Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2017 » May Magazine » Badeeut Tafaseer 191

Badeeut Tafaseer 191

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

قسط 191 ۔۔۔

الاشارۃ: جوصرف صیغہ اشارہ سےثابت ہو، متکلم کو بات کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو یاجو چیزلغوی اعتبار سے نفس کلام سے معلوم ہومگر متکلم کو وہ مقصود نہ ہو اور نہ سیاق کلام اس کےلئے ہو اسے اشارۃ النص کہتے ہیں ۔

الاشتقاق: ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے نکالنا اس شرط کے ساتھ کہ وہ دونوں معنی وترکیب کےلحاظ سے ایک دوسرے سےمناسبت رکھتے ہوں مگر باعتبار صیغہ جداجداہوں۔

الاصل: جس پر کسی دوسری چیز کی بنیاد رکھی جائے اس کی جمع ’’الاصول‘‘ ہے اور جن علمی قواعد سے فقہ یعنی دینی مسائل کی سمجھ بوجھ حاصل ہو اسے اصول فقہ کہتے ہیں۔

الاصطلاح: کسی خاص قوم کا کسی چیز کے اوپرکوئی لفظ استعمال کرنا یا کوئی نام دینے پرمتفق ہونا، یعنی کسی لفظ کا لغوی معنی کے علاوہ کوئی اور استعمال۔

اصحاب الفرائض: وہ ہیں جن کے لئے فوت شدہ شخص کے متروکہ مال میں سے شریعت میں حصے مقرر ہوں۔

الاصحاب: صحابی کی جمع ہے یعنی ایسا شخص جس نے بحالت اسلام رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہو۔

الاضافۃ: ایسی نسبت کہ ایک چیز دوسری کے سوا سمجھ میں نہ آتی ہو جیسے باپ اوربیٹے کی آپس میں نسبت، علماء نحو کےنزدیک دو اسموں کے درمیان ایسی نسبت جس سے پہلے اسم کی پہچان یاتخصیص ہوتی ہو مثلاً: غلام زید ،یعنی زید کاغلام۔

الاضمار: کسی لفظ کوحذف کرکے صرف اس کی نشانی کو باقی رکھنا اسے ضمیر کہتے ہیں۔

الاضراب: کوئی بات شروع کرکے پھر ضرورت کے تحت اسے ادھورا چھوڑدینا۔

الاطناب: اپنے مقصد کے لئے کافی ہوجانے والی عبارت سے زیادہ بیان کرنا۔

الاطرافیۃ: یہ فرقہ ان لوگوں کو معذور تصور کرتاہے جنہیں شریعت کی پہچان نہ ہو، باقی اصولوں میں اہل سنت سے متفق ہیں۔

الاعمال: کسی دلیل پر عمل کروانا۔

الاعیان: عین کی جمع ہے، جو چیز کسی سہارے کے بغیر بذات خود قائم ہو۔

الاعتبار: عبرت حاصل کرنا، کسی کام کے انجام پر غور کرنا۔

الاعتراض: کسی ایک کلام یا دو کلاموں کے درمیان کوئی ایسا جملہ آجائے جورفع ابہام کے لئے نہ ہو بلکہ دوسرا کوئی خاص نکتہ مطلوب ہو۔

الاعراب: کسی لفظ کے آخر کا عامل کےآنے کی وجہ سے تبدیل ہونا۔

الاعجاز: کلام یا عبادت میں ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے وہ باقی طرق کی نسبت زیادہ ابلغ اور سامع کیلئے مقبول ودلنشیں بن جائے۔

الافراط: کسی چیز کا کمال اور زیادتی میں حد سے بڑھ جانا اور کسی چیز کی تقصیر(کسی) میں بڑھنے کو تفریط کہتے ہیں۔

الافعال: فعل کی جمع ہے، جیسا کہ آگے بیان ہوگا، جن افعال میں قربت وامید کامعنی پایاجائےا نہیں افعال مقاربہ اور جن سے فاعل کے لئے کوئی
صفت ثابت کی جائے انہیں افعال ناقصہ، جن میں تعجب کا معنی ہو انہیں افعال تعجب اور ان میں سے کسی کی تعریف یابرائی ومذمت کامعنی ہو انہیں افعال المدح والذم کہتے ہیں۔

الاقتباس: کسی عبارت یا شعر کے ضمن میں قرآن وحدیث کا کوئی جملہ آجائے۔

اقتضاء النص: یعنی نص کامضمون کسی حکم کوچاہتا یا اس کا تقاضا کرتا ہے۔

الاکراہ: کسی کو جہراًایسے کام کیلئے مجبور کرنا جسے وہ نہ چاہتاہو۔

الالھام: کسی ظاہری دلیل یاحجت کے بغیر دل میں کسی چیز کا علم حاصل ہونا۔
صوفیوں کےعلاوہ باقی تمام علماء کےنزدیک یہ حجت ومعتبر نہیں ہے، نیز اس بارے میںچھٹی فصل میں شرح عقائد نسفی کی عبارت بھی گذر چکی ہے۔

الامارۃ: وہ نشانی یا علامت جس سے کسی چیز کی معرفت حاصل ہو۔

الامتناع: کسی چیز کا ذاتی طور پر صرف عدم (نہ ہونے) کو طلب کرنا۔

الامالۃ: کسی حرف کی زبر کوزیر کی طرف مائل کرکے پڑھنا جیسے:مجریھا.
الامامیۃ: ان کا کہنا ہے کہ علیtکی امامت نص جلی سے ثابت ہے، فیصلہ کے لئے حکم مقرر کرنے کی وجہ سے انہیں کافرقرار دیتے ہیں۔

اہل الحق: وہ جماعت جو دلیل وحجت کی پابند ہے، یعنی قرآن وحدیث سے ثابت عقائد واعمال کو ہی حق تصور کریں، یعنی اہل السنۃ والجماعۃ۔

اھل الاھواء: اہل سنت کےعلاوہ باقی تمام فرقے۔

الایثار: نفع حاصل کرنےاور نقصان سے بچانے میں دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا۔

الابھام: کسی لفظ کے دومعانی ہوں، پہلاقریب الفہم یعنی سامع کو جلد سمجھ میں آنے والاہواور دوسرا قریب الفہم نہ ہو جبکہ متکلم دوسرا معنی مراد لے رہاہو۔

الایجاز: کسی کلام کو ضرورت کےپیش نظر عبارت سے بھی کچھ مختصر کردینا۔

الآیۃ: قرآنی مضمون کو کہاجاتاہے کبھی وہ طویل اور کبھی مختصر ہوتا ہے،ا س کی مزیدتفصیل باب۵فصل ۲میں دیکھنی چاہئے۔

الباطل: جواصلاً صحیح نہ ہو نیز وہ چیز جس کسی شمار میں نہ ہو اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہو۔

البحث: لغتاً تحقیق وتفتیش کو کہتے ہیں اور اصطلاحاً دوچیزوں کے درمیان کوئی نسبت ثابت کرناخواہ وہ ایجابی ہویا سلبی۔

البدل: وہ تابع جومتبوع کی طرف کی گئی نسبت سے مقصود ہو۔

البدعۃ: سنت کے مد مقابل ہر وہ دینی کام جس پر عہد نبوی یا سلف صالحین کے زمانہ میں عمل نہ ہوتا ہو اور نہ ہی کسی شرعی دلیل سے اس کاثبوت ملتا ہو۔احادیث میں بدعت کی سخت مذمت بیان فرمائی گئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

من احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھورد.(صحیح بخاری،کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود،الرقم:۲۶۹۷صحیح مسلم ،الرقم:۱۷۱۸)

یعنی:جس آدمی نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا عمل کیا یابڑھایا جوپہلے سے موجود نہ ہو تو وہ عمل مردووباطل ہے۔
بعض لوگ بدعت کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں:بدعت حسنہ ،اچھی بدعت اور بدعت سیئہ، بری بدعت ،یہ تقسیم بلکل غلط ہے کیونکہ جس عمل کو ہم بدعت تسلیم کریں وہ حسنہ یعنی اچھا کیسے ہوسکتاہے، مشکاۃ میں بحوالہ مسلم رسول اللہ ﷺ سے مروی ہےکہ:

وکل بدعۃ ضلالۃ.(صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ ،باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ،الرقم:۸۶۷،نسائی :۱۵۷۸ابوداؤد:<۲۶۰۷)

یعنی بدعت کی تمام قسمیں گمراہی ہیں۔

البدیھی: وہ چیز جسے معلوم کرنے کے لئے کسی دلیل اور سوچ وبیچار کی ضرورت نہ ہو۔

البرھان: وہ دلیل جو ایسے مقدمات سے بنے جو کہ بلکل یقینی ہوں۔

البرزخ: دنیاوآخرت کےد رمیان ایک جہان، شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغۃ میں اسے عالم مثال سے تعبیر کیا ہے۔

برائۃ الاستھلال: مصنف کا اپنی کتاب کی ا بتداء ،تمہید یاخطبہ میں اس مضمون کی طرف اشارہ کرنا۔

البلاغۃ فی المتکلم: ایسا ملکہ جس سے متکلم اپنی عبارت یاکلام کو ایسی فصاحت سے پیش کرے کہ سامع اسے جلد ہی سمجھ جائے، ایسی قابلیت کو البلاغۃ فی الکلام کہتے ہیں۔

البیان: ایسے صحیح کلام کو کہتےہیں جس سے کوئی پوشیدہ مضمون ظاہر ہوجائے یااشکال ختم ہوجائے۔

التابع: وہ لفظ جو اپنے سے ماقبل لفظ والے اعراب کوحامل ہو اور وہ اعراب ایک ہی جہت سے ہو۔

التاویل:کسی لفظ کو اپنے ظاہری معنی سے نکال کر ایسے معنی کے لئے استعمال کرنا جس کالفظ میں احتمال موجود ہو اور وہ معنی قرآن وحدیث سےمعارض بھی نہ ہو۔

التباین: ان دوچیزوں کے درمیان ہوتا ہے جن کی تعریف ایک دوسرے پر صادق نہ آتی ہو،مثلاً: انسان اورگھوڑا۔

تجاہل العارف: کسی معلوم چیز کو غیرمعلوم کے رنگ میں پیش کرنا۔

التحقیق: کسی مسئلے کو دلائل سے ثابت کرنا۔

التحریف: الفاظ میں تبدیلی (ردوبدل)کرنا، کبھی ایسی تبدیلی معنی میں بھی کی جاتی ہے اسے تحریف معنوی کہتے ہیں۔

التحذیر: لغۃً اس کامعنی ڈرانا ہے، علماء نحو کے نزدیک جس سے ماقبل کوئی کلمہ تحذیر محذوف ہو،مثلاً: اتق(ڈر) وغیرہ تحذیر کی مثال جیسے:ایاک والاسد.یعنی شیر سے ڈرواور اپنابچاؤ کرو، تکرار کی صورت میں جیسے: الطریق الطریق.

التخصیص:عام مستعمل لفظ کو اس کے ہمہ گیر (کثیر الاستعمال) معنی سے ہٹاکر کسی خاص دلیل کی بنیاد پر دیگرمعانی میں سے کسی خاص معنی کے لئے سمجھایاجائے۔

التدقیق: مسئلے کو کسی ایسی دلیل سے ثابت کرنا کہ دیکھنے والے کے لئے اس سے دلیل اخذ کرنے کانمونہ وطریقہ نہایت باریک ہے۔

التدلیس فی الحدیث: اس کی دوقسمیں ہیں:1تدلیس الاسناد، راوی کسی ایسےشخص سے روایت بیان کرے جس سے اس کا سماع ہو مگر وہ روایت اس سے نہ سنی ہو سامع اس کے طریق بیان سے یہ سمجھے کہ اس نے وہ روایت اس سے سنی ہے، یا کسی ایسے شخص سے بیان کرے جو اس کا ہم زمانہ ہو مگر اس سے ملاقات ثابت نہ ہو طریق بیان سے ایسا معلوم ہو کہ دونوں کا آپس میں لقاء ثابت ہے۔2تدلیس الشیوخ، اپنے ایسے استاذ سے روایت بیان کرے جس سے اس نے روایت سنی ہو مگر اس کا کوئی ایسا نام یاوصف ذکر کرے جس سے وہ معروف نہ ہو جس سے اس کی پہچان نہ ہوسکے،اس طرح کوئی معروف کذاب رواۃ ظاہر نہیں ہوسکتے ۔

الترادف: دو ایسے الفاظ جوباہم ہم معنی ہوں یا کسی ایک چیز پر دونوں صادق آسکتے ہوں۔

الترجی: کسی ممکن الوصول چیز کا ارادہ کرنا یا ناپسندیدگی ظاہر کرنا ۔

الترجیح: دو دلائل میں سے کسی ایک کو دوسرے پرزیادہ مقام ومرتبہ والاثابت کرنا۔

الترکیب: بعض حروف کو باہم ترکیب دیکر جملہ بنانا یا کلمات کو جوڑ کر جملہ بنانا۔

التساھل فی العبارۃ: الفاظ کو اس انداز سےا داکرنا کہ وہ اپنے مطلب پروضاحت سے دلالت نہ کریں۔

التسلسل: ایسی اشیاء کو آپس میں ترتیب دینا جن کی کوئی حدیاانتہاء نہ ہو۔

التسامح: غیرارادی طور پربغیر کسی قصد یاقرینہ کے الفاظ کاخلاف حقیقت استعمال ہوجانا۔

التصریف: بعض مطلوب ومقصود معانی کی خاطر کسی ایک اصل کامختلف امثلہ کی طرف پھرنا، اس ردوبدل کے بغیر ان معانی کوحاصل نہ کیاجاسکتاہو، علماء صرف کے قواعد کے مطابق جس چیز کے ساتھ کلمات کی مختلف بِنائیں معلوم کی جاسکیں۔

التصحیف: کسی عبارت کو اس انداز سے پڑھنا کہ وہ لکھنے والے کی مراد نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی کی اصطلاح ہو۔

التصور: کسی چیز کا عقل(دماغ)میں آنا کہ اس پر اثبات ونفی کاحکم نہ لگایاجاسکے۔
(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *