Home » Dawat E Ahle Hadith Magazine » 2017 » April Magazine » احکام ومسائل

احکام ومسائل

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the content is shown below in the alternative language. You may click the link to switch the active language.

G.155
محترم جناب حافظ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ یہ ہے کہ میرے بھائی کاشادی کے فوراً بعد گھرانہ نہ بن سکا،بھابھی کی اب طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے ،ان پر اثرات ہیں، اور دماغی وجسمانی حالت بھی ٹھیک نہیں رہتی جس کی وجہ سے وہ اب گھر بسانے کےقابل نہیں ہیں،لڑکی والے خودطلاق کا مطالبہ کرتے ہیں مگر اس کو مشکل بھی بنارہےہیں،کہتے ہیں کہ جہیز کاساراسامان(دوتین لاکھ) یاخرچہ دو،پولیس کیس کی دھمکیاں دیتےہیں،بھائی کی آمدنی بہت معمولی ہے وہ اپنی بیٹی کاخرچہ بھی بمشکل دے رہے تھے،ہم نے بچی کو اسکول میں داخل کرایا،ساراخرچہ کیا مگر انہوں نے بغیراطلاع کے بچی کو اسکول سے نکال لیا،بچی کو نہ ہم سے ملنے دیتے ہیں اور نہ اس کے باپ سے،اور لوگوں کے سامنے اپنی روداد سناتے رہتے ہیں،بیٹی مانگتے ہیں تو دیتے نہیں،بھائی کی ساس کاکہنا ہے کہ یہ میرے پاس رہے گی۔
قرآن میں تو اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔتحریم میں یہ فرمایا کہ کسی انسان کو تکلیف نہ دی جائیگی بلکہ جس کو اللہ تعالیٰ نے جتنی حیثیت دی وہ اس کے مطابق خرچ کرے گا۔پھر یہ لوگوں کے مطالبات کیوں ہیں؟
ہمیں اللہ کے حضور جواب دہی کاڈر ہے اس لئے آپ سے اس کا آسان حل پوچھنا چاہتےہیں۔(سائلہ امۃ القدوس کراچی)
J
الجواب بعون الوہاب
صورت مسئولہ برصحت سؤال
سائلہ نے اپنے بھائی کی شادی کامیاب نہ ہونے کے حوالے سے بھابھی کی طبیعت کی خرابی ،ان پر اثرات کاہونا ،دماغی وجسمانی حالت کا ٹھیک نہ ہونا،ذکرکی ہیں،اگر آپ کی بھابھی صاحبہ کی یہ کیفیت شادی سے پہلےبھی تھی اور آپ لوگوں کو اس حوالے سے بے خبر رکھا گیا تو یہ لڑکی والوں کی طرف سے زیادتی ہے اور اگرشادی کے بعد یہ کیفیت ہوئی تو پھر ان کا علاج ومعالجہ کروایاجائے گا اور اگر ان تمام مراحل میں بھی کامیابی نہیں ہوئی اور معاملہ طلاق تک پہنچ گیا ہے تو پھر اس معاملے کو حسن وخوبی کے ساتھ طرفین سے باہم رضامندی سے انجام تک پہنچاناچاہئے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ لڑکی والوں نے اپنی بیٹی کوجو کچھ سامان دیا ہے وہ واپس لینے کے حقدار ہیں نیزحق مہر اور جو بطورگفٹ سامان لڑکی کوملا ہے وہ بھی لڑکی کا ہے اور اس کے علاوہ وہ مزید کسی چیز کاتقاضا کرتے ہیں تو وہ شرعاً واخلاقاً درست نہیں ہے اسی طرح بچی کاخرچہ باپ کے ذمہ ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ۝۰ۭ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْہِ رِزْقُہٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىہُ اللہُ۝۰ۭ لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰىہَا۝۰ۭ سَيَجْعَلُ اللہُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا۝۷ۧ ](الطلاق:۷)
ترجمہ:کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہئے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہئے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (اپنی حسب حیثیت) دے، کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے، اللہ تنگی کے بعد آسانی وفراغت بھی کر دے گا ۔
نیز باپ کا بیٹی سےملاقات کرنا اس کاشرعاً وقانوناًحق ہے وہ اسے ملناچاہئے ویسے بھی اولاد پرزیادہ حق باپ کا ہے۔

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

Sorry, this entry is only available in Urdu. For the sake of viewer convenience, the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *