راہ نجات

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

(فضیلۃ الشیخ سلطان محمود محدث جلالپوری کا خطبہ عیدالفطر۱۳۹۶ھ)

تبویب:ذوالفقار علی طاہر


دوجملوں میں اسلام کامکمل عنوان

ہرطرح کی تعریف اورثناء اس ذاتِ قدوس کیلئے جس نے ہم پر سب سے پہلا احسان یہ فرمایا کہ ہمیں انسان بنایا،پھر اس کادوسرا احسان یہ ہے کہ اپنے انبیاء میں سے ہمیں اس نبی کی امت بنایا جو اللہ کی پوری کائنات میں اللہ کا سب سے برگزیدہ ہے، یعنی سیدنامحمد ﷺ ، اس رسول کے ذریعے جو ہمیں مذہب دیاگیا ہے اس کامختصر نام تو اسلام ہے لیکن ہم جب اس کا مکمل عنوان دیکھنا چاہےتو ہمیں ان دوجملوں میں نظر آتا ہے کہ ’أشھد ان لاالٰہ الااللہ وأشھد أن محمدا رسول اللہ‘ یہ دوجملے اللہ کے بھیجے ہوئے اس دین کامکمل عنوان ہیں اس عنوان کو دیکھنے سے ہمیں دوباتیں معلوم ہوتی ہیںاور ہمیں مجبور کیا گیا ہے کہ ان دوباتوں پر ہم مکمل ایمان لائیںاور اپنی عملی زندگی ان ہی دوباتوں کے ماتحت رکھیں۔ دو باتوں میں سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم اپنے دل سےاپنی زبان سے اپنے عمل سے اس کائنات میںیہ شہادت دےدیں کہ اس کائنات کا خالق،اس پرکنڑول رکھنے والا،اس میں ہرطرح کی تبدیلیاں کرنےوالا اور صاحب اختیار ایک اللہ ہے۔ اس کی اس ملکیت میں ایک بال تک اپناکسی کانہیں ہے۔

اس عنوان کا پہلااعلان

یہ اس عنوان کا پہلا اعلان ہے کہ ہم نے یہ عقیدہ رکھنا ہے اور اسے لوگوں تک پہنچاناہے کہ انسانو! جس ذات کا نام اس کے اپنے کلام میں ’’اللہ‘‘ آیا ہے جس کی صفتیں الرحمن اور الرحیم ہیں وہ صرف اکیلا ہی اس پوری کائنات کا مالک ہے۔ اس کائنات کو وجود اسی نے دیا۔ اس کی بقا کی ذمہ داری اسی پر ہے اس کی بقا کے تمام اسباب اورذرائع اس کے قبضہ وقدرت میں ہیں، ذرابرابر بھی کسی دوسرے کا اختیار نہیں ،یہ وہ اعلان اورعنوان ہے کہ اسے وہ لوگ بھی تسلیم کرتے تھے جنہوںنے سیدنامحمد ﷺ کےمقابلے میں تلواریں اٹھائیں تھیں، اس اعلان کے وہ بھی مخالف نہیں تھے، اللہ کے رسول ﷺ ایک شخص سے پوچھتے ہیں کہ حصین آج کل تم کتنے دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہو؟اس نے کھلے دل سےکہا….کہ سات کی پوجا کرتاہوں…. سات کی نذر دیا کرتا ہوں …. سات کو بوقت ضرورت پکارتاہوں۔ آپﷺ نے فرمایا:تو آج کل تم سات کو اپنا معبود سمجھتے ہو۔ مگر یہ بتاؤ کہ ان ساتوں میں وہ کہاں کہاں ہیں ؟ عرض کی ایک آسمان میں اور چھ زمین میں۔آپﷺ نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ ان ساتوں میں سے کون ہے کہ جس کے بارے میں تمہاراخیال ہے کہ نفع آتا ہے تو اسی سے اور نقصان آتا ہے تو اسی سے؟کہنے لگا محمدﷺ سچ پوچھوتو ان ساتوں میں وہ جس کے بارے میں سمجھتاہوں کہ میرانفع بھی اس کے ہاتھ میں ہے اور نقصان بھی، وہ صرف ایک آسمان والاہے،زمین والے نہیں۔ آپﷺ نے پوچھا کہ تم ان زمین والوں سے کیامانگتے ہو؟تو اس نے جواب دیا،جوصرف حصین کاجواب نہیں ،ابوجہل کابھی یہی جواب تھا بلکہ یوں کہئے کہ تمام کے تمام قریش کے سرداروں کا یہی جواب تھا کہ ہم ان کودینے والانہیں سمجھتے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کہہ سکتے ہیں اور کہلواسکتےہیں جو وہ نہ دینا چاہے یہ اس کو منواسکتےہیں ،اصلی مالک وہی ہے، عنوان کامفہوم ایک حدیث سے ہی سمجھ آگیا کہ خالق وہی، مالک وہی، نفع ونقصان کا مالک بھی وہی ،اور جو ہم نے کرنا ہے اسی کے نام پر کرنا ہے ،نذریں نیازیں اسی کے نام کی دینی ہیں، دل میں خوف بھی اسی کا ہونا ہے، امید یہ ہو کہ فلاح دے گا تو وہی۔

مختار کل صرف اللہ

اس کے علاوہ باقی پوری کی پوری کائنات اس کی مرضی کے خلاف کچھ کرسکے یاکراسکے توبڑی بات ہے کہنے کابھی اختیار نہیں رکھتی، ایک نے کہاتھا، وہ اس وقت زمین کا دیوتا سمجھا جاسکتا تھا،اس کی خاطر پوری کائنات کو تہہ وبالاکردیا گیا مگر اس کی بات کو نہ ماناگیا ،اس کانام نوح ہے، اس نے اپنے بیٹے کے بارے میں اللہ کی بارگاہ میں اتناعرض کیا کہ اللہ تو نے وعدہ کیا تھا کہ تیرے کنبے کو میں محفوظ رکھوں گا،میرابیٹا میرے کنبے میں سےتھا یوں نہیں کہا کہ اس کوبچ جاناچاہئے تھا، یہ کہا کہ میرابیٹا تو میرے کنبے میں سے تھا تو اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے:[فَلَا تَسْـــَٔـلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ ](ھود:۴۶)نوح یہ تیری پہلی بات ہے ہم اسے توبرداشت کرلیتے ہیں مگر سن لے آئندہ میری اجازت نہ ہوتو تُو پوچھ نہیں سکتا کہ اس طرح کیوں ہوا،اتناکہنے کابھی تمہیںحق نہیں ہے، خبردار!آئندہ تم نے ایسا کہا تو تمہیں جاہل کہاجائے گا،جاہل قرار دیئے جانے کامطلب ہے کہ تجھ سے نبوت واپس لے لی جائے گی کیوں کہ جہالت اور نبوت جمع نہیں ہوسکتے، نبی عالم ہے اور جوجاہل ہے وہ نبی نہیں ہوسکتا، اس لئے فرمایا تمہیں جاہلوں میں سے قرار دیاجائےگا۔ تیری نبوت تم سے واپس لے لی جائے گی ،یہ دلیل ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں کچھ کرانےکا کوئی شخص حق نہیں رکھتا، سب کچھ کرنے والاصرف اللہ ہی ہے، یہ پہلا عنوان ہے۔

اس عنوان کادوسرا اعلان

دوسراعنوان کہ تم کو دینے والاوہی ہے ،سننے والاوہی ہے لہذا ہمیں زندگی اس کی مرضی کے مطابق گزارنی ہے لیکن ہمیں کس طرح پتہ چلے گا کہ وہ ہم سے چاہتاکیاہے؟ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کائنات کی کون کونسی چیزسے ہم فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اور کس کس چیز سے ہمیں اپنے آپ کو دور رکھنا ہے اور جس چیز سےہم فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اسے کس طرح استعمال کرسکتےہیں ،ہم محتاج ہیںکہ اسی سے پوچھیں مگر نہ ہم اسے دیکھ سکتے ہیں نہ اس کی بات سننے کی اہلیت رکھتے ہیں ،اس کیلئے ہمیں ایک واسطے کی ضرورت ہے کہ وہ واسطہ ہمیں یہ بتائے کہ اللہ رب العالمین تم سے یہ چاہتاہے، رب العالمین تمہیں اس کام کے کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اس کام سے روکتا ہے، کوئی ایک واسطہ ضروری ہے جو درمیان میں آئے اورہمیں اس بات کی اطلاع دے ،لیکن وہ واسطہ کون ہے؟ اس کائنات میں جس طرح وہ مالک ایک ہے اسی طرح اس کی طرف سے اس کانائب صرف ایک ہے،’’أشھد أن محمدا رسول اللہ‘‘ یہ دوسرے عنوان کامفہوم ہے کہ جس طرح کائنات میںپکارا اسی کو جاسکتا ہے، پرستش اسی کی ہوسکتی ہے، اسی طرح کائنات میں صرف محمدﷺ ہے جو وہ کہے ہم سنتے جائیں ،وہ حکم دیتے جائیں ہم کرتے جائیں، ایک کے علاوہ کوئی شخص نہیں کہ وہ کہے اورہم اس کی سننے پرمجبور ہوں، یہ ہے دوسرا عنوان ۔

حقیقی مسلمان کون؟

اسلام کے یہ عنوان اگر کسی فرد ،کسی برادری ،کسی قوم کے پاس صحیح سالم موجود ہیں وہ مسلمان ہے، جس کا یہ عقیدہ ہے کہ عبادت کے لائق ایک اللہ اور اطاعت کے لائق صرف ایک رسول محمدﷺ۔اس سلسلے میں کوئی دوسرا نہیں ،وہ اللہ کے فضل سے مومن ہے۔ اس کیلئے نہ قبر میں تاریکیاںہیں جبکہ اس کیلئے آخرت میں درجات ہیں۔وہ اللہ کے نبی ہادی کے قدموں پر چلتاہوا سیدھا جنت میں پہنچ سکتاہے ،اسے کسی دوسرے وسیلے کی ضرورت نہیں ہے، لوگوں نے دنیا میں ہزاروں واسطے بنائے ہیں، اللہ کے قرآن میں جس طرح بحیثیت معبود صرف ایک نام پیش کیا وہ صرف اللہ ہے اسی طرح بحیثیت مطاع صرف ایک محمد ﷺ ہیں۔ جس طرح کسی دوسرے نام کو اللہ نے پیش نہیں کیا ،قرآن میں مختلف انبیاء کے نام بھی بتائے ،مگر اس لئے کہ وہ اپنی قوموں میں متعارف تھے کہ اس کے بھیجے ہوئے تھے، اس لئے نہیں کہ ہم ان کی اتباع کریں جس کی اتباع ہمیں کرنی ہے اور اللہ کے قرآن نے مجبور کیا ہے اس میں صرف ایک کانام آتا ہے ۔محمدرسول اللہﷺ،اس نام کے ساتھ نہ تو کسی دوسرے کانام پیش کیاجاسکتاہے اور نہ کسی اور کانام پیش کیاگیا ہے وہ ایک ہے اور قیامت تک ایک رہے گا،جوشخص اپنے آپ کو مطاع کیلئے پیش کرے گا اللہ کی طرف سے اس کوکذاب کالقب ملے گا،پوری کی پوری قوم سن لے کہ اللہ کی طرف سے واجب الاطاعت کون؟محمدﷺ ، آپ کی ذات کے علاوہ کوئی دوسرامطاع نہیں۔ اگر کوئی اس امت میں موجود ہے جس کی ہم بات سن سکتے ہیں توصرف وہی ہوسکتا ہے صرف وہی۔دوسرا،تیسرا ،چوتھا اورپانچواں کوئی نہیں ہوسکتا۔الایہ کہ اس کے شاگردوں میں سے کوئی اس کی بات بتادے کہ میرے محمدﷺ نے مجھےیوں فرمایاتھا۔ہم گردنیں جھکادیں گے،سن لیں گے مگر بات اس کی کہے گا،اگر اپنی طرف سے کہے گا تو ہم اللہ کی طرف سے مجبور اورپابند نہیں ہیں کہ ہم اس کی سنیں۔

ایک آیت اور حدیث سے اس کی تفسیر

اس سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایک آیت کے ایک ٹکڑے کی تفصیل ہمیں سمجھائی ہے اور ہدایت والی بات بھی یہ ہے کہ اللہ کاقرآن ہواورمحمدﷺ کی پاکیزہ زبان اس کی تفسیر کرنے والی ہو اس کی تفسیرکوئی دوسرا نہ کرے، خود اللہ کارسول فرمائے۔ امام ابن ماجہ حدیث بسند صحیح نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن نبیﷺ اپنی مجلس میں بیٹھے تھے ،آپ کے آگے کھلا میدان پڑا تھا، صحابہ کا حلقہ وسیع تھا،آپ نے زمین پر ایک لمبی لکیر کھینچی ،پھر اس کے دائیں جانب دولکیریں کھینچیں اوردرمیان والی لکیر کے ساتھ ملادیں، اسی طرح سے بائیں طرف دولکیریں کھینچیں اس کوبھی اس بڑی لکیر کے ساتھ ملادیا،یہ پانچ لکیریں صحابہ کے سامنے آگئیں ایک سیدھی ،دودائیں جانب اور دوبائیں جانب ،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تم دیکھ رہے ہو ایک سیدھی لکیر ہے اور اس کے دونوں جانب دو دولکیریں اور نکل رہی ہیں ،جسے تم دیکھو گے توظاہر میں تمہیں یہ بات دکھلائی دے گی کہ یہ چاروں کی چاروں لکیریں دواس طرح اور دو اس طرح اس ایک لکیر کے ساتھ مل رہی ہیں،مگر فرمایا کہ یہ سیدھی سادھی لکیر ’ھذہ سبیل اللہ‘اللہ کا راستہ ہے اور دائیں بائیں جانب کی لکیریں جو تم دیکھ رہے ہو ،یہ شیطانی راستےہیں، تم سیدھی لکیر پرچلنا ،دائیں بائیں جانب مڑ کردیکھنے کی کوشش نہ کرنا ،اگر تم دیکھنے کی کوشش کروگے تو نتیجہ کیا نکلے گا؛اللہ کے رسول ﷺ نے اس وقت یہ آیت تلاوت فرمائی:[وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝۰ۚ ](الانعام:۱۵۳)یہ سیدھی لکیر میراراستہ ہے ،میرے رب نے مجھے بناکردیاہے۔ تم اسی راستے کے پیچھے چلتے جاؤ،اسی راستے پر تم ثابت قدم رہو۔[وَلَا تَتَّبِعُوا] (الانعام:۱۵۳)ادھر سے راستے نکل رہے ہیں اور ادھر سے بھی راستے نکل رہے ہیں ،ان راستوں میں سے کسی ایک راستے کے پیچھے مت چلنا،اگر تم ان راستوں میں سے کسی ایک راستے پر چلوگے۔[ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۭ] (الانعام:۱۵۳) تو اللہ کے راستہ سے تم کو دورپھینک دیا جائے گا۔اللہ کے راستے سے تم دورہوجاؤگے۔ یہ اللہ کاکلام ہے اور سیدنامحمدﷺکی حدیث، ان میں ہمیں بتایاگیا ہے کہ اسلام کا آخری عنوان جس میں زیادہ خطرے موجود ہیں اور زیادہ لوگ گمراہی میں مبتلاہوسکتے ہیں وہ یہی ہے کہ سیدنامحمدﷺ مطاع مطلق اور مطاع کل ہیں۔ ہم نے انہی کی اطاعت کرنی ہے انہی کے راستے پر چلناہے جس طرح عبادت ایک اللہ کی اسی طرح اطاعت ایک محمدﷺ کی۔

پیارے پیغمبر ﷺ کی آخری لمحات میں ایک وصیت!

اللہ ہم سب مسلمانوں کو توفیق عطافرمائے کہ ہم اسلام کے ان دوعنوان کومضبوط پکڑے رکھیں اور یہ دو عنوان ہمارے ہاتھوں سے نکل نہ جائیں، اس لئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاتھاکہ جب آپ کی زندگی کے آخری لمحات آچکے تھے تو ایک وصیت فرمائی،مسند دارمی میں یہ حدیث موجود ہے،آپﷺ نے فرمایا:دیکھو میرے پاس اللہ کاپیغام آگیا ہے ،میں اللہ کے پاس چلاجاؤںگا، تم اکیلے یہاں رہوگے تو میں تمہارے لئے انتظام کرگیاہوں کہ تم تنہائی کا شکار نہیں ہوگے،ترکت فیکم امرین لن تضلوا ماتمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ رسولہ.
میں تم میں دو باتیں چھوڑ کرجاؤں گا، جب جاؤں گا تو تمہارے پاس یہ دو چیزیں ہوں گی،’ لن تضلوا ماتمسکتم بھما ‘اس وقت تک تم گمراہی میں مبتلا نہیں ہوگے جب تک تم ان دونوں چیزوں کوقابو رکھو گے۔
اللہ اپنے قرآن میں فرماتا ہے کہ [وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۝۲۱](الذریات:۲۱)کہ دین کی راہنمائی حاصل کرنے میں تمہاری جانوں میں مثالیں موجود ہیں، دیکھو اللہ نے ہمیں دیکھنے کیلئے دو آنکھیں دیں اورپکڑنے کیلئے دو ہاتھ دیئے ،ا للہ کے رسول فرماتے ہیں کہ میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں جب تک تم ان کو مضبوط پکڑوگے یعنی تمہاری دونوں آنکھیں انہی پر مرکوز رہیں گی، تمہارے دونوں ہاتھ اس کو چمٹے رہیں گے ،اپنی دونوں آنکھوں کو اسی میں مصروف رکھوگے انہی دو ہاتھوں میں انہیں مضبوط پکڑے رہوگے، ’لن تضلوا‘تم ہرگز گمراہ نہیں ہوسکوگے، تم ہدایت سے دور نہیں ہوسکوگے ،وہ دوچیزیں کیا ہیں: کتاب اللہ وسنۃ رسولہ. ایک حقیقی معبود کی بھیجی ہوئی کتاب اور دوسری سنت رسول، جب تک تمہاری آنکھیں ان ہی دوکودیکھتی رہیں گی تم ہدایت پر رہوگے ۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ نہ آنکھیں دوچیزوں کے علاوہ تیسری چیز کی طرف دیکھیں اور نہ ہمارے ہاتھوں میں ان دوکے علاوہ کوئی تیسری چیز آسکے۔

About مولانا محمدیونس عاصم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *