Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2017 » August Magazine » عیسائیوں کی طرف سےاسلام پر اعتراض

عیسائیوں کی طرف سےاسلام پر اعتراض

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

حافظ شفیق احمد بن شفیع محمد،فاضل المعہد السلفی کراچی
مأخوذاز بدیع التفاسیر


مرد کو چارشادیوں کی اجازت دینا عورت پر ظلم ہے


[فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۝۰ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً ](النساء:۳)
پس نکاح کرو تم عورتوں میں سے جو تمہیں اچھی لگیں،دودو، تین تین، چارچار۔
اس سے دو مسئلے ظاہرہوتے ہیں۔

مسئلہ نمبر:(۱)

بیک وقت ایک مرد چار عورتوں کو نکاح میں رکھ سکتا ہے، یہ قانون فطرت کے عین موافق ہے اور اللہ تعالیٰ نے حسب ضرورت یہ اجازت دی ہے کیونکہ بعض حالات میں زیادہ ضرورت پیش آسکتی ہے، مثلاً: عورت بیمار ہے یا اس کو شرعی عذر ہے،مثلاً: ماہواری کے دن ہیں، یاعورت حاملہ ہے اور نفسانی خواہشات برداشت کرنے جیسی نہیں ہےتو ایسی صورت میں واقعتاً دو عورتوں کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اسلام کے اس مسئلہ پر زیادہ تر اعتراض کرنے والے دو فریق ہیں:
1عیسائی 2آریہ سماج
جبکہ عیسائیوں کی عیاشی،ہر عورت سے میلاپ دنیا میں مشہور ہے جو بے حیائی کی بدترین مثال ہے۔ اس کی جگہ اللہ کا سمجھایاہوا طریقہ نہایت ہی موزوں ہے جو حسب ضرورت دو یا تین یا چار عورتوں کو نکاح میں رکھے اور اپنی خواہشات کو غلط استعمال سے روکے۔اس طرح عورتیں بیجاآزادی یا ان کی آوارہ گردی کا باعث بننے سے بھی محفوظ ہونگیں۔
آریہ سماج کے ہاں پھر’’نیوگ‘‘ ہے یعنی جس کو اولاد نہ ہو رہی ہو تو اس کی بیوی پرحق ہے کہ دوسرے مرد کے ساتھ رہے اور اس کو اولاد جن کے دے ۔
(ستیارتھ پرتاش ،ص:۱۸،۱۹،باب :۴)وغیرہ میں ہے :
معترض: نیوگ خاوند کے مرنے پرہوتا ہے یا جیتے جی۔
مجیب: جیتے جی بھی چنانچہ رگوید ۱۰،۱۰،۱۰ میں آتا ہے کہ جب خاوند اولادپیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اپنی بیوی کو ہدایت کرے کہ اے سھاگ کی خواہشمند عورت! تو میرے سوا کسی اور خاوند کی خواہش کر (کیوں کہ اب مجھ سے اولاد کی پیدائش نہیں ہوسکے گی۔)
ایسی حالت میں عورت دوسرے مرد سے نیوگ کرےاولادپیدا کرے ،مگر اپنے عالی حوصلہ شادی کئے ہوئے خاوند کی خدمت میں کمربستہ رہے اسی طرح جب عورت امراض وغیرہ مزاحمات میں مبتلا ہوکر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اپنے شوہر کو ہدایت کرے اے خاوند! آپ مجھ سے اولاد پیدا کرنے کی خواہش تر ک کر کے کسی بیوہ سے نیوگ کے ذریعہ اولاد حاصل کیجئے۔
اس بارے میں تاریخی امثال بھی موجود ہیں، جیسےراجہ پانڈو کی رانی کنتی اور ماروی وغیرہ نے بذیعہ نیوگ لڑکے پیدا کئے، اور ویاس جی نے چتر انگد اور وچتر ویریہ کے مرجانے کے بعد وچتر ویریہ کی زوجہ امبکا سے دھرت راشٹر -امبالکہ سے پانڈو اور باندی سے ورد پیدا کیا۔
اورص:ا۲۱میں ہے:
اگر عورت کے حاملہ ہونے اور اس لئے ایک برس تک مجامعت کے غیر جواز کی صورت میں مرد سے اور مرد کی مدت دراز تک بیمار رہنے کی حالت میں عورت سے بغیر مباشرت کے نہ رہاجائے تو زناکاری یا بیسوا کی صحبت کسی حالت میں بھی نہ کرنی چاہئے۔
(صحبت کے بغیر چارہ ہی نہ ہوتو)کسی سے نیوگ کرکے اس کے لئے اولاد پیدا کردیں۔
ناظرین! آریہ کی دونوں عبارتیں غور سے پڑھیں اور عبرت حاصل کریں کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے بہترین قانون جس میں حیا، عفت، عصمت، اور غیرت سب کالحاظ رکھا گیا ہے اور اجازت بھی بوقت ضرورت اس شرط کے ساتھ دی ہے کہ عورتوں کے ساتھ انصاف سے چلواگر انصاف کرنےکی طاقت نہ ہو تو ایک پر ہی اکتفا کرو، ایسے بہترین اور جامع قانون پر اعتراض کرنا یا اس پر مذاق یا واویلا کرنا کہ اسلام عیاشی کا درس دیتا ہے، عورتوں کے حقوق کو پامال کررہا ہے اور ظلم کے راستے کو کھول رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس کی پاداش میں کیسے اللہ تعالیٰ نےان کے پردے کو فاش کیا ہے، جو اسلامی قانون کے مقابلہ میںایسا قانون پیش کررہےہیں جس میں بے حیائی ،بے غیرتی اور ہر بات قابل مذمت ہے۔ سوامی صاحب کےچیلوں اور معتقدین کے علاوہ دوسرا کونسا ایسامرد ہے جو اس بات کو برادشت کرے کہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کی بیوی دوسرے مرد کے ساتھ رہے اور اس کو اولاد جَن کے دے، بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اولاد کی خاطر دوسری شادی کرے، اور ان کے درمیان انصاف سے رہے، تو یہ ہزاربار بہتر ہے اس میں صحیح خوشی کےساتھ ساتھ ضرورت پوری ہونے کی بھی امید ہے۔
علاوہ ازیں نظام عالم میں مختلف چیزوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خالق کائنات نےبعض چیزوں کو’’ مستعمل‘‘ یعنی استعمال کرنے والا اور کام میںلانے والابنایا ہےاور بعض کو ’’مستعملۃ‘‘یعنی استعمال ہونے کی چیز جس کو کام میں لایاجائے اور بے جان چیزوں میں ظاہر ہےکہ وہ استعمال ہونےکی چیزیں ہیں،مثلاً: کپڑے اور برتن وغیرہ اور جاندار چیزوں میں بھی انسان کے سوا باقی حیوان انسان کے استعمال کے لئےہیں، مثلاً: گھوڑے، اونٹ، گدھا، ہاتھی، گائے ،بھینس وغیرہ یہ سب انسان کے استعمال کے لئے ہیں،اسی طرح انسان میں بھی دو قسمیںہیں: یعنی مرد اور عورت اگرچہ دونوں ایک دوسرے کے مساوی اور برابر ہیں، مگر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں ہے کہ مردا ستعمال کرنے والااور عورت استعمال ہونے کی چیز ہے، اس بات کے لئے فطری ،عرفی اور مذہبی دلائل موجود ہیں۔

(۱)فطری دلائل:

1ازدواجی زندگی میں مرد استعمال کرنے والااور عورت استعمال ہونےوالی ہے۔
2ازدواجی صورت میں دونوں کی ساخت بھی یہی کچھ بتاتی ہے۔
3دونوں کے چہرے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کیوں کہ عام طور پر بلوغت کے بعد مرد کے چہرے پر بال نکلتےہیں اور عورت کا چہرہ ہمیشہ صاف رہتا ہے اس وجہ سے طبیعت اس کی طرف راغب رہتی ہے ۔
4عورت کا بچے کو تکلیف کے ساتھ جننا پھر اس کی پرورش کرنا حالانکہ نطفہ مرد کا ہے اور بچے کی نسبت بھی اس کی طرف ہوتی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے ک مرد استعمال کرنے والااور عورت استعمال ہونے والی ہے۔
5عام طور پر مرد کاصحت مند طاقتورہونا حتی کہ مشکل کاموں جنگ وغیرہ میں تکلیف اٹھانا اور ذمہ دار ہونا اور عورت کا ایسے کاموں سے پیچھے رہنا بھی اس بات کا قرینہ ہے۔

(۲)عرفی دلائل:

یعنی جن پر مذھبی اور رسمی لحاظ سے بنی آدم عمل کرتےہیںمثلاً:
1مرد کا شادی کرنے کے بعدعورت اپنے گھر لے کر آنا، حق مہر ادا کرنا، گھر میں لانے کے بعد اس پر مناسب حکم چلانا،اس بات کاثبوت ہے کہ انسان عورت کو اپنے کام میں آنے والی چیز سمجھتے ہیں۔
2ہرقوم میں بیویوں کو زیب وزینت کے اسباب مہیہ کرنا اور اس کو عیب نہ سمجھنا بلکہ خود عورتوں کا اس طرف مائل ہونا یہ سب باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ سب قومیں عورت کو ’’مستعملۃ‘‘ سمجھتی ہیں۔
3تکلیف اور محنت سے عورت بچہ جنتی ہے مگر پھر بھی تمام مذاہب کے ہاں اس بچےکی نسل کی نسبت والد کی طرف ہوتی ہے۔
یعنی کہ تمام مذاہب والے اس کو مرد کے استعمال ہونے کی چیز سمجھتے ہیں۔

(۳)مذھبی دلائل:

یعنی یہ دستور العمل جس کو ہر مذہب والے اپنی مذھبی تعلیم سمجھتے ہیں اس کے متعلق تو اسلام کی تعلیم بالکل واضح ہے جیسا کہ سورہ بقرہ میں گذراکہ [نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ۝۰۠ ](۲۲۴)
اور عیسائی مذہب کی مشہور کتاب ’’دعاء عمیم‘‘(مطبع افتخار ،دھلی) میں نکاح کی ترتیب بیان کرتے ہوئے لکھتا ہےکہ
خادم الدین(پادری) مرد یہ کہے فلانے(مثلاًزید) کیا تو اس عورت کو اپنی بیاھتا جورو ہونا قبول کرتا ہے کہ خدا کے حکم بموجب نکاح کی پاکیزہ حالت میں اس کے ساتھ زندگی گزارے آیا تو اس سے محبت رکھیگا ،اس کو تسلی دیگا، اس کی عزت کریگا، اور بیماری وتندرستی میں اس کی خبر کریگا اور سب دوسریوں کو چھوڑ کر زندگی بھر اس کے ساتھ رہیگا، مرد جواب دے، ہاں۔
تب قسیس عورت سےکہے فلانی(مثلاً:ھندہ) کیا تو اس مرد کو اپنا بیاھتا شوہرہونا قبول کرتی ہے خدا کے حکم کے بموجب نکاح کی پاکیزہ حالت میں اس کے ساتھ زندگانی گزارے گی آیا تو اس کے حکم میں رہیگی،اور اس کی خدمت کریگی، اور اس ے محبت رکھیگی، اس کا ادب کریگی، اور بیماری وتندرستی میں اس کی خبر لیگی اور سب دوسروں کو چھوڑ کر زندگی بھر اسی کے ساتھ رہے گی عورت جواب دے ۔ہاں، البتہ !
اور موجودہ انجیل(نیاعہدنامہ:۳۲۲) کتاب افسین کی طرف پولس رسول کاخط باب:۵ آیۃ:۲۲میں ہے:
کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی بیوی کو اتنا پیار کرے جتنا وہ خود اپنی ذات سے کرتا ہے اور بیوی کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے شوہر سے ڈرتی رہے۔
گویا عیسائی مذہب ،عورت کو مرد کےکام اور استعمال کی شیٔ کہہ رہا ہے اور آریہ سماج مرد کو عورت کے استعمال کا حق دے رہا ہے کہ اگر کسی مرد کانطفہ اولاد کے قابل نہ ہو تو وہ عورت کو حکم دے کہ دوسرے مرد کے نطفہ سےاولاد جن کے دے۔(جیسا کہ گذشتہ عبارت میں گذرا)
عجیب! اسلام پر اعتراض کرنے میں دیر نہیں کرتے،مگر خود عورت کو اس قدر استعمال کی چیز سمجھ رہے ہیں کہ حیاء وغیرت کی حدوں کو بھی پار کررہے ہیں، اور ہندوؤں کے ماہواررسالے (کتری آگرہ :مئی ۱۸۹۶ء) میں ہے کہ:
بالپن میں والدین کی اور بعد شادی کے شوہر کی مرضی کے مطابق چلناان (عورتوں)کا فرض قرار دیا ہے۔اسی فرض کا انتقال شوی کنیان (کنواری) کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور بعد اس رسم کے اس معنی پروہ اپنےسوامی (خاوند) کے اقتدار میں آجاتی ہے ، والدین کو اس بات کاحق حاصل نہیں رہتا کہ خلاف اس کے سوامی کی مرضی کے اپنی مرضی کو مقدم مان کر اس سے اس پر کاربند ہونے کے خواستگار ہوسکیں۔
یہ رسالہ سناتنہ دھرم گزٹ ۵جلدوں میں ہے۔
لڑکی ہو،جوان ہو، یا بوڑھی مگر ستی عورت کو اوجب(جائز) نہیںکہ اپنے گھر میں کوئی کام اپنی آزادی یا خود روی سے کرے،بچپن میں ستری باپ کےبس میں ہے، جوانی میںخاوند کی تابعداررہے۔
الغرض: دنیا میں کوئی ایسا شخص نہ ہوگا جو اس دعویٰ (تعدد ازواج)کےخلاف کہنے کی جرأت کرے اگر ایسی جرأت کریگا بھی تو قانون قدرت اس کو میدان میں کھڑاہونے نہیں دیگا۔
خودزمانہ کا رواج اس کو رد کردیگا، اور تمام مذاہب والے اس کو جھوٹا کہنے کے لئے تیار ہوجائیں گے پھر جب ثابت ہوا کہ عورت ’’مستعملۃ‘‘ ہے تو پھر جس طرح دوسری چیزیں مثلاً: کوٹ، قمیض، اور برتن وغیرہ انسان حسب ضرورت متعدد رکھ سکتا ہے تو ضرورت کے تحت ایک سے زیادہ عورتیں نکاح میں رکھنا کیوں غلط وناجائز ہے؟
یہ ایک ایسی مضبوط بناء ہے جس کی طر ف اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
[اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۝۰ۭ ] (النساء:۳۴)
یعنی مردوں کو عورتوں پر ہر دوطرح سے حکومت حاصل ہے:(۱) قدرتی طرح سے جس کے لئے نیچرلی(Naturally)اور فطری شواہد موجود ہیں(۲)مرد اپنی کمائی میں سے عورتوں پر خرچ کرتے رہتے ہیں۔
مگر اس تقریر پر مخالفین کی طرف سے یہ شبہ پیش کرنا غلط ہوگا کہ مرد اور عورت خواہشات نفسانی میں برابر ہیں، پھر مرد کو چارنکاح کرنے کی اجازت اور عورت کو بیک وقت ایک ہی مرد پرقناعت کرنے کاحکم کیوں؟
یہ دراصل قانون قدرت کامقابلہ ہے جو کسی بھی حالت میںقائم نہین رہ سکتا جبکہ اوپر ثابت ہوا کہ قدرت نے عورت کو استعمال کرنے کی شیٔ اور مرد کو استعمال کرنے والابنایا ہے،تو پھر برابرحق دینے یا نہ دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ یہ بات بدیہی اور ہر کسی کو معلوم ہے کہ عورت مرد کی بنسبت زیادہ کمزور ہوتی ہے بالخصوص حیض ونفاس وغیرہ کی وجہ سے یاحمل کی وجہ سے اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ بسااوقات اس کو مرد کی خواہش تک بھی نہیں رہتی، اور اس بات کوتجربہ کار اور علم طب سے وابستہ لوگ بہتر سمجھ سکتےہیں۔
ایضاً اس صورت میں مختلف نطفوں کا اشتراک ہوگا جس بناء پر انسانی نسل اور نسب قائم نہیں رہ پائیگا اس لئے یہ شبہ بھی بے معنی اور عبث ہے۔
یہ تقریر شیخ الاسلام امرتسری کی تفسیر ثنائی اردو (ص: ۲۲۵تا ۲۲۸ج۱) سے کچھ اختصار اور تشریح کےساتھ پیش کی جارہی ہے:
راقم الحرو ف کہتا ہے حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی ہے کہ
یقل الرجال ویکثر النساء حتی یکون لخمسین امرأۃ القیم الواحد(متفق علیہ)
یعنی کوئی ایسازمانہ بھی آئیگا مرد کم ہوجائیں گے اور عورتیں کہیں زیادہ ہونگی ،یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہوگا۔
اس وقت بھی کافی گھروں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے اور کتنے ہی ملکوں کی حالت یہ ہوتی جارہی ہے کہ جنگوں کی وجہ سے مرد کم رہ گئے اور عورتوں کی تعداد بڑھ گئی جس کی وجہ سے مجبوراً دوسری شادی کرنے کی اجازت دی گئی،علامہ حکیم طنطاوی تفسیر الجواہر (ج۳ص۱۲) میںمغربی لوگوں کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ولعمری ان ھؤلاء خیر من اغنیاء الاور بیین الذین یصاحبون اکثر من واحدۃ شرا فھم وان لم یتزوجوا ا کثر من واحدۃ جھرا فقد تزوجوا سرا ولقد ذمھم علماؤھم وذکر منھم العلامۃ جوستاف لیبون واخبر ان التعدد آت لاریب فیہ ولقد اوضحت الحرب العامۃ ہذہ المسألۃ ایما ایضاح فات الرجال توفی کثیر منھم فی الحرب واصبحوا قلیلا وکثرت النساء فمن ذا یعدلھن ومن ذا یقوم بامرھن فاباحت بعض الاول تعدد الزوجات .
وہ خوشحال لوگ جو ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں یہ ان یورپی شاہکاروں سے زیادہ بہتر ہیں جو بظاہر تو ایک شادی کرتے ہیں اور ایک سے زیادہ شادی کو برا کہتےہیں مگر خفیہ طور پر کتنی ہی عورتوں سے میلاپ ہوتا ہے، بلکہ انہی کے علماء نے ان کی مذمت کی ہے، چنانچہ استاذ جوستاف لیبون کہتے ہیں:ایک سے زیادہ شادیوں کا جواز یقینی ہے اس میں کوئی شک نہیں، بلکہ بڑی عالمی جنگ نے تو اس مسئلہ کو مزید واضح کردیا ہے کہ جنگ میں کافی مرد فوت ہوگئے باقی تھوڑے رہ گئے اور عورتیں بڑھ گئیں پھر ان کو کون سنبھالے؟ اورکون ان کی نگرانی کرے؟اس وجہ سے بعض حکومتوں نے ایک سےز یادہ شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے۔
نیز،ص:۵۸،۵۹ج۱۶ میں لکھتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی بالکل صحیح ثابت ہوئی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ عورتوں کی تعداد مردوں سے بڑھ جائیگی ،چنانچہ اٹلی میں لاکھوں کی تعداد میں عورتیں مردوں سے بڑھ گئیں، اسی طرح دیگر ممالک مثلاً: برطانیہ، جرمنی وغیرہ میں بھی عدد تمام بڑھاہواہے اس لئے بڑے بڑے سمجھدار اورقابل انسان بڑی مشکل میں پھنس گئےہیں کہ کیاکیاجائے؟ کوئی صورت چھٹکارے کی نہیں، بلکہ جرمن: فیلسوف شوبن ہور،اپنے مشہور رسالے ، جس کاکلمۃ عن النساء، کے نام سے عربی میں ترجمہ ہے، کہتے ہیں کہ یورپ میں شادی کا یہ قانون نہایت فاسدہے اور نقصان کررہا ہے کہ ایک سےز ائد شادیوں کی بندش ہو اور عورتوں کے حقوق کو مارا جائے کیوں کہ تعداد بڑھ جانے کی صورت میں عورتیں کدھر جائیں ؟ وغیرہ
الغرض: اسلام کا ایسا قانون ہے کہ دشمن بھی کسی وقت مجبور ہو کر اس کو قبول کرتےہیں ،[سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۝۰ۭ ](حم السجدہ:۵۳)

مسئلہ(۲)

یہاں صرف چار تک اجازت ہے زیادہ کی نہیں، کیوں کہ لغت عرب میں مثنی کے معنی ہیں :دودو۔ ثلث کی تین تین۔ اور رباع چار چار۔ اس لئے یہاں مجموعی معنی درست نہیں۔صرف ایک عدد مراد لیا جائے گا، جس نے مجموعی معنی لیکر چار سے زیادہ کی اجازت دی ہے اس نےاپنی عربی لغت اور سنت سے جہالت کا ثبوت دیا ہے اور یہ کہنا اجماع امت کے بھی خلاف ہے۔(احکام القرآن لابن العربی ۱؍۳۱۲)
ناظرین!سنت(حدیث) میں صریح حکم ہے
اخرج الشافعی وابن ابی شیبۃ واحمد والترمذی وابن ماجہ والنحاس فی ناسخۃ والدارقطنی والبیھقی عن ابن عمر ان غیلان بن سلمۃ الثقفی اسلم وتحتہ عشرۃ نسوۃ فقال لہ النبی ﷺ اختر منھن ،وفی لفظ امسک ،اربعا وفارق سائرھن ،واخرج ابن ابی شیبۃ والنحاس فی ناسخۃ عن قیس بن الحارث قال اسلمت وکان تحتی ثمان نسوۃ فاتیت رسول اللہ ﷺ فاخبرتہ فقال اختر منھن اربعاوخل سائرھن ففعلت .(الدر المنثور ۲؍۱۱۹)
یعنی ابن عمر wسے روایت ہے کہ جب غیلان بن سلمہ نےاسلام قبول کیا تو اس کے گھر میں دس بیویاں تھیں، پھر نبیﷺ نے فرمایا: ان میں سےچار پسند کرو باقی کو جداکردو۔
قیس بن حارث tسے روایت ہے کہ جب میں نے اسلام قبول کیا تو اس وقت میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں ،پھر جب میں نےرسول اللہﷺ کو آکرخبر دی تو آپﷺ نےفرمایا: ان میں سے چار پسند کرو پھر ان کو اپنے پاس رکھو،باقی سب کو چھوڑ دو،تو پھر میں نے اسی طرح کیا۔
اجماع کے بارے میں عام مفسرین وشارحین اسی طرح نقل کرتے ہیں ،امام ابن حزم ظاہری (المحلی ۹؍۴۴۱)میں فرماتےہیں کہ
ولایحل لاحد ان یتزوج اکثر من اربع نسوۃ اماء او حرائر او بعضھن حرائر وبعضھن اماء.
یعنی کسی کے لئے چار سے زائد بیویاں رکھنا جائز نہیں خواہ چاروں آزاد ہوں یالونڈیاں ہوں، یا بعض آزاد ہوں اور بعض لونڈیاں ہوں۔
پھر اس کے بعد غیلان بن سلمہ tوالی مذکورہ حدیث لاکر فرماتے ہیں:وایضا فلم یختلف فی انہ لایحل لاحد زواج اکثر من اربع نسوۃ من اھل الاسلام وخالف فی ذلک قوم من الروافض لایصح لھم عقد الاسلام.
یعنی تمام مسلمان متفق ہیں کہ بیک وقت چار سے زائد عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ،اور اس میں کسی بھی مسلمان کا اختلاف نہیں البتہ روافض کی ایک قوم اس کے خلاف ہے،یعنی حلال کہتے ہیں مگر مسلمانوں کے اجماع کے مقابلہ میں ااس کی کوئی حیثیت نہیں۔
راقم الحروف کہتا ہے :امام ابن حزم ظاہری مذہب کے مسلمہ امام ہیں ان کی عبارت یہ فیصلہ بتارہی ہے کہ ظاہری مذہب کی طرف بعض نے جو یہ نسبت کی ہے کہ وہ چار سے زائد عورتوں سے نکاح کے قائل تھے ان پر محض بہتان ہے ،کیوں کہ ظاہری مذہب کا امام خود اس کو حرام کہہ رہا ہے۔
اور اجماع امت کافیصلہ بھی یہی بتارہا ہے ۔
نواب صدیق حسن خان الروضیۃ الندیہ شرح الدرر البھیہ ۲؍۲۵ میں فرماتے ہیں :
وقد حکی الامام صاحب فتح الباری والمھدی فی البحر والنقل عن الظاھریۃ لم یصح فانہ قد انکر ذلک منھم من ھو اعرف بمذھبھم.
یعنی حافظ ابن حجرنے فتح الباری میں اور مھدی نےالبحر الزخام میں نقل کیا ہے کہ امت کا اس پر اجماع ہے یعنی بیک وقت چار سے زائد شادیاں کرنا حرام ہے، اور اس کے جواز کے متعلق جو جماعت ظاہریہ سے نقل کیا جارہا ہے وہ درست نہیںاور اس مذہب کا سب سے زیادہ جاننے والا(ابن حزم) انکار کررہا ہے۔
اس تقریر سے ظاہر ہوا کہ چار سے زائد شادیاں کرنا ناجائز اور حرام کام ہے۔
بلکہ پانچویں شادی کرنے والے کے لئے امام مالک ،امام شافعی کا فیصلہ ہے اس پر حد زنا قائم کی جائے ،اسی طرح امام ابوثور اور امام زھری کہتے ہیں اگر اس کو حرمت کا پتا ہو پھر بھی وہ اس طرح کرےتو اس کوسنگسار کیا جائیگا۔ امام ابوحنیفہ نے مخالفت کی ہے وہ حد لگانے کے قائل ہیں۔ (القرطبی ۵؍۱۸)
امام احمد کا بھی یہی فیصلہ ہے اس پر حد لگائی جائیگی جیسا کہ فقہ حنبلی کی معروف ومعتبر کتاب’’المغنی :۱۰؍۱۵۴‘‘ مع الشرح الکبیر میں ہے۔

About حافظ شفیق احمد بن شفیع محمد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *