Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » May Magazine » رمضان اور روزے  کی فضیلت و اہمیت اور مشہور موضوع و ضعیف روایات

رمضان اور روزے  کی فضیلت و اہمیت اور مشہور موضوع و ضعیف روایات

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

رمضان اور الصوم کا لغوی و شرعی معنی

رمضان لفظ الرمض سے ماخوذ ہے جسکا لغوی معنی ہے :

شدة وقع الشمس على الرمل وغيره.

یعنی سورج کا سخت گرمی (یعنی دھوپ ) کے ساتھ زمین یا کسی اور چیز پر پڑنا اور اس زمین کو : ارض الرمضاء. کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : رمضت قدمه. یعنی اس کے قدم جلنے لگے ۔ چنانچہ ماہ رمضان پر اس کااطلاق اس لیئے ہوتا ہے کہ پیاس کی وجہ سے روزے دار گرمی اور تکلیف محسوس کرتا ہے ۔ اسی طرح ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنے والے آدمی کے گناہ  (یعنی جل کر گرجاتے اور) معاف ہو جاتے ہیں ۔ اسی لیئے روزے کو انسان سے سرزد ہونے والے بعض گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ بنایا گیا ہے، مثلاََ:

قسم توڑنے کا کفارہ تین روزے رکھنا ہے۔ (المائدہ : 89)

قتل خطاء کی صورت میں جب دیت ادا کرنے اور غلام آزاد کرنے کی طاقت نہ ہو تو دو مہینے مسلسل روزے رکھنا ۔(النساء : 92) بیوی سے ظہار کرنے کی صورت میں جب غلام آزاد نہ کرسکتا ہو تو دو مہینے مسلسل روزے رکھنا ۔(المجادلہ : 4)

اس لیئے روزوں والے مہینے کو رمضان کہا گیا کہ روزے رکھنے سے گناہ (جل اور جھڑ کر ) معاف ہوجاتے ہیں ۔

روزے کو عربی میں ’’الصوم‘‘ کہا جاتا ہے جس کا معنی : الامساك عن الفعل مطعما كان او كلاما او مشيا.

یعنی کسی فعل سے رک جانا ، بند ہونا ، یا ترک کردینا وہ کھانا پینا ہو، چلنا پھرنا، یا بولنا جیسا کہ قرآن مجید میں مریم علیھا السلام کے متعلق ہے :

إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا ۔

یعنی میں نے رحمان کیلئے صوم (روزے) کی نذر مانی ہے ،کہ آج کے دن کسی سے کلام نہ کرونگی ۔ [سورة مريم 26]

شرعی اصطلاح میں کسی مکلف آدمی کا اللہ تعالی کی رضامندی کی نیت سے کھانے پینے اور جماع وغیرہ سے رک جانے کو الصوم کہا جاتا ہے۔ (لسان العرب ج 12 ص 351 )

رمضان کے روزوں کی فرضیت

(1) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.

اے اہل ایمان تم پر روزے اسی طرح  فرض کیے گئے ہیں کہ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی و پرہیزگار بن جاؤ ۔ [سورة البقرة 183]

(2) فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۔

تم میں سے جو بھی اس مہینے میں حاضر ہو تو وہ اس ماہ کے مکمل روزے رکھے ۔ [سورۃ البقرة 185]

(3) روزہ اسلام کے ان پانچ ارکان میں سے ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے ۔ (صحیح بخاری : 8  صحیح مسلم : 16)

(4) ایک دیہاتی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ : اللہ تعالی نے مجھ پر کونسے روزے فرض کیے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ماہ رمضان کے ۔ (صحیح بخاری : 1891)

(5) عاشورہ (10 محرم) کا روزہ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم خود بھی رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی حکم فرمایا کرتے تھے ،لیکن جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا : اب عاشورہ کا روزہ جو (خوشی) سے رکھنا چاہے رکھے ،اور جو چھوڑنا چاہے وہ چھوڑ دے ۔ (صحیح بخاری : 2002. صحیح مسلم : 1115)

(6) تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ رمضان کے روزے ہر مسلمان عاقل، بالغ ،صحت مند ،اور مقیم پر فرض ہیں ۔

(المغنی لابن قدامہ ج 3 ص 3 مراتب الاجماع ص 36 )

مندرجہ بالہ عمومی دلائل میں وارد روزے کی فرضیت سے وہی لوگ مستثنیٰ ہوسکتے جن کی دلیل قرآن ، حدیث یا اجماع میں موجود ہو مثلاََ : نابالغ بچہ، مسافر ،حائضہ ،یا نفاس والی عورت بیمار یا جسے شریعت نے معذور قرار دیا ہو ۔

 رمضان کے روزے شعبان 2 ہجری میں فرض کیے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر مبارک میں نو (9) مرتبہ رمضان المبارک کے روزے رکھے ۔

رمضان المبارک کی فضیلت و اہمیت

(1) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۔

رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے سراسر ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں ۔  [سورة البقرة 185]

(2) جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان، جنت ، اور رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جھنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو (زنجیروں میں جکڑ کر) قید کردیا جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری : 1898.1899 . 2377. صحیح مسلم : 1079)

(3) رمضان میں (شیاطین کی ایک قسم مردۃ الشياطين) یعنی ہر سرکش (بڑے باغی اور فسادی) شیطان کو قید کردیا جاتا ہے ۔(سنن النسائی : 2108.مسند احمد : ج 4 ص 311.312. واسنادہ حسن )

اس حدیث سے معلوم ہوا عام شیاطین اور شیطان اکبر ابلیس اس جکڑے جانے سے خارج ہیں کیونکہ ابلیس کو اللہ تعالی نے قیامت تک مہلت دے رکھی ہے ۔(الاعراف : 14. 18 ) نیز جنگ بدر میں ابلیس کا کفار کے پاس آنا سورت المائدہ آیت : 48 سے ثابت ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ غزوہ بدر کا وقوع رمضان المبارک کے مہینے میں ہوا تھا ۔ دیکھیئے (فتاوی علمیہ لشیخنا الحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ج 2 ص 137-38 )

(4) رمضان کی ہر رات اللہ تعالی کی طرف سے یہ اعلان کروایا جاتا ہے کہ : اے نیکی اور خیر کے متلاشی! تم اور آگے بڑھو اور اے برائی تلاش کرنے والے! تم (اب تو) اپنی برائی سے رک جاؤ ۔

(سنن نسائی : 2108)

(5) (مسلسل ایک دوسرے کے بعد) پنج وقتہ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ اور ایک رمضان سے دوسرا رمضان درمیان والے (صغیرہ) گناہوں کیلئے کفارہ ہے شرط یہ ہے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے ۔ (صحیح مسلم : 233)

رمضان المبارک میں عمرہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے.(صحیح مسلم : 1256)

روزے کی فضیلت و اہمیت

(6) اللہ تعالی نے اہل ایمان کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :

وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ.

یعنی ان کی اور صفات کے ساتھ ایک یہ صفت بھی ہے کہ ان کے مرد اور عورتیں روزے رکھنے والی ہوتی ہیں ۔ اور آخر میں ان کا بدلہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

 أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا

یعنی ان اوصاف کے حامل لوگوں کیلئے اللہ تعالی نے اپنی مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے ۔ (سورۃ الاحزاب 35 )

(7)قیامت کے دن روزہ اور قرآن اللہ تعالی کی بارگاہ میں بندے کی سفارش(شفاعت) کریں گے روزہ کہے گا:اے میرے رب! میں نے تیرے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور اپنی جائز نفسانی خواہش کو پورا کرنے سے روک رکھا تھا لہذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمالے۔۔۔ تو روزے اور قرآن کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔ (مسند احمد : ج 2 ص 174. شعب الایمان : 1994. ،صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی رحمھم اللہ ۔ وسندہ حسن ۔ المشکاۃ : 1963)

(8) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے، اس لیے ( روزہ دار ) نہ فحش(بیہودہ بیکار اور فضول) باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں،نہ ہی کوئی شور شرابہ کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، ( یہ الفاظ ) دو مرتبہ ( کہہ دے ) اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، ( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور ( دوسری ) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا (سے سات سو گنا تک ) ہوتا ہے۔

روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی ( ایک تو جب ) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور ( دوسری ) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہو گا۔

(صحیح بخاری : 1894. 1904. صحیح مسلم : 1151)

نوٹ : روزہ خاص اللہ تعالی کے لیئے ہے کا مطلب ہے کہ :

(الف) یعنی روزہ ایسی عبادت ہے کہ بندے کی ظاہری شکل صورت یا اس کے کسی عمل یا حرکت سے اس کا اظہار نہیں ہوتا اس لئے اس میں ریاکاری ونمود نمائش کا خطرہ نہیں ہے۔یعنی روزہ ایک مخفی عبادت ہے ۔ اور روزے کا تعلق صرف نیت کے ساتھ ہے جسے اللہ تعالی ہی جانتا ہے ۔

(ب) عبادتیں تو سب اللہ کے لیئے ہیں لیکن روزہ اللہ تعالی کے نزدیک (دوسری عبادتوں کی نسبت) انتہائی پسندیدہ عبادت ہے اس لئے اللہ تعالی نے اپنی طرف اس کی خصوصی نسبت فرمائی ہے جوکہ اسکی زیادہ عظمت اور شرف پر دلالت کرتی ھے ۔

(ج) روزے کے علاوہ دوسری عبادتیں مثلاََ رکوع و سجود، نذر و نیاز، ذبح وغیرہ مشرکین غیر اللہ کیلئے بھی کرتے ہیں لیکن روزہ صرف اللہ تعالی کیلئے رکھا جاتا ہے، اس لئے اللہ تعالی نے اسکی اپنی طرف خصوصی نسبت فرمائی ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

(9) روزہ جھنم سے بچاؤ کیلئے ایک مضبوط قلعے کی طرح ہے ۔ (مسند احمد: 9225. شعب الایمان : 3293)

(10) روزہ جھنم سے بچنے کیلئے اسی طرح ڈھال ہے جس طرح میدان جنگ میں دشمن سے بچاؤ کیلئے ڈھال ہوتی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ : 1639)

معلوم ہوا کہ ہمارے ازلی دشمن ابلیس سے محفوظ رہنے کیلئے روزے کی بڑی اہمیت ہے اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی طاقت نہ رکھنے والے نوجوانوں کو حکم دیا کہ وہ روزے رکھیں۔ (صحیح بخاری : 1905)

(10) ماہ صبر یعنی رمضان کے روزے دل کی سختی (شیطانی) وساوس (آپسی) حسد کینہ وبغض کو ختم کرنے والے ہیں ۔

(مسند احمد : 23070.صححہ الھیثمی والمنذری والالبانی رحمھم اللہ۔ صحیح الترغیب والترھیب : 1032)

(11)نماز، روزہ، صدقات ،امر بالمعروف اور نھی عن المنکر انسان کے گھر مال اولاد اور پڑوس میں واقع ہونے والے فتنوں کیلئے کفارہ ہیں ۔ (صحیح بخاری : 525.1895. صحیح مسلم : 144)

(12)جنت کے آٹھ دروازے ہیں  اور ایک خاص دروازہ ہے جسے’’ریان‘‘ کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے  داخل نہیں ہو گا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی اندر نہیں جا پائے گا اور جب یہ لوگ جنت میں چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس دروازے سے کوئی اندر نہ جا سکے گا۔ ( صحیح بخاری 1896. 3257)

جو بھی اس دروازے سے داخل ہوگیا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی ۔ (ابن ماجہ : 1640.ترمذی : 765)

الریان کا معنی ہے:  بالکل سیراب کرکے تازگی، فرحت، نشاطت و سرور عطا کرنے والا ۔

(13)سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کوئی ایسا افضل عمل بتائیں جسے اپنی زندگی میں اختیار کرلوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزے کو لازم کرلو کیونکہ اس کے مثل (برابر) کوئی عمل نہیں ھے ۔

 (سنن نسائی : 2220. تا ۔ 2223 .)

(14) جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں(جہاد میں یا اللہ تعالی کی رضامندی و خوشنودی کیلئے) ایک دن بھی روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر سال کی مسافت (کی دوری)تک دور کر دے گا۔

(صحیح بخاری : 2840.صحیح مسلم : 1153)

 ایک حدیث میں سو سال کی مسافت کا ذکر بھی ہے۔

(سنن نسائی : 2254)

(15) اللہ کے راستے میں جو شخص ایک دن روزہ رکھے گا،اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کی آگ کے درمیان ایک خندق بنا دے گا جس کا فاصلہ زمین و آسمان کے برابر ہے۔(جامع ترمذی : 1624)

(16) رمضان المبارک میں عمرہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے.(صحیح مسلم : 1256)

(17) روزے دار کو قیامت کے دن اللہ تعالی کی ملاقات (اوردیدار )کا شرف نصیب ہوگا ۔

 (صحیح بخاری : 1904. صحیح مسلم : 1151)

(18) نماز روزہ اور زکاۃ کی ادائیگی کی شرط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی شخص کو جنت کی ضمانت دی۔

 (صحیح بخاری : 6956)

(19) جس آدمی نے (بحالت ایمان و اخلاص کے ساتھ) اللہ تعالی کی رضامندی کیلئے روزہ رکھا اور اسی حالت میں اسکا خاتمہ ہوا یعنی موت واقع ہوگئی تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ ( مسند احمد : 23324. الاسماء والصفات للبیھقی : 651. وصححہ الھیثمی والمنذری والالبانی والارناؤط رحمھم اللہ تعالی )

(20) جو آدمی کلمہ توحید پر قائم ہو، نماز قائم کرے، روزے رکھتا رہے، زکاۃ ادا کرتا رہے اور ان ہی اعمال پر اسکی موت واقع ہو تو قیامت کے دن وہ صدیقین اور شھداء کے ساتھ ہوگا ۔ (صحیح ابن خزیمہ : 2212. صحیح ابن حبان : 3438. صحیح الترغیب والترھیب : 361)

شہید سے پہلے جنت میں

(21)  قضاعہ قبیلے کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہی وقت میں مسلمان ہوئےتھے، ان میں سے ایک شہید ہو گیا اور دوسرا اس سے ایک سال بعد (طبعی موت) فوت ہوا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے خواب آیا کہ جنت کا دروازہ کھولا گیا اور بعد میں(طبعی موت) فوت ہونے والا، شہید ہونے والے سے پہلے جنت میں داخل ہوا، مجھے بڑا تعجب ہوا! جب صبح ہوئی تو میں نے اس خواب کا تذکرہ کیا اور بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس نے(ایک سال پہلے شہید ہونے والے کے بعد) رمضان کے روزے نہیں رکھے؟ اور ایک سال کی (فرض نمازوں کی) چھ ہزار رکعت اور اس سے زائد اتنی اتنی نفل رکعتیں ادا نہیں کیں؟ (یعنی وہ اپنی زائد نماز اور روزوں کی وجہ پہلے شہید ہونے سے قبل جنت میں داخل ہوگیا)

(مسند احمد : 8339. وسندہ حسن ۔ السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ للالباني : 2591)

ناقدری پر شدید وعید

(22) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو تین دفعہ آمین کہا۔ پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول! آپ پہلے تو ایسا نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل علیہ السلام نے کہا:’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو ذلیل و رسوا کرکے اپنی رحمت سے دور کردے جو رمضان میں موجود ہو لیکن پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو سکے جس پر میں نے آمین کہا‘‘

۔۔۔۔۔(صحیح ابن خزیمہ : 1888. صحیح ابن حبان : 409. المعجم الأوسط للطبراني: 8131، مسند أبى يعلى: 5922، صحیح الترغیب والترھیب  : 995 تا 997 . ترمذی : بدون ذکر رقی المنبر : 354)

(23) رسول اللہ صلی اللہ کوبحالت خواب جھنم کے بعض عذاب دکھائے گئے،جہاں آپ نے اہل جہنم کی شدید چیخ و پکار سنی،آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا جنہیں الٹایا گیا تھا اور ان کی باچھیں چیری جارہی تھیں جن سے زیادہ خون جاری تھا آپ کے معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے ہی روزہ کھول لیتے تھے (اور روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ رمضان میں ) کھاتے پیتے رہتے تھے ۔

(رواه ابن خزيمة : 1986.و ابن حبان: 7491. والحاكم : 1568. 2837. وصححه على شرط مسلم ووافقه الذهبي۔ والنسائي في الكبرى: 3273. وصححه الالباني رحمهم الله السلسة الصحيحة : 3951 )

ضعیف روایات کی حیثیت اور حکم

نبی کریم ﷺ نے  فرمایا :

إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ، مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْمَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. (صحیح بخاري:1291،صحیح مسلم: 4) .

میرے متعلق کوئی جھوٹی بات کہنا عام لوگوں کے بارے میں جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے جو شخص مجھ پر جانتے بوجھتے جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں جان لے۔

اور جو بندہ بغیر تحقیق کے کوئی بات آگے بیان کردے وہ بھی اس جھوٹے کے جھوٹ میں برابر کا شریک  ہوجائے گا ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :

كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ.

کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔ ( صحيح مسلم :5 )

اس لئے ضعیف روایات کے بارے میں راجح موقف یہی ہے کہ وہ احکام وفضائل دونوں میں ہی ناقابل عمل ہیں ۔

بشیر بن کعب تابعی رحمہ اللہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے سامنے حدیثیں بیان کرنے لگے کہ : “قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے نہ ان کی حدیثیں سنیں اور نہ ان کی طرف دیکھا ۔

(صحیح مسلم : 21)

  معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما مرسل روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے ۔ جب مرسل روایت جسے کم درجہ کی ضعیف کہا جاتا ہے وہ بھی حجت نہیں تو ضعیف کی دوسری قسمیں کیسے حجت اور دلیل ہوسکتی ہیں !!؟

 امام شافعی،امام احمد، امام بخاری،امام مسلم،امام سعد بن ابراھیم ،امام عبداللہ بن مبارک، امام یحیی بن معين،امام ابوحاتم  وغیرھم ضعیف روایات کو حجت نہیں سمجھتے تھے ۔

 امام یحیی بن سعید القطان نے بعض مرسل روایات کے بارے میں فرمایا: هو بمنزلۃ الريح. یعنی ایسی روایات ہوا کی طرح جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (المراسیل لابن ابی حاتم ص 3)

  امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا : ضعیف روایات کا وجود اور عدم وجود برابر ہے یعنی ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔(کتاب المجروحین ج 1 ص 328)

  امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہم دنیا کے مشرق و مغرب میں رہنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ ضعیف احادیث پر مطلق طور پر عمل کرنا چھوڑدیں اور صحیح ثابت شدہ احادیث پر ہی عمل کریں ۔۔۔(مقدمہ صحیح الجامع ج 1 ص 56)

مزید تفصیل اور حوالہ جات کیلئے دیکھئے : (علمی مقالات لشیخنا الحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ج 2 ص 266-283 )

 ذیل میں ہم بطور مثال اور تنبیہ رمضان اور روزے کے حوالے سے چند مشہور موضوع وضعیف روایات درج کرتے ہیں تاکہ عوام الناس ایسی روایات سے محفوظ اور متنبہ رہیں ۔

رمضان اور روزے کے بارے چند مشہور موضوع و ضعیف روایات

(1) اگر لوگ رمضان کی فضیلت جان لیں تو میری امت سارا سال رمضان رہنے کی خواہش کرنے لگے۔

(ابن خزیمہ : ١٨٨٦ – ‍ﻗ‍‍ﺎ‍ل ا ﻟ ‍‍ﺄ‍ﻋ‍‍ﻈ‍‍ﻤ‍‍ﻲ‍: ‍‍اﺳ‍‍ﻨ‍‍ﺎد‍ﻩ‍ ‍ضعیف‍ ‍ﺑ‍‍ﻞ‍ ‍ﻣ‍‍ﻮ‍ﺿ‍‍ﻮ‍ع ﺟ‍‍ﺮ‍یر ‍ﺑ‍‍ﻦ‍ ‍أ‍یوب ا‍ﻟ‍‍ﺒ‍‍ﺠ‍‍ﻠ‍‍ﻲ‍ ‍ﻗ‍‍ﺎ‍ل‍ ‍ﻋ‍‍ﻨ‍‍ﻪ‍ ‍ا‍ﻟ‍‍ﺒ‍‍ﺨ‍‍ﺎ‍ری ‍‍ﻣ‍‍ﻨ‍‍ﻜ‍‍ﺮا‍ﻟ‍‍ﺤ‍‍ﺪیث‍. ضعیف الترغیب والترھیب:596.)

وضاحت: یہ روایت موضوع ہے۔

(2) ہر چیز کی زکاۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکاۃ روزہ ہے۔

وضاحت: یہ روایت ضعیف ہے راوی موسی بن عبیدہ ضعیف ہے ، دیگر علتیں بھی ہیں۔تفصیل کیلئے: (السلسة الضعيفة : 1329)

  روزے رکھو اور صحت مند رہو ۔

وضاحت: یہ روایت موضوع ہے۔ (السلسلة الضعيفة : 253)

(3) روزہ دار پر عصر کے بعد گناہ نہیں لکھا جاتا یا اللہ تعالی فرشتوں کو لکھنے سے منع فرماتا ھے ۔

وضاحت: موضوع (من گھڑت) ہے ۔(الموضوعات الکبری لابن الجوزی رحمہ اللہ : 1030)

(4) رجب اللہ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔

(البییھقی فی شعب الایمان قال اسنادہ منکر)

وضاحت : یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے ۔ دیکھئے : (السلسلة الضعيفة : 6188)

 اسی طرح ان الفاظ کے ساتھ وارد ایک دعا : اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان. بھی ضعیف ہے۔ (مشكاة المصابيح بحقيق الالباني رحمه الله : 1369)

(5)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن خطبہ ارشاد فرمایا اس میں مختلف باتیں فرمائیں۔۔۔:

(1) اس مہينہ ميں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب باقی مہینوں کے ستر فرائض کے برابر ھے۔

(2) رمضان کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے ۔

وضاحت : اس  کا راوی علی بن زید بن جدعان ”ضعیف“ ہے۔ (تقریب التہذیب: ۴۷۳۴) جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ھے ۔دیگر علتیں بھی ہیں ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا :”منکر“ تفصیل کیلئے دیکھیئے : (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة  :٨٧١)

 بلکہ عام صحیح دلائل سے ثابت ہے کہ پورا رمضان ہی رحمت مغفرت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ھے ۔

(6) من أخبر بخبر رمضان أولا حرام عليه نار جهنم ۔

یعنی جس نے سب سے پہلے رمضان کی خبر دی اس پر جہنم کی آگ حرام ہوگئی ۔

وضاحت : یہ قطعی طور غیرثابت اور من گھڑت ھے اس کا کہیں وجود ہی نہیں ہے ۔

(7) جنت کو رمضان کیلئے پورا سال مزین کیا جاتا ہےجب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے جنت کے پتوں سے ہوا چلتی ہوئی حورعین تک پہنچتی ہے تو وہ کہتی ہیں: ہمارے رب ! اپنے بندوں میں سے ہمارے شوہر بنادے، ہم ان سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں اور وہ ہم سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔

وضاحت : روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔ دیکھئے: (ضعیف الترغیب والترھیب : 594)

(8) روزے دار کی نیند بھی عبادت ہے اور خاموش رہنا یا سانس لینا بھی تسبیح ہوتا ھے ۔۔۔

وضاحت : بعض اسناد موضوع اور بعض ضعیف ہیں.

(السلسة الضعيفة : 4696)

(9) افطار کے وقت کی ایک دعا :

 اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ .

وضاحت : سندا مرسل ہے اور مرسل ضعیف کی ایک قسم ہے ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح یا حسن قرار دینے سے رجوع کرلیا تھا یعنی ان کی آخری تحقیق کے مطابق بھی یہ روایت ضعیف ہی ہے ۔ (تراجع العلامہ الالبانی رحمہ اللہ ص 256۔)

نوٹ : اس ضعیف روایت کے درمیان میں : “وبك آمنت وعليك توكلت“ کا اضافہ بلکل بے سند اور بے اصل ہے ۔

(10) جس نے بغیر عذر اور بیماری کے ایک روزہ ترک کردیا تو وہ پوری عمر بھی روزے رکھے تو اس روزے کی قضاء نہیں دے سکتا ۔

وضاحت : ضعيف ہے ۔ابوالمطوس لين الحديث وابوه مجهول . (انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ ص : 89)

(11) ان دو عورتوں کا قصہ: جنہوں نے روزہ رکھا اور پیاس سے نڈھال ہوگئیں انہیں قے کرنے کا حکم دیا تو ان کی قے سے خون اور گوشت کے لوتھڑے نکلے حالانکہ انہوںنے گوشت کھایا ہی نہیں تھا فرمایا کہ: انہوں  نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے روزہ رکھا اور حرام کردہ چیزوں (غیبت چغلی وغیرہ) سے افطار کیا کہ ان عورتوں نے حقیقتا لوگوں کا گوشت کھایا ہے۔۔۔

وضاحت : یہ روایت ضعیف ہے۔ (السلسلة الضعيفة : 519)

  اسی طرح یہ روایت بھی موضوع ہے کہ پانچ چیزیں روزہ توڑ دیتی ہیں جھوٹ غیبت چغلی غیر محرم کو بنظر شہوت دیکھنا اور جھوٹی قسم اٹھانا ۔ (الموضوعات لابن الجوزی ۔ الفوائد المجموعہ.ضعيف الجامع:2849 )

  جھوٹ غیبت چغلی نظر بد وغیرہ یقینا انتہائی برے کام ہیں جن سے روزے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور اجر عظیم سے یقینا محرومی کا باعث ہیں چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ: ’’جس شخص نے روزے کی حالت میں بھی جھوٹ اور اس پر عمل نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے محض بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘

(صحیح بخاری : 1903)

About الشیخ حزب اللہ بلوچ

Check Also

نیکیوں کے خزانے

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *