Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » شمارہ ستمبر » ہجرت مدینہ،چند اہم دروس واسباق

ہجرت مدینہ،چند اہم دروس واسباق

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

الحمدلله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين وبعد:

قارئین کرام! السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

ماہ محرم الحرام سےاسلامی سنہ ہجری کا آغاز ہوتا ہے ، اور یہ مہینہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک  ہے؛جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ (التوبة:36)

 ترجمہ : بے شک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اِنَّ الزَّمَانَ قَدِ ا سْتَدَارَ کَھَیْأَ تِہِ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوَاتِ وَالَارْضَ، اَلسَّنَۃُ اِثْنَا عَشَرَ شَھْراً، مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ثَلَا ثٌ مُتَوَالِیاَتٌ ذُوالْقَعْدَۃِ وَ ذُوالْحَجَّۃِ وَ الْمُحَرَّمُ وَ رَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَیْنَ جُمَادٰی وَ شَعْبَانَ۔(  صحيح البخاري | كِتَابٌ : بَدْءُ الْخَلْقِ  | بَابُ مَا جَاءَ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ رقم الحديث:3197)

تر جمہ : زمانے کی رفتار وہی ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ ایک سال با رہ مہینو ں کا ہو تا ہے ان میں سے چا ر مہینے حرمت والے ہیں جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ، محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے جو جما دی الثا نی اور شعبا ن کے در میان آتا ہے۔

ماہ محرم ہمیں اس عظیم الشان واقعے کی یاد دلاتا ہے کہ جب مکہ کی سرزمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر تنگ کردی گئی، مشرکینِ مکہ کے مظالم نے ان کا جینا اجیرن کر دیا،تو انہوں نے اپنے وطن ، علاقے اور گھروں  سب سے بڑھ کر  بیت اللہ کو چھوڑ کر یثرب کی طرف ہجرت کی جو آپ کی مبارک آمد کے بعد طیبہ،طابہ اور مدینۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بن گیا جہاں سے اسلام کا روشن آفتاب نصف النہار تک پہنچا اور جس سے پورا  چار دانگ عالم روشن و منور ہوگیا، کفر،شرک اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھٹ گئے اور اسلام کو سربلندی حاصل ہوئی۔

یہی وجہ ہے کہ  سن 17 نبوت کو امیر المومنین عمر بن خطاب کے عہد خلافت میں جب مسلمانوں کو اپنے سن کی ضرورت شدد سے محسوس ہوئی تو کبار صحابہ کرام سے امیر المومنین نے مشاورت کی ، مختلف مشورے دیے گئے مگر جس قول پر اتفاق رائے ہوا وہ یہ تھا کہ اسلامی تاریخ کی بنیاد واقع ہجرت کو بنایا جائے کیونکہ  13نبوت کے ذوالحجہ کے  بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کر لیا گیا تھا ،اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا ؛ وہ محرم الحرام کا تھا۔

آج  المیہ یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت  ( رافضیت کے اثرات بد کے سبب سے) اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ محرم الحرام کی حرمت کی وجہ واقعہ کربلا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچاس برس بعد پیش آیا؛ حالانکہ دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ہی مکمل ہوچکا تھا  اور وہ ماہ محرم الحرام کے اس حقیقی مقام کو جو شریعت نے اسے دیا ہے اوراس واقعہ ہجرت کو بھول چکے جس نے تاریخ عالم کا رخ موڑ دیا جو اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے ، جس میں ہمارے لئے کئی عبرتیں اور نصحتیں پنہان ہیں اور ہمارے کئی امراض کا مداوا اور بیماریوں کا علاج ہے!!!

 آئیے سب سے پہلے ہجرت کے معنی اور مفہوم کو جانتے ہیں:

ہجرت ھجر سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کہ: ترک کرنا اور چھوڑدینا ۔

شرعی اصطلاح میں: ’’الانتقال من بلد الشرک الی بلد الاسلام “  یعنی سرزمین شرک سے سر زمین اسلام کی طرف نقل مکانی کو ہجرت کہا جاتا ہے۔

بعض علماء نے ہجرت  کا دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا ہے کہ ’’الھجر ما نھی اللہ عنہ ورسولہ “ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن  جن امور سے منع کیا ہے ان کو چھوڑ دینا ۔ گویا کہ ہجرت کا یہ مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے لیا گیا ہے: ’’المهاجر من هجر ما نهي الله عنه ورسوله“  مہاجر وہ کہ جو ان  تمام امورکے ارتکاب سے رک جائے جن  سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے۔

معزز قارئین!اب آئیے ہجرت مدینہ سے جڑے کچھ اہم دروس اور قیمتی نصائح سے آگاہی حاصل کرتے ہیں:

(1)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اپنے وطن،علاقہ مال اور خویش و اقارب کو چھوڑنا ایک عظیم قربانی ہے جو دین کی خاطر دی گئی آپ کو مکہ سے کتنی محبت تھی اس کا اندازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے  ہوتا ہے  جب آپ نے وقت ہجرت مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : (واللهِ إنَّك لَخيْر أرْض الله، وأحبُّ أرْض الله إلى الله، ولوْلا أنِّي أُخْرِجْت منْك ما خرجْتُ۔ (سنن الترمذي | أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  | بَابٌ : فِي فَضْلِ مَكَّة رقم الحدیث:3925 َ)

  ‘ قسم اللہ کی ! بلاشبہ تو اللہ کی سرزمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمینوں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب سرزمین ہے، اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا ۔

اس میں ہر دور کے مسلمانوں کے لیے روشن نمونہ ہے اگر  دین کے دفاع کے  خاطراپنے دیس ، اعزہ و اقارب اور مال کی قربانی دینی پڑے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے جیسا کہ صھیب رومی رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا مال اور جمع پونجی مشرکینِ مکہ کو دے دی اور خود خالی ہاتھ مدینہ پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ربح صھیب ربح صهيب مرتين! یعنی صھیب نے سود مند تجارت کی ہے ۔ آپ نے دومرتبہ یہ کلمہ ارشاد فرمایا۔

(تفسیر ابن کثیر ج/2 ص/272)

(2)اگر اہل باطل کا غلبہ ہو اور وہ ہر طرح سے حق کو دبانے کے  لیےاوچھے ہتھکنڈوں کا  استعمال کر رہے ہوں تو مداہنت اور سودے بازی کے ذریعے باطل کو گلے سے نہیں لگالینا چاہیے بلکہ اس سے نجات و دوری کے ممکنہ پہلوؤں پر غور کیا جائے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد آئے  جس کا آنا یقیناً برحق ہےجیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ: اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ  (غافر:51)ترجمہ:یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے  اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے  کھڑے ہونگے۔

(3)اللہ تعالیٰ  پراپنے تمام معاملات میں توکل کرنے کے ساتھ ساتھ  مشروع و مباح مادی  اسباب بھی اختیار کرنا جو انسان کی پہنچ و دائرہ اختیار میں ہوں اور یہ توکل کے منافی نہیں ہے ؛ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے تعلق سے جو منصوبہ بندی اور احتیاطی تدابیر اختیار کیں ۔ آپ  تمام معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی امت کے لیئے نمونہ ہوں اور مسلمان جان لیں کہ تمام امور میں اعتماد و بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہو اور ہدف تک پہنچنے کے لیئے اسباب وسائل اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں بلکہ مطلوب و مقصود ہیں۔

(4) شب ہجرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سونا ان کی قوت ایمانی، منقبت و فضیلت اور شجاعت و بہادری  پر دلیل ہے اور اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ انسان اپنے دفاع اور نجات کے لیے دشمن کو چکمہ دے سکتاہے!

(5)علی اور عبداللہ بن ابی بکررضی اللہ عنہ ما کے اعلیٰ کردارمیں نوجوانان اسلام کے لیے نمونہ ہے کہ اسلام کے سربلندی کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ اس طرح عائشہ صدیقہ اور اسماء بنت ابی بکر  رضی اللہ عنھماکے بہترین کردار میں خواتین اسلام کے لیے روشن مثال ہے وہ بھی اپنی بساط وقدرت کے بقدر خدمت دین کا فریضہ انجام دیں۔یہیں سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کا لقب ذات نطاقین پڑا۔

(6)سفر ہجرت میں کئے معجزات ظہور پذیر ہوئے ان میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کا حامی و ناصر ہے اور وہ انہیں غلبہ عطا فرمائے گا خواہ حالات کیسے بھی ہوں۔

الله،تعالی کا فرمان ہے کہ: ﴿ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ ﴾ (القصص: 85)، اس کی تفسیر میں ترجمان القرآن ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: “لَرادُّك إلى مكَّة كما أخرجَك منها ( تفسير الطبري ج:18 ص :350) یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو مکہ کی طرف دوبارہ لوٹائے گا جیسے آپ کو وہاں سے نکالا گیا ہے۔

(7)ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت و منقبت اور ان کا اونچا مقام و مرتبہ معلوم ہوتا ہے قرآن مجید کی یہ آیت ہی اس کے بیان کے لیے کافی ہے ” اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا   ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى ۭوَكَلِمَةُ اللّٰهِ ھِىَ الْعُلْيَاۭ وَاللّٰهُ  عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ( التوبة:40)  ترجمہ: اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کردی جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

(8)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال تواضع معلوم ہوئی کہ آپ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک  ہی سواری پر تھے جبکہ دوسری  سواری موجود تھی جس پر آپ نے عامر بن فہیرہ (جوکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام تھے) اور عبد اللہ بن أرقد (جوکہ منزل کی درست راہنمائیکے لئے تھے) کو سوار کیا تھا۔جبکہ متکبر لوگ کبھی ایسا نہیں کرتے۔اس میں امت کو پیغام ہے کہ تکبر اور نخوت سے دور رہو اور عاجزی ، انکساری اور تواضع کو اپنے اندر پیدا کرو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے دین میں پنہان حکمتوں کا فہم نصیب فرمائے۔آمین۔

About شیخ عبدالصمد مدنی

Check Also

فضیلۃ الشیخ عبدالغفور دامنی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال!

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *