Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » August Magazine » Badiul Tafaseer (Episode 206)

Badiul Tafaseer (Episode 206)

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

ناظرین!سیوطی نے سورہ بقرہ میں سات آیات منسوخ بتائی ہیں:1آیت وصیت [كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا۝۰ۚۖ الْوَصِيَّۃُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ۝۱۸۰ۭ]آیت میراث سے اور بعض نے کہا حدیث:(لاوصیۃ لوارث)(مشکاۃ بحوالہ ابوداؤد، ترمذی وابن ماجہ من حدیث ابی امامہ ،سنن ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب لاوصیۃ لوارث ،ح:2714)سے اوربعض نے کہا اجماع سے منسوخ ہے، جیسا ابن العربی نے نقل کیا ہے،اس آیت کو شاہ ولی اللہ نے بھی منسوخ تسلیم کیا ہے مگر بعض اہل علم اس آیت کے غیرمنسوخ ہونے کے قائل ہیں، اگرچہ یہ آیت عام ہے مگر اس سے خاص مراد ہوسکتا ہے مثلاًوالدین سے مراد ایسے ماں باپ ہیں جو وارث نہ بن سکتے ہوں جیسا کہ کافریاغلام ہونا وارث بننے سے مانع ہے،نیز الاقربین سے مراد ایسے ورثاء ہیں جن کا شریعت میں کوئی حصہ مقرر نہیں کیاگیا، امام ابن المنذر فرماتے ہیں:

اجمع کل من یحفظ عنہ من اہل العلم علی ان الوصیۃ للوالدین لایرثان والاقرباء الذین لایرثون جائزۃ.

یعنی اہل علم کااس بات پر اتفاق ہے کہ وہ والدین جو کسی سبب سے اپنی اولاد کے وارث نہ بن سکتے ہوں یا ایسے رشتہ دار جن کا شریعت میں حصہ مقررنہیں کیاگیا ان کے حق میں وصیت کرناجائز ہے۔بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وصیت کی صرف فرضیت منسوخ ہے مگر استحباب باقی ہے جیسا کہ تابعین میں سے شعبی اور تبع تابعین میں سے ابراھیم نخعی اور امام مالک سےمروی ہے اسی طرح امام شوکانی نے اپنی تفسیر فتح القدیر ص55ج1میں ذکر کیا۔راقم الحروف کہتا ہے کہ جب آیت مبارکہ پر کسی نہ کسی طرح عمل ممکن ہے تو اسےمنسوخ یا عمل سے خالی قرار دینا درست نہیں ہے اس طرح توآیت کا حق ضائع کرنا ہے۔تمام دلائل کو ہزار بار قابل عمل بنانا بہتر ہے اس سے کہ کسی ایک دلیل کو ناقابل عمل تصور کرلیاجائے،نواب صاحب کا رجحان بھی اسی طرف نظرآتاہے۔

2[وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَہٗ فِدْيَۃٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ۝۰ۭ] کو [فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ]سے منسوخ کہاگیا ہے۔سیوطی کہتے ہیں:بعض علماء کا خیال ہے کہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ محکم ہے اور یہاں ’لا‘مقدر ہے عبارت اس طرح ہے کہ ’لایطیقونہ‘یعنی جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ فدیہ ادا کریں، شاہ ولی اللہ فرماتےہیںکہ یہاںد وسری بہتر وجہ بھی موجود ہے جس میں کسی تقدیر کی ضرورت نہیں ہے،یعنی فدیہ سے مراد فطرہ ہے معنی یہ ہے کہ روزہ رکھنے والے صدقۃ الفطر اداکریں، دراصل یہ قرآنی نظم کی خوبی ہے کہ پہلی آیت میں روزے کاحکم ،دوسرے میں فطرے کااور تیسری آیت میں ان تکبیرات کاحکم ہے جو عید کے روز کہی جاتی ہیں،نواب صاحب بھی شاہ ولی اللہ کی ذکرکردہ اس معنی کو پسند کرتے ہوئے آیت کے غیرمنسوخ ہونے کوترجیح دیتے ہیں، ابن عباس wفرماتے ہیں جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے یعنی ان پر روزہ مشکل ہے وہ ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر،سورۃ البقرہ ،باب قولہ ایاما معدودات فمن کان منکم مریضا  او علی سفر….الرقم:4505)

3[اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَۃَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ۝۰ۭ] کہتے ہیں کہ اس آیت سے [كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ ]میں مذکور تشبیہ منسوخ ہے کہ پچھلی امتوں پر رات کو کھانا اور جماع وغیرہ ممنوع ہوتا تھا ،شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہاں تشبیہ صرف نفس وجوب میںہے اس لئے کہ تشبیہ کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ تمام باتوں میں ہو۔

4[يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْہِ۝۰ۭ] کو [وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّۃً](التوبۃ:۳۶) سےمنسوخ کہاگیا ،شاہ صاحب فرماتے ہیں اس آیت میں حرمت کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اسے منسوخ قراردیاجائے بلکہ حرمت والے مہینوں میں قتال کوبڑا(جرم) اور سخت کام کہاگیا ہے نیز یہ کہاگیا ہے کہ ’والفتنۃ اکبر من القتل‘یعنی فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر فتنہ پیداہوجائے تو اسے ختم کرنے کےلئے لڑائی ضروری ہوگی اور یہ قاعدہ مسلم ہے کہ جب دومشکل چیزیں سامنے آئیں تو ان میں سے ہلکی اور کم تر کو اختیارکیاجائےگا۔

5[وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا۝۰ۚۖ وَّصِيَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ ]کو [يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا۝۰ۚ ]سے منسوخ کہاگیا ہے، شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہاں بھی آیت کومحکم تسلیم کرناممکن ہے کہ وصیت کومستحب اور عدت کےایام کو فرض مان لیاجائے ۔

6[فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۝۰ۭ]کو[فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ]سےمنسوخ کہاگیا ہے، نواب صاحب فرماتے ہیں کہ کئی مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے کیونکہ اس سے مراد دوران سفرنفلی نماز ہے، اس بارے میں احادیث بھی موجود ہیں:

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ تَطَوُّعًا حَيْثُمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ وَهُوَ جَاءٍ مِنْ مَكَّةَ إِلَى المَدِينَةِ» ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عُمَرَ، هَذِهِ الآيَةَ: {وَلِلَّهِ المَشْرِقُ وَالمَغْرِبُ} [البقرة: 115] الآيَةَ. فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: «فَفِي هَذَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ»

(جامع ترمذی، کتاب التفسیر القرآن ،سورۃ البقرۃ، الرقم:2956)

یعنی:دوران سفر رسول اللہ ﷺ سواری پر نفلی نماز اس حالت میں پڑھتے کہ سواری کارخ کسی بھی طرف ہوتا،ابن عمرwنے حدیث بیان کرنے کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی اور کہا کہ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے۔

7[وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ يُحَاسِبْكُمْ بِہِ اللہُ۝۰ۭ]کو[لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ] سےمنسوخ کہاگیاہے، شاہ صاحب فرماتے ہیں ان آیات کا تعلق عام وخاص کے باب سے ہے نہ کہ ناسخ ومنسوخ سے،نیز ’مافی انفسکم‘ سےمراد اخلاص ونفاق ہے نہ کہ وہ خیالات جو انسان کے بس میں نہیںہوتے ہیںکیونکہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کسی کوتکلیف میں نہیں ڈالتا۔

8آل عمران کے گیارہویں رکوع کی آیت:[اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ ]کوآیت [فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ] (التغابن:۱۶) سےمنسوخ کہاگیاہے،سیوطی کہتے ہیں کہ بعض علماء نے کہا کہ یہ آیت محکم ہے اسے منسوخ کہناصحیح نہیں ہے، شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’حق تقاتہ‘ کاتعلق شرک،کفر اور اعتقادی امور سے ہے، ’ما استطعتم‘ کا تعلق عام اعمال سے ہے، مثلاًجووضوء کی طاقت نہیں رکھتا وہ تیمم کرلے جو کھڑا ہو کر نماز ادا نہیں کرسکتا وہ بیٹھ کر پڑھ لے اور ابن صلاح کتاب فتاویٰ ،ص:7میں فرماتے ہیں :

لم تنسخھا بل فسرتھا وحق تقاتہ ان یطاع فلا یعصی غیر انہ تجتنب الکبائر ولم یصر علی الصغائر واذا عمل صغیرا یعتبھا باالاستغفار کان من جملۃ المتقین،واللہ اعلم.

یعنی یہاں ناسخ ومنسوخ نہیں ہے بلکہ دوسری آیت پہلی کی تفسیر وتوضیح ہے کیونکہ’حق تقاتہ‘ کا معنی اللہ تعالیٰ کی ایسی اطاعت ہے جس میں کبھی نافرمانی نہ ہو مگر جس نے کبائر سے اجتناب کیا اور صغائر پر ہمیشگی نہ کی بلکہ جلد ہی توبہ کی تو اس کا شمار متقین میں ہوتا ہےیعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کاحق یہ ہے کہ وہ اپنی بساطت کے مطابق ہو۔

9[وَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِيْبَھُمْ] (النساء:۳۳) کو آیت[وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ](الاحزاب:۶) سے منسوخ کہاگیا ہے، شاہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے دونوں آیات میں تطبیق اس طرح ہے کہ پہلی سے وراثت مراد نہیں ہےبلکہ عام نیکی کے امورصلہ رحمی ،بھلائی کے دیگر عہدواقرار مراد ہیں اور دوسری آیت میں ترکہ ووراثت مذکور ہے جو کہ خاص ورثاء کے لئے ہے، اس توجیہ کو نواب صاحب نے بھی ذکر کیا ہے۔

0[وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْہُ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝۸] (النساء:۸) کو منسوخ کہاگیا ہے، سیوطی کہتے ہیں کہ بعض علماءکا خیال ہےکہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے لوگوں نے لاپرواہی کے سبب اس پر عمل ترک کردیا ہے، شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ابن عباس wنے فرمایا یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔(بخاری657/2کتاب الوصایا ،باب قول اللہ تعالیٰ واذا حضر القسمۃ  اولوا القربی ،الرقم:4576,2759)

اس میں امراستحباب کے لئے ہےاس طرح آیت کامحکم ہوناظاہر ہے،امام شوکانی اسے ترجیح دیتے ہوئے اپنی تفسیر 393/1میں لکھتے ہیں :

اولوا لقربی سے مراد ایسے رشتہ دار ہیں جن کے لئے وراثت میں حصہ مقرر نہیں ہے ،اس لئے منسوخیت پر دلیل نہیں ہے ،اور مذکورہ حکم بھی وجوب پرباقی رہتا ہے ،نواب صاحب نےبھی یہی توجیہ ذکر کی ہے۔

![وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ] (النساء:۱۵) کو[اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۝۰۠ ](النور:۲) سےمنسوخ کہاگیا ہے، شاہ صاحب فرماتے ہیں: اس میں بھی نسخ نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں مذکور حکم ایک خاص مدت کے لئے بیان کیا گیا ہے جو کہ دوسرے حکم کے آنے تک قائم رہا، امام شوکانیaاپنی تفسیر 402/1میں لکھتے ہیں کہ:

ذھب بعض اھل العلم الی ان الحبس المذکور وکذالک الاذی باقیان مع الجلد لا تعارض بینھما بل الجمع ممکن.

یعنی بعض علماء کہتےہیں کہ کوڑوں کی سزا کے حکم کے ساتھ قید کرنے، اور ایذاء دینے کاحکم بھی باقی ہےکیونکہ ان تینوں میں کوئی تعارض نہیں ہے،تینوں سزائیں عمل میں لائی جاسکتی ہیں،ر اقم الحروف کہتا ہے کہ مجھے میرے مالک نے زیادہ بہترتوجیہ سمجھائی ہے یعنی جن حالات میں قانون الٰہی نافذ نہ ہوسکتاہویا غیر شرعی نظام کی وجہ سے شرعی حدود کانفاذ ممکن نہ ہو تو زانی کے لئے قید،ایذاء یعنی حسب وسعت مارپیٹ کی سزا ہےاور جب ان کے لئے قانون الٰہی کےنافذ ہونے کی سبیل وراستہ نکلتا ہوتوپھر ان پر شرعی حد قائم کی جائے، اس طرح دونوں آیات معمول رہیں گی۔والحمدللہ علی ذلک.

@[يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللہِ وَلَا الشَّہْرَ الْحَرَامَ…] (المائدۃ:۲) کے لئے کہتے ہیں کہ بعض حالات میں ان مہینوں میں لڑائی کی اجازت ملی تھی ،اس لئےیہ حکم منسوخ ہے، شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اول تو قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نظر نہیں آتی جس سے یہ حکم منسوخ سمجھا جائے، البتہ بعض حالات میں لڑائی کی رخصت احادیث میں مذکور ہے۔لیکن پھر اس حکم میں سختی کردی گئی جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کاخطبہ دیتے ہوئےارشاد فرمایا:

فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ، علیکم كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا،فی بلدکم ہذا.

(صحیح بخاری ،کتاب العلم، باب قول النبی ﷺ رب مبلغ اوعیٰ من سامع ،الرقم:105,67،مسلم:1218)

یعنی تمہاراخون اور مال ایک دوسرے پر ہمیشہ کےلئے حرام ہے جس طرح آج کا دن اس مہینے اور اس شہر میں۔

راقم الحروف کہتا ہے کہ اس کے لئے مثال ا س سے ملتی ہے کہ آپﷺ نے فتح مکہ کےموقعہ پر فرمایا:

إِنَّ هَذَا البَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، فَهُوَ حَرَامٌ  بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ القِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ.

(صحیح بخاری ،کتاب الجزیۃ، باب اثم الغادر لبر والفاجر، الرقم:3189مسلم:1353)

یعنی جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو تخلیق فرمایا ہے تب سے یہ شہرمکہ حرمت والاہے مجھ سے پہلے بھی کسی کو اس میں لڑائی کی اجازت نہیں دی گئی مجھے فقط ایک گھڑی کے لئے اس میں قتال کی اجازت دی گئی،پھر اس کی حرمت قیامت تک کے لئے ہے۔

#[فَاِنْ جَاءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ] (المائدۃ:۴۲) کو آیت :[فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ] (المائدۃ:۴۸) سے منسوخ کہاگیاہے، شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اس سے نسخ مراد نہیں ہے بلکہ اہل کتاب کے مابین فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کااختیار دیاگیا ہے اور فرمایا کہ اے نبی ﷺ حالات کے تقاضے کے مطابق آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں یا ان سے اعراض کرلیں آپ کو اختیار ہے لیکن اگر فیصلہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے مطابق کریں۔ راقم الحروف کہتا ہےکہ اس کی تائید خود پہلی آیت میں موجود ہے مذکورہ حصے کے بعد ہے :

[وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا۝۰ۭ وَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِالْقِسْطِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۝۴۲ ](المائدۃ:۴۲)

(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *