Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » شمارہ ستمبر » احکام ومسائل

احکام ومسائل

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

ٹوکن ؍کمیشن

سوال.166

محترم جناب مفتی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مسئلہ نمبر:1

جناب مفتی صاحب! ہماری رنگ کی فیکٹری ہے، ہم ایک ڈرم 1300روپے کا دیتےہیں جس میں300روپے کاٹوکن پینٹر حضرات کے لئے ہوتاہے،کیونکہ اس ٹوکن کی وجہ سے ہی پینٹر حضرات مال خریدتے ہیں یاکسٹمر کو یہ مال دلواتے ہیں اور اس میں نکلنے والاٹوکن پینٹر حضرات خود رکھتے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بہت ساری کمپنیاںرنگ بنارہی ہیںجس میں کچھ کمپنیاں اچھا،کچھ درمیانہ اور کچھ ہلکا مال بنارہی ہیں، تقریبا کمپنیاں اپنے مال میں ٹوکن ڈالتی ہیںاور ٹوکن کی رقم300سے1200روپے تک ہوسکتی ہے،یہ ٹوکن پینٹر حضرات کے لئے ڈالاجاتاہے تاکہ پینٹر حضرات مذکورہ کمپنی کامال خریدیں یادلوائیں،ٹوکن نہ ڈالنے والی کمپنی کو پینٹر حضرات ناپسند کرتے ہیں اور اچھے سے اچھے رنگ کے مال کو ٹوکن نہ ہونے کی صورت میں مسترد کردیتے ہیں ،ان حالات میں جو کمپنی ٹوکن نہیں ڈالتی کیا وہ ٹوکن ڈال سکتی ہے؟

میں ایک ضرروی بات کی وضاحت کردوں کہ مال کی قیمت 1000روپے ہے لیکن 300روپے کاٹوکن ڈالنے کی وجہ سے کمپنی ڈرم کی قیمت1300روپے مقرر کرتی ہے۔

مسئلہ نمبر:24

جس قیمت کاٹوکن ڈرم کے اندر ہے اس کے بقدر نقد رقم پینٹر حضرات دکاندار کو ٹوکن دیکر وصول کرلیتے ہیں اور کمپنی یہ ٹوکن دکاندار سے واپس لے کر دکاندار کوٹوکن کی قیمت 10%زیادہ ادا کرتی ہے، آیا ایسا کرنا جائز ہے یاناجائز۔

آپ سےگزارش ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔(سائل؍عبداللہ)

الجواب بعون الوہاب

صورت مسئولہ برصحت سؤال

رنگ ساز فیکٹری کے مالک کی طرف سے یہ سوال سامنے آیا ہے کہ وہ ایک رنگ کاڈبہ تیرہ سوروپے(1300)کادیتے ہیں جس میں ایک ہزار(1000)روپے رنگ کی قیمت ہوتی ہے اور تین سو (300) روپے ٹوکن کی صورت میں پینٹر (رنگ کرنے والے)حضرات کےلئے کمیشن ہوتا ہے تاکہ وہ اس کمپنی کامال بکوائیں اور اس قسم کا کام نہ کرنے پرکمپنی کا مال کتنا ہی بہتر ومعیاری کیوں نہ ہو اس کو عوام میں  مقبولیت حاصل نہیں ہوتی،اب ان حالات میں رنگ ساز فیکٹری کے مالکان بھی یہ عمل اختیار کریں تو شرعا یہ عمل درست ہے یانہیں؟

اس ضمن میں عرض ہے کہ کسی بھی چیز کی خریداری میں چیز کی قیمت دینے والااس چیز کامالک بن جاتاہے،رنگ کاڈبہ خریدنے پر وہ ڈبہ اور اس میں جو کچھ موجود ہے ہرچیزخریدار کی ملکیت ہے اب اس قیمت

میں سے تین سو(300)روپے کاٹوکن(جس کے پیسے دراصل خریدار نے ادا کئے)پینٹر کو دینے کااختیار کمپنی کے پاس کہاں سے آیا،یہ نہ تو شرعا درست ہے نہ ہی اس کی کوئی دلیل ہے،فرمان باری تعالیٰ ہے: [يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ]’’یعنی اے اہل ایمان! تم لوگوں کامال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ‘‘(النساء:۲۹)مذکورہ آیت سے بھی اس قسم کے عمل کاعدمِ جواز ثابت ہوتا ہے،اگرکمپنی پینٹرحضرات کو کچھ دیناچاہتی ہے تو اپنے منافع میں سے دےپھر چاہے وہ انعام کی صورت میں ہویاپھر کمیشن کی صورت میں،خریدار کی ملکیت میں سے پینٹر کو کچھ دینے کااختیار اور وہ بھی ایک رشوت جیسی صورت میں اور اس پر مستزاد کہ یہ ٹوکن پینٹرحضرات کے لئے ڈالا ہے کئی غلط کاموں کامجموعہ ہے،اس سے کمپنی اور اس سے متعلقہ افراد کوبچناچاہئے مزید یہ کہ کچھ دکاندار یہ ٹوکن پینٹر حضرات کورقم دیکر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور بعد میں یہی تین سو (300)روپے کی قیمت والاٹوکن کمپنی کو تین سوتیس (330) روپے کا بیچ دیتے ہیں جوکہ سراسرسود کے زمرے میں آتا ہے۔

ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *