Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » October Magazine » Badiul Tafasir Episode No 207

Badiul Tafasir Episode No 207

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

انیسویں فصل:

قرآن کریم میں مجاز کا استعمال ہوا ہے یانہیں؟

مجاز یعنی لفظ کا اپنے اصلی معنی جس کے لئے وہ وضع کیاگیا ہو کے علاوہ کسی دوسرے معنی کے لئے استعمال ہونا،یہ متاخرین کی اصطلاح ہے،جو نہ صحابہ ، نہ تابعین سے سنی گئی اور نہ ہی مشہور ائمہ مثلا: مالک، سفیان ثوری، اوزاعی،ابوحنیفہ ،شافعی ،احمد بن حنبل وغیرھم اسی طرح نحو ولغت کے ائمہ مثلا :خلیل، سیبویہ، ابوعمروبن العلاء وغیرھم ، نے ایسی اصطلاح بیان کی ہے،بلکہ سب سے پہلے اصول فقہ کی کتاب’’الرسالۃ‘‘ کے نام سے امام شافعی نے لکھی اس کے بعد محمد بن حسن شیبانی نےالجامع الکبیر وغیرہ کتابیں لکھیں مگر کسی نے بھی حقیقت ومجاز کے بارے میں متاخرین والی اصطلاح بیان نہیں کی، حتی کہ اس اصطلاح کے ابتداء تیسری یاچوتھی صدی میں ہوئی سب سے پہلے ابوعبیدہ معمر بن المثنیٰ نے اپنی کتاب میں اس کاذکر کیا ہے، سلف میں سے کسی نے تفسیر، حدیث، فقہ یا اصول کی کسی کتاب میں اس کاذکر نہیں کیا ہے،بلکہ اہل الرأی،معتزلہ وغیرہ اہل کلام نے اس اصطلاح کا استعمال کیا ہے، کیونکہ نصوص شرعیہ سے اس اصطلاح کے وضع کئے بغیر انہیں کوئی فائدہ نہ مل سکتا تھااور نہ ہی وہ کسی نص کو رد کرسکتے تھے لہذا اس اصطلاح کو بطورحربہ استعمال کرنے کے لئے انہوں نے وضع کیا،امام ابن القیم فرماتے ہیں:اہل الرأی کے تین بڑے بت اور طاغوت ہیںاول یہ کہ نقل کو عقل کے خلاف تسلیم نہیں کیاجائے گا،اسی لئے خبرواحد کو قیاس کے خلاف قراردیکر رد کرتے ہیں،اور دوسرا تاویل جس کے ذریعے کئی آیات واحادیث کے معنی میں تاویل کرکے اپنے خیالات وخواہش کے مطابق بناتے ہیںاور ان کی تاویل کسی تحریف سےکم نہیں ہوتی خصوصا اللہ تعالیٰ کی صفات میں تاویلات کرکے انہیں تعطیل تک پہنچاتے ہیں، چنانچہ علامہ خلیل احمد سہانپوری رسالہ عقائد علماء دیوبند، (ص:23)میں لکھتے ہیں کہ:اور ہمارے متاخرین اماموں نے آیات میں جوصحیح اورلغت اورشرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تاکہ کم فہم لوگ سمجھ لیں مثلاممکن ہے استواء عرش سے مراد غلبہ ہو اورہاتھ سے مراد قوت تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔

تیسرا بت طاغوت مجاز ہے جس کی تردید اورفاسد ہونے کی حافظ ابن قیم نے پچاس سے زیادہ وجوہات ذکر کی ہیں، اور جن الفاظ کےمعانی سمجھے گئے ہیں اورجنہیں صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، ان معنی ومفہوم کوبھی اس استعمال کے مطابق سمجھا، اور حقیقت ومجاز کی تقسیم کرنے والوں نے بھی جامع ومانع تعریف نہیں کی ہے جس سے ان دونوں کے درمیان فرق کو سمجھا جاسکے، یہ کہنا کہ حقیقت بمعنی لفظ کا اس معنی میں استعمال ہونا جس کے لئے وہ وضع کیاگیا ہے اور مجاز بمعنی لفظ کا اس معنی میں استعمال ہونا جس کے لئے وہ وضع نہ کیاگیاہویہ تعریف توخود ثبوت کی محتاج ہے ،نقل سے اس کاثبوت ناممکن ہے عرب سے یاامتوں میں سے کسی امت سے یہ منقول ہو کہ ان میں سے کسی جماعت نے مل کر پھر الفاظ کو معانی کے لئے وضع کیا یا اس کے بعد دوسرے معانی کے لئے استعمال کیا، جب اس طرح کاثبوت ملنامحال ہے تو پھر کیسے کہاجاسکتا ہے کہ عرب کے نزدیک یہ معانی حقیقی ہیں اور یہ مجازی؟ بلکہ ان سے تومطلقا بالتواتر منقول ہے کہ فلاں لفظ فلان معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے اس کی مشہور مثال یہ ہے کہ :[فَوَجَدَا فِـيْہَا جِدَارًا يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ](الکھف:۷۷)اس بارے میں کہتے ہیں کہ دیوار چونکہ بے جان ہے اور ارادہ جاندارچیز ہی کرسکتی ہے لہذا یہاں مجاز مراد ہے،حالانکہ انہیں غلطی اس بات سے لگی کہ انہوں نے لفظ کے استعمال پرغور ہی نہیں کیا ورنہ ارادہ بمعنی میلان،مائل ہونا اور جھکنا بھی استعمال ہوتا ہے پھر یہ میلان باشعور چیزکاہوجیسے کسی جاندار،زندہ چیز کامیلان اور جھکاؤ یا کسی بے شعور پتھر وغیرہ کا لڑھکنا،اس قسم کا استعمال لغت میں بھی مشہور ہے مثلا:ہذا السقف یرید ان یقع.(یہ چھت گرنے کا ارادہ کرتی ہے) وہذا الارض ترید ان تحرث. ( زمین کاارادہ ہے کہ اس پر ہل چلایاجائے) وہذا الزرع یرید ان یسقی.( یہ کھیتی پانی پلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔)وہذا التمر یرید ان یقطف.( یہ کھجور چاہتی ہے کہ اسے اتاراجائے)وہذا الثوب یرید ان یغسل. (یہ کپڑا دھلنے کا ارادہ کرتا ہے) اور اس طرح کی دوسری مثالیں۔ثابت ہوا کہ یہ خود لغت ہے اور عرب میں عام مستعمل ہے،بعض نے کہا کہ مجاز وہ ہے جس کے لئے کوئی قرینہ موجود ہو بخلاف حقیقت کہ اس کے لئے کسی قرینہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اولاً: مشترک لفظ کے تعارض کے وقت جب تمام معانی پر عمل ناممکن ہو اس وقت کوئی ایک معنی قرینہ کے لحاظ سے سمجھاجاتا ہے جیسا کہ نویں فصل میں مشترک کے بیان میں گذرا۔ اس لئے حقیقت ومجاز کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معانی خود لغت میں ہیں ، ان میں سے کوئی ایک معنی قرینہ کے اعتبار سے متعین کیاجاتا ہے ۔ثانیا:ثبوت کا سوال پھر بھی سامنے آئے گا کہ فلاں وقت اس لفظ کو فلاں معنی کے لئے وضع کیا گیا،بعد میں قرینہ مانع درپیش آیا۔ ثالثا: یہ بھی کیسی حقیقت ہے جسے قرینہ زائل کردے!یہ بات دوسری ہے کہ ایک لفظ کی کئی معانی ہوں اور تمام مستعمل ہوں پھر ان میں سے ایک معنی قرینہ وسیاق کے اعتبار سے سمجھاجائے، الغرض:یہ بات قرآن حکیم کی شان کے سراسرخلاف ہے کہ اس میں کوئی ایسا لفظ ہو جس کا اس قسم کا معنی جسے متاخرین نے مجاز سے تعبیر کیا ہو بلکہ جتنے بھی الفاظ قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں ان سب کااستعمال عرب میں موجود ہے،مزید تفصیل کے لئے کتاب الایمان مصنفہ امام ابن تیمیہ اور مختصر الصواعق المرسلۃ مصنفہ حافظ ابن قیم، ص:375سے412دیکھنا چاہئے۔

بیسویں فصل:

ان خاص الفاظ کا بیان جو قرآن مجید میں بکثرت استعمال ہوئے

جانناچاہئے کہ امام ابومحمد بن قتیبہ نے اپنی کتاب تفسیر غریب القرآن،ص:21تا37میں مستقل عنوان بنام باب تاویل حروف کثرت فی الکتاب ،قائم کیا ہے اس میں چالیس قرآنی الفاظ لاکر ان کی تشریح کی ہے قارئین کی سہولت کے لئے یہاں ان میں سے ضروری الفاظ ذکر کیے جاتے ہیں :

الجن:اصل اجتنان سے ہے بمعنی الاستتار یعنی ڈھانپنا اسی لئے ڈھال کو الجنۃ کہتے ہیں کہ وہ جسم کو ڈھانپ دیتی ہے، واجنہ اللیل یعنی رات کو …..نے ڈھانپ دیا، اسی باب سے ہے:[فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْہِ الَّيْلُ](الانعام:۷۶) چونکہ جنوں کی قوم لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے ،نظر نہیں آتی، اس لئے ان کا یہ نام مشہور ہے، اور بعض مفسرین سے آیت:[فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ۝۰ۭ ](الکھف:۵۰)کا معنی یہ کیا ہے کہ ابلیس ملائکہ میں سے تھا، ملائکہ کو جن اس لئے کہاگیا کہ وہ آنکھوں سے اوجھل ہیں، اس لئے عرب میں ایسا استعمال موجود ہےچنانچہ اعشیٰ شاعر کا سلیمانuکے بارے میں شعر ہے کہ:

وسخر من الجن الملائکۃ تسعۃ

قیاما لدیہ یعملون بلا اجر

راقم الحروف کہتا ہے یہ تفسیر بالکل غلط اورشرعی نصوص کے خلاف ہے ،صرف عرب میں مستعمل ہونا حجت نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

خلقت الملائکۃ من نور وخلق الجان من مارج من نار وخلق آدم مما وصف لکم،رواہ مسلم عن عائشۃ ،مشکاۃ ،ص:۵۰۶،صحیح مسلم ،کتاب الزھد والرقائق، باب فی احادیث متفرقۃ :2996)

یعنی ملائکہ کو نور سے پیداکیاگیا ہے اور جنوں کو آگ ،اور آدم کے بارے میں تمہیں بتادیاگیا یعنی :[كَمَثَلِ اٰدَمَ۝۰ۭ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ](آل عمران:۵۹) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم uکو مٹی سے پیدا کیاہے،جب ملائکہ اور جنات کی تخلیق ہی مختلف ہے توپھرملائکہ کو جن کیسے کہا جاسکتا ہے؟البتہ لغوی اعتبار سے نظروں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے اگر کسی عرب نے کہا ہے تو وہ دوسری بات ہے مگر قرآنی آیت کی ایسی تفسیر کرنا حق سے بعید ہے اورصواب سےد ور ہے۔

الانس:اسے انس اس لئے کہاجاتا ہے کہ یہ نظر آتا ہے جیسے: آنست کذا(میںنے اس طرح دیکھا) قرآن میں ہے:[اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا] (طہ:۱۰،النمل:۷،القصص:۲۹) یعنی: میں نے آگ دیکھی ہے، ابن عباس wسے مروی ہے کہ آدمuپر انسان نام اس وقت پڑا جب ان سے بھول سرزد ہوئی،بعض اہل لغت اس طرف بھی گئے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ انسان کی تصغیر انیسیان ہے گویا کہ اصل لفظ افعلان کے وزن پر انسیان ہے، کثرت استعمال کی وجہ سے تخفیفا یاء کو حذف کردیاگیا لیکن جب اس کی تصغیر کی گئی تواصل کالحاظ کرتےہوئے ی کوبحال رکھا گیا، اس کی تصغیر کا استعمال بہت کم ہوتا ہے،بصری کہتے ہیں کہ فعلان کے وزن پر ہے یعنی پہلے مذکور معنی کےمطابق ،تصغیر میں ی کی زیادتی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اس طرح ہے جیسے لیل کی تصغیر لیلیہ اور رجل کی تصغیر رویجل۔

الثقلان: اس سے مراد جن وانس ہیں، ان پر یہ نام اس لئے پڑا کہ زندہ ومردہ حالت میں زمین انہیں اٹھاتی ہے،(اپنے اندر جگہ دیتی ہے) اس معنی میں قرآن مجید کی آیت بھی ہے:[وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا۝۲ۙ ](الزلزال:۲) یعنی قیامت کےدن زمین اپنے بوجھ باہر نکالے گی،اسی طرح خنساء کے اشعار بھی ہیں جو اس نے اپنے بھائی کے مرثیہ میں کہے:

ابعد ابن عمرو من آل الشرید

حلت بہ الأرض اثقالھا

حلت تحلیۃ سے ہے یعنی زمین نے اس سے اپنے بوجھ کو مزین کیا ہے، لسان العرب ۱۳؍۹۲،۹۳میں ہے کہ:

سمیا ثقلین لتفضیل اللہ ایاھما علی سائر الحیوان المخلوق فی الارض باالتمیز والعقل الذی خصا بہ قال ابن الانباری کانھما کاالثقل للارض وعلیھا.

یعنی جن وانس کوثقلین اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام مخلوقات پر فضیلت عطافرمائی ہے اور انہیں عقل کی خصوصیت حاصل ہے امام ابن الانباری کہتے ہیں کہ گویا کہ یہ زمین کے لئے اس کے بوجھ کی طرح ہیں۔

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *