Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » November Magazine » احکام ومسائل

احکام ومسائل

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

ہربل دواؤں میں کیمیکل کی ملاوٹ

G.169

محترم جناب مفتی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال یہ ہے کہ :

میں ایک حکیم صاحب کے ساتھ کام کررہاہوں،ان کی دوائیاں بیچتاہوں،یہ دوائیاں لوگ ہم سے جڑی بوٹی ہربل اور یونانی سمجھ کر لیتے ہیں۔ جبکہ دوائیوں میں ایک ایسا کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے جس کا جڑی بوٹیوں سےکوئی تعلق نہیں ہےاور وہ انگریزی دوائیوں میں استعمال ہونے والاکیمیکل ہے،ہماری دوائی یونانی اسٹور حکیم کی دوکان اور ہربل اسٹور پر فروخت کی جاتی ہے۔ اس کیمیکل کے استعمال ہونے کی وجہ سے یہ کمائی حلال اور جائز ہے،نیز بعض حکیم صاحب کچھ اور کمپنیوں کی دوائیاں خرید کراپنالیبل لگاتے ہیں اورڈھکن بھی چینج کردیتے ہیں اور قیمت بڑھا کر بیچ دیتے ہیں کیا ایسا کرنا جائز ہے یانہیں، قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

تنفیح مسئلہ: جو کیمیکل انگریزی داؤں میں استعمال ہوتا ہے ،اس کے مضر اثرات ہیں جو گردے میں انفکش کردیتے ہیں۔

(سائل: احمد،کورنگی کراچی)

الجواب بعون الوہاب

صورت مسئولہ برصحت سؤال

سائل جناب احمدصاحب نے یہ بتایا کہ وہ حکیم صاحب کے ساتھ ملکر ان کی تیار کردہ ادویات فروخت کرتے ہیں اور حکیم صاحب یونانی دواؤں میں انگریزی دواؤں میں استعمال ہونے والاکیمیکل استعمال کرتے ہیں جس کے بہت ہی مضراثرات ہیں،بسااوقات اس سے گردوں پر شدیداثر پڑتاہے،نیز وہ کسی دوسری کمپنی کی بعض یونانی ادویات سے ان کالیبل ہٹاکر اسے اپنالیبل لگاکرزیادہ قیمت میں فروخت کرتے ہیں۔

حکمت وطبابت ایک قدیم کامیاب طریقہ علاج ہے ،ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ آج بھی اس طریقہ علاج پر اعتماد کرتا ہے ، لہذا اطباء حضرات کو چاہئے کہ وہ عوام کے اعتماد کوجڑی بوٹی سے تیار کردہ ادویات میں انگریزی دوائیوں میں استعمال ہونے والاکیمیکل ڈال کر مجروح نہ کریں یہ اس لیے بھی درست نہیں کہ مذکورہ کیمیکل کے استعمال سے گردوں پرکافی اثرپڑتا ہے، جبکہ اس قسم کے سائڈ ایفیکٹ سے بچنے کے لئے لوگ ہربل پر اعتماد کرتے ہیں اگر وہ بھی یہی استعمال کریں اور بتائیں بھی نہ تو یہ غلط ہونے کے ساتھ غش میں شامل ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:’من غش فلیس منا‘ (صحیح مسلم) ترجمہ:جس نے دھوکا کیا وہ ہم میں سے نہیں۔ایک حدیث میں فرمایا کہـ’نھی رسول اللہ ﷺ عن بیع الغرر‘ (صحیح مسلم) ترجمہ: نبیﷺ نے دھوکے کی تجارت سےمنع فرمایا ہے۔ مزید آپﷺ کا فرمان ہے:’لاضرر ولاضرار‘(سنن ابن ماجہ) ترجمہ: کوئی بھی شخص تم میں نہ خود نقصان اٹھائے اور نہ کسی دوسرے کو نقصان پہنچائے۔

ہم مذکورہ نصوص کی روشنی میں حکیم صاحب کے اس فعل کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ سائل پر صورت حال واضح ہونے کے بعد ایسی ادویات کو فروخت کرنا،[ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان] کی صریح مخالفت کے زمرے میں آتا ہے۔عوام سے غلط بیانی اور دھوکادینے کے ساتھ ساتھ ان کی صحت سے کھیل کردولت کمانا کس طرح جائز اور حلال ہوسکتا ہے؟بعض مواقع پر شریعت نےجب معاملہ بہت زیادہ واضح اور آسان ہوتوفتویٰ پوچھنے والوں کی تربیت اس انداز سے کی ہے جناب وابصۃ بن معبدtسے روایت ہے کہ نبیﷺ سے نیکی اور بدی کے تعلق سے پوچھاگیاآپﷺ نے جواب دینے کےبعدانہیں اس قسم کے معاملات میں اصولاً فرمایا: یابصۃ استفت قلبک واستفت نفسک ثلاث مرات البر ما اطماءنت الیہ النفس والاثم ماحاک فی النفس وتردد فی الصدر وان أفتاک الناس وأفتوک.یعنی: اے وابصہ! اپنے دل سےپوچھ اپنے آپ سےپوچھ تین بار ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ جس پر تیرا دل مطمئن اور گناہ یہ ہے کہ جو تیرے دل میں کھٹکے اور توبے چین رہے۔ اپنے دل سے پوچھ لو کہ یہ درست ہے یانہیں؟ اگرچہ فتویٰ دینے والے تمہیں جواز کی راہیں فراہم کریں لیکن تم ضمیر کے فتوی پر قائم رہو۔(مسنداحمد)

ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب

مسئلہ وراثت

G.170

محترم جناب مفتی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے دادا نے1968ءکوگھر کے نیچے ایک دکان خریدی ،جس پر 1978ءمیں میرےوالد اوربڑے چاچا الیاس نے میڈیکل اسٹور کھولا۔میرے والد اور میرے چاچاالیاس کےپا س کوئی سرمایہ نہیں تھا، میڈیکل اسٹور کھولنے کے لئے سرمایہ میری دادی،تایا اور میرے چھوٹے چاچا اقبال نے( جو اس وقت ملک سے باہر کمانے گئے ہوئے تھے )دیا، دادا کاانتقال 1980ءمیں ہواتھا،دادا کی میراث تقسیم نہیں ہوئی جو ابھی تک نہیں ہوئی، اللہ نے میڈیکل اسٹور کامیاب کردیا، پھر میڈیکل کی آمدنی سے ایک دوکان 1993ءمیں خریدی، پھر اسی میڈیکل اسٹور کی آمدنی سے 1998ء میں ایک گھر خریددا، یہ دونوں جگہیں میڈیکل کی آمدنی سے خریدی گئی ،دادا کی میراث ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی۔

سوال یہ ہے کہ 1993ء میںدکان خریدی اور 1998ءمیں جوگھر خریدا گیا یہ دونوں جگہیں دادا کی میراث میں ہے یانہیں؟

(سائل :افتخار)

الجواب بعون الوہاب

صورت مسئولہ برصحت سؤال

سائل افتخار کےد ادا نے 1978ء میں ایک دکان خریدی جو کہ دس سال تک ورثاء کے استعمال میں نہیں رہی بلکہ 1978ء میں سائل کے والد اور چچا نے دوبھائیوں اور دادی کے سرمایہ کی مدد سے میڈیکل اسٹور کی صورت میں چلایا، وہ کامیاب ہوگیااور اس میڈیکل کی آمدنی سےایک گھر اور دکان خریدی گئی۔

سائل کا سوال یہ کہ آیا مذکورہ دونوں جگہیں دادا کی وراثت میں  شامل ہونگی یانہیں؟ اب تک داد ا کی وراثت تقسیم نہیں ہوئی ہے ۔ مذکورہ مسئلہ میں اقرب الی الصواب یہی ہے کہ یہ دونوں جگہیں دادا کی وراثت میں شامل نہیں ہوںگی کیونکہ جب دکان دس سال تک خالی تھی، کاروبار شروع نہیں ہواتھا تو خالی اس دکان سے کوئی چیز نہیں بنائی گئی، اس میں محنت وسرمایہ لگا تو دکان کامیاب ہوئی۔

اب اگر سرمایہ قرض کے طور پر تھا تو یہ قرض ہوگا جو کہ افتخار کے والد اور چچا اپنے بھائیوں کو اداکریں گے اور دادی والاحصہ وراثت میں ملاکرورثاء میں تقسیم ہوگا۔اور اگر سرمایہ مدد کے طور پر تھا تو پھر انہیں اجروثواب ہوگااور اگر سرمایہ کاروبار میں شراکت کیلئے تھا تو پھر جو کچھ سائل کے والد اور چاچا نے کمایا ہے اس میں جس قدر شراکت تھی اس قدر انہیں حصہ دیاجائے،مذکورہ تفصیل کے بعد ہم یہ عرض کریں گے کہ مذکورہ صورت حال میں جن بھائیوں نے سرمایہ سے تعاون کیا ہے ،ان کا حق باپ کی دکان کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ مزید بھی بنتا ہے جو کہ آپس میں بیٹھ کر رضامندی سے طے کیاجائے۔

وجہ زیادہ کی یہ ہے کہ دوبھائی دکان چلاتے رہے، دکان اگر وہ کرایہ پر دیتے تووصول ہونے والاکرایہ تمام ورثاء میں تقسیم ہوتا جو کہ اس جگہ مفقود نظر آتا ہے۔

یعنی 40سال کا کرایہ میں جو ان کاحق بنتا ہے وہ باپ کی وراثت سرمایہ کے علاوہ ہے جو انہیں دیاجائے۔

ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب

رب کریم ہمیں جمیع معاملات میں قرآن وسنت پر عمل کی توفیق عطافرمائے۔آمین

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *