Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » May Magazine » اتمام البرھان فی تصحیح ابن خزیمہ وابن حبان امام ابن خزیمہ وامام ابن حبان کی تصحیح اور بعض الناس کامغالطہ

اتمام البرھان فی تصحیح ابن خزیمہ وابن حبان امام ابن خزیمہ وامام ابن حبان کی تصحیح اور بعض الناس کامغالطہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

امام ابوبکرمحمدبن اسحاق بن خزیمہ رحمہ اللہ (المتوفیٰ۳۱۱ھ)اورامام ابوحاتم محمدبن حبان البستی رحمہ اللہ (المتوفیٰ۳۵۴ھ)نے اپنی بساط کے مطابق اپنی کتب (صحیح ابن خزیمہ وصحیح ابن حبان)میں خاص طور پر صحت کا التزام کیا ہے،یعنی ان کتب میں موجود تمام تر احادیث امام ابن حبان اورامام ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح متصورہوں گی۔[ملاحظہ ہوصحیح ابن خزیمہ ج۱ص۳طبع المکتب الاسلامی،الاحسان في تقريب صحيح ابن حبان ج۱ص۱۰۴طبع مؤسسة الرسالة، بيروت]

اسی کے پیش نظرہمیشہ سے اہل علم  ان کتب میں موجوداحادیث  کوان ائمہ کےنزدیک صحیح قرار دیتے آرہےہیں،جب محدث العصر حافظ زبیر علیزئی رحمہ اللہ نے بعض روایا ت کے متعلق ان ائمہ کی تصحیح نقل کی تو عطاء اللہ عمرنامی دیوبندی نے کہا: ان ائمہ (ابن حبان وابن خزیمہ)نےاپنی کتابوںمیںاحادیث پرصحت کاحکم نہیں لگایاسوائےکتاب کا نام صحیح رکھنےکے۔اگر کتاب کا نام صحیح رکھنے سے تمام احادیث صحیح بن گئیں توپھرسوال یہ ہےکہ دوسرے مقامات پرانہیں کتابوں کی احادیث کوضعیف کیوں کہا؟نیزپھربخاری ومسلم کا کیانمبرہوگا؟۔

[نمازنبویﷺ کاعلمی جائزہ ص۶ناشرادارۃالرشیدکراچی]

موصوف اپنی اسی کتاب میں مزید کہتے ہیں:قارئین کرام! اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر یہ لکھ چکے ہیں کہ امام ابن حبان اورامام ابن خزیمہ نے اپنی کتب میں احادیث پرتصحیح کا حکم نہیں لگایا۔ [نمازنبویﷺ کاعلمی جائزہ ،ص۹۷ناشرادارۃالرشید،کراچی]

موصوف کی یہ بات  اپنے اکابرین کے بھی خلاف ہے۔کیوں کہ علماءاحناف بھی ان کتابوں میں موجوداحادیث کو ان کے مصنفین کے نزدیک صحیح تسلیم کرتے ہیں بعض اکابرین احناف کی عبارات پیش خدمت ہیں ۔

مشہور دیوبندی عالم انور شاہ کشمیری (المتوفی:۱۳۵۳ھ) فرماتے ہیں: میرے نزدیک صحیح حدیث کی چار اقسام ہیںان میں سے تیسری قسم یہ ہے کہ جس حدیث کو ایسے امام نے روایت کیاہوجس نے اپنی کتاب میں صحت کا التزام کررکھا ہے۔مثلاً: صحیح ابن خزیمہ ،صحیح ابن حبان وغیرہ صحیح ابن السکن وغیرہ

(العرف الشذی ج۱ص۳ملخصا طبع قدیمی کتب خانہ کراچی)

مفتی تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں :پہلاطبقہ ان کتب حدیث کا ہے جن کے مصنفین نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ ان کتابوں میں تمام احادیث صحیح کی شرائط پر پوری اترتی ہوں، ایسی کتابوں کو صحاح مجردہ کہاجاتاہے ،چنانچہ ا س طبقہ میں مندرجہ ذیل کتابوںکو شامل کیاگیا ہے: صحیح بخاری، صحیح مسلم، موطا، مستدرک ،صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ، المنتقیٰ لابی عبداللہ بن الجارود، المنتقیٰ للقاسم بن اصبغ ،صحیح ابن السکن، صحیح ابی عوانہ ۔(درس ترمذی ج۱ص۱۳مکتبہ دارالعلوم کراچی)

علاوہ ازیں متعددعلماءاحناف نے صحیح ابن خزیمہ وصحیح ابن حبان میں موجود کئی روایات کی ان ائمہ(ابن حبان وابن خزیمہ) کی طرف تصحیح منسوب کی ہے ،حالانکہ ان روایات کی ان ائمہ سے( سوائے اپنی ان کتب میں درج کرنے کے)تصحیح ثابت نہیں،ملاحظہ کیجئے:

علامہ محمودبن احمدبن موسی عینی(المتوفی۸۵۵ھ)ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں:صححہ ابن خزیمہ والحاکم وابن حبان۔یعنی اس روایت کوابن خزیمہ،حاکم اورابن حبان نے صحیح کہاہے۔[عمدۃ القاری ج۳ص۱۵تحت حدیث۹۳۰طبع مکتبہ طیبہ کوئٹہ]

 معروف حنفی عالم محمدبن علی نیموی صاحب نےبھی اپنی معروف کتاب آثارالسنن میں کئی احادیث کی تصحیح ان ائمہ  سے نقل کی ہے مثلا ایک حدیث کے متعلق  لکھتےہیں: صححہ ابن خزیمہ وابن حبان۔۔۔اس روایت کو ابن خزیمہ اورابن حبان نے صحیح کہا ہے۔

[آثارالسنن ص۲۴تحت حدیث۴۸ طبع: مکتبۃ الحسن لاھور]

مولوی سرفرازخان صفدر صاحب نے بھی اپنی کتب میں اس طرح کی تصحیح پیش کی ہے۔چنانچہ وہ ایک روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے کہتے ہیں:صححہ ابن خزیمۃ وابن حبان والحاکم۔[خزائن السنن ج۱ص۹۵طبع مکتبہ صفدریہ]

یعنی اس کو ابن خزیمہ،ابن حبان اورحاکم نے صحیح قراردیا ہے۔دوسرے مقام پرایک اور روایت کے بارے میں کہا:حافظ ابن حجر فتح الباری ج۱ص۲۵میں لکھتے ہیں:صححہ ابن خزیمہ وابن حبان وغیرھما۔[خزائن السنن ج۱ص۱۶۴طبع :مکتبہ صفدریہ، گوجرانوالہ]

نیزایک اورروایت کے بارے میں کہا:قاضی شوکانی نیل الاوطارج۲ص۴۰میں لکھتے ہیںصححہ ابن خزیمۃ۔[خزائن السنن ج۲ص۴۷طبع :مکتبہ صفدریہ]

فائدہ:یہاں  پرمولوی سرفراز نے ابن خزیمہ اورابن حبان کی تصحیح ابن حجر وشوکانی سے بطورتائید نقل کی ہے،اوریہ بھی ملحوظ رہے کہ جب بھی کوئی مصنف کسی کی بات بطورتائید ذکر کرے تو مصنف کا بھی وہی موقف تصورکیا جائیگا۔جیساکہ خودمولوی سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب نےکہا:سوم جب کوئی مصنف کسی کا حوالہ اپنی تائید میں پیش کرتا ہے اور اس کے کسی حصہ سے اختلاف نہیں کرتا تو وہی مصنف کا نظریہ ہوتا ہے۔[تفریح الخواطر ص۱۹ طبع مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ]

مشہورحنفی عالم علامہ ملاعلی قاری(المتوفی۱۰۱۴ھ) نےبھی ابن حبان اورابن خزیمہ کی اس طرح کی تصحیح کا اعتبار کیا ہے،جیسا کہ وہ ایک حدیث کے بارے میں فرماتےہیں:وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ۔یعنی اس کو ابن خزیمہ نے صحیح کہاہے۔[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج۲ص۴۲۰طبع دار الفكر، بيروت – لبنان]ایک اور روایت کےبارے میں کہتےہیں:صَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ۔یعنی اس کو ابن حبان نے صحیح کہاہے۔[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج۲ص۶۰۲طبع دار الفكر، بيروت – لبنان]

اس بحث سے معلوم ہوا کہ علماءاحناف کے نزدیک بھی صحیح ابن خزیمہ وصحیح ابن حبان میں  موجوداحادیث ان کے مصنفین (ابن خزیمہ وابن حبان)کے نزدیک صحیح ہیں ، لہذا بعض الناس کا اس حوالے سے علماء اہلحدیث پر طعن کرنا اپنے ہی مسلک کی روسے بےسود ہے۔جہاں تک تعلق ہے موصوف کے اس اعتراض کا کہ صحیح ابن حبان اورصحیح ابن خزیمہ کی دیگر روایات کوضعیف کیوں کہاجاتاہے؟اوراگران کتب میں صحیح احادیث ہیں تو بخاری ومسلم کا کیادرجہ ہے؟توعرض ہے کہ اس کاجواب اپنے ہی اکابر مفتی تقی عثمانی کی زبانی سنئے:وہ فرماتےہیں:البتہ یہ یادرکھناچاہئے کہ ان کتابوں (ابن حبان وابن

خزیمہ وغیرہ)کوصحاح مجردہ میں شمار کرنااس اعتبارسے ہےکہ ان کے مؤلفین نے صرف وہ احادیث لی ہیں جو ان کےاپنے زعم میں صحیح تھیں،لیکن نفس الامر میں ان کاصحیح ہوناضروری نہیں،جہاں تک صحیحین(بخاری ومسلم) اور مؤطا کاتعلق ہےان کے بارے میں اتفاق ہےکہ ان کی تمام احادیث نفس الامرمیں بھی صحیح ہیں۔[درس ترمذی ج۱ص۶۳طبع مکتبہ دارالعلوم کراچی]

مفتی تقی عثمانی صاحب کی اس تصریح سےمعلوم ہوا  کہ صحیح   ابن خزیمہ اورصحیح ابن حبان   کی احادیث  ان کے مصنفین کے نزدیک صحیح ہیں باقی انکی تصحیح سے اصولی دلائل کی رو سے اختلاف کیاجاسکتاہے،برخلاف صحیح بخاری وصحیح مسلم کے،کیونکہ ان کی صحت پر امت کااجماع ہے۔

خلاصۃ التحقیق:جو بھی حدیث صحیح ابن خزیمہ اورصحیح ابن حبان  میں موجود ہے اسے ان کے مصنفین کے نزدیک صحیح تصور کیا جائیگا ۔آخر میں دو باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔

امام ابن خزیمہ کا  شمار معتدلین میں ہوتا ہے دور حاضر کے بعض لوگوں کا انہیں متساہل قرار دینا قطعا غلط ہے، لہذا  ان کی توثیق کا ہر صورت میں اعتبار کیا جائیگا  بشرط کہ وہ جمہور محدثین کے مخالف نہ ہو۔

امام ابن حبان کا شمار متساہلین میں ہوتا ہے

About محمدابراھیم ربانی

Check Also

اتمام المنن فی فوائد انوارالسنن

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *