Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2017 » July Magazine » Badeeut Tafaseer 193

Badeeut Tafaseer 193

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

قسط 193 ۔۔۔ احسن الکتاب فی تفسیر ام الکتاب شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ


الحدیث القدسی: جسے رسول اللہ ﷺ اپنے الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے روایت کریں۔ یعنی اس کا معنی ومفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو مگر الفاظ کا نزول قرآن مجید کی طرح نہ ہو، یاد رہے کہ تمام احادیث اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی آئی ہیں ،مگر فرق اتنا ہے کہ حدیث قدسی میںرسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے روایت بیان کرنے کا ذکر فرماتے ہیں، علماء کرام نے احادیث قدسیہ سے متعلق کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، اس بارے میں علامہ محمد المدنی کی کتاب’’الالحافات السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ‘‘ معروف ہے۔

الحذف:ضرورت کی بناء پر کسی حرف کو گرادینا۔

الحرکۃ: جو دوسرے کلمے سے ملائے بغیر ازخود اپنا معنی ومفہوم بیان نہ کرسکے۔

الحسن من الحدیث: جس حدیث کے کسی راوی کا حافظہ کامل نہ ہو ،صحیح کی دیگر تمام شروط موجودہوں۔

الحصر: کسی چیز کو مقررہ عدد کیلئے ذکر کرنا یالانا۔

ؒالحفصیۃ: ابوالحفص بن ابی المقدام کی جماعت، ان کے عقائد اباضیہ والے ہیں نیز ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ایمان وکفر کے درمیان تیسرا درجہ ہے۔

الحق: ایسی ثابت چیز جس کا انکار نہ کیاجاسکے، علم معانی والوں کے نزدیک وہ چیز وقوعہ کے مطابق ہو،صدق یعنی سچ ،صواب یعنی درست وصحیح کو بھی کہاجاتا ہے، نیز الحق اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارکہ میں سے ایک اسم بھی ہے۔

الحقیقۃ: ایسی چیز جو قطعی ویقینی طرح سے ثابت ہو نیز ہر چیز کی حقیقت وہ ہوتی ہے جس سے اسے پہچانا جاسکے۔

الحکایۃ: کسی بھی عبارت کو اپنی اصلی صورت میں نقل کرنا۔

الحکمۃ: دانائی، دینی علم یا ہر وہ کلام جو حق کے ساتھ موافقت رکھتاہو، ایسے علم کو بھی کہاجاتا ہے جس میں اشیاء کی حقیقت سے بحث کی جائے، نیز رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو بھی کہاجاتا ہے جیسا کہ عموما مفسرین نقل کرتے ہیں۔

الحکم: کسی کام کی دوسرے کی طرف نسبت کرنا خواہ ایجابی ہو سلبی نیز کسی چیز کو اپنی جگہ دینا، اللہ تعالیٰ نے جوا حکامات اپنے بندوں کے لئے نازل فرمائے ہیں انہیں شرعی احکام کہاجاتا ہے۔

الحلال: جس کا استعمال موجب سزا نہ ہو یا جس کے استعمال کی شریعت نے رخصت دی ہو۔

الخاصۃ: ایسی کلی جو ایک ہی حقیقت میں کئی افراد پر بولی جائے، مگر باعتبار عوارض ہو نہ کہ باعتبار ذات مثلا کاتب بالقوۃ اور خاصۃ الشیٔ (کسی چیز کا خاصہ) اس سے مرادایسی چیز ہوتی ہے جو اس کے علاوہ کسی اور میں نہ پائی جاتی ہو اور وہ چیز اس خاصے کے علاوہ مل سکتی ہو مثلا الف اور لام اسم کاخاصہ (نشانی) ہے یہ فعل اور حرف پر داخل نہیں ہوتا مگر کبھی اسم الف ولام سے خالی ہوتا ہے۔

الخاص: ایسا لفظ جو کسی خاص معلوم معنی کے لئے ہو۔

الخبر: ایسا کلام جسے سچایاجھوٹا قرار دینے کی گنجائش موجود ہو اگر اس میں تواتر کی شروط ہونگی تومتواتر ورنہ خبرواحد کہاجائے گا۔

الخصوص: کسی چیز کو دوسروں سے ممتاز یا الگ کرنا۔

الخط: ان الفاظ کی صورت جوحروفِ ابجد سے تعلق رکھتے ہیں نیز اس طویل لکیر کو بھی کہاجاتا ہے جس کی چوڑائی اورگہرائی بیان نہ کی جاسکتی ہو۔

الخطأ: جوکام انسان سے غیر ارادی طور پر ہوجائے۔

الخفی: جس کامعنی ومطلب ظاہر نہ ہو۔

الخلاف: احقاقِ حق وابطال باطل کے لئے دوفریقوں کے درمیان مناظرہ ۔

الخلفیۃ: خلف خارجی کی جماعت جو مشرکین کی اولاد(بچوں) کو جہنمی کہتے ہیں اگرچہ انہوں نے کوئی شرک یاگناہ نہ کیاہو۔

الخوارج: ایک فرقہ جوخلیفہ (بادشاہ) کے اذن کے بغیر لوگوں سے عشر یعنی زکاۃ کے طور پر دسواں حصہ وصول کرتے رہتے ہیں، ان کے بارے میں مزید وضاحت آیت غیر المغضوب علیھم والضالین کے تحت فرقوں وجماعتوں کے بیان میں آئے گی۔

الخیال: وہ صورت جس کے ساتھ کسی بھی محسوس یا معلوم چیز کی شکل ذہن میں سنبھالی جاسکے اورا صل میں کسی کے بھی سامنے بننے والی صورت کو کہا جاتا ہے، خواہ وہ نیند میں خواب کے راستے ہو یا آئینہ میں یا کسی غائب چیز کی ہو۔(المفردات فی غریب القرآن للراغب الاصفہانی ،ص:162)

الخیاطیۃ: یہ لوگ تقدیر کے اس انداز سے قائل ہیں کہ ہر معدوم وغیرمعدوم کو بھی شیٔ(کوئی چیز) قرار دیتے ہیں۔

الدائمۃ المطلقۃ: وہ قضیہ یاجملہ جس میں موضوع یا مسند الیہ کے لئے اس کے محمول یا مسند پر ہمیشگی یا دوام کا حکم لگایاجائے خواہ وہ ایجاب کے لئے ہو یااثبات کے لئے، مثلا کہاجائے: دائما کل انسان حیوان. یعنی انسان جب تک موجود ہے اس میں زندگی ہے ،خواہ سلبی یا نفی کی معنی کے لئے ہو مثلا: لاشیٔ من الانسان بحجر،یعنی انسان کوئی پتھر نہیں ہے۔

الدائرۃ:علماء ہندسہ کے نزدیک ایک شکل کا نام ہے جس میں چاروں اطراف ایک لکیر ہوتی ہے اور اس کے درمیان والے نقطہ کو مرکز الدائرۃ اور اس لکیر کو محیط الدائرہ کہاجاتاہے۔

الدستور: دراصل ایسے بڑے وزیر کو کہتے ہیں جس کی تحریر کی طرف لوگوں کے امور واحوال کے بارے میں رجوع کیاجائے۔

الدعویٰ: دعاء سے مشتق ہے بمعنی مانگ وطلب اور شرعی اصطلاح میں اس کلام کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے انسان کسی دوسرے پر حق ثابت کرنا چاہے ۔

الدلیل: لغۃ بمعنی المرشد یعنی راہ دکھانے والانیز جس چیز سے راستہ معلوم ہو اسے دلیل کہتے ہیں ،اصطلاحااس کو کہتے ہیں کہ جس کے جاننے سے کسی دوسری چیز کا جاننا لازم آئے، اور اس قسم کی دلیل جو کہ مد مقابل کے پاس بھی مسلمہ ہو اورجو پیش کرنے والے کے نزدیک مسلمہ ہو یا نہ ہو اسے الدلیل اللازم کہتے ہیں۔

الدور: کسی چیز کا اس جگہ آکر کھڑا ہونا جہاں وہ پہلے کھڑی تھی یعنی جہاں سے شروع ہوئی وہیں اس کی انتہاء ہو۔

الدلالۃ: کسی شیٔ کا خودبخود قدرتی طور سے یاکسی کے مقرر کرنے سے ایسا ہونا کہ اس کے جاننے سے دوسری چیز نامعلوم کاعلم ہوجائے، پہلی شیٔ کو جس سے علم ہو اہے، دال اور دوسری چیز کو جس کا علم ہوا ہے مدلول کہتے ہیں، اگر دال اورمدلول کے مابین مطابقت ہے جیسے صریحا نص ہوتی ہے ،ایسی دلالت کو مطابقی کہاجاتاہے اور اگر اس طرح نہ ہو بلکہ دال مدلول کو متضمن ہو یعنی دلیل کے ایسے الفاظ ہو جو مدلول کو بھی شامل ہوں اور وہ دلیل کے الفاظ میں داخل ہو جیسے عام ہوتا ہے تو اس کو دلالت تضمنی کہتے ہیں اور اگر مدلول کے لوازمات یا اس سے تعلق رکھنے والی کسی چیز پر دلالت کرے مثلا الکاتب (لکھنے والا) سے مراد کوئی خاص انسان زید یا عمرو یابکر وغیر ہ لیا جائے تو ایسی دلالت کو التزامی کہاجاتاہے۔

الذمۃ: ایسا عہد وپیماں جس کے توڑنے سے گناہ اور ملامت (سزا) لازم آئے۔

الذوق: یعنی چکھنا، علماء کے نزدیک ایسی اندرونی معرفت اور پہچان جس کے ذریعے کسی کتاب وغیرہ کودیکھے بغیر ہی حق وباطل کے درمیان تمیز وفرق کرسکتے ہیں مگر ایسی معرفت علی الاطلاق حجت اور سند نہیں ہے بلکہ اگر قرآن وحدیث کے مطابق ایسی معرفت صحیح درست ہوگی تو مقبول ورنہ مردود وباطل۔

ذوالارحام: لغۃ رشتے داروں کو کہتے ہیں شرعی اصطلاح میں میت کے ایسے ورثاء جن کا شریعت میں کوئی حصہ مقرر نہ ہواور نہ ہی وہ عصبات میں سے ہوں۔

الراھب: مسیحی دین کا ایسا عالم جو دنیاوی معاملات سے قطع تعلق اختیار کرکے لوگوں سے الگ ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے گوشہ نشین ہوجائے۔

الرخصۃ: بمعنی سہولت وآسانی ،شرعا اس عمل کو کہتے ہیں جس کی منع دلیل سے ثابت ہو مگر کسی عذر کی بنا پر اجازت دی گئی ہو۔

الرد: بمعنی روکنا وپھیرنا فقہاء کی اصطلاح میں ترکہ تقسیم کرنے کے بعد بچاہوامال دوبارہ ورثاء میں تقسیم کرنے کو کہتے ہیں۔
الرسم: بمعنی نشان(لسان العرب ۱۲؍۲۴۱) نیز معاشرہ میں جاری کردہ رواج کو بھی کہتے ہیں۔
رکن الشیٔ: جس سے کسی چیز کا مضبوط ہونا اور قائم ہونا ہو۔
(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *