Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2017 » May Magazine » Badeeut Tafaseer K Ilmi Mahasin Per Aik Nazar Part 1

Badeeut Tafaseer K Ilmi Mahasin Per Aik Nazar Part 1

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

رئیس المحققین، عمدۃ المفسرین، قاطع شرک وبدعت، حضرت علامہ شیخ العرب والعجم سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدیؒ(۱۰جولائی ۱۹۲۵- ۸جنوری۱۹۹۶) راشدی خاندان کے مثالی گل سرسبدتھے، ان کی دعوت وتبلیغ ،درس وتدریس کا دائرہ نہ صرف وطن عزیز تھا بلکہ آپ سے بے پناہ محبت کرنے والے دنیا کے کونے کونے میں موجود تھے، آپ نے معتمدالحرم مکی کے علاوہ یورپ کے ایوانوں میں بھی درس وتدریس کا فریضہ سرانجام دیا، سندھ، پنجاب کاشاید ہی کوئی قصبہ ہو جہاں آپ نے توحید ورسالت کا پرچارنہ کیاہو، سرحد بلوچستان اور کشمیر میں بھی آپ نے رد شرک وبدعات کافریضہ سرانجام دیا، آپ وسعت مطالعہ،مشاہدہ، دینی بصیرت وبصارت،تبحر علمی کے اعتبار سے برصغیر پاک وہند کےعلماء ومشائخ کے محور ومرکز تھے، ان کی تحریری، تقریری ،تدریسی، تبلیغی اور مناظرانہ ومحققانہ انداز کا ایک زمانہ معترف ہے، آپ نے علوم شرقیہ، عربی،فارسی، سندھی اور اردو میںڈیڑھ سو سے زائد اپنے پیچھے یادگار تصانیف چھوڑی ہیں، آپ جس موضوع پر قلم اٹھاتے اس کاحق ادا کرتے،آپ بیک وقت علم، عمل، فہم ،فراست اورذہانت وزہد کے مینارہ نور تھےآپ نے شیخ الاسلام ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری (المتوفی1948ء)سیداحسان اللہ شاہ راشدی (المتوفی1938ء)مولانا عبدالحق مہاجرمکی ہاشمی (المتوفی1970ء) جیسے جیدعلماءعظام سے علمی استفادہ کیاتھا،آپ نے اپنے پیچھے بھی لاتعدادعلماء وفضلاء کا کاروان یادگار چھوڑا، شاہ صاحب تصنیفات میں مضامین، مقالات، محاضرات، موضوع ومواد کے لحاظ سے الفاظ،استعارات،محاورات اور تراکیب میں مثالی مقام کےحامل ہیں، آپ کو کتاب وسنت سے بے پناہ محبت تھی۔
جیسا کہ برصغیر میں قرآن عظیم کا سب سے پہلامکمل ترجمہ سندھی زبان میں ایک عراقی عالم دین نے فرمان روائے منصورہ کے عہد حکومت 881ء میں راجہ مہروک بن رائق کی فرمائش پرکیاتھا جبکہ فارسی میں بھی قرآن عظیم کا مکمل ترجمہ ایک سندھی عالم حضرت مخدوم محمد نوح سروری ہالائی نے (1590-1504ء)میں کیاتھاجسے سندھی ادبی بورڈ نے 1981ء میں شایع کیا۔جبکہ سندھی تفاسیر میں پہلی محققانہ مفصل ،مدلل تفسیرقرآن بدیع التفاسیر محققین کے ہاں معتبر اور معیاری ٹھہری۔
جیسا کہ قرآن مجید فرقان حمید،حکمت ومعرفت ،علم ودانش کا لازوال خزینہ ہے، یہ کتاب ہدی نوع انسانی کے لئے دنیا وعقبیٰ میں مستقل ہدایت اور فلاح دارین کاذریعہ ہے، اس کی تلاوت بھی باعث اجروثواب ہے، اس کی تعلیم،تفہیم منبع خیروہدایت ہے، یہ کتاب ہدایت فہم وادراک کو بے پناہ وسعتیں عطاکرتی ہے، یہ جدید وقدیم علوم کا منبع ہونے کے ساتھ انسانوں پرترقی کے ان گنت شعبے واکرکے تسخیرکائنات اور روحانی برکات وتجلیات کے سدابہار چشمے جاری کرتی ہے،یہ کتاب آثار وشواہد کامظاہرہونے کے ساتھ قصائص وعبرکا مرقع ہے، شروفساد سے باخبر کرکے دنیا وآخرت سنوارنے کاذریعہ بھی ہے اس کا ایک ایک لفظ سراسر معجزہ ہے، اس کتاب مبین میں مختلف النوع اقوام وملل کا ذکربسیط سیدناآدمuسے سیدناعیسیٰuتک بڑے موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے،کتاب اللہ روئے زمین پرواحد آسمانی صحیفہ ہے جو ہر اعتبار سے کامل اور جامع غیر مبدل پیغام زندگی ہے۔ یہ نسخہ کیمیا نوع انسانی کے منجملہ تقاضائے زندگی کو پوراکرکے انسانی فطرت کے موافق زندگی اور موت کاتصور پیش کرتا ہے، دورجدید میں ہرطرف الحاد مادہ پرستی، شرک وکفر کی گھٹائیں چھارہی ہیں ان کی لپیٹ سے بچنے کاواحد طریقہ قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کرنا ہے، اسی غرض سے شیخ العرب والعجم ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ محقق ومدقق احکام شرعیہ، علامہ الشیخ سید ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی (متوفی1996ء)aنے اپنی مادری اور قدیم سندھی زبان میں ایک جامع مستندبدیع التفاسیر کے نام سے تقریبا۱۳پاروں کی گیارہ ضخیم جلدوں میں تفسیر وتالیف فرمائی ہے۔ جیسا کہ یہ تفسیرسندھی میں ہے لہذا اس تفسیر پر ایک تعارفی اور علمی ادبی محاسن پر ایک نگاہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت ربانی سے مستفید کرے۔آمین
زیرمطالعہ تفسیر بدیع التفاسیر الشیخ علامہ سیدابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی aکی تالیف لطیف ہے، جن کی ساری زندگی تدبر،تفکر، تفقہ فی الدین کی آئینہ دار تھی اس تفسیر میں مطالعہ قرآن وعلوم القرآن کے بے انتہاعلمی عملی فکری پہلونمایاں نظر آتے ہیں،علامہ شیخ العرب والعجم نے جدید وقدیم کتبِ تفاسیر کے ذخیرہ کاروح اورعطراس تفسیر میں سمیٹنے کی جہد بلیغ ومحنت شاقہ کی ہے۔ آپ نے علوم قرآنی ورُموز فرقانی کو بڑی عرق ریزی سے کتاب وسنت کی پاکیزہ روشنی میں سمونے کی کوشش فرمائی ہے۔ خصوصا اپنے استاذمکرم مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری(متوفی 1948ء)aکی تفسیرثنائی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ دورجدید کے اسلام مخالف ادیان کا گہرا مطالعہ کرکے ان کو مدلل کتاب وسنت سے عقلی ونقلی جواب دینے کےساتھ دیگر ادیان ومذاہب پر بھی بصیرت افروز معلومات فراہم کرکے اسلام کی حقانیت اورصداقت پربڑے جاندار دلائل وبراہین بیان فرمائے ہیں،جنہیں ملاحظہ کرکے انسان کے علم ایقان میں اسلام کا دین فطرت ہونا واضح ہوجاتاہے، یہ بات بھی علماء وفضلاء سے مخفی نہیں کہ قرآن حمید کی تفسیرکے لئے کس غائر مطالع ومشاہدہ اور علوم عالیہ میں مہارت تامہ ہونا از حد ضروری ہے، پھر بڑے محتاط انداز میں روح قرآن وسنت کی روشنی میں تفسیر لکھی جاتی ہے،شاہ صاحب نے بھی ان تقاضات کو بحسن وخوبی نبھایا ہے، جس نے پوری ایک جلدضخیم میں مقدمۃ التفسیر کے علاوہ دس ضخیم جلدوں میں صرف سورہ’’حجر‘‘ تک قرآن حکیم کی تفسیر لکھی ہے۔
شاہ صاحب نے بدیع التفاسیر جیسی فاضلانہ تفسیر لکھ کر سندھی زبان کو تحقیقی وتدقیقی عظیم علمی شہ پاروں سے سرفراز فرمایا ہے، ان کے علمی وادبی زبان شگفتہ طرزتحریر،دلنشیں اسلوب بیان، قاری کی دلچسپی کو کہیں کم ہونے نہیں دیتی، شاہ صاحب جس راشدی خاندان علم وعمل رشد وہدایت ،کتاب وسنت کے لحاظ سے تاریخ میں نمایاں مقام رکھتا ہے، بہرحال تفسیر بدیع التفاسیر مبتدی ومنتہی کے لئے علوم قرآن میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے، شاہ صاحب نے خصوصا دقیق علمی مسائل کو پہلی بار انتہائی احسن اور سہل انداز میں قارئین کرام تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے، شاہ صاحب نے جہاں معنی ومفاہیم کی صحت کو ملحوظ خاطر رکھا وہاں انہوں نے زبان وبیان کا جودلنشیں ودلپذیر فاضلانہ اسلوب اختیار کیا ہے وہ ادب عالیہ کا شاہکار معلوم ہوتا ہےجس میں زبان وبیان کےساتھ علمی وادبی نادرنکات کی شیرینی کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے،ان کے انداز بیان میں سوزودرد بھی شامل ہے تواخلاص کابحرپیکراں بھی موجزن نظر آتا ہے، مختصرا شاہ صاحب کے ہاں کلام الٰہی کے مفاہیم کےساتھ حسن بیان وزبان کی خوبی بھی روز روشن کی طرح نظرآتی ہے، یہ گرانقدر علمی سرمایہ دلائل وبراہین سے مکمل مزین ہونے کےساتھ، عقلی ونقلی دلائل سے بھی لبریز ہواکرتا ہے، اہم بات تو یہ ہے کہ یہ تفسیر اسرائیلی روایات سے پاک وصاف ہے جن پر عموما مذاہب باطلہ کی بنیادی ہوتی ہے۔
مختصراً بدیع التفاسیر کی خوبیوں میں چندحسب ذیل ہیں: ہر سورۃ کے نام پر انتہائی بصیرت افروز علمی مباحث، جامع تعارف، متقدمین ومتاخرین کی آراء کی روشنی میں شان نزول سورتوں کے فضائل ،ربط آیات، مشکل الفاظ کامجردمحققانہ حل، حل لغات،کے لحاظ سے تو اتنی تحقیق وتدقیق نظر آتی ہے کہ انہیں ایک مثالی اور معیاری ڈکشنری کہنا بے محل نہ ہوگا، صرفی ونحوی تراکیب کے نادر علمی نکات، اغیار کی جانب سے اسلام پر اعتراضات اور ان کا دندان شکن جواب، تفسیر القرآن بالقرآن ،تفسیر بالاحادیث صحیحہ فن رجال، کی نگاہ میں صحیح روایات وآثار کا انتخاب، موضوع اسرائیلی غیرمستند روایات سے تفسیر کوکلیۃً پاک رکھناوغیرہ، کاخوب اہتمام کیا گیا ہے۔
بدیع التفاسیر سلفی منہج اور مسلک حق کی سندھی میں انفرادی تفسیرہے، جس کے مصادر ومنابع صرف اور صرف کتاب وسنت کے ساتھ توضیح وتشریح میں سلف صالحین ،صحابہyتابعینSکی تعبیر اور منہج کو پوری طرح ملحوظ رکھاگیاہے، شاہ صاحب مثالی علوم اسلامیہ کے عرب وعجم کے ماہر، فقید المثال مناظر، مفکر، خطیب، داعی ہونے کےساتھ ذہانت وفطانت میں، عبقری شخصیت کے مالک تھے، مفسر قرآن کے مشاہدہ اور مطالع عمیق کے ہمہ گیری، حکمت ودانش کے اندازہ کےلئے ان کی تفسیر ہی کافی ہے، ویسے ان کی تصانیف ڈیڑھ سوسے زائد، عربی اردو، سندھی میں ہیں، لیکن ان کی علمیت کااندازہ، آپ کو’’بدیع التفاسیر‘‘ سے ہی لگانا مشکل نہیں، آپ بدیع التفاسیر میں ان کے علمی جاہ وجلال، پرزور طریقہ استدلال کوبام عروج پر پائیں گے۔
شاہ صاحب کسی مقام پر بھی اپنےقلم اور اپنے ضمیر سے ایک لمحہ بھر کے لئے بھی جدانہیں ہوتے،وہ اپنی تحریر پرتاثیر میں اپنے موضوع کی مناسبت سے ادبی چاشنی، روانی عبارت، سلاست زبان، تاثیر کلام خصوصا مقصدیت میں کمی نہیں آنے دیتے، ان کی تحریر میں جہاں کتاب وسنت سے بے پناہ وابستگی ہے وہیں پرجدید وقدیم شعراء عرب، کی جولانیاں بھی نمایاں نظرآتی ہیں،بڑی بات کے ان کے ہاں ’’معذرت خواہانہ‘‘ انداز بیان جو امت میں عرصہ سے جڑپکڑرہا ہے اس کاکہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا، وہ سَرتان کرڈنکےکی چوٹ پر بات کرتے ہیں، وہ اپنوں یااغیار کی جانب سے اسلام پر اعتراضات کا جواب دینے کاخوب ملکہ رکھتے ہیں، سید صاحب نے سندھی زبان میں پہلی بار ایک انتہائی تحقیقانہ ،فاضلانہ اور معیاری تفسیر’’باب الاسلام‘‘ کےلوگوں تک پہنچائی ہے۔ بدیع التفاسیر کو آپ عربی یااردو میں لکھ سکتے تھے لیکن یہ معرکۃ الآراء تفسیر سندھی میں لکھ کر سندھ کے لوگوں کو اپنی شاندار ماضی، عظمت رفتہ یاددلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ شاہ صاحب نے سندھی زبان کوقصے کہانیوں ،دیومالائی باتوں،ا فسانہ وناول،رومانوی شاعری سے نکال کر علمی، ادبی، تحقیقی اور تدقیقی زبانوں کی صف میں لاکھڑا کرنے کی سعی مشکور فرمائی ہے۔
شاہ صاحب نے اسلامی مبادیات،عقائداسلام، مابعد طبیعات، اساسیات اسلام کےساتھ عوام الناس کے اذہان میں تشکک وتذبذب کے جوجرثومے تھے انہیں ختم کرکے،وحی الٰہی ،رسالت،جنت، جہنم، توحید،آخرت ،ملائکہ اور جنات جیسی اشیاء پرا نتہائی بصیرت افروز مباحث کرکے نئی نسل پر احسان فرمایا ہے۔’’ تقلید جامد‘‘پر بھی آپ نے پوری حقیقت منکشف کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ کتاب وسنت ،اجتہاد سےمنہ موڑ کر کوئی بھی قوم کسی جاندار تہذیب میں کھڑی نہیں ہوسکتی، علم واجتہاد ،تحقیق وتدقیق ،کتاب وسنت سے منہ موڑ کر دین خالص کاحصول ’’سراب‘‘کے پیچھے دوڑنے کے سوائے کچھ نہیں۔
شاہ صاحب کی تفسیر میں ایک خوبی یہ بھی ہےکہ وہ اپنے قاری کو جادہ مستقیم دکھاتے ہوئے قرآن وسنت کی پاکیزہ روشنی میں افراد، اشخاص، نظریات،اور دینی ومذہبی اداروں کو جانچنے پرکھنے کا تنقیدی شعور عطا کرتےہیں۔ شاہ صاحب ایک سحرالبیان ،ادیب ،اسلامی اسکالر، وقت کے نباض، مفکر ،گرائمر،لغات،علم العروض، اور علم المعانی کے ماہر تھے، خصوصا توحیدباری تعالیٰ کےمسئلہ پرآپ کی تفسیر انتہائی بصیرت افروز ہے آپ نے متعدد علمی مباحث چھیڑ کر، توحیدذات،صفات، ربوبیت، الوہیت ،تخلیق ،تکوین ،حاکمیت ،جیسے اہدی اصول بڑے احسن انداز سے قاری تک پہنچانے کافریضہ سرانجام دیا ہے، مختلف اہم مسائل میں مثلاً:ناسخ منسوخ،عقائد،نظریاتِ اعمال، احکام، عبادات، معاشرت، سیاسیات، اقتصادیات، معیشت اسلامی نظام مملکت، اجہتاد، صلح، جنگ، جہاد فی سبیل اللہ، غزوات، عدالت وقضایا، انفرادی واجتماعی معاملات، حقوق وفرائض، جیسے تمام اہم معاملات میں کوئی بھی علمی بات بغیر حوالہ نہیں کہی، ہر صفحہ حوالہ جات سے مزین نظر آتا ہے، اتنی تحقیق دیگرتفاسیر میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے،آپ نے کوئی مسئلہ شاید ہی تشنہ طلب چھوڑا ہے آپ کو بدیع التفاسیر کے مطالعے کے دوران علمی، ادبی ، لغوی نادر نکات بھی ملیں گے، تراکیب حل الغات صرفی ونحوی مباحث کے ساتھ اعجاز قرآنی بھی عروج پر نظرآئے گا۔
بدیع التفاسیر کے ابتدائی جلدوں میں جو اٹھانی تفصیلات کا علمی شیردریابہتاہوانظرآتاہے وہ آخری جلدوں میں قدرے اختصار میں سمٹ جاتاہے، اس کی اصل وجہ شاہ صاحب کی یہ تمنا تھی کہ زندگی مستعار نہ معلوم کب تک ساتھ نبھائے، ورنہ مفسرقرآن کا قلم تھکا نہ ذوق وشوق مانند پڑا تھا، بدیع التفاسیر کے مطالع سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی صدی سے بیسوی صدی تک اہم مذہبی معرکے اور عظیم فتنے ذکرکرکے شاہ صاحب نے انتہائی مدلل عقلی ونقلی دلائل سے ان کابطلان کیا ہے، تاہم کہیں ان کی تنقید کا لہجہ سختی میں تبدیل ہوجانے پر کچھ احباب کو قدرے ناراضگی اور مایوسی بھی ہوجاتی ہے، مگرلائق مصنف بھی کیاکرتا! ان مذاہب باطلہ نے کیسی بے رحمی سے اسلام کوبدنام کیا اور شعائر اسلام کامذاق اڑایاپھر یہ کہ شاہ صاحب کوئی بھی بات اپنے جانب سے بغیر دلیل نہیں کہتے، انہی کی کتب اور انہی کے قابل اعتماد زعماء کاحوالہ دیئے جاتے ہیں۔
کاش اس پوری تفسیر کاتفصیلی انڈکس(اشاریہ) بھی کوئی مرد مجاہد مرتب کرتا، توقارئین کو کتنافائدہ ہوتا؟ اس تفسیر میں جہاں دورحاضر کے مسائل کاحل موجود ہے وہیں دورجدید کے چیلنجوں کامردانہ وار مقابلہ اور منفی اسلام دشمن تحریکوں کے سد باب کا بھی تذکرہ موجود ہے، وہیں شاہ صاحب نے دورجدید کےنئے نئے فتنوں ،مادہ پرستانہ فلسفوں،شرک وکفر،الحاد وانکار ،مستشرقین یہود ونصاریٰ ،سیکولرزم،کمیونزم، سوشلزم، ہندو دھرم، آریادھرم، ڈارون کے ارتقائی نظریہ ،نام نہاد تصوف بلکہ وحدت ادیان کے ذہنی خلجان کا بھی خوب پوست مارٹم کیا ہے۔
مزید یہ کہ شاہ صاحب مرحوم نے’’مغربی سامراج‘‘ کی عنایت کردہ‘‘ چھتری کے سایہ تلے پروان چڑھنے والی نام نہاد مذہبی تحریکوں ،مثلاً: قادیانیت، پرویزیت، انکارحدیث، قبہ وقبرپرستی، پیرپرستی کی بھی خوب خبر لی ہے، اگر پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تومفسر قرآن، کی ساری حیاتی اسی جدوجہد میں گذری، کبھی اپنے مکتبہ میں عرب وعجم سے آئی ہوئی بڑی اوربھاری کتب کی ورق کتب کی ورق گردانی کرتے، علمی جولانگاہ میں تحقیق وتدقیق کافریضہ سرانجام دیتے ہوئے،کبھی اپنے آباؤواجداد کی سنت(شاہ اسماعیل شہید اور سیداحمد شہید) پر عمل کرتے ہوئے کبھی گھوڑے ،اونٹ کی پیٹھ پر یاپیادہ ملک کے طول وعرض حتی کہ وادی ریگستان کی جلتی ہوئی ریت، چلچلاتی ہوئی دھوپ میں، کبھی پنجاب وسرحد کے دورافتادہ قصبات میں کبھی سات سمندرپار دیارِ مغرب کے طول وعرض میں قرآن وسنت، علوم اسلامیہ کے بحرذخار سے آبیاری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کبھی کتاب وسنت رسول کی بالادستی کی غرض سے ایوان اقتدار سے لڑتے ہوئے کبھی توہین رسالت اور شعائر اسلام کی دھجیاں بکھیر نیوالی نام نہاد آزاد صحافت کے خلاف پریس کانفرنسیں کرتے پوری حیات گذاری۔
باقی جو چندلمحات میسر آتے ان میں یا تو عبادت گذاری، شب زندہ داری، طویل قیام اللیل کرتے یا بدیع التفاسیر لکھنے میں وقت گذارتے۔ بدیع التفاسیر میں گمراہ کن مفسرین کی تاویلات کو بھی آڑے ہاتھوں لےکر کتاب وسنت سے جواب دیاگیاہے۔
یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ شاہ صاحب کے خاندان کے بڑے پیرانہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،انہوں نے بھی بڑے بڑے صوفیاء کرام کے تذکرے پڑھےہوں گے، جن حضرات نے اپنے گاؤتکیوں اور خانقاہوں تک دین قیم کو محدود کرلیاتھا، ان کے طویل تھکادینے والے مراقبے ،مجاہدے، سے بھی آپ غافل نہیں ہوں گے، بڑے بڑے کشف وکرامات ،خیالوں اور خوابوں ،کے طویل وعریض قصے بھی سن رکھے ہوں گے، لیکن ان سب باتوں کے باوجودآپ نے نام نہاد پیری مریدی، قبہ وقبرپرستی، نام نہاد کشف وکرامات کاخوب علمی انداز میں اپنی تفسیر میں جواب دے کرصحیح دین محمدی کی قرون اولیٰ والی تصویر کی حقیقی عکاسی فرمائی ہے، بہرحال مفسر کے ذہن وفکر میں یہ جذبہ پوری طرح کارفرماہے کہ ہربات کاجواب کتاب وسنت سے دیاجائے، اور ہر بات منشائے خداوندی اور سنت رسول ﷺ سے ماخوذ ہو تفسیر میں شاہ صاحب بکثرت روایات لائے ہیں، لیکن سب روایات فن رجال کی کسوٹی پر پرکھنے کےسا تھ آج کل کی طرح بڑی بہادری سے معتبر احادیث رسول کوبلاوجہ فن الرجال کے شیشہ سے تراشنے کی شوق سے محترز نظر آئے ہیں!
اللہ تعالیٰ شاہ صاحب مرحوم کی علمی دینی اور تفسیری خدمات کو شرف قبولیت سے سرفراز کرے اور مفسر،ناشر،طابع، کتابت کرنے والے اور قارئین کرام سب کے لئے اس کوزاد راہ بنائے، اور امت مسلمہ کو اس علمی ذخیرہ سے صحیح معنی میں استفادہ کرنے کی توفیق بخشے اور اللہ تعالیٰ کوئی ایسا رجل رشید پیداکرے جو اسلامی جذبہ سے سرشار ہوکر اسی باوقار تفسیر کا عربی ،اردوو انگریزی اور فارسی میں ترجمہ کرے تاکہ عوام الناس کو اس علمی ذخیرہ سے استفادہ کرنے کاموقع دیاجائے، یہ ان کی علمی یادگار ہے جو محض رضائے الٰہی کے لئے لکھی گئی ہے اللہ تعالیٰ شاہ صاحب پر بھی اپنے انعام واکرام کانزول فرمائے اور ان کوجوارِ رحمت اعلیٰ علیین میں مقام عطافرمائے۔
(جاری ہے)

About پروفیسر مولابخش محمدی

پروفیسر مولابخش محمدی،مٹھی تھرپارکر

Check Also

آزادی کے نام پر عریانی کافروغ

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *