہے؟

گھمن :اللہ کی ذات زمان ومکان کی قیود سےمنزہ ہے۔ درحقیقت کوئی ایسا مقام نہیں جسے اللہ کامکان کہاجاسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ تولامکان ہے اور وہ زمان ومکان کی قیودات سےمنزہ وبرتر ہے عرش الٰہی کایہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری طرح کرسی پر بیٹھتا ہے اور بیت اللہ کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس میں رہتا ہے۔(المہند اور اعتراضات،ص:۵۵)

جواب: ’’استوی علی العرش‘‘ کو ماننے سے یہ قطعا لازم نہیں آتا کہ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ ،اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہماری طرح عرش پربیٹھا ہے اور اللہ تعالیٰ کومخلوق کےساتھ تشبیہ دینا کفر ہے ،استوی علی العرش کے قائلین میں سے کوئی بھی اللہ رب العالمین کے لئے حدودو قیود متعین نہیں کرتا۔

گھمن:استوی علی العرش وغیرہ آیات متشابہات میں سے ہیں ان کی حقیقی معنی اللہ خود بہتر جانتا ہے،یوںکہنا زیادہ مناسب ہے کہ استوی علی العرش سے وہ معنی مراد ہیں جو اس کی شان کے لائق اور مناسب ہیں، نوٹ: اس قسم کی آیات اور احادیث کوظاہری وحسی معنی پرمحمول کرنا فرقہ جسمیہ،مشبہ اور کرامیہ کامذہب ہے نہ کہ اہل سنت کا۔(المہند اور اعتراضات ،ص:۵۵)

جواب: گھمن صاحب کا ان آیات کو علی الاطلاق متشابہات قرار دینا ان کے اپنے اکابر کی توضیحات کے خلاف ہے، اپنی کتاب کے،ص:۲۶ پر جناب نے عقائد کی بہترین کتب کاذکر کرتے ہوئے ’’عقائد اہل سنت پر چند کتب کا تعارف‘‘ کرایا،ان میں دوسرے نمبر پر’’شرح فقہ اکبر‘‘ ملاعلی قاری کا نام لکھا۔تو انہی ملاعلی قاری سےیہ حقیقت معلوم کرلیجئے کہ’’آیات صفات‘‘بذات خود متشابہ ہیں یا ان کی کیفیات ،ملا علی قاری لکھتے ہیں:

قال؟؟

فخر الدین البزدوی نےکہا: ہاتھ اور چہرےکااثبات کرنا ہمارے نزدیک حق ہے ،لیکن یہ اپنی اصل کے ساتھ معلوم ہیں اور وصف کے ساتھ متشابہ، اور کیفیت کے وصف تک پہنچنے سے عاجز ہونے کی وجہ سے اصل کا ابطال جائز نہیں، معتزلہ دراصل اسی بناپر گمراہ ہوئے کہ انہوں نے معقول صورت پر صفات سے اپنے جہل کی بناپر اصول کر رد کردیا اور وہ معطلہ (صفات کے انکاری) ہوگئے ،اور اس بات کو اسی طرح بیان کیا شمس الائمہ سرخسی نے پھر فرمایا: اور اہل السنۃ والجماعۃ نے اثبات (اقرار) کیا اس کا جو اصل معلوم ہیں نص کے ساتھ یعنی آیاتِ قطعیہ اور دلالتِ یقینیہ سے اور توقف کیا اس چیز سے جو متشابہ ہے اور وہ کیفیت ہی ہے انہوں نے اس کے حصول میں مشتغل ہونے کو جائز قرار نہیں دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے راسخین فی العلم کاوصف بیان کرتے ہوئے فرمایا :ترجمہ: وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ،سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت حاصل نہیں کرتے سوائے عقل مندوں کے‘‘ (آل عمران: ۷) (سرخسی کا بیان ختم ہوا)

اور اسی طرح احادیث مرویات میں جو عبارات متشابہات میں سے وارد ہوئی ہیں جیسے نبی  ﷺکا یہ فرمان: بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹھی بھرمٹی سے جسے پوری زمین سے اٹھایا پیدا کیا اور اسے مختلف پانیوں کےساتھ گوندھا گیا اسے ٹھیک کردیا پھر اس میں روح پھونک دی تو پس جماد سے احساس والے جاندار ہوگئے۔ الحدیث اور جیسے نبی علیہ السلام کا یہ فرمان جو امام مسلم نے روایت کیا کہ بیشک بنی آدم کے قلوب سب کے سب رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہے  پھیردیتا ہے اسے جیسا چاہے پھیر دیتا ہے۔ اور جیسے نبی علیہ السلام کا یہ فرمان ہے:جہنم مسلسل یہ کہتی رہے گی کہ کیا اور زیادہ ہے یہاں تک کہ رب العزۃ جل مجدہ اس میں اپنا قدم رکھے گا۔ الحدیث اور جیسے نبی علیہ السلام کا فرمان ہے: بیشک اللہ تعالیٰ رات کے وقت اپنا ہاتھ کشادہ کردیتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والاتوبہ کرلے اور دن کو اپنا ہاتھ کشادہ کردیتا ہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے۔ (اور یہ عمل جاری رہے گا)یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو(یعنی قیامت قائم ہو) جیسا کہ امام مسلم نے اسے روایت کیا۔ ۔۔۔ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سوال کیاگیا اس بارے میں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آسمان سے نزول فرماتاہے تو آپ نے فرمایا: وہ نزول فرماتا ہے بلا کیفیت اور جیسے نبی علیہ السلام کا فرمان ہےکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس کی صورت پر پیدا کیا۔۔۔ اور اس کی مثل دیگر احادیث ہیں تو لازم ہے کہ ان نصوص کو ان کے ظاہر پر رکھاجائے اور اس کے امر کے علم کو اس کے قائل کے سپرد کیاجائے، اور باری تعالیٰ کو اعضاء سے منزہ جانا جائے اور صفات محدثہ کی مشابہت سے۔(شرح الفقہ الاکبر ،ص: ۹۳تا۹۴ ،مطبوع دار النفائش ،دمشق)

اس عبارت پر غور کیجئے اس میں آیات صفات کو’’معلوم الاصل‘‘ قرار دیاجارہا ہے البتہ ان کی کیفیات کو متشابہ کہاگیا جیسا کہ بزدوی وسرخسی کے اقوال سے واضح ہے،ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ان صفات کی اصل معلوم ہے مجہول نہیں البتہ ان کی کیفیات مجہول ہیں اور صفات والی نصوص بھی اپنے ظاہر ہی پر محمول ہوں گی البتہ ہم انہیں مخلوق کی صفات سے تشبیہ قطعا نہیں دیتے بلکہ یہی کہتے ہیں کہ جیسے رب کی شان کے لائق ہیں اور یہ فکر اہل السنہ کی ہے نہ کہ مجسمہ ومشبہ کی چونکہ مجسمہ وغیرھم تو ان صفات کو نعوذباللہ مخلوق کی صفات سے تشبیہ دیتے ہیں ،ظاہری انکار کرنا بھی حرام ہے چنانچہ ملا علی قاری صاحب فرماتے ہیں:

؟؟

بس بغیر کسی دلیل کے قرآن کو اس کے ظاہر وحقیقت سےپھیردینا حرام ہے، اور یہ بات ہر اس شخص سے کہی جائے گی جس نے مخلوق میں اس کا مسمی پائے جانے کی بنااللہ تعالیٰ کے کسی بھی صفت کی نفی کی ،چونکہ خود اس کے لئے بھی یہ لازمی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی ایسا وصف ثابت کرتاہوجو اس کے ذہن کے خلاف ہے (کہ یہ تو مخلوق کی صفت ہے، اس ےسے تشبیہ لازم آتی ہے) حتی کہ صفت وجود میں بھی چونکہ مخلوق کا وجود ہےجیسے اس کے لائق ہے اور خالق کا بھی وجود ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے،پس اللہ تعالیٰ کے وجود پر عدم محال اور مخلوق کے وجود پر عدم لازم نہیں، تو رب تعالیٰ نے اپنی ذات کو جس صفت سے موصوف کیا اور اپنی مخلوق کوبھی ان صفات سے متصف کیا جیسا :حی، قیوم، علیم اور قدیر یابعض بندوں کو ان صفات سے متصف کیا توہم ان اسماء کے معانی کو اللہ تعالیٰ کے حق میں اپنے دل سے سمجھتے ہیں کہ وہ حق، ثابت اور موجود ہے ،اسی طرح مخلوق کے حق میں ان اسماء کے معانی کو سمجھتے ہیں ،اور ان دونوں (کےلئے سمجھے جانے والے) دونوں معنی میں قدر مشترک بھی سمجھتے ہیں لیکن یہ معنی خارج میں(واقعی طور پر)مشترک نہیں پایاجاتا تو بس کلی مشترک معنی صرف ذہنوں میں ہی مشترک ہوتا ہے اور خارج میں (مطلب واقعی طور پر) نہیں پایاجاتا مگر معین ومختص ہی ہوتا ہے ،پس ان میں سے ہر دو کے لئے اس کی شان کے مطابق ہی معنی ثابت ہوتا ہے۔(شرح الفقہ الاکبر ،ص:۹۶)

تومخلوق کے ساتھ تشبیہ کاعذرکرکے کسی صفت کا انکار یا اسے اس کے ظاہری معنی سے پھیر کرمجازی معنی پر محمول کرنے والوں کےلئے ان کے اپنے ا مام ملا علی قاری صاحب کی شرح میں سمجھنے کا کافی سامان موجود ہےکہ یہ تشبیہ ہے اگرخالق ومخلوق کے فرق اور ان کی شان کے فرق کوملحوظ رکھ کر ان کا استعمال کیاجائے ۔المختصر کہ گھمن کا یہ کہنا ظاہری وحسی معنی پرمحمول کرنا مجسمہ،مشبہ کا نہیں خود ان کے حنفی بزرگوں بزدوی وملاعلی قاری کے مطابق بھی اہل السنہ کا یہی موقف ہے کہ قرآن وحدیث کو ان کے ظاہری معنی پرمحمول کرنا لازم ہے اور بغیر دلیل کے ظاہری معنی سے پھیردینا حرام ہے۔

(جاری ہے)

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *