Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2017 » April Magazine » اربعینِ نووی حدیث نمبر: 23 قسط: 51

اربعینِ نووی حدیث نمبر: 23 قسط: 51

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

عَنْ أَبِي مَالِكٍ الحَارِثِ بنِ عَاصِم الأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: الطُّهُورُ شَطْرُ الإِيْمَانِ، والحَمْدُ للهِ تَمْلأُ الميزانَ، وسُبْحَانَ اللهِ والحَمْدُ للهِ تَمْلآنِ – أَو تَمْلأُ – مَا بَيْنَ السَّمَاءِ والأَرْضِ، وَالصَّلاةُ نُورٌ، والصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَو عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَو مُوبِقُهَا. (رواه مسلم)
أخرجه مسلم كتاب: الطهارة، باب: فضل الوضوء، (223) ، (1).
ترجمہ:ابومالک الحارث بن عاصم الاشعریtسے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:طہارت آدھاایمان ہے،اور(الحمدللہ) پورے میزان کوبھردیتاہے،اور(سبحان اللہ والحمدللہ) آسمان اور زمین کے درمیان موجود سارے خلاکوبھردیتاہے،اورنماز نورہے،اور صدقہ دلیل ہے،اور صبر روشنی ہے،اورقرآن آپ کے حق میں یاآپ کے خلاف حجت ہے،اور تمام لوگ صبح کے وقت اپنے گھروں سے نکلتے ہیں،پس اپنے نفس کو بیچتے ہیں یاتو (اعمالِ صالحہ کے ذریعے)اسے جہنم سے آزاد کرالیتے ہیں،یاپھر (برے اعمال اختیارکرکے)اسے (جہنم کاعذاب مول لیکر)برباد کرڈالتے ہیں۔
راویٔ حدیث
اس حدیث کے راوی ابومالک الحارث بن عاصم الاشعریt ہیں،جن کی کنیت بالاتفاق ابومالک تھی،البتہ نام کے بارے میں مختلف اقوال وارد ہیں،کچھ علماء نے کعب بن مالک بتایاہےاور کچھ نے کعب بن عاصم،اس کے علاوہ ان کانام عبیدبھی مروی ہے، عمرو اور حارث بھی بتایاگیاہے۔سفینہ میں سوارہوکرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہونے والےاشعری صحابہ کی جماعت میںشامل تھے۔
شرحِ حدیث
یہ عظیم الشان حدیث بہت سے خصائلِ خیر اوراعمالِ بروتقویٰ پر مشتمل ہے،مجموعی طور پر اس حدیث کے آٹھ جملے ہیں،جن کی مختصراً وضاحت پیشِ خدمت ہے:
(۱)الطُّهُورُ شَطْرُ الإِيْمَانِ.یعنی:طہارت آدھاایمان ہے۔
طہارت جس کامعنی پاکیزگی حاصل کرنا ہےکی دوتفسیریں وارد ہیں:ایک شرک وکفر اور گناہوں اورمعصیتوںکو ترک کرکے پاک صاف ہوناہے،جبکہ دوسری تفسیر نماز کیلئے وضوکرناہے،دونوں تفسیریں درست ہیں؛کیونکہ شرک وکفر اورمعاصی سے پاک ہونا بھی ضروری ہے اور نماز کیلئے وضوبھی ایک ضروری شرط ہے،البتہ دوسری تفسیر زیادہ راجح ہے؛کیونکہ جامع ترمذی کی ایک روایت میں (الطھور ) کی جگہ (الوضوء)وارد ہے۔(الرقم:3517)جبکہ سنن ابن ماجہ میں (اسباغ الوضوء )کالفظ مروی ہے۔(الرقم:280)
واضح ہو کہ(الطھور)اگر (طاء)کے ضمہ کے ساتھ ہوتو اس سے مراد (تطھر) یعنی:فعلِ وضوء ہےاور اگر (طاء) کے فتحہ کے ساتھ ہوتو اس سے مرادوہ پانی ہے جس سے وضوء کیاجائے۔
نیز اسی طرح لفظِ (وضوء)ہے،اگر واومضموم ہو تو فعلِ وضوء،اور اگر مفتوح ہو تو وضوء کاپانی مراد ہے،اسی طرح لفظِ(سحور)بضم السین سحری تناول کرنا مرادہے،اور بفتح السین سحری کا کھانا۔
(شطر)بمعنی نصف ہے،جزء کے معنی میں بھی منقول ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طہارت کو نصفِ ایمان قراردینا ،اس کی اہمیت وفضیلت واضح کرتاہے،طہارت یعنی وضو،صحتِ نماز کیلئے شرط ہے،جیسا کہ صحیح مسلم میں مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں اس طرح وارد ہے:(لاتقبل صلاۃ بغیر طھور و لاصدقۃ من غلول) یعنی: وضو کے بغیر نماز قابلِ قبول نہیں اور خیانت کے مال سے صدقہ۔
(الرقم:224)
واضح ہوکہ کفر،شرک اور بدعت وغیرہ جیسے معنوی امور سے اجتناب کرکے طہارت اورپاکیزگی حاصل کرنا بھی اپنے مقام پر بڑی اہمیت کاحامل ہے،بلکہ نماز کی صحت وقبولیت ان تمام امور سے پاک صاف ہونے کے ساتھ مشروط ہے،گویا وضوکرلینے سے نماز درست اور قابلِ قبول قرارپاسکتی ہے ،لیکن اگر شرک وبدعت کو ترک کرکے عقیدہ کی پاکیزگی مفقود ہو تو یہی نماز ناقابلِ قبول بن جائے گی؛کیونکہ جس طرح ترکِ وضونجاست ہے اسی طرح شرک بھی نجاست ہے،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:[ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ ](التوبۃ:28)
بے شک مشرک تو پلید ہیں۔
نماز کیلئے وضوکرلینا حسی طہارت ہے ،جبکہ شرک وبدعت کی غلاظت ونجاست سے بچ جانا معنوی طہارت ہے،دونوں کی اہمیت اپنی جگہ واضح ہے ،دونوں کے بغیر نماز ناقابلِ قبول ہے۔
بہرحال حدیث کا یہ جملہ وضوکی زبردست فضیلت پر مشتمل ہے،بار بار وضوکاعمل اپنانے اور دہرانے والے کس قدر پاک صاف ہونگے؟
اسی لئے صحیح بخاری کی ایک حدیث میں باوضوہوکرپنج وقتہ نمازوں کی پابندی کرنے والے شخص کیلئےگناہوں سے حاصل ہونے والی پاکیزگی اور ستھرائی کوایک عجیب اور عظیم مثال سے آشکارا کیاگیا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: ” أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ ” قَالُوا: لاَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا، قَالَ: «فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الخَطَايَا»(صحیح بخاری،الرقم:528)
یعنی:سیدناابوھریرہtسے مروی ہے،انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:مجھے بتاؤاگرتم میں سے کسی شخص کے دروازے کے سامنے نہرہواوروہ روزانہ اس میں پانچ مرتبہ نہاتا ہو، تو یہ غسل اس کے جسم کی میل کچیل باقی رہنے دے گا؟صحابہ نے عرض کیا: اس کی میل کچیل کچھ بھی باقی نہیں رہنے دے گا،توآپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پنچ وقتہ نمازوں کی یہی مثال ہے ،اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے تمام گناہ مٹادیتاہے۔
واضح ہو کہ وضوکرتے ہوئے بے دریغ پانی کا استعمال اور بار بار اعضاء کادھونا باعثِ طہارت نہیں،نہ ہی طریقہ وضوء میں اپنی مرضی شامل کرنا باعثِ طہارت ہوگا،بلکہ پانی کے استعمال اور اعضاء کے دھونے کی تعداد اور طریقۂ وضوء،ان تمام امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی باعثِ طہارت ہے اور وضوء کو پھر نتیجۃً نماز کو قابلِ قبول بنانے والی ہے،سنن نسائی میں ابوایوب انصاری tسے مروی ہے،اور ان کی اس روایت کی عقبہ بن عامر tنے بھی تصدیق فرمائی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ تَوَضَّأَ كَمَا أُمِرَ، وَصَلَّى كَمَا أُمِرَ غُفِرَ لَهُ مَا قَدَّمَ مِنْ عَمَلٍ» (سنن نسائی:144)
یعنی:جس شخص نے وضوء کیا جیسے حکم دیاگیا ہے،پھرنماز پڑھی جیسے حکم دیاگیاہےتو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔
ثابت ہواکہ وضوء اور نماز میں مصطفیٰ uکے طریقہ کی پیروی ہی باعث طہارت ہے،باعثِ مغفرت ہے اور ان کی قبولیت کو یقینی بنانے والی ہے،کسی نئی چیز کاارتکاب جسے بدعت کہاجاتاہے وضوء اور نماز کے بطلان کا سبب بن جائے گا۔
یہاں ہم دوامور کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں:
1گردن کامسح،سر کے مسح میں داخل ہے ،سرکامسح کرنے کے بعد الگ سے گردن کامسح کرنا بدعت ہے۔
2اس مسح سے فارغ ہوکر دوبارہ بازوں پر ہاتھ پھیرنابھی بدعت ہے،اور بدعت اس قدر خطرناک گناہ ہے کہ اس کاکسی بھی عمل میں شامل ہوجانا اس عمل کے باطل ہونے کاسبب بن سکتا ہے۔(والعیاذ باللہ)
روافض دورانِ وضوءپاؤں دھونے کی بجائے ،مسح پر اکتفاء کرلیتے ہیں،جو قولہ تعالیٰ :[يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ۝۰ۭ] ترجمہ:اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منھ کو، اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔ (المائدۃ:۶)
کاانکار بھی ہے اور مخالفت بھی۔
ایک سفر میں صحابہ کرام جماعت کی تکبیرتحریمہ پانے کیلئے وضوء میں جلدی اور تیزی کربیٹھے ،جس کی وجہ سے بعض صحابہ کے پاؤں کی ایڑیوں میں بقدرِناخن خشک جگہ رہ گئی،اس موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایاتھا:(ویل للأعقاب من النار)یعنی: خشک ایڑیوں والوں کیلئے جہنم کی بربادی ہے۔
مسح کرلینے سے توپاؤں بہت زیادہ خشک رہ جائے گا۔(والعیاذباللہ)
(۲)الحَمْدُ للهِ تَمْلأُ الميزانَ.یعنی:(الحمدللہ) پورے میزان کو بھر دیتاہے۔
حمد سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہرکمال کامستحق قراردیاجائےاور اسی بناء پر اسے ہرقسم کی حمدکااہل سمجھتےاور مانتے ہوئے اس کی تعریف بجالائی جائے،اس طرح کہ نہ تو اس کے کسی کمال میں کسی دوسرے کی شراکت ہونہ ہی اس کی حمد میں کوئی دوسرا شریک ہو۔
(الحمد)کا(ال)استغراقی ہے،جس میں عمومِ مطلق پایاجاتاہے، یعنی :تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے مختص ہیں؛کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کے کمال کامستحق ہے،کوئی دوسرا نہ تو اس کی کسی صفتِ کمال میں شریک ہوسکتا ہے ،نہ ہی علی سبیل الاستقلال کسی قسم کی حمدمیں۔
ہماری اس تفصیل سے واضح ہوجاناچاہئے کہ (الحَمْدُ للهِ )محض ایک جملہ یا کلمہ نہیں کہ جس کے تلفظ یانطق کو کافی سمجھ لیاجائے،بلکہ یہ ایک عظیم الشان عقیدہ ہے ،ایک ایسا منہج ہے جس کا علی وجہ البصیرہ فہم حاصل کیاجائے،یعنی یہ جملہ اداکرلینے والے کوپوری طرح معلوم ہو کہ اس کے اندرکونساپیغام پنہاں ہے،اور یہ جملہ کس عظیم الشان عقیدہ پر مشتمل ہے،جس کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت اکیلاہرکمال کامستحق ہے اور اس اکیلی ذات کا ہرقسم کے کمال کا مستحق ہونا ،اس کیلئے ہرقسم کی حمدکو خاص کرتاہے،چنانچہ نہ تو کوئی اس کے کسی کمال میں شریک ہے نہ ذرہ برابر حمد میں۔
یہ وہ معرکۃ الآراء عقیدہ ہے جس سے قرآن حکیم نے اپناآغاز کیا ہے،چنانچہ قرآنِ حکیم کی پہلی سورت (سورۃ الفاتحہ) جسے ام القرآن ہونےکا نیزسب سے بڑی سورت ہونے کا شرف حاصل ہے،کی پہلی آیتِ کریمہ :[اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱ۙ ]ہے،جو تمام تر سابقہ معانی کے ساتھ حمد کے عظیم الشان عقیدہ پر مشتمل ہے۔
واضح ہو کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کسی صفتِ کمال میں،کسی دوسرے کی شراکت کا عقیدہ رکھتے ہیں،مثلاً:رازق ہونے میں،عالم الغیب ہونے میں،مشکل کشا اور حاجت رواہونے میں، سجدہ یادعایاقربانی یا نذرونیاز کے مستحق ہونے میں وغیرہ وغیرہ،وہ اس شرک کی بناء پر حمد کی تقسیم کے بھی مرتکب قرارپاتے ہیں؛کیونکہ جس قدر الوہیت یاربوبیت کی صفات کسی مخلوق کےاندر پیداکرنے کی سعیٔ ناپاک کی جائے گی اسی قدر اسے اُتنی حمد کا مستحق مانناپڑے گا،جو حمد کی تقسیم ہے اورقرآن پاک کے اول الذکر عقیدہ :[اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱ۙ ]کاانکار ہے، ایسا عقیدہ رکھنے والااگرپوری زندگی (اَلْحَمْدُ لِلہِ)کا ورد کرتارہے، اسے قطعی کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا،بلکہ اپنے عقیدے میں موجود شرک کی بناء پر عذابِ الیم کامستحق قرارپائےگا،ایسا انسان نہ تو گناہوں کی بخشش کامستحق ہے نہ جنت کی کسی نعمت کا:
[اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝۱۱۶] ترجمہ:اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک مقرر کیا جائے، ہاں شرک کے علاوه گناه جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والابہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔(النساء:۱۱۶)
[اِنَّہٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۝۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِــمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲ ] ترجمہ:یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والاکوئی نہیں ہوگا ۔(المائدۃ:۷۲)
واضح ہو کہ یہ حدیث بڑی صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد کے اس کلمہ (اَلْحَمْدُ لِلہِ)کی فضیلت اجاگرکررہی ہے،وہ فضیلت یہ ہے کہ یہ ایک ہی کلمہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے میزان کے حسنات کے پلڑے کو بھردے گا،ایک حدیث کے مطابق اس میزان کے ایک پلڑے میں ساتوںآسمان اور ساتوں زمینیں سماسکتی ہیں،اس حدیث کے پیشِ نظر کلمہ (اَلْحَمْدُ لِلہِ)کی عظمت واہمیت مزیدبڑھ جاتی ہے۔
یہ بات معلوم ہے کہ میزانِ حسنات کا بھرجانااور نیکیوں کا گناہوں پر غالب آجانا بندے کی سعادت اور نجاح وفلاح کی دلیل ہوگا۔
[وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَ۝۹ ] ترجمہ:اور اس روز وزن بھی برحق ہے پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہوں گے ۔اور جس شخص کا پلا ہلکا ہوگا سو یہ وه لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ﻇظلم کرتے تھے ۔(الاعراف:۸،۹)
[فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ۝۶ۙ فَہُوَفِيْ عِيْشَۃٍ رَّاضِيَۃٍ۝۷ۭ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ۝۸ۙ فَاُمُّہٗ ہَاوِيَۃٌ۝۹ۭ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَاہِيَہْ۝۱۰ۭ نَارٌ حَامِيَۃٌ۝۱۱ۧ ](القارعۃ:۶تا۱۰)
ترجمہ:پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے ،وه تو دل پسند آرام کی زندگی میں ہوگا ،اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے ،اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے،تجھے کیا معلوم کہ وه کیا ہے ،وه تند وتیز آگ (ہے) ۔
(اَلْحَمْدُ لِلہِ)کے تعلق سے حدیث میںمذکور عظیم الشان اجر یعنی میزانِ حسنات کابھرجانا،تب ہی ممکن ہوگا جب اس کلمہ کے ساتھ تین طرح کاتعلق قائم ہوجائے اور یہ تعلق زندگی بھر ثابت رہے:
`1اعتقادی تعلق،یعنی اس کلمہ کے ذکر اور نطق کے موقع پر بلکہ ہر وقت یہ عقیدہ موجود رہے کہ اللہ تعالیٰ تمام صفات کمال کا مستحق ہے اور اسی بناء پر ہرقسم کی حمدکے لائق ہے۔
2ذکری تعلق، یعنی زبان سے باربار اس کلمہ کا ذکرہو،پورے صدق کے ساتھ،نیز یقین واخلاص کے ساتھ۔
3عملی تعلق، یعنی یہ نکتہ بخوبی سمجھ لیاجائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہرقسم کی حمد کے مستحق ہونے کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ہم پر جملہ احسانات اسی کے ہیں،کسی دوسرے کے نہیں،لہذا وہی شکرکامستحق ہے،جس کاتقاضا یہ ہے کہ اس کی اطاعت بجالائی جائے اورنافرمانی سے گریزکیاجائے،اگر کسی موقع پر کسی نافرمانی کا ارتکاب ہوجائے تو فوری توبہ کرکے اپنے تعلق باللہ کو صاف اورپاکیزہ بنالیاجائے۔(واللہ ولی التوفیق)
(جاری ہے)

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

اربعینِ نووی

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *