Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2016 » شمارہ جولائ » غیر اللہ سے دُعا اور چندقرآنی سوالات

غیر اللہ سے دُعا اور چندقرآنی سوالات

 

غیر اللہ سے دُعا اور چندقرآنی سوالات

دعااللہ تعالیٰ کی عبادت ہے،مومن کا اسلحہ ہے، انبیاء کی سنت اور صالحین کا طریقہ ہے۔ وسعت ہویاتنگی ہر حال میں دعا کی اہمیت مسلَّم ہے اور مومن کے لئے ہر حال میں یہ ایک مرغوب عمل ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے کئی مراحل آتے ہیں کہ جن میں اسے دعا کی احتیاج پیش آتی ہے، انسان ہی کی ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دعامانگنے کاحکم دیا، اور قرآن مجید واحادیث مبارکہ میںہر جگہ اللہ تعالیٰ ہی سے دعامانگنے کاحکم ہے اور اسی کی ترغیب وہدایت بیان ہوئی ہے۔ غیراللہ سےد عامانگنے کا نہ صرف یہ کہ حکم نہیں بلکہ اس کی مذمت بھی وارد ہوئی ہے۔ بطور مثال چندآیات ملاحظہ کیجئے:
.1اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝۵۵ۚ ] ’’اپنے رب سے دعاکرو گڑگڑاتے اور آہستہ بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں‘‘(الاعراف:۵۵،ترجمہ ازاحمد رضاخان صاحب)
۱: اس آیت کی تفسیر میں نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے لکھا: ’’دعا اللہ تعالیٰ سے خیرطلب کرنے کو کہتے ہیں اور یہ داخل عبادت ہے‘‘(نور العرفان)
۲: جناب محمد کرم شاہ الازہری صاحب نے اسی آیت کی تفسیر میں لکھا:
’’اپنی تمام حاجات اور مشکلات میں بارگاہ الٰہی میں رجوع کاحکم دیا جارہا ہے۔‘‘(ضیاء القرآن 38/2)
یہ ان لوگوں کی تفسیریں ہیں جوغیراللہ سے دعا وفریادکے قائل وفاعل ہیں او اس پر مُصر بھی ہیں، لیکن قرآن مجید کی ان آیات کامفہوم واضح کرتے ہوئے اعتراف کرچکے ہیں کہ’’اپنی تمام حاجات اور مشکلات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کاحکم ہے‘‘
کاش!عملاً بھی اسے تسلیم کرتے۔
.2اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۭ اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝۵۶] ’’اور اس (رب) سے دعا کروڈرتے اورطمع کرتے بیشک اللہ کی رحمت قریب ہے نیکی کرنے والوں سے۔‘‘(الاعراف:۵۶،ترجمہ از سعید کاظمی صاحب، البیان ص252)
.3اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶ ](البقرۃ:۱۸۶)
اس آیت کاترجمہ وتفسیر جناب غلام رسول سعیدی صاحب کے قلم سے ملاحظہ کیجئے،لکھا ہے:
ترجمہ: اور(اے رسول) جب آپ سےمیرے بندے میرے متعلق سوال کریں(توآپ فرمادیں) بے شک میں ان کے قریب ہوں، دعا کرنے والاجب دعا کرتا ہے تومیں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو چاہیے کہ وہ(بھی) میراحکم مانیں اور مجھ پر ایمان برقرار رکھیں تاکہ وہ کامیابی حاصل کریں۔(تبیان القرآن 690/1)
اور اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ہمار ے زمانے میں بعض جہلاء اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے بجائے اپنی حاجتوں کاسوال پیروں،فقیروں سے کرتے ہیں اور قبروں اور آستانوں پر جاکر اپنی حاجات بیان کرتے ہیں اور اولیاء اللہ کی نذر مانتے ہیں،حالانکہ ہر چیز کی دعا اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہیے اور اسی کی نذر ماننی چاہیے ،کیونکہ دعا اورنذر دونوں عبادت ہیں اور غیراللہ کی عبادت جائز نہیں۔(تبیان القرآن ۱؍۶۹۱،۶۹۲مطبوع فرید بک سٹال،لاہور)
سعیدی صاحب یہاں اعتراف کررہےہیںکہ بعض لوگ اللہ سے دعا کے بجائے پیروں،فقیروں،قبروں اورآستانوں پر اپنی حاجات کا سوال کرتے ہیں،حالانکہ ہر چیز کی دعا اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہیے، لیکن ان کے ہم مسلک سعیدی صاحب کی بات مانتے نظر نہیں آتے کیونکہ اللہ کے بجائے اونچی قبروں والوں سے دعائیں مانگتے ہیں!!!
سعیدی صاحب نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ’’دعا عبادت ہے اور غیر اللہ کی عبادت جائز نہیں‘‘ البتہ یہ نہیں بتلایا کہ یہ’’ناجائز‘‘ کی کونسی اقسام میں سے ہے؟ اس کی وضاحت مفتی احمدیارخان نعیمی صاحب سے سن لیں، لکھتے ہیں:
’’غیرخدا کی عبادت مطلقاً شرک ہے زندہ کی ہو یا مردہ کی‘‘
(جاء الحق،ص:218مطبوع ضیاء الدین پبلیکیشر)
المختصر!سعیدی صاحب کو تسلیم ہے کہ’’دعا عبادت ہے، اور نعیمی صاحب کا اعلان ہے کہ’’غیر اللہ کی عبادت مطلقاً شرک ہے‘‘اللہ تعالیٰ ان کو شرک سےبچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
باقی رہا سعیدی صاحب کایہ کہنا:’’ہمارے زمانے کے بعض جہلا‘‘ تو عرض ہے کہ ’’بعض جہلا‘‘نہیں بلکہ بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ پھر آپ قبروں وآستانوں پر او رپیروں فقیروں سے اپنی حاجات طلب کرنے والوں کو’’جہلا‘‘ قرار دے رہے ہیں،حالانکہ ان کے مسلک میں بڑے بڑے القابات کے حامل لوگ اس کے مرتکب ہیں، جو علماء سمجھے جاتے ہیں۔
۱: جناب مفتی احمدیارخان نعیمی گجراتی صاحب نے لکھا:
’’نبیuودیگر انبیائے کرام کے علاوہ اہل قبور سے دعا مانگنے کا بہت سے فقہاء نے انکار کیا ہے اور مشائخ صوفیہ اور بعض فقہاء نے اس کو ثابت کیا ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ موسیٰ کاظم کی قبرقبولیت دعا کے لئے آزمودہ تریاق ہے اورامام غزالی نے فرمایا جس سے زندگی میں مدد مانگی جاسکتی ہے اس سے بعد وفات بھی مدد مانگی جاسکتی ہے۔‘‘(جاء الحق،ص:204)
امام شافعیaکی طرف منسوب بات غیر ثابت اور بے اصل ہے، باقی اپنے حکیم الامت صاحب کی عبارت سے جناب سعیدی صاحب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اولیاء کی قبروں پر جاکر ان سے اپنی حاجات طلب کرنا صرف’’جہلا‘‘ ہی کاعقیدہ وعمل نہیں بلکہ ان کے ہاں تو’’فقہا‘‘ سمجھے جانے والے لوگ بھی ایسے اعمال کے مرتکب ہیں باقی صوفیاء کے جو عقائد ونظریات ہیں ان سے تویہ قطعاً بعید نہیں۔
۲: مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’درمختار جلد سوم باب اللقطہ کے آخر میں گمی ہوئی چیز تلاش کرنے کیلئے ایک عمل لکھا:جس سے کوئی چیزگم ہوجاوے او ر وہ چاہے کہ خدا وہ چیز واپس ملادے تو کسی اونچی جگہ پر قبلہ کو منہ کر کے کھڑا ہو اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس کاثواب نبیuکو ہدیہ کرے پھر سیدی احمد بن علوان کو پھر یہ دعا پڑھے اے میرے آقا، احمد بن علوان اگر آپ نے میری چیز نہ دی تو میں آپ کو دفتراولیاء سے نکال لونگا۔ پس خداتعالیٰ اس کی گمی ہوئی چیز ان کی برکت سےملادےگا۔ اس دعا میں سید احمد بن علوان کو پکارا بھی ان سے مدد مانگی اور گمی ہوئی چیز بھی طلب کی اور یہ دعا کس نے بتائی حنفیوں کے فقیہ اعظم صاحب درمختار‘‘(جاء الحق،ص:206,207)
یہی بات محمد فیض احمد اویسی صاحب نے اپنی کتاب’’ندائے یا رسول اللہ ﷺ مع جدید اضافے‘‘ (ص:198)میں نقل کی ہے۔
۳: اور یہی بات جناب غلام نصیر الدین سیالوی صاحب نے اپنی کتاب’’ندائے یارسول اللہﷺ‘‘ص210میں بحوالہ ردالمختار جلد3ص355نقل کی ہے۔
کیا اتنے بڑے بڑے القاب والے لوگ بھی آپ کے ہاں ’’جہلا‘‘ میں شمار ہوتے ہیں ،جوغیراللہ سے’’دعا‘‘ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
[وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَ۝۶۰ۧ ] ’’اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھینچتے (تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر‘‘(المؤمن:۶۰،ترجمہ ازاحمد رضاخان صاحب)
سیدنا نعمان بن بشیرtسے مروی ہے کہ نبی ﷺ نےفرمایا:
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الدُّعَاءُ هُوَ العِبَادَةُ ثُمَّ قَرَأَ: {وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ}.
’’دعا ہی عبادت ہے‘‘ پھرآپﷺ نے یہ (آیت) تلاوت فرمائی: اور تمہارے رب نے کہا :مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے سرکشی اختیار کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل وخوار ہوکرجہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘
(سنن الترمذی:3372وسندہ صحیح)
آیت کے پہلے حصے میں دعا کا حکم ہے اور دوسرے حصہ میں عبادت سے سرکشی کا برانجام۔ تونبی کریم ﷺ نے واضح فرمادیا کہ عبادت سے مراد دعا ہی ہے۔ یعنی جو دعا مانگنے سے سرکشی کرے اپنے رب سے نہ مانگے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ پھر دعاکا عبادت ہونا فریق ثانی کے بہت سے علماء نے تسلیم کیا ہے۔
۱: مفتی احمد یار خان نعیمی نے لکھا:
’’دعا کے بعد عبادت کا ذکر فرمانے سے معلوم ہوا کہ دعا عبادت ہے۔‘‘(مرأۃ المناجیح اردوشرح مشکوٰۃ المصابیح 3/294مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
۲: مرادآبادی صاحب نے آیت بالاکی تفسیر میں لکھا:
’’آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ دعا سے مراد عبادت ہے اور قرآن کریم میں دعابمعنی عبادت بہت جگہ وارد ہے حدیث شریف میں ہے :الدعا ھو العبادۃ .(ابوداؤد وترمذی) (خزائن العرفان)
۳: پیر کرم شاہ بھیروی صاحب نے لکھا:
’’حضرت ابن عباس سے ادعونی استجب لکم کی یہ تفسیر منقول ہے۔ اعبدونی اثیبکم:تم میری عبادت کرو میںتمہیں اس کا ثواب اور اجر دوں گا۔یہ قول ضحاک، مجاہد اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے، دیگر علماء نے اس کا یہ مفہوم بیان فرمایا ہے۔اسئلونی اعطیتکم: یعنی تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔(معانی) حقیقت میں یہ دونوں تفسیریں ہم معنی ہیں۔ ان میں اصلاً کوئی تفاوت نہیں دعا عبادت کی روح ہے اور اس کامغز ہے۔ کیونکہ انتہا درجہ کی عاجزی ونیاز مندی کو عبادت کہتے ہیں اور اس کاظہور صحیح معنوں میں اسی وقت ہوتا ہے جب انسان مصائب میں گھرا ہو….جب ہر طرف سے امیدیں منقطع کرکے اپنے رب کریم کے درِ اقدس پرآکر سرنیاز جھکادے….نیز اسے یہ پختہ اعتماد ہو کہ یہاں سے کبھی کوئی سائل خالی نہیں گیا۔میں کبھی خالی اورمحروم نہیں لوٹایا جاؤں گا۔جو عجز ونیاز،جوغایت تذلل جوخشوع وخضوع اس وقت ظہورپذیر ہوتا ہے اس کی مثال کہاں ملے گی‘‘(ضیاء القرآن 4/341)
بھیروی صاحب کےاس بیان سے واضح ہے کہ دعا صرف عبادت ہی نہیں بلکہ انتہائی عاجزی، انکساری اور انتہائی خشوع وخضوع پر مبنی عبادت ہے،اور صحیح معنوں میں عبادت کاظہور دعا کے وقت ہوتاہے۔
۴: غلام رسول سعیدی صاحب نے اسی آیت کی تفسیر میں لکھا:
’’اللہ سے دعا کرنا اس کی عبادت کرنا ہے‘‘
(تبیان القرآن395/10)
تو غیر اللہ سے دعا مانگنا غیر اللہ کی عبادت ہوگی۔ الغرض دعا کا عبادت ہونا قرآن مجید کی آیت ،نبیﷺ کی تفسیر سے ثابت ہے جو فریق ثانی کوبھی تسلیم ہے۔عبادت تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کاحق ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی بھی عبادت ہو وہ یقینی طور پر شرک ٹھہرے گا۔جو کوئی اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے دعامانگنے کا قائل ہے وہ درحقیقت ان کی عبادت ہی کاقائل ہے اور اس کاشرک میں ملوث ہونا یقینی ہے۔(أعاذنا اللہ منہ)
یاد رہے کہ عبادت کے معاملہ میں نہ’’ذاتی‘‘ اور’’عطائی‘‘ کی بحث کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی حقیقت ومجاز کی، چونکہ کوئی بھی مسلم ایسا قطعاً نہیں کہہ سکتا کہ’’ذاتی‘‘ یا’’حقیقی‘‘ طور پر اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے، وہی عبادت کے لائق ہے البتہ ’’عطائی‘‘ اور’’مجازی‘‘ طور پر اللہ تعالیٰ کے محبوب ومقرب پیارے بندے ،جیسے انبیاء کرامoاور اولیاء کرام بھی عبادت کے لائق ہیں، ان کی عبادت بھی بطور مجاز برحق وجائز ہے۔ (نعوذباللہ) مفتی احمدیار خان کی بات دوبارہ ملاحظہ کیجئے ،لکھا ہے:
’’غیر اللہ کی عبادت مطلقاً شرک ہے زندہ کی ہویامردے کی‘‘
(جاء الحق ،ص:216)
بات واضح ہےکہ غیراللہ کی عبادت علی الاطلاق ہرصورت میں شرک ہے،تو جب دعا عبادت ہے بلکہ مفتی احمدیارخان نعیمی صاحب نے تو یہ بھی لکھ رکھا ہے:’’دعا عبادت کا رکنِ اعلیٰ ہے۔‘‘(مرأۃ المناجیح اردوشرح مشکوٰۃ المصابیح 3/294)عبادت کا ادنیٰ فرد بھی غیراللہ کے لئے جائز نہیں ہوسکتا تو’’رکن اعلیٰ‘‘ کس طرح جائز قرار دیاجاسکتا ہے؟لیکن ان تصریحات کے باوجود خود مفتی صاحب نے اپنی تالیف’’جاء الحق‘‘ میں ’’اہل قبور سے دعامانگنا‘‘جائز قرار دے گئے ہیں۔ حوالے گزشتہ صفحات پر عرض کردیے گئےہیں۔ مزید دیکھئے وہ کیا کیا کوششیں فرماتے ہیں،لکھا ہے:
’’اللہ تعالیٰ سے دعا کرنابھی عبادت ہے کہ اس میں اپنی بندگی اور رب تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار واظہار ہے، یہ ہی عبادت ہے لہذا اس پر ثواب بھی ملے گا۔لہذا اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی بندے سے کچھ مانگنا گویا اس کی عبادت ہے یہ شرک ہے۔لہذا حضورپرنورﷺ سے مانگنا حاکم سے حکیم سے مالداروں سے کچھ مانگنا نہ یہ اصلاحی دعا ہے اور نہ کفر شر ک ہے، بندے بندوں سے دروودعا مانگاہی کرتے ہیں غرضیکہ دعا شرعی اور ہے اور دعا لغوی کچھ اور‘‘(مرأۃ المناجیح 294/3)
مفتی صاحب نے جو عجیب وغریب باتین لکھی ہیں محض اپنے خود ساختہ طریقہ کے دفاع میں وہ ان کے کام کی نہیں۔ چونکہ لوگوں کاآپس میں ایک دوسرے سے مدد طلب کرنا،اولاد کا والدین سے یاوالدین کا اولاد سے،بھائی بہنوں کا ایک دوسرےسے،دوست واحباب سے، حکومت یاپولیس سے یامریضوں کاطبیب سے، دوا سے مدد لینا ’’دعا‘‘ قطعاً نہیں، پھر ایسی کسی بھی مدد میں’’دعا‘‘ کاتصور تک نہیں ہوتا۔
(جاری ہے)

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

گھمن صاحب کی تیسری خیانت  قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے