Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » June Magazine » لمھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ(قسط 2)

لمھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ(قسط 2)

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

         قسط نمبر 2

:اتباع وتقلید میں فرق

:دوسری اہم بات یہ ہے کہ مقلدین حضرات ’’تقلید‘‘ اور ’’اتباع‘‘ کےد رمیان فرق کے قائل نہیں ہیں

:چنانچہ ان کے’’قطب الارشاد ،امام ربانی‘‘رشید احمد گنگوہی صاحب نے لکھا

اتباع وتقلید کے معنی واحدہیں۔

(تالیفات رشیدیہ ،ص:۵۱۹مطبوعہ ادارہ اسلامیات لاہور)

:ان کے ’’امام اہل سنت، شیخ الحدیث‘‘ محمد سرفراز خان صفدر صاحب نے لکھا

تقلید اور چیز ہے اور اتباع اور ہے….

(الکلام المفید فی اثبات التقلید ،ص:۳۲)

پھر اس کے جواب میں لکھا:مگر یہ سب کاوش بے سودہے۔

(ص:۳۲)

:پھرکافی بحث کے بعد بطورخلاصہ لکھا

الحاصل تقلید اور اتباع دونوں مفہوم کے لحاظ سے ایک ہی ہیں، ان میں مغایرت ثابت کرنا صرف کم فہمی کانتیجہ ہے۔

(الکلام المفید،ص:۳۳)

حقیقت یہ ہےکہ’’تقلید‘‘ کے لغوی اور’’اصطلاحی‘‘ معنی میں دلیل کا نہ ہونا شامل ہے جیسا کہ دارالعلوم دیوبند کے استاد حدیث وادب عربی وحید الزماں کیرانوی : صاحب نےلکھا

قلد فلانا، تقلید کرنا، بلادلیل پیروی کرنا۔

 (القاموس الوحید ،ص:۳۴۶،مطبوع ادارہ اسلامیات ،لاہور)

جبکہ’اتبع‘ کےمعنی لکھے: پیچھے چلنا اور کھوج لگانا، پیروی کرنا۔

 (ص:۱۹۳)

بات صاف ہے کہ تقلید کے معنی میں بلاسوچے سمجھے یا’بے دلیل‘ پیروی شامل ہے جبکہ اتباع میں نہیں، لہذا ان کے درمیان مغایرت تسلیم نہ کرنا ہی دراصل کم فہمی کا نتیجہ ہے۔ لاعکسہ فافھم۔

ان کے ایک دوسرے ’’مناظراسلام،وکیل احناف‘‘ منظور احمد مینگل صاحب فرماتے ہیں

تقلید اور اتباع ایک ہی چیز ہے :تقلید کی تعریف میں لفظ اتباع موجود ہے، ہمارا دوعوی یہ ہے کہ تقلید اور اتباع ایک چیزہے، غیرمقلدین اس کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ تقلید الگ چیز ہے اور اتباع الگ۔ (تحفۃ المناظر ،ص:۱۰۴،مطبوعہ مکتبہ السعید ،کراچی)

مینگل صاحب نے اس فرق کوبارہاتکرار بیان فرمایا ۔دیکھئے: ص:۱۰۵،۱۰۶،۱۱۰،۱۱۲،۱۱۶،۱۲۸)

سردست اس کاجواب مقصود نہیں بلکہ اس بحث اور ان حوالوں کے لانے کی غرض یہ ہےکہ مقلدین کے گزشتہ وموجودہ اکابرحضرات ’’تقلید واتباع‘‘ میں فرق  کے قائل نہیں ہیں اور ان کاشدید اصرار ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز کےدونام ہیں۔توسنئے :

’’المھند‘‘میں جو لکھا ہےکہ

متبعون للامام الھمام ابی الحسن الاشعری والامام الھمام ابن ابی منصور الماتردی

کہ ہم اصول واعتقاد میں امام ابوالحسن اشعری وامام ابومنصور ماتریدی کے متبع ہیں۔اس کامطلب ان کے مسلمہ کے مطابق یہ عقائد اصول میں امام اشعری وامام ماتریدی کے’’مقلد‘‘ ہی ہیں چونکہ اتباع وتقلید میں ان کے ہاں کوئی فرق نہیں بلکہ فرق ثابت کرنا کم فہمی ہے۔

عقائد میں تقلید باطل وناجائز

:اب سنئے کہ ’اصول وعقائد‘‘ میں تقلید توخود مقلدین دیوبند کے ہاں بھی باطل وناجائز اورغلط ہے،صحیح نہیں، تفصیل ملاحظہ کیجئے

:سرفراز خان صفدر صاحب نے لکھا

’’الکلام المفید …جس میں ٹھوس اورصریح حوالوں سے قرآن وحدیث کے مقابلہ میں تقلید کی قطعی حرمت، حضرات ائمہ مجتہدین کے معصوم عن الخطا ہونے کی واضح دلائل سے تردید عقائد میں تقلید کا بطلان ….پر بفضل للہ تعالیٰ وحسن توفیقہ سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔

(الکلام المفید ،اندورنی ٹائٹل پیچ)

:مزید لکھتے ہیں

یہ کہنا کہ تقلید اللہ کے دین میں صحیح نہیں، اس سے کیامراد ہے؟ اگر تو عقائد اور اصول دین میں تقلید مراد ہے توبجا ہے اسی طرح اگرنصوص اور احادیث صحیحہ کے مقابلہ میں تقلید مراد ہے تب بھی صحیح ہے یہ ممنوع ہے اور یہ بات محل نزاع سے بالکل خارج ہے۔

(الکلام المفید ،ص:۳۳)

:مزید لکھتے ہیں

اصول دین عقائد اور منصوص احکام میں نہ تو اجتہاد جائز ہے اور نہ صرف تقلید ائمہ کرام پر اکتفاء درست ہے۔(الکلام المفید ،ص:۱۷۲)

سرفراز صاحب کی ان عبارات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ مقلدین کے ہاں عقائد میں تقلید باطل، ناجائز اور اللہ کےدین میں صحیح نہیں۔

 2ان کے ’’شیخ الاسلام ،مفتی‘‘محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:

دین کے بنیادی عقائد میں تقلید نہیں ہوسکتی۔

(تقلید کی شرعی حیثیت ،ص:۱۲۰)

:مزید فرماتے ہیں

’’پوپ‘‘ کوعقائد کے معاملہ میں بھی ایسا فرمان جاری کرنے کامکمل اختیار ہے جو تمام اہل عقیدہ پرنافذ ہو،اور پیچھے بیان کیاجاچکا ہے کہ ائمہ مجتہدین کے مقلد حضرات عقائد میں تقلید کے قائل نہیں۔

(تقلید کی شرعی حیثیت،ص:۱۲۵)

:مزید فرماتے ہیں

تقلید کے خلاف حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد بھی عموما پیش کیاجاتاہے

لایقلدن رجل رجلا دینہ ان امن امن وان کفر کفر.

کوئی شخص اپنے دین میں کسی دوسرے شخص کی اس طرح تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تویہ بھی ایمان لائے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے۔

لیکن سوال یہ کہ ایسی تقلید کو کون جائز کہتاہے؟ ….ہم باربار عرض کرچکے ہیں کہ ایمانیات میں تقلید ہمارے نزدیک بھی درست نہیں۔

(تقلید کی شرعی حیثیت ،ص:۱۲۶مطبوع مکتبہ دار العلوم کراچی)

تقی عثمانی صاحب کے ان فرمودات سے واضح ہے کہ عقائد میں تقلید کرسچن کرتے ہیں۔ ’’پوپ‘‘ کی اور عقیدہ میں ایمانیات میں تقلید کو کوئی جائز نہیں کہتا اور مقلدین حضرات بھی عقائد میں تقلید کے قائل نہیں۔

:خود گھمن صاحب نے اسی کتاب میں’’چند اصولی باتیں‘‘ کےعنوان سے لکھا

’’جیسے غیرمنصوص مسائل میں عامی کے لئے اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا ضروری ہے ویسے عقائد میں تقلید ضروری نہیں۔‘‘

(المہند اوراعتراضات ،ص:۲۴)

گھمن صاحب نے بات گھمانے کی کوشش کی اور کہہ دیا کہ’’عقائد میں تقلید ضروری نہیں، حالانکہ ان کے بزرگوں نے ناجائزقرار دیا بلکہ ان کے ’’امام اہل سنت‘‘ نے توعقائد میں تقلید کابطلان ،ظاہر کیا اور لکھا: تقلید اللہ کے دین میں صحیح نہیں سے مراد اگر عقائد میں تقلید ہے تو یہ بات بجا ہے اور ان کے ’’شیخ الاسلام ‘‘ صاحب کی تحریر کے مطابق عقائد میں تقلید نصاری کا عمل ہے ،لیکن گھمن صاحب نےکہہ دیا کہ ’’ضروری نہیں‘‘ گویا گنجائش ہے۔

بہرحال عقائد میں تقلید اکابردیوبندکے ہاں بھی ناجائز ہےاور تقلید واتباع ایک ہی چیز ہیں ان کے درمیان فرق کرنا کم فہمی وغلط ہے پھر المھند میں ان کے بزرگوں کامتفقہ فیصلہ ہے کہ اصول وعقائد میں دیوبندی امام ابوالحسن اشعری وامام ابومنصور ماتریدی کےمتبع ہیں… ان کے اپنے اصول کے مطابق مقلدہی ہیں۔گھمن صاحب اور تمام احباب دیوبند سرجوڑ کربیٹھیں اور اس واضح اورکھلے تعارض ،تناقض اورتضاد کا جواب سوچیں کہ جب تقلید واتباع میں فرق نہیں اور عقائدواصول میں تقلید جائز نہیں تو اتباع بھی جائز نہیں پھر ہمارے اکابر اصول وعقائد میں اشعری ماتریدی مقلد کیسے بن گئے؟؟؟

نظریات ومسلمات کی قربانی اور انہیں تبدیل کئے بغیر اس تعارض وتضاد کا جواب قطعا نہیں دے سکتے، کبھی نہیں دے سکتے جب تک کہ مسلمات کاانکار نہ کر بیٹھیں ،آزمائش شرط ہے۔

(۱۳) گھمن :علمائے دیوبند کا یہ خاص وصف ہے کہ وہ کسی حال میں قرآن وسنت کے خلاف کسی کی بات تسلیم نہیں کرتے ،جان تو دے سکتےہیں …(ص:۲۳)(المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ،ص:21)

جواب:اگرواقعی ایسا ہے تو یہی دین کامطلوب ومقصود ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن وسنت کےمقابلے میں بعض اہل علم کے اقوال پیش کرکے اپنی بات پراڑجاتے ہیں۔

(۱۴) گھمن :علمائے دیوبندکے عقائد اور مسلکی رخ کی وضاحت کے لئے ہم تجویز کرتے ہیںکہ درج ذیل کتب…ــ’’مسلک علماء دیوبند‘‘ (از) قاری محمد طیب a،’’علماء دیوبند کادینی رخ اور مسلکی مزاج‘‘ قاری محمد طیب….’’المھند علی المفند‘‘ …..خلاصہ المہند مفتی عبدالشکور ترمذی۔ (ص:۲۳)

جواب: چلئے آپ کی تجویز پرکسی حد تک عمل کرتے ہوئے مؤخر الذکر دونوں کتب’’المہند‘‘ و’’خلاصہ المہند‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں رخ واضح ہوجائیگا،ان شاءاللہ

(۱۵) گھمن :’’چنداصولی باتیں‘‘ علمائے دیوبندپر جو الزامات نصیب شاہ نے لگائے ہیں ان کامفصل جواب آگے آرہا ہے مگر یہاں مقدمہ میں چنداصولی باتیں درج کی جاتی ہیں۔(ص:۲۳)

جواب:مشہور مقولہ ہےکہ’’المرء یقیس علی نفسہ‘‘ سوآپ بھی شیخ نصیب شاہ صاحب حفظہ اللہ کوبھی خود پرباطل طورقیاس کررہے ہیں ،گھمن صاحب! ’’الزامات‘‘ شاہ صاحب نےنہیں لگائے البتہ آپ نے اپنی اس کتاب کا آغاز ہی’’الزامات‘‘ سے کیاتویہ طریقۂ سیئہ آپ ہی کو مبارک ۔

(۱۶) گھمن :ہمارے عقائد کااصل ماخذ قرآن وسنت ہیں قرآن وسنت کے خلاف کسی عقیدے کوعلمائے دیوبند نہیں مانتے۔

(ص:۲۳)

جواب:یہ بات ص:۲۲پر بھی،ص:۲۳ پر ہی اس سے پہلے بھی لکھی ہے ،اس کے متعلق ہم اپنی معروضات عرض کرچکے ،تکرار کی احتیاج نہیں۔

(۱۷) گھمن :قرآن وسنت کاجو مفہوم صحابہ کرام yتابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین Sنے سمجھا وہی صحیح اور درست ہے اس کے خلاف اگر کوئی شخص اور مطلب بیان کرے تو ہم تسلیم نہیں کرتے۔(ص:۲۳)

جواب:اگربات آیت کی تفسیر کی ہے تو مرفوع کے بعد تفسیر صحابی رضی اللہ عنہ کا ایک مقام ہے لیکن نصوص کےبارے میں اپنے بزرگوں کی سنیں وہ کیافرماتے ہیں

:نصوص کوظاہر پر محمول کیاجائےگا

:علامہ محمد طاہر الحنفی کی عبارت نقل کرتے ہوئے سرفراز خان صاحب نےلکھا

علامہ محمد طاہر الحنفی لکھتےہیں: النصوص علی ظواھرھا والعدول عنھا الی معان باطن الحاد

(مجمع البحار۳؍۵۳۰)

نصوص کو ظاہر پرحمل کیاجائے گا اور ظواہر سے باطنی معانی کی طرف عدول کرنا الحاد ہے۔(بحوالہ ازالۃ الریب ،ص:۲۳۴)

:علامہ سعد الدین التفتازانی فرماتے ہیں

والنصوص من الکتاب والسنۃ تحمل علی ظواھرہا ما لم یصرف عنھا دلیل قطعی.

(شرح الاعتقاد ،ص:۳۸۷،مطبوع مکتبہ البشری،کراچی)

کتاب وسنت کی نصوص کو اپنے ظاہر پر محمول کیاجائے گا جب تک کوئی دلیل قطعی اسے اس معنی سے نہ پھیرے۔

:سرفراز خان صفدر صاحب اس اصول کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

قرآن کریم اور سنت کی نصوص کو اپنے ظاہر پرحمل کیاجائے گا جب تک کہ کوئی قطعی دلیل اس سے مانع نہ ہو۔

(اتمام البرھان م،ص:۲۲۵)

اس اصول سے ثابت ہوا کہ نصوص کو بنادلیل قطعی اس کے اس اصل معنی سے نہیں پھیراجاسکتا۔

:محمدسرفراز خان صفدر صاحب نے صحیح حدیث کے مقابلہ میں اہل علم کی باتیں پیش کرنے والوں سے مخاطب ہوئےفرمایا

ان کا باربار علماء کی عبارات نقل کرنا کہ فلاں فرماتے ہیں کہ آپ کا سایہ نہ تھا اور فلاں فرماتے ہیں کہ آپ کا سایہ نہ تھا تو یہ بالکل بے سود ہے کیونکہ مثلاانہوں نے اگر دس بزرگوں کے نام لے کر ان کی عبارات اس مضمون پر نقل کی ہیں کہ آپ کا سایہ نہ تھا تو ہم کہتے ہیں کہ گر وہ بجائے دس کے دس ہزار بزرگوں کی عبارات بھی پیش کردیں تو اس سے کچھ نہیں بنتا کیونکہ مسند مرفوع اور صحیح حدیث کےمقابلہ میں دس ہزار تو کیا دس لاکھ بلکہ دس ارب وکھرب حضرات کی بات بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی کیونکہ علمی قاعدہ تو یہ ہے ’’کل احد یؤخذ عنہ ویترک الارسول اللہ ﷺ‘‘ (اتمام البرھان فی رد توضیح البیان،ص:۳۸)

اب یہ بھی سنتے چلئے کہ سرفراز صاحب کے مخاطب بریلویہ کے’’مفسر قرآن شارح حدیث، محدث وعلامہ ‘‘غلام رسول سعیدی صاحب نے اس مسئلہ پر سرفراز صاحب کوکون کون سے بزرگ کی عبارات کس کس کتاب سے پیش کی تھیں ،ملاحظہ کیجئے:

(۱)شیخ ابراھیم لکھتے ہیں:………(المواہب اللد نیہ شرح شمائل محمدیہ)

(۲)علامہ زرقانی:………(زرقانی شرح مواہب)

(۳)قاضی عیاض مالکی:………(الشفاء)

(۴)شہاب الدین خفاجی :………(نسیم الریاض)

(۵)شیخ عبدالحق محدث دہلوی:………(مدارج النبوۃ)

(۶)شاہ عبدالعزیز:………(تفسیر عزیزی)

(۷)ابن المبارک ،ابن الجوزی بحوالہ:………

(المواہب وشرح مواہب)

(۸)علامہ سیوطی:………

(بحوالہ عزیز الفتاوی ،عزیز الرحمن مفتی دار العلوم دیوبند)

(۹)رشید احمد گنگوہی صاحب:………(امداد السلوک)

(۱۰)اشرف علی تھانوی:………(شکر النعمہ)

(دیکھئے:توضیح البیان از سعیدی ،ص:۲۱۳تا۲۱۶مطبوعہ حامد کمپنی لاہور)

یہ وہی بزرگ اور وہی کتب ہیں جن کے حوالے علماء دیوبند حتی کہ خود سرفراز خان صفدر صاحب بھی اپنے مخصوص عقائد توسل بالذوات، سماعِ موتیٰ، قبروں سے فیض، شدرحال، استشفاع عند القبر، افضلیت بقعہ وغیرھا، میں بکثرت پیش فرماتے ہیں، لیکن اس مقام پر سرفراز صاحب نے یہ نہیں کہا کہ’’حدیث صحیح‘‘ اپنی جگہ لیکن ان بزرگوں نے جوبات بیان کی تو یہ قرآن وحدیث کا مفہوم زیادہ سمجھتے ہیں لہذا ہم یہ عقیدہ تسلیم کرلیتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا سایہ نہیں تھا۔

ایساقطعاً نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ’’صحیح حدیث کےمقابلہ میں دس ہزار توکیا دس لاکھ ،دس ارب وکھرب حضرات کی بات بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اور پھر اس کی وجہ کیا بیان فرمائی کہ ’’علمی قاعدہ تو یہ ہے کہ’’ہر ایک کی بات لی بھی جاسکتی ہے اور چھوڑی بھی جاسکتی ہے سوائے رسول اللہ ﷺ کے‘‘ کیونکہ ان کی اطاعت واتباع اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے تو ان کی بات ترک نہیں کی جاسکتی ۔ اب مزید سنئے اس کتاب میں سرفراز صاحب نے لکھا:

nہم یہاں حضرت شاہ(ولی اللہ) صاحب ہی کی چند عبارات باحوالہ عرض کرتے ہیں تاکہ بات بالکل عیاں ہوجائے۔

(فرماتے ہیں)

والمیزان فی معرفۃ الخیر والشر الکتاب علی تاویلہ الصریح ومعروف السنۃ لااجتہاد العلماء ولااقوال الصوفیۃ.(تفہیمات الٰھیہ ۲؍۲۰۲)

خیراورشر کی شناخت کی ترازوقرآن کریم ہے جو اپنی صریح تعبیر پر مشتمل ہو اورمشہور حدیث ہے نہ کہ حضرات علماء کرام کا اجتہاد اور نہ حضرات صوفیاء کورام کے اقوال۔

:نیز تحریر فرماتے ہیں

اما عقیدہ وشرع بجز از حدیث پیغمبر ﷺ نتواں گرفت

(ایضا :۲؍۲۴۵)

بہرحال عقیدہ اور شریعت توآنحضرت ﷺ کی حدیث کے بغیر نہیں حاصل کئے جاسکتے۔

حضرت شاہ صاحب کی یہ عبارات بالکل واضح ہیں مزید کسی تشریح کی حاجت نہیں ہے ان عبارات کی روشنی میں عقائد وشرائع کے بارے میں ایک دونہیں علمائے کرام اور صوفیاء عظام کے سینکڑوں اقوال وعبارات بھی پیش کی جائیں تولاحاصل ہیں وہ خود قابل تاویل ہوں گی اس لئے مؤلف مذکور اور ان کے دوستوں کے اس سلسلہ میں ایسے اقوال وعبارات سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔(اتمام البرھان ،ص:۱۵۵)

 گھمن  صاحب!غور سے دیکھ لیں دین کااصول ومعیار قرآن وحدیث ہیں نہ کہ اہل علم کا اجتہاداورصوفیاء کےاقوال، آپ نے علماء کے اقوال سے جو اپنے عقائدثابت کرنے کی کوشش کی ہے آپ کی یہ محنت عبث ورائیگاں ہے تاوقتکہ اپنے عقائد قرآن وحدیث کے ’’میزان‘‘ پرثابت نہ کردیں۔

مدعی کافیصلہ:

گھمن صاحب اس ’’اصول‘‘ سے ناواقف نہیں ہیں چونکہ بلاحوالہ اپنے’’امام اہلسنت‘‘ سرفراز خان کی کتاب ’’گلدستہ توحید‘‘ ،ص:۱۱۴سے نقل مارتے ہوئے لکھا:

بعض لوگوں نے اپنے دعویٰ پر بعض بزرگان دین کے غیرمعصوم اقوال پیش کئے ہیںجو عشقیہ طور پر انہوں نے کہے ہیں جو خود قابل تاویل ہیں نہ یہ کہ نصوص قطعیہ کے مقابلہ میں وہ صحیح ہیں اور بعض معجزات وکرامات ہیں جو محل نزاع نہیں، الغرض غیر متعلق دلائل سے استدلال واحتجاج اور غیرمعصوم آراء واقوال سے اثبات عقائد مفتی احمد یار خان (نعیمی بریلوی)صاحب اور ان کے ہم مشرب رفقاء کو ہی زیب دیتا ہے یہ انہی کی ہمت ہے۔

(فرقہ بریلویہ ،پاک وہند کا تحقیقی جائزہ، ص:۳۳۵،مطبوع مکتبہ اہل سنت سرگودھا)

گھمن صاحب اگر آپ مفتی احمدیارخان بریلوی صاحب کے ہم مشرب نہیں توغیر متعلقہ روایت سے استدلال کریں گے نہ ہی غیر معصوم آراء واقوال پیش کریں گے۔

(۱۸) گھمن :ہمارے وہی عقائد ہیں جو اہل السنۃ والجماعت کے عقائد ہیں اگر کوئی ہماری طرف اپنے عقیدے کی نسبت کرے جو اہل السنۃوالجماعت سےثابت نہیں تو وہ مردود ہے،ہمارا عقیدہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔(ص:۲۳)

جواب: اگر کوئی عقیدہ جو آپ کے اکابر کی کتب سے ظاہر ہوتا ہےاس کا بیان کرنا ،ظاہر کرنا نسبت کرنا درست ہی ہوگا مردود نہیں۔

(۱۹) گھمن :عقائد میں تقلیدکرنا ضروری نہیں ہوتی۔

(ص:۲۴)

جواب: ضروری نہیں ہوتی،نہ کہئے کیونکہ آ پ کے بزرگ واضح کرچکے ہیں کہ عقائد میں تقلید باطل ہے اور جائز نہیں جیسا کہ نمبر(۱۱)کے تحت ہم باحوالہ نقل کر آئے ہیں اور یہ جو آپ نے ’’تقریبا‘‘ لکھا ،کیا مطلب؟ کیا آپ کے بعض عقائد غیرمنصوص بھی ہیں؟ اگر ہاں کہیں تو بتائیے ’’غیرمنصوص‘‘ مطلب جس بات کی کوئی قرآن وحدیث میں نص ہی نہیں وہ آپ کا عقیدہ کیسے بن گئی؟ جبکہ آپ کے بزرگ لکھ گئے ہیں کہ ’’عقیدہ وشریعت سوائے قرآن وحدیث کے ثابت نہیں ہوسکتے‘‘ اور اگر آپ کا جواب نہ میں ہو تو پھر اپنے جملہ کی تصحیح کرتے ہوئے ’’تقریبا‘‘ کا لفظ نکال دیں۔

(۲۰) گھمن :جب بھی دنیا میں باطل فرقوں نے عقائد کے حوالہ سے فساد برپا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اہل حق میں بھی ایسے افراد کو پیدا کیا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت سے ثابت شدہ صحیح عقائد کی حفاظت فرمائی۔(ص:۲۴)

جواب:اس بات سے توہمیں اختلاف نہیں تاہم ’’صحیح عقائد‘‘ وہی ہوں گے جو قرآن وسنت سے ثابت شدہ ہوں گے اور جوثابت نہیں ہوں گے وہ’’صحیح عقائد‘‘ نہیں ہوں گے۔

(۲۱) گھمن :اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لئے دو شخصیتیں پیدافرمائیں جنہوں نے ان باطل فرقوں کی سرکوبی فرمائی۔(ص:۲۴)

جواب: اس کے بعد گھمن صاحب نے اپنےامام ابوالحسن اشعری وامام ابوالمنصور ماتریدی کاتعارف پیش فرمادیا ،ص:۲۵تک۔ ان کے عقائد کی حقیقت جاننے کےلئے دکتور شمس الدین افغانیaکی مایہ ناز کتاب’’الماتریدیۃ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔

پھر ص:۲۶تا۲۷’’عقائد پر چند کتب کاتعارف کروایا ہے۔

(۲۲) گھمن :ضروری نوٹ:العقیدہ الطحاویہ کی ایک شرح عربی زبان میں قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی سے ابن ابی العز حنفی کے نام سے شائع ہوئی ہے،غیرمقلدین نے اس کو اپنے تقریبا تمام مشہور مدارس میں داخل نصاب کیاہواہے…یہ عربی شرح اور اس کاترجمہ درست نہیں ہے اس میں اہل سنت والجماعۃ کے عقائد کی ترجمانی نہیں کی گئی بلکہ غیر مقلدین کے عقائد کی ترجمانی کی گئی ہے اور اہل سنت کے عقائد کا رد کیاگیا ہے۔ اس شرح کے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے مولانا سجاد ابن الحجابی کا مقالہ ’’شرح العقیدہ ابن ابی العز پر ایک تحقیقی نظر‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔(ص:۲۷تا۲۸)

جواب: یہ علامہ ابن ابی العزالحنفی رحمہ اللہ کی شرح ہےجو عرب کی یونیورسٹیز میں بھی داخل نصاب ہے، الحمدللہ ،یہ ایک عمدہ شرح ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ محدثین کےعقائد کی ترجمان ہے، ایسا نہیں کہ ابن ابی العزaکےنام سے شائع کردی گئی بلکہ انہی کی ہے، الیاس گھمن نے ابن الحجابی کے جس’’مقالہ‘‘ کا حوالہ دیا ہے جو دیوبندی مقلدین کے’’وفاق المدارس‘‘ کے ترجمان’’ماہنامہ وفاق المدارس‘‘ ملتان کے شمارہ :ربیع الاول ۱۴۳۹ھ میں شائع ہوا ،اگر خود ہی اس کا مطالعہ کیا ہے تو اس کے شروع میں مدیر کی طرف سے لکھا:’’ادارتی نوٹ‘‘ بھی دیکھاہوگاجس میں لکھا ہے:

امام طحاوی رحمہ اللہ نے ’’عقیدہ طحاویہ‘‘ کے نام سے دین اسلام کے اہم اور بنیادی عقائد پر مشتمل ایک رسالہ لکھا ہے جو صدیوں سے بڑا مقبول اور متداول رہا ہے، آٹھویں صدی کے مشہور حنفی عالم ابن ابی العز نے اس کی شرح لکھی جو’’شرح عقیدہ طحاویہ‘‘ کےنام سے معروف ہے۔(شرح العقیدہ الطحاویہ ابن ابی العز پر ایک تحقیقی نظر،ص:۱)

:اسی طرح سجاد بن الحجابی صاحب نے لکھا

محققین علماء نے اس کی شروحات لکھیں، ان میںآج کل متداول شرح ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ کی قابل ذکر ہے ،پاکستان بلکہ دنیائے عرب کے بیشتر مطابع نے اسے چھاپاہے۔(شرح…تحقیقی نظر،ص:۲)

:مزید سنئے ابن الحجابی صاحب نے لکھا

ملا علی قاری رحمہ اللہ نےتو شرح الفقہ الاکبر میں متعدد جگہوں پر ابن ابی العز پر تنقید کی۔(شرح…تحقیقی نظر،ص:۴)

دس صفحات کے اس مضمون میں دیگر اہل علم کے بھی ایسے اقوال ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ امام ابن ابی العزرحمہ اللہ کی شرح ہے، مقلدین دیوبند کے ناراضگی کی وجہ یہ ہےکہ ان کی کلامی موشگافیوں کے خلاف مواد پر مشتمل ہے،پھر گھمن صاحب پر تعجب ہے کہ ایک طرف تو ان کے بزرگ یہ تاثر دیتے پھرتے ہیں کہ اہل حدیث ایک جدید فرقہ ہے ۱۸۵۷ء ۱۸۵۷ءکی رٹ لگاتے ہیں دوسری طرف آٹھویں صدی ہجری کے عالم کی کتاب کو ’’غیرمقلدین‘‘ کے عقائد کی ترجمانی کا نام دے رہے ہیں ،درحقیقت یہی سلف صالحین کے عقائد ہیں جو نصوص قرآن وسنت سے ثابت ہیں۔

گھمن صاحب نے آگے،ص:۳۱تک علماءدیوبند کی (۳۲) کتب کی فہرست دی ہے۔

(۲۳) گھمن :علامہ محمدزاہد الکوثری الحنفی ۱۳۷۱ھ……انہوں نے اہل السنہ کے عقائد کے تحفظ کےلئے بے پناہ خدمت سرانجام دیں……عقائد کی مشہور کتابوں پرتعلیقات وحواشی تحریر فرمائے، اس کے علاوہ خود بھی بہت سی تالیفات فرمائیں، حضرت کی تمام کتابیں احناف کےلئے ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتی ہیں خصوصا درج ذیل کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے، (۲۹)المقالات الکوثری……(۳۰)مقدمات کوثری……(۳۱)تعلیقات وحواشی کتب الاسماء والصفات امام بیہقی (۳۲)تعلیقات وحواشی دفع الشبیہ والرد علی المجسمۃ……خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔(ص:۳۱)

جواب: کوثری صاحب کی اتنی تعریف صرف اس لئے کی جاتی ہے کہ یہ اکثر علماء دیوبند کی طرح فقہ حنفی میں بہت زیادہ متعصب ومتشدد ہیں، بس اسی سبب علماء دیوبند ان کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان اور غلو کے مرتکب ہوتے ہیں ،وگرنہ ان کے بعض عقائد علماء دیوبند کے بھی خلاف ہیں، استاذ محترم الشیخ  ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں

علامہ محمد زاہدالکوثری المتوفی ۱۳۷۱ھ اہل علم کے ہاںمحتاج تعارف نہیں، انہیں بالخصوص حنفی دیوبندی مکتب فکر میں بڑی پذیرائی حاصل ہے، اس لئے کہ انہوں نے ماضی قریب میں امام ابوحنیفہ اور حنفی نقطہ نظر کا بھرپور دفاع کیا ہے،موصوف عقائد میں ماتریدی بلکہ جہمی تھے اس لئے فروع میں ہی نہیں بلکہ اصولی مسائل میں بھی انہوں نے اپنے موقف کی جس انداز سے ترجمانی کی اس کی نظیر ماضی میں علمائے احناف میں شاید تلاش بسیار کے بعد بھی نہ مل سکے۔غالبا وہ پہلی ذات شریف ہے جس نےامام ابن خزیمہ کی’’کتاب التوحید‘‘ جسے خود انہوں نے صحیح ابن خزیمہ کاحصہ قرار دیا ہے (مقالات کوثری ،ص:۲۵۰)کتا ب الشرک قراردیا،(مقالات ،ص:۴۰۹،التانیب ،ص:۲۹) امام احمد بن حنبل کے بیٹے امام عبداللہ کی ’’کتاب السنۃ‘‘ کو’’کتاب الزیغ‘‘ (مقالات، ص:۳۲۴)اور امام عثمان بن سعید الدارمی المتوفی ۲۸۰ھ کی’’الرد علی الجھمیہ‘‘ اور ’’الرد علی بشر المریسی‘‘ کو کتاب الکفر والوثنیہ‘‘قراردیا ہے۔

(مقالات،ص:۳۰۰)

غور کیجئے امام ابن خزیمہ ،امام عبداللہ بن احمد اور امام عثمان بن سعید الدارمی جن کے علم وفضل ،امانت ودیانت، حفظ وضبط اور توثیق وتعدیل پر تمام محدثین کا اتفاق ہے اگر وہی شرک وبت پرستی، کفر وگمراہی کے معاذاللہ علمبردارہیں تو بتلائیے توحید وسنت کا داعی کون ہے؟ اسی طرح ’’شیخ الاسلام بن تیمیہ اور ان کے تلمیذ رشید امام ابن قیم کے بارے میں جو کچھ انہوں نے مقالات اورتبدیل الظلام اور الاشفاق میں کہا اس کی داستان طویل ہے حتی کہ انہیں بدعتی، کذاب، کافر، جاہل،غبی، ضال مضل، خارجی ،زندیق ،قلیل الدین والعقل تک لکھا مارا۔(مقالات ارشاد الحق اثری:۱؍۱۶۲)

جبکہ سرفرازخان صفدر صاحب نے لکھ:ا

اکثر اہل بدعت حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی رفیع شان میں بہت سی گستاخی کیاکرتےہیں مگرحضرت ملاعلی قاری الحنفی ان کی تعریف ان الفاظ سےکرتے ہیں

کان من اکابر اھل السنۃ والجماعۃ ومن اولیاء ہذہ الامۃ (جمع الوسائل ۱؍۲۰۸،طبع مصر)

حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم دونوں اہل سنت والجماعہ کے اکابر میں اور اس امت کے اولیاء میں تھے۔

اور حافظ ابن قیم کی تعریف کرتے کرتے امام جلال الدین سیوطی المتوفی ۹۱۱ھ پھولےنہیں سماتے۔(بغیۃ الوعاۃ) (راہ سنت ،ص:۱۸۷)

یہ ہے امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہ  اللہ کا مقام کہ وہ امت کے اولیاء اور اہل السنہ کے اکابر میں سے ہیں اب انہیں کافر وملحد اور زندیق بلکہ محدثین میں سے صاحب السنن امام دارمی وامام احمد بن حنبل کےبیٹے جلیل القدر محدث امام عبداللہ رحمہ اللہ پر شرک وکفر کا الزام لگانے والے ان کی کتب کو ’’وثنیت‘‘ بت پرستی سے متہم کرنے والے’’کوثری‘‘ صاحب کی کتب ان دیوبندیوں کے لئے’’ریڑھ کی ہڈی‘‘ کا مقام رکھتی ہوں توانہیں خود ہی اپنی فکر ورخ کااندازہ لگانالیناچاہئے کہ وہ کس راستے پر چل پڑے ہیں۔ باقی کوثری عقائد، اصول،معمولات وعلمی روش کی تفصیل کے لئے علامہ عبدالرحمٰن المعلمی محدث یمانی رحمہ اللہ کی عمدہ تالیف ’’التنکیل ……‘‘اور بیانی تلبیس المفتری ازغماری نیز’’مقالات ‘‘از محدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ج ۱ص:۱۶۲تا۲۱۰تک ملاحظہ کیجئے۔

الحمدللہ استاذ گرامی نےاپنے مضمون ’’علامہ کوثری کے بدعتی افکار علمائے دیوبند کے لئے لمحہ فکریہ ‘‘میں قدرے تفصیل سے وضاحت کی جو ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘لاہور میں جولائی ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا۔اس مضمون کے جواب میں سرفراز خان صفدر صاحب کے بیٹے ’’عبدالقدوس خان قارن صاحب نے اپنےماہنامہ’’نصرۃ العلوم‘‘ گجرانوالہ میں جون ۱۹۹۷ء میں جوابی مضمون لکھا تو استاذ گرامی نے اس کا جواب الجواب ’’علامہ کوثری کے بدعتی افکار کے دفاع کا علمی جائزہ‘‘ ہفت روزہ الاعتصام میں شائع کروایااور اب یہ ان کے مقالات کاحصہ ہیں۔

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *