Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2018 » April Magazine » ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

یہ انٹرویو بروز پیربعدنمازظہر 15مئی 2017 ء کو آصف فاروق صاحب نےکیماڑی میں شیخ دامانوی حفظہ اللہ کے گھر میں لیا، آپ کثیر کتب کے مصنف ہیں آپ کے علاقہ میں کوئی بھی فتنہ اٹھاتوآپ نے اس فتنہ کے خلاف قلم اٹھایااور مدلل ومسکت جواب دیئے اب بھی بوڑھے ہونے کے باوجود آپ کے جذبات جوان ہیں اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے اور شرپسندوں کے شر سے بچائے۔ آمین آپ کاشمار اہل حدیثوں کے کبار علماء میں ہوتاہے۔(ادارہ)

سوال : شیخ صاحب آپ اپنانام ونسب بتائیں ؟

جواب: میرانام عبداللہ ہے اور ابوجابر میری کنیت ہے، اور دامان گاؤں کی طرف نسبت ہے،میں دامانوی ہوں،والد نے میرانام خاکی جان رکھاتھا، دوستوں کے مشورہ سے میں نے اپنانام تبدیل کرکے خاکی جان سے عبداللہ رکھ لیا۔ لیکن کاغذات (ڈاکومنٹس) میں میرا نام بدستور خاکی جان ہی تھا،چنانچہ میں نے میٹرک بورڈ میں نام کی تبدیلی کے لئے درخواست دے دی اور اس کے لئے پوراایک سال لگ گیا، تب کہیں جاکرمیرانام تبدیل ہوا،ان کا مجھ سے ایک ہی سوال تھا کہ آپ نام کیوں تبدیل کررہے ہیں؟ میرا جواب تھا کہ میں اسلامی نام رکھنا چاہتا ہوںاور بس۔مجھے اپنا نسب صرف پردادا تک یاد ہے:عبداللہ بن زردار بن بوستان بن حبیب۔میرا شجرہ آگے چل کر ابوالبشر سیدناآدم علیہ السلام سے مل جاتاہے۔

سوال: آپ کا تعلق کس خاندان سے ہے؟

جواب: ہماراپٹھان فیملی سے تعلق ہے،سنا ہے کہ صدیوں پہلےکچھ لوگ افغانستان سے آکر علاقہ چھچھ میں آباد ہوگئے تھے اور ہم انہی میں سے کسی کی اولاد ہیں، ہمارے اس علاقہ کو چھچھ کہاجاتاہےاور اس میں تقریبا86گاؤں شامل ہیں اور اب آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔

سوال: آپ کی تاریخ ولادت کیا اور کس شہر کی ہے؟

جواب: میری ولادت گاؤں دامان (کامل پور عالم) میں 15فروری 1947ء(۱۳۴۴ھ)کوہوئی، جب پاکستان قائم ہوا تھاتو اس وقت میں 6ماہ کاتھا، یہ گاؤں ضلع اٹک شہر،تحصیل حضروعلاقہ چھچھ میں ہے۔1950ء کو میرے والد محترم ملازمت کی تلاش میں کراچی تشریف لائے تھے، اور کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں مزدوروں میں ملازم ہوگئے اور پھر انہوں نے ایک مکان خرید کر اپنی فیملی کو بھی کراچی بلالیا۔

سوال: آپ کی دنیاوی تعلیم کہاں تک ہے؟

جواب: میں نے1967ء میں میٹرک کا امتحان کراچی بورڈ سے پاس کیاتھا، اس کے بعد1970ء میں،میں نے ٹیچر ٹریننگ کا دوسالہ کورس بھی مکمل کرلیاتھا، میٹرک کے امتحان کے بعد میں کراچی پورٹ ٹرسٹ میں1968ءڈیلی ویجز کلرکوں میں ملازم ہوگیاتھالیکن میری رغبت پڑھانے کی طرف زیادہ تھی اس لئے میں نے 1971ء میں کے پیٹی کی ملازمت چھوڑ دی اور گورنمنٹ پرائمری اسکول میں ٹیچر لگ گیا،اور یہاںد س سال ملازمت کرنے کے بعد میں 1981ء میں دوبارہ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں امامت کے منصب پر فائز ہوگیا، چونکہ یہ جنرل ضیاءالحق صاحب کا دور تھااور اس کی رغبت دین کی طرف زیادہ تھی اور کے پی ٹی کے چیئرمین ایم آئی ارشدصاحب بھی ایک دین دار شخص تھے لہذا جنرل صاحب نے چیئرمین کے توسط سے پورٹ میں کئی مساجد تعمیر کروائیں، اور ان مساجد میں چونکہ اماموں کی بھی ضرورت تھی اس لئےمیں بھی اس عملہ میں شامل ہوگیا،اور میں نےمیجر صاحب سے درخواست کی کہ مجھے پڑھانے کا بہت شوق ہے لہذا مجھے کے پی ٹی کے کسی اسکول میں متعین کردیاجائے،چنانچہ انہوں نے میری درخواست قبول فرمائی اور کے پی ٹی کے اسکول کیماڑی میں پڑھانے لگا،ملازمت کے دوران میں نے اپنی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی اور 1982ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں انٹرمیں داخلہ لے لیا، اور اس کے ساتھ ہی میں نے ناظم آباد کے ایک کالج میں ہومیوپیتھک میں بھی داخلہ لے لیا، اور1986ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کرلیا، اور کراچی سے ہومیوپیتھک کا امتحان پا س کرکے میں ہومیوڈاکٹربن گیا، اور بی اے اور ہومیوپیتھک سے پہلے ہی میں نے اردوفاضل اور عربی فاضل کے امتحانات بھی پاس کررکھے تھے، پھر میں نے2000ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کاامتحان بھی پاس کرلیا، اس کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کا ارادہ کیا اور کراچی یونیورسٹی کے کئی چکر لگائے لیکن وہاں کے عملہ کی بے رخی اور ٹال مٹول کاطرز عمل دیکھ کر مایوس ہوگیا،اور اس ارادہ سے ہی باز آگیا،میں نے سوچا کہ میں مسئلہ عذابِ قبر اور جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے معاملے میں توویسے ہی پی ایچ ڈی ہوں لہذا میں نے اس ارادہ کو ترک کردیا،یہ تھی میری دنیاوی تعلیم جس کاذکر میں نےآپ کے سامنے اختصار سے کردیا ہے۔

سوال: آپ نے دینی تعلیم کہاں سے اور کن کن اساتذہ سے حاصل کی ہے؟

جواب: میں نے باقاعدہ کسی مدرسہ میں داخل ہوکردینی تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ میری تعلیم کا یہ سلسلہ بے قاعدہ ہی ہے۔میں جب رائے ونڈ کی تبلیغی جماعت میں1962ء میں تین چلے لگاکرواپس آیا تو میرے اندر عربی کی تعلیم اور دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور اس سلسلہ میں پہلے حنفی فقہ کی کتاب’’نور الایضاح‘‘اور ’’خلاصہ کیلانی‘‘ کیماڑی کے علماء سے سبقا سبقا پڑھی، اسی دوران مجھے ڈاکٹر مسعود حسن عثمانی صاحب کے متعلق معلومات حاصل ہوئیں اور ان کادرس توحید، تو میں اس سے کافی متاثر ہوا اور پھر میں باقاعدہ ان کے پروگراموں میں شریک ہونے لگا،اور ان سے عربی زبان بھی سیکھنے لگا،ڈاکٹرموصوف نے دینی پروگراموںکے لئے ’’ادارہ توحید وسنت‘‘ قائم کررکھاتھا، پھر انہوں نے اپنے پروگراموں کو مزیدمنظم کرنے کے لئے اپنے ادارہ کا نام’’حزب اللہ‘‘ رکھ دیا اور ہم کئی ساتھی ان کی جماعت کے رکن بن گئے، پھر انہوں نے1970ءمیں کیماڑی کے علاقہ میں مسجدتوحید کی بنیاد رکھ دی اور اس مسجد میں ایک مدرسہ بھی قائم کردیا اور ہم ساتھی اس مدرسہ کے طالب علم بن گئے،ہمارے ایک استاد قاری محمد سعید صاحب تھے، آپ نےسرحد کے علاقہ گاؤں پنچ پیر کے استاد مولانا محمد طاہر پنچ پیر ی صاحب سے قرآن کریم کا کئی دفعہ دورہ کیاتھا،جس کی بناء پر وہ قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیر میں بڑے ماہر تھے انہو ں نے ہمیں قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر پڑھائی، اور قرآن کریم کے بعض عنوانات میں انہوں نے ہمیں کافی معلومات بہم پہنچائیں، اس وقت ہمارے اندرتوحید کاجذبہ بہت زیادہ تھا،اور میں چاہتاتھا کہ بریلوی مولویوں کے پاس جاکر ان سے توحید کے ان مضامین پر گفتگوکی جائے،میں ایک ساتھی کے ساتھ ایک جاننے والے شخص کے ساتھ توحید کے موضوع پر گفتگوکررہاتھا ،وہ شخص کہنے لگاکہ تم لوگ ہمارے مولویوں کے سامنے تو نہیں آتےاور ان کے خلاف باتیں کرتے ہو،میں نے اس سے کہا کہ تمہارامولوی کہاںہےچلو ہم اس سے بات کرتے ہیں،چنانچہ ہم نےاسی وقت ایک ٹیکسی روکی اوربوہرہ پیر کےعلاقہ میںاس مولوی کے گھر بے خوف چلے گئے، وہ اس وقت اپنی لائبریری میں تھااس سے علم غیب سے متعلق گفتگو ہوئی اس نے کہا کہ نبی ﷺ عالم الغیب ہیں، میں نے اس کا جواب دیا اور یہ آیت مبارکہ پڑھی:[قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ ](الانعام:۵۰)

اے نبیﷺان سے کہو!میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتاہوں….

میںنے کہا مولوی صاحب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے بیان کردیا کہ اے لوگو!میں نہ اب غیب جانتاہوںاو نہ آئندہ کبھی غیب جانوںگا۔

وہ مولوی صاحب ایک دم اچھل پڑااور کہنے لگا اس آیت میں آئندہ کاذکر کہاں ہے؟میں نے کہامولوی صاحب آپ نے عربی گرامر نہیں پڑی ’لااعلم‘ مضارع کاصیغہ ہے اور اس میں حال اورمستقبل دونوں پائے جاتے ہیں، وہ مولوی حیران رہ گیا، لیکن کٹ جھتی سے باز نہ آیا، بہرحال ہم دونوں ساتھی وہاں سے واپس کیماڑی آگئے۔

المختصر قرآن کریم ،مشکوٰۃ المصابیح، ہدایہ اور عربی صرف ونحو کی تعلیم ہم نے اس مدرسہ میں حاصل کرتےرہے، یہاں تک کہ1974ء میں جماعت میں اختلاف پیدا ہوگیا، اور ڈاکٹر عثمانی کو مسجدتوحید سے بے دخل کردیاگیا، اور اس نے ریلوے لین کی مسجد کو اپنی دعوت کا مرکز بنالیا، اورآج تک اس کا وہ مرکز قائم ہے۔ اور اس نے1981ء میں عذاب قبر نامی کتابچہ شائع کرکے عذاب قبر کاانکار کردیا اور محدثین کرام پر بھی کفروشرک کے فتوے لگائے، اس سلسلہ میں اس نے توحید خالص قسط نمبر2نامی کتاب میں بھی اس کی وضاحت کی ہے،اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اور دوسرے ساتھیوں کو ڈاکٹرموصوف کے شر سے محفوظ فرمایا، اور وہ اکیلا ہی گمراہی کے عمیق غارمیں جاگرااور اپنے ساتھ اپنے عقیدت مندوں کو بھی گمراہ کرگیا، اور1987ءکو وفات پاگیا۔

1975ء میں ،میںنے دیوبندیوں کی ایک دینی درسگاہ میں’’دورہ حدیث‘‘ میں داخلہ لےلیا، او الحمدللہ مختصروقت میں یہ دورہ میں نے مکمل کرلیا، اس دورہ میں گیارہ کتب حدیث کاد ورہ کرایاگیا!، دورحدیث کیا تھا،آگے دوڑ پیچھے چھوڑ، جامعہ کے پچاس طلباء میں، میں جامعہ میں چوتھے نمبر پر تھا، والحمدللہ علی ذلک، اور اس طرح مجھے وفاق المدارس العربیہ ملتان کی سند ملی جس میں مولانا محمد یوسف بنوری صاحب، اور مولانا مفتی محمود صاحب اورہمارے شیخ محمد سلیم اللہ خان صاحب کے دستخط تھے۔

میرے دل میں یہ خواہش بھی تھی کہ میں وفاق المدارس السلفیہ فیصل آباد کا امتحان بھی دے دوں،اور اللہ تعالیٰ نے میرا یہ مسئلہ شیخ محمد حسین بلتستانی حفظہ اللہ کے توسط سے پوراکردیا،جامع ابوبکر میں امتحان لینے والے ممتحن صاحب تشریف لائے تھے اور میں اس وقت وہاں موجود تھا، امتحان میں صرف ایک ہفتہ باقی تھا ،شیخ موصوف نے ممتحن صاحب سے فرمایاکہ جناب ہمارے اس شیخ کو امتحان میں شامل فرمائیں کیونکہ یہ وفاق کا امتحان دینے کا ارادہ رکھتے ہیں،ممتحن صاحب نے فوراً میرانام لکھا اور امتحانی فیس میں نے جمع کرادی اور مجھے امتحان کا ٹائم ٹیبل اور نصاب امتحان دے دیاگیا، اورالحمدللہ میں یہاں بھی اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا،ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم.

علاوہ ازیں میں نے محدث العصر علامہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے بھی کافی استفادہ کیا ہےاورمیں نے بہت سے مسائل واحادیث کے سلسلہ میں ان سے راہنمائی حاصل کی،موبائل کے وجود میںآنے سے پہلے میرے اورمیرےشیخ کے درمیان خط وکتابت کا سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا،اور انہوں نے بروقت میری راہنمائی فرمائی اور مجھے خوب سیراب کیااور پھرموبائل کےآنے کے بعد ان سے گفتگو بھی ہوتی رہی اور معلومات کے خزانے بھی ان سے حاصل کرتارہا، افسوس کہ ہم جیسے نادان دوستوں نے شیخ محترم کی قدر ہی نہ کی اور وہ بھی ہم سے جلد ہی جدا ہوکر خالق حقیقی سے جاملے۔آج کہاں ہے ایسا جگری پیار اور پیارا دوست اور کون ہے جو شیخ محترم جیسی شفقت ومحبت سے ہمیں نوازے اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ ہمیں وقت بھی دیتے اورمہمان نوازی بھی کرتے تھے اور جن کی یاد آج بھی ہمیں تڑپادیتی ہے۔

ہزاروں سال پہ نرگس اپنی بے نوری پر روتی رہی

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا

اللہ رب العالمین ہمارے محترم شیخ پر اپنی رحمتوں کے سائے دراز فرمائے اور ان پر اپنی بےشمار رحمتیں نازل فرمائے اور ان کی تمام لغزشیں معاف فرماکر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ورافع مقام نصیب فرمائے۔آمین یارب العالمین.

میرے استادوں میں شیخ العرب والعجم سیدعلامہ ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ بھی ہیں، شاہ صاحب نے مجھے کراچی میں دعوت وتبلیغ کا ناطم مقرر فرمایاتھا ،شاہ صاحب سے بھی میں نے خوب استفادہ کیا، اور آپ کے بیانات وخطبات اور آپ کی لکھی ہوئی کتابوں سے بھی استفادہ کیا۔

ایک مرتبہ میں نیوسعیدآباد کی سالانہ سیرت النبی ﷺ کے جلسہ میں حاضر تھا ،شوری کی میٹنگ کےد وران اراکین شوری نے اپنا تعارف کروایا جب میری باری آئی تو میں نے اپناتعارف کرواتے ہوئےکہا:میرا تعلق ضلع اٹک سے ہے لیکن آج کل میں کراچی میں اٹکا ہوا ہوں۔یہ سن کر کوئی سا تھی بھی اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکا اور وہاں ایک خوشگوار ماحول بن گیا،اور شاہ صاحب بھی بہت ہنسے اور میرے اس تعارف پر انہوں نے مزاحیہ انداز میں تبصرہ بھی فرمایا ۔شاہ صاحب aسے میں نے اجازت حدیث کی سند بھی لی تھی، اور اس بات کا مشورہ مجھے حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے دیاتھا کیونکہ وہ مجھ سے پہلے ہی یہ سند لے چکے تھے اور پھر میں نے بڑے شاہ صاحب ،سید محب اللہ شاہ صاحب سے بھی اجازت حدیث کی سند لی ،میں نے حافظ زبیر علی زئی کو دیکھا وہ شاہ صاحب سے علمی موضوعات پر گفتگوکرتےتھے، اور ان کی بعض کتب پرتبصرہ بھی کرتے تھے ،اسی طرح میں نے محترم شیخ ارشاد الحق اثری رحمہ اللہ  کو بھی دیکھاکہ وہ شاہ صاحب کےپاس گھنٹوں تنہائی میں بیٹھ کر مختلف موضوعات پر گفتگوفرماتے اور علمی جواہر پاروں سے اپنا دامن بھرتے رہتے۔

میں نے شیخ عبداللہ ناصررحمانی حفظہ اللہ سے بھی اکثر علمی استفادہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے محترم شیخ کو کتاب وسنت کا بہترین فہم اور عمدہ علم سے نوازا ہے ،جس کا اظہار ان کے خطبات وبیانات سے ہوتاہے، یہ غالباً1988ء کی بات ہے کہ جب میں جماعت المسلمین رجسٹرڈ پرتحقیق کررہاتھا اور اس دوران میںنے شیخ محترم کا جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے متعلق ایک علمی خطبہ بروز جمعہ کورٹ روڈ میںسنا اور اس خطبہ کی میں نے کیسٹ بھی حاصل کی اور شیخ صاحب کے علمی نکات سے استفادہ کیا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محترم شیخ کو اہل علم میں ایک بلند مقام عنایت فرمایا ہےاور اس طرح کے علماء حق سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے محبت کرنا یہ میرے ایمان کاحصہ ہےاور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا حشر بھی ان نیک سیرت علماء کرام کے ساتھ فرمائے گا۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم شیخ کے علم وعمل میں مزید درمزید اضافہ فرمائے اور ان کا سایہ ہم پرایک طویل عرصہ تک قائم رکھے۔

میں یہ سمجھتاہوں کہ علماء حق کا وجود ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور رحمت ہے، اور یہی علماءِ حق ہی قوم کی ٹھیک ٹھاک رہنمائی کرسکتے ہیں اور انہیں صراط مستقیم کی طرف گامزن کرسکتے ہیں،اور جب تک ان علماء حق کا وجود رہا تو باطل ہم پر کبھی مکمل طور پر غالب نہیں آسکتا، ان علماء کرام کے ساتھ حشر کی بات میں نے اس یقین کی بنیاد پر کی ہے کہ حدیث میں ہے:

المرء مع من أحب (بخاری:۴۱۴۹،مسلم:۶۷۱۸)

آدمی قیامت کے دن انہی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔

مجھے شروع ہی سے مطالعہ کا بے حد شوق رہا ہے اوریہ مطالعہ ہی ہے کہ جس سے انسان کا علم بڑھتا ہے اور اس میں تحقیق کا مادہ پیدا ہوتا ہےاور جب کوئی موضوع سامنے آتاہے پھر انسان اس پر تحقیق کرتا ہے، تو تحقیق کے نتیجے میںاس کے سامنے سے مشکلات دور ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ اس موضوع کی تہہ تک پہنچ جاتاہے،بہت سے لوگ مطالعہ کی وجہ سے ان علماء سے بھی آگے نکل جاتے ہیں کہ جنہوں نے علم حاصل کرنے کے بعد دوبارہ کتاب کھولنے اورپڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی،اس لئے ضروری ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے مطالعہ کو ترک نہ کرے،میں نے تھوڑا بہت جو تصنیف وتالیف کا کام کیا ہے تو اس کی وجہ سے میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے علماء کرام سے بھی جب میری ملاقات ہوئی ہے تو وہ خوشی سے میرااستقبال کرتے ہیں اوربغل گیر ہوجاتےہیں،یہ محض رب العالمین کا فضل اور احسان ہے اور اس کی توفیق کی وجہ سے اس نے بعض انسانوں کو قلم کے استعمال کا سلیقہ عطا فرمایا اورانہوں نے علم کے سمندر کو کوزہ میں بند کرنے کی کوشش کی، [الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۝۴ۙ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۝۵ۭ ] اور پھر یہی تحریری علم انسان کے لئے صدقہ جاریہ بن جاتاہے، اللہ تعالیٰ ہمارے تمام علماء کرام کو اس راہ پرچلنے کی توفیق عطافرمائے۔

ہمارے بہت سے اہل حدیث ساتھی جن کازیادہ مطالعہ نہیں ہوتا اور وہ تحقیقی ذہن بھی نہیں رکھتے تو جب ان کے سامنے کوئی فتنہ کھڑا ہوتا ہے اور اس کی طرف ان کو دعوت دی جاتی ہے تو وہ اس فتنہ سے متاثر ہوجاتےہیں، اور اس فتنہ کا حصہ بن جاتے ہیں اس لئے ضروری ہےکہ اہل حدیث کم از کم اپنے لٹریچر کا ضرور مطالعہ کریں اور اگر وہ یہ نہیں کریں گے تو یہ فتنوں کا دور ہےاور ہر فتنہ انسان کو اپنی طرف بلارہا ہے ہمارے کتنے ایسے اہل حدیث دوست تھے جو جماعت المسلمین رجسٹرڈ اور دیگرجماعتوں کا شکار بن گئے ،لہذا اہل حدیث دوستوں کو ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اوراگر ان کے پاس علم نہیں ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ اہل علم سے رابطہ رکھیں اور اپنے مسائل کا حل ان سے معلوم کریں اور اس موضوع سے متعلق کتب کا مطالعہ بھی کریں۔

سوال: آپ نےکون کونسی کتابیں لکھی ہیں؟

جواب: میں نے تصنیف وتالیف کا سلسلہ 1976ء سےشروع کردیا تھا،(۱)سب سے پہلے میں نے ایک کتاب’’دین طریقت (تصوف) کی حقیقت‘‘تحریر کی اور اس میں علماء دیوبند کے وہ واقعات تحریر کئے جن میں شرک کوسندجواز عطا کی گئی تھی، میں نے دلائل کے ساتھ تصوف کا رد کیا،اور ثابت کیا کہ یہ باطل پرستوں کی راہ ہے۔

(۲)اس کے بعد ایک کتاب’’کتاب الصلاۃ‘‘ لکھی اس کتاب میں رفع الیدین اور عدم رفع الیدین ،آمین بالجھر اور آمین بالسر،فاتحہ خلف الامام وغیرہ دونوں قسم کے دلائل کاذکر کرکے دونوں باتوں کو درست قرار دیاگیاتھا،اور یہ سب ڈاکٹر عثمانی کی تعلیم کا نتیجہ تھا،بعد میں میں نے اس کتاب سے براءت کا اظہار کردیاتھا۔

(۳)1981ء میں ڈاکٹر عثمانی نے عذاب قبر کا انکار کیا اور اس سلسلہ میں عذاب قبر نامی کتاب شائع کی، الحمدللہ 1984ء میں ،میں نے اس کا جواب’’الدین الخالص‘‘ پہلی قسط لکھ کر دیا، اور اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیاگیااور بے حد پسند کیاگیا،اس کے بعد میںنے ’’الدین الخالص‘‘ قسط نمبر۲(دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا) 1988ءمیں شائع کی،1987ء میں ڈاکٹر موصوف کا انتقال ہوچکاتھا،اور مجھے اس بات کا افسوس تھا کہ کاش وہ یہ کتاب پڑھ لیتے! میں نے اس کتاب میں ڈاکٹر موصوف والاطریقہ استعمال کیا اور اس کی کتابوں کے فوٹواسٹیٹ دےکر بتایا کہ اس نے کہاں کہاں دھوکا دیا ہے اور کہاں کہاں ڈنڈی ماری ہے، موصوف کے حواریین نے اس کتاب کا جواب دینے کی بہت کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام رہے او رالحمدللہ !اب تک یہ کتاب لاجواب ہے۔

(۵)1989ء میں،میں نے’’الفرقۃ الجدیدۃ‘‘ شائع کی، اس کتاب کاپورانام’’الفرقۃ الجدیدۃ ،جماعت المسلمین کےبانی مسعود احمد بی ایس سی کا علمی محاسبہ‘‘ ہے اس نام ہی سے میں بتایا کہ جماعت المسلین رجسٹرڈ، الفرقۃ الجدیدۃ ہے اور اس نام میں دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے امیر اس جماعت کے بانی ہیں، سلف صالحین اس طرح کی کسی جماعت سے واقف نہیں تھے۔

اس کتاب کے شائع ہونے سےجماعت المسلمین رجسٹرڈمیں کھلبلی مچ گئی اور امیرصاحب بھی اس کتاب سے پریشان ہوگئے،الشیخ صدیق رضاحفظہ اللہ اس دور میں جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے مدرسہ کے طالب علم اور ان کے مناظر بھی تھے،انہوں نے جب اس کتاب کا مطالعہ کیا تو اس پرنشانات لگائے اور مجھ سے ملنے آئے اور اس کتاب پر انہوں نے مجھ سے مناظرہ کیا، کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ تشریف لائے اور مناظرہ کیا، جس انسان میں حق کی طلب کا مادہ موجود ہوتووہ اسے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا،اور ان کی یہی کیفیت تھی،آخرکار اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی فرمائی اور پھر وہ اہل حدیث ہوگئے اور پھرعلماءِ اہل حدیث سے علم حاصل کیا اور آج وہ اہل حدیث جماعت کا سرمایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں لمبی عمرعطافرمائےاور ان کی مکمل حفاظت فرمائے اور اپنی خوشنودی اوررضامندی سےان کو نوازے ۔آمین یارب العالمین

جو لوگ بھی جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے فتنے سے پریشان ہوئے انہوں نے اس کتاب کو طلب کیا اور اس کا مطالعہ کرکے رجسٹرڈ جماعت کے رجسٹرڈ مسلمین سے بات کی انہیں لاجواب کیا،یہ کتاب عرصہ ہوا ختم ہوگئی ہے لیکن لوگ اس کافوٹو اسٹیٹ طلب کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کررہےہیں، اور اب اس کتاب میں کافی اضافہ کرکے اسے کمپوز کرالیا گیا ہے لیکن اسے چھپانےکے وسائل موجود نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے شائع ہونے کے اسباب مہیافرمادے تاکہ طالب حق ساتھیوں تک اسے پہنچایاجاسکے۔

(۶)2000ء میں ایک کتاب’’قرآن وحدیث میں تحریف‘‘ کو میں نے شائع کیا، اس کتاب میں واضح کیاگیا ہے کہ دیوبندیوں نے اپنے مسلک کے دفاع کے لئے قرآن وحدیث کو بھی معاف نہیں کیااور اپنے مسلک کو صحیح اور درست ثابت کرنے کےلئے قرآن وحدیث میں تحریف کرڈالی، چنانچہ اس کتاب میں دیوبندیوں کی واضح اور مبینہ خیانتوں کو ان کی محرف کتب کے فوٹواسٹیٹ کے ذریعے ظاہر اورواضح کیاگیاہے، پھر حدیث کی اصل کتب اور مخطوطوں کے فوٹو اسٹیٹ دے کر ان کی خیانتوں کی نقب کشائی کی گئی ہے جس سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ دیوبندی بھی تحریف کےمعاملے میں یہود ونصاریٰ کے نقش قدم پر چل پڑےہیں امید ہے کہ متلاشیانِ حق اور تحقیق کرنے والوں کے لئے یہ کتاب ایک راہنما کتاب ثابت ہوگی۔

ا س کتاب پر ایک انتہائی جاندارتبصرہ ’’ماہنامہ دعوت اہل حدیث‘‘ شعبان ؍رمضان ۱۴۲۸بمطابق ستمبر۲۰۰۷ءمیں آچکا ہے ،صفحہ ۴۳تا۴۵

(۷)1995ء میں عثمانی فرقہ کی باسی کڑی میں ابال آگیا تو ان میں سے کسی انورجدون صاحب نےایک کتاب ’’دعوت قرآن اور یہ فرقہ پرستی‘‘ شائع کردی اور اس کتاب میں اس نے قرآن کریم کو مخلوق قراردیا پھر اس نے قرآن کی بھی دوقسمیں بیان کیں، ایک قرآن کریم جو دنیامیں ہے اور یہ حادث ہے اور لوح محفوظ میں جو قرآن ہے وہ ہمیشہ رہے گا، اور یہ سب کچھ اس نے امام احمد بن حنبلaکی دشمنی میں کیا،اورامام احمد بن حنبلaپر بھی فتوے داغے لیکن کوئی بات وہ دلیل سے ثابت نہ کرسکا۔

الحمدللہ جب راقم الحروف نے اس کے باطل عقیدہ پر ضرب کاری لگائی اور اس کا سلسلہ فرقہ باطلہ جہمیہ اور مرجیہ کے ساتھ جوڑا توموصوف نے اپنی کتاب ہی کو منظرعام سے غائب کردیا اور اس مسئلہ پر مکمل خاموشی اختیارکرلی۔

کچھ عرصہ بعد انہی صاحب نے ایک کتاب’’جواب مبین‘‘ شائع کی اور اس کی وجہ تصنیف یہ بیان کی کہ کسی صاحب نے بتایا کہ(۱۶)سولہ سال پہلے میں نے ان صاحب سے عذاب قبر کے متعلق کچھ تحریر ی سوالات کئے تھے لیکن انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کررکھی تھی اور جواب اس وقت دیا جب بچہ پیداہوکر نوجوان اوربالغ ہوجاتاہے یعنی سولہ سال بعد اور جواب بھی کیا ہے؟ شاہکارہے؟لاشیں جو دفن نہیں ہوتیں، ان کو کہاں عذاب قبرہورہاہے؟فرعونیوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں ان کوعذاب قبر کہاںہورہاہے؟

بہرحال چونکہ یہ فرقہ غیب پر ایمان نہیں رکھتا بلکہ مشاہدہ کا مطالبہ کرتا ہے :[الذین یؤمنون بالغیب]یہ اہل ایمان ومتقیوں کی صفات ہیں جس سے یہ فرقہ عاری ہے، نیز یہ متشابھات کو محکمات کی طرح سمجھتا چلاآرہا ہے،مرنے کے بعد یہ تمام حقیقتیں الم نشرح ہوجائیںگی اور یہ صاحب ویسے بھی برزخ میں چلے گئے ہیں ، اب ان کو عذابِ قبر کا یقینی ادراک ہوچکاہوگا،ان شاءاللہ تعالیٰ

ان کے علاوہ میری چند کتابیں اور بھی ہیں:

(۸)عقیدہ نورمن نور اللہ قرآن وحدیث کی روشنی میں(۹) حکم طلاق الثلاث(۱۰)جماعت المسلمین رجسٹرڈ کی حقیقت (غیرطبع) (۱۱)بے اختیار خلیفہ کی حقیقت حصہ اول(۱۲)بے اختیار خلیفہ کی حقیقت کاجواب الجواب(۱۳) نماز جنازہ کا مسنون طریقہ(۱۴)عذاب قبر کی حقیقت(۱۵) دینی امور پر اجرت کاجواز(۱۶)حرمت رضاعت پانچ بار دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے۔

سوال: آپ کی اولاد کتنی ہیں؟

جواب: میرے دوبیٹے اور پانچ بیٹیاںہیں،میری بیٹیاں سب عالمہ ہیں،الحمدللہ لیکن میں نے بیٹوں کیلئے کوشش کی کہ پڑھ جائیں لیکن وہ نہ پڑھ سکے۔

بیٹوں کے نام:جابر اور یاسر۔ہمارا خاندان علماء کاخاندان نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے مجھے علم حاصل کرنے کی توفیق دی اور خاندان کے عقیدہ وعمل کی اصلاح ممکن ہوئی۔

سوال: آپ کے چچاکتنے ہیں؟

جواب: کرم خان،ظریف خان،شیرخان ۔ کرم خان تایا ہیں او دوچچاہیں ،یہ سب فوت ہوچکے ہیں،دوماموں تھے وہ بھی فوت ہوچکے ہیں۔

سوال: آپ کے بھائی کتنے ہیں؟

جواب: میرے دوبھائی ہیں:دادو(فوت ہوگئے ہیں) عبدالرشید اور تین بہنیں تھیں ،صرف ایک بہن حیات ہیں۔

سوال: آپ نے حج وعمرہ کتنے کیےہیں؟

جواب: میں نے2002ء میںحج وعمرہ کیا ہے۔

سوال: آپ اپنے مناظروں کے بارے میں بتائیں؟

جواب: میں نے کئی مولویوں سے مناظرے کیے ہیں ،رفع الیدین، فاتحہ خلف الامام وغیرہ پر۔

سوال: آپ نےشادی کس سن میں کی؟

جواب: 1972 میں۔

سوال: آپ نےاجازۃ الروایۃ کن کن علماء سے لی ہے؟

جواب: علامہ سیدابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی اور علامہ ابوالقاسم محب اللہ شاہ راشدی رحمھم االلہ سے۔

About آصف فاروق کمبوہ

Check Also

انٹرویو: فضیلۃ الشیخ پروفیسر بشیراحمدلاکھوحفظہ اللہ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *