Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » July Magazine » بدیع التفاسیر (اٹھارویں فصل:)

بدیع التفاسیر (اٹھارویں فصل:)

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

اٹھارویں فصل:

نسخ کےبیان میں

اس مسئلہ کے بارے میں الاتقان للسیوطی ،ص:۲۰تا۲۷نوع ۲۷ ج:۲میں تفصیلی بحث موجود ہے جسے یہاں اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے،سیوطیa لکھتے ہیں:

اس باب میں کئی علماء کی تصانیف موجود ہیں،جن میں سے چند قابل ذکر یہ ہیں۔

امام ابوعبید القاسم بن سلام،امام ابوداؤد سجستانی ابوجعفرالنحاس، ابن الانباری مکی، ابن العربی اوران کے علاوہ بھی کئی علماء ہیں جنہوں نے اس باب میںلکھا ہے۔

ائمہ دین کہتےہیں کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ناسخ منسوخ کی معرفت کےبغیرقرآن مجید کی تفسیر کرے، امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ نے ایک قصاص (قصے بیان کرنے والے،واعظ وخطیب) سےپوچھا کہ تجھے ناسخ ومنسوخ کا علم ہے؟ اس نے جواب دیا کہ :نہیں،آپ نے فرمایا پھر تم خود بھی ہلاک ہوتے ہو اور دوسروں کو بھی ہلاک کرتے ہو۔(اخرجہ ابوداؤد عن النحاس کلاھما فی الناسخ والمنسوخ والبیھقی فی سننہ ۱۰؍۱۱۷،ابوخیثمہ فی العلم ۱؍۳۱،رقم:۱۳۰الدر المنثور ۱؍۱۶۰)

مسئلہ1:نسخ کے دوتین معانی ہیں:(۱)کسی چیز کو ضایع کرنا، جیسے:[فَيَنْسَخُ اللہُ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللہُ اٰيٰتِہٖ۝۰ۭ] (الحج:۵۲)

(۲)بمعنی مٹانا(تبدیل کرنا) جیسے:[وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰيَۃً مَّكَانَ اٰيَۃٍ۝۰ۙ](النحل:۱۰۱)

(۳)لوٹانا جیسے میراث میںتناسخ ہوتا ہے یعنی کسی وارث کا اپنا حصہ لینے سے پہلے فوت ہوجانا پھر اس کے حصے کو اس کے ورثاء کی طرف لوٹاتے ہیں۔

(۴)کسی چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا۔

(۵)کسی کتاب کو بعینہ نقل کرنے کو بھی نسخ کہتے ہیں، جیسے: نسخت الکتاب ،مگر یہ قسم قرآن کے لئے استعمال نہیں ہوتی کیونکہ ناسخ اور منسوخ میں الفاظ الگ الگ ہوتے ہیں اور نقل کرنےکی صورت میں الفاظ بھی وہی ہوتے ہیں۔

مسئلہ2:نسخ کاقانون اللہ تعالیٰ نے اس امت پر آسانی فرماتے ہوئے عطاکیا ہے اور تمام مسلمان نسخ کو جائز قرار دیتے ہیں،مگر اختلاف صرف اس انداز میں ہے کہ بعض کا خیال ہے کہ قرآن کا نسخ صرف قرآن ہی سے ہوسکتا ہے جیسے قرآن میں ہے:[مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا۝۰ۭ ](البقرہ:۱۰۶)

اورظاہر ہے کہ قرآن مجیدکامثل یا اس سے زیادہ توقرآن ہی ہوسکتا ہے، دوسرے علماء کہتے ہیں کہ حدیث بھی وحی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے اس لئے اس سے بھی نسخ جائز ہے۔

اس بارے میںامام شافعی رحمہ اللہ نے ایک بہترین قاعدہ سمجھایا ہے کہ:جوبھی قرآنی حکم جس حدیث سے منسوخ ہوتا ہے اس حدیث کی تائید خود قرآن مجید میں ہوتی ہے،اور اگر کسی حدیث کاحکم کسی قرآنی آیت سے منسوخ ہوتا ہے تو اس آیت کا شاہد خود حدیث میں موجود ہوتا ہے، اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ قرآن وحدیث ایک دوسرے کے موافق ہیں مخالف نہیں،اس مسئلہ کو امام ابن حزم نے اپنی کتاب’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘میں بڑی تفصیل وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔

مسئلہ3نسخ کاحکم صرف امرونہی میں جاری ہوتا ہے اگرچہ جملہ خبریہ ہو مگر اس میں طلب کامعنی ضرور موجود ہو ورنہ اس پر نسخ کاحکم جاری نہیں ہوگا،اس قاعدہ سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جوکئی آیات پر نسخ کاحکم لگاتے رہتےہیں جن میں سے اکثرخبروں ،وعد ووعید پر مشتمل ہوتی ہیں بمعنی امرونہی نہیں ہوتیں۔

مسئلہ4نسخ کی چنداقسام ہیں:(۱)کسی حکم پر عمل کرنے سے پہلے اس کامنسوخ ہونا اس کی مثال آیۃ النجویٰ ہے جیسا کہ سورہ مجادلہ کے دوسرے رکوع کی تفسیر میں ذکرہوگا۔ان شاءاللہ

(۲)رسول اللہ ﷺ سے پہلے کی شریعتوں میں سے کسی حکم کا منسوخ ہوناجیسے قصاص وغیرہ کاعیسوی شریعت میں منسوخ ہونا یا ماہ رمضان کےر وزوں کی فرضیت کے بعد عاشوراء کے روزوں کی فرضیت کامنسوخ ہونا۔

(۳)وہ حکم جوکسی خاص سبب کی وجہ سے ہواس سبب کے زائل ہونے پر اس کامنسوخ ہونامثلا:ابتداءً مسلمانوں کوقلت تعداد وکمزوری کی وجہ سے درگزر کرنے کاحکم ،لیکن جب ان کی جماعت بڑھ گئی اور قوت حاصل ہوگئی تو انہیں جہادولڑائی کرنےکاحکم دیاگیا ،لیکن یہ قسم درحقیقت نسخ نہیں ہے بلکہ اسے نسأ  کہاجاتا ہے یعنی کسی سبب یا مانع کی وجہ سے کچھ وقت کے لئے کسی حکم کامؤخر کیاجانا جیسے قتال کے حکم کو ضعف کے سبب مؤخر کیاگیا جب یہ سبب دورہوگیا توپھر اس کاحکم دیدیاگیا اسے نسخ نہیں کہا جاتا کیونکہ نسخ کہ وجہ سے حکم زائل ہوجاتا ہے اس پرعمل کرناجائز نہیں ہوتا ،لیکن نسأ میں کسی خاص سبب کی وجہ سے ایک مقررہ مدت تک ایک حکم دیاجاتا ہے مثلاً:[فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ](البقرۃ:۱۰۹)

مسئلہ5بعض علماء نے قرآن مجید کی سورتوں کوچاراقسام میں تقسیم کیا ہے:(۱)وہ سورتیں جن میں کوئی بھی آیت منسوخ نہیں ہے ان کی تعداد تینتالیس(۴۳)ہے یعنی فاتحہ،یوسف،یاسین،حجرات، الرحمٰن، حدید، صف، جمعہ،تحریم، ملک، الحاقہ، نوح، جن، مرسلات، عم، النازعات، انفطار، التطفیف،الانشقاق، البروج، الفجر اور اس کے بعد والی تمام سورتیں، علاوہ تین سورتوں والتین،العصر اور الکافرون کے۔

(۲)وہ سورتیں جن میں ناسخ ومنسوخ دونوں قسم کی آیات ہیں، وہ انیس(۱۹)ہیں:البقرہ،آل عمران، نساء، مائدہ، حج، نور، فرقان، احزاب، سبا، المؤمن، شوریٰ، الذاریات، الطور، الواقعہ، المجادلہ، المزمل، المدثر، التکویر، والعصر، امام زرکشی نے البرھان ۲؍۳۴میں اس قسم کی بتیس (۳۲) سورتیں ذکر کی ہیں ذکرکردہ سورتوں کےعلاوہ باقی تیرہ یہ ہیں: اعراف،انفال، توبہ، ابراھیم، نحل، بنی اسرائیل، مریم، طہ، المؤمنون، الانبیاء، الشعراء، محمد اور الممتحنۃ۔

(۳)وہ سورتیں جن میں ناسخ آیات تو ہیں مگر منسوخ آیت کوئی بھی نہیں ہے،ایسی ٹوٹل(چھ)سورتیں ہیں،الفتح،الحشر، المنافقون، التغابن،الطلاق، الاعلیٰ ۔

(۴)وہ سورتیں جن میںمنسوخ آیات ہیں مگر ناسخ آیت کوئی بھی نہیں ہے،ایسی چالیس سورتیں ہیں:الانعام،الاعراف،،یونس، ھود، الرعد، الحجر، النحل، بنی اسرائیل، الکھف، طہ، المؤمنون، النمل، القصص، العنکبوت، الروم ،لقمان، الم السجدہ، فاطر، الصافات، ص، الزمر، حم السجدہ، الزخرف، الدخان، الجاثیہ، الاحقاف، محمد(ﷺ)،ق، النجم، القمر،الرحمٰن، المعارج، المدثر، القیامۃ، الدھر،عبس، الطارق، التین، الکافرون۔

تنبیہ: اس مقام پر سیوطی خواہ زرکشی کی تقسیم میں اختلاف نظرآتا ہے جیسے سورۂ الرحمٰن کو پہلی اور چوتھی دونوں قسموں میں ذکرکیاگیا ہے نیز الاعراف، النحل، طہ، المؤمنون، المدثر کو دوسری اور چوتھی قسم میں درج کیا گیا ہے چونکہ یہ تعداد انہوں نے بطور تخمینہ ذکرکی ہے اس لئے اس میں غلطی ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں ہے،واللہ اعلم

سیوطی کہتے ہیں منسوخ کے بارے میں اتنی کثرت تعداد درست نہیں ہے جیسا کہ آگے بیان ہوگا۔

مسئلہ6علامہ مکی کے نزدیک ناسخ(منسوخ کرنے والے) کی چندقسمیں ہیں:

(۱)ایک فرض کاد وسرے فرض کو منسوخ کرنا کہ پہلے فرض پر عمل کرنا جائز نہ ہوجیسے زانی عورتوں کو قید رکھنے کاحکم حدزنا کے نزول سے منسوخ ہوگیا۔

(۲)ایک فرض دوسرے فرض کومنسوخ کرے مگر پہلے فرض پر عمل کرنا بھی جائز ہو،مثلاً:[كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا۝۰ۚۖ الْوَصِيَّۃُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ۝۱۸۰ۭ ](البقرۃ:۱۸۰)

اس فرضیت کومیراث کی فرضیت سےمنسوخ قراردیاگیا ہے مگر اس کے باوجود پہلے فرض یعنی وصیت کے حکم پر عمل کرناجائز ہے۔

(۳)استحبابی حکم کسی فرض کو منسوخ کردے جیسے قیام اللیل کی فرضیت کو آیت :[فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ] (المزمل:۲۰) سے منسوخ کیاگیا ہے۔

مسئلہ7علماء کرام نے قرآن مجید میں نسخ کے تین نمونے بیان کیے ہیں:

(۱)وہ آیات جن کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں بخاری ومسلم میں سیدہ عائشہ rسے روایت ہے کہ دس آیتیں نازل ہوئی تھیں جن میں سے پانچ منسوخ ہوگئیں اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بھی تلاوت کیا جاتا تھا،یعنی جن لوگوںکو ان کی منسوخیت کا علم نہیں تھا وہ ان کی تلاوت کرتے تھے ،ابوموسیٰ اشعریtفرماتےہیں پہلے وہ آیات نازل ہوئی تھیں لیکن بعد میں انہیں اٹھالیاگیا ،علامہ مکی فرماتے ہیں یہ ایسا منسوخ ہے جو غیر متلو ہے اوراس کاناسخ بھی غیر متلو ہے، ایسی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔

 (۲)ایسی آیات جن کی تلاوت منسوخ ہے لیکن حکم باقی ہے مثلا آیت رجم کی منسوخیت ،امام ابوعبید ابی بن کعب tسے روایت نقل کرتے ہیں کہ ہم سورۃ الاحزاب میں ایک عرصے تک رجم کی یہ آیت تلاوت کرتے رہے :اذا زنا الشیخ والشیخۃ فارجموھما البتۃ نکالامن اللہ واللہ عزیز حکیم .یعنی جب شادی شدہ مرد یا عورت زنا کریں تو انہیں سنگسار کردو، نیززرکشی نے البرھان ۲؍۳۵میں بحوالہ صحیح ابن حبان ابی بن کعب tسے روایت نقل کی ہے کہ سورۃ الاحزاب توازی سورۃ النور فکان فیھا الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھا.یعنی سورۃ الاحزاب سورہ نور جتنی بڑی تھی اس میں یہ مندرجہ بالا آیت بھی تھی، اس قسم کی حکمت علماء نے بیان کی ہے تاکہ مسلمانوں کی پیروی اور اطاعت ظاہر ہو۔

(۳)وہ آیات جن کی تلاوت باقی ہے انہیں پڑھاجاتا ہے مگر ان کاحکم منسوخ ہےیہ اس قسم کانسخ ہے کہ جس کے بارے میں عام کتابیں لکھی گئی ہیں اور کئی آیات کومنسوخ بنادیاگیا ہے،مگر ان کی اکثریت ایسی ہے جوحقیقتاً منسوخ نہیں ہیں نہ ہی ان پر نسخ کا حکم لگایا جاسکتا ہے ان کانسخ کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے،بلکہ ایسی ٹوٹل (۲۰)آیات ہیں جنہیں منسوخ کہاجاسکتا ہے جیسا کہ قاضی ابن العربی نے بیان کیا ہے،شاہ ولی اللہ دھلوی ،الفوزالکبیر ص:۱۸تا۲۱ اسی بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان بیس آیات میں سے اکثر میں مجھے نسخ نظر نہیںآتا ،آخر میں لکھتے ہیں کہ :

قلت علی ماحرر ان لا یتعین النسخ الافی خمس الآیات.

یعنی مذکورہ بحث سے ثابت ہوا کہ صرف پانچ آیات ایسی ہیں جنہیں منسوخ کہا جاسکتا ہے۔

ناظرین!ہماری تحقیق کے مطابق باقی پانچ آیات بھی نسخ سے محفوظ ہیں،یہاں ہم ان بیس آیات کو نقل کرکے اپنا بیان پیش کرتے ہیں کہ ان آیات کا مقصد اپنی جگہ درست ہے یہ آیات محکم ہیں بعض آیات کی منسوخیت پر توخود سیوطی نے اتقان میں کلام کیا ہے اور کئی آیات کی منسوخیت پر شاہ ولی اللہ نے الفوز الکبیر میں اور نواب صدیق حسن خاں نے اپنی کتاب’’افادۃ الشیوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ‘‘ میںکلام کیا،ہم ان تینوں بزرگوں کے کلام کے ساتھ اپنی تحقیق بھی عرض کرتے ہیں،واللہ الموفق

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *