Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2016 » شمارہ جولائ » فتنۂ غامدیت قسط:۱۲

فتنۂ غامدیت قسط:۱۲

حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ قسط:۱۲
مشیر:وفاقی شرعی عدالت پاکستان

فتنۂ غامدیت

جوپیرہن اس کاہے وہ مذہب کاکفن ہے

عمارصاحب سے ایک سوال
انکاررجم کےاثبات کے لیے (کیوں کہ حد کے بجائے اس کوتعزیر باور کرنا صریحا انکار ہے) عمار صاحب کی نئی اجتہادی کاوش کی روشنی میں ہم ان سے ایک سوال کرتے ہیں کہ آپ نے پہلے پیرےیا نکتہ میں لکھا ہے،سنگسار نبی کی سنت ہے خلفائے راشدین کے فیصلوں سے ثابت ہے شریعت کی مقررکردہ مستقل سزا ہے، ان باتوں کا علم آپ کو کہاں سے حاصل ہوا؟
قرآن کریم سے؟ یا کسی کتاب سے؟ یابراہِ راست آپ کووحیٔ جلی یا خفی کے ذریعے سےآگاہ کیاگیا ہے؟ یا آپ کو سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والا علم، یا علم لدنی حاصل ہے؟ ظاہر بات ہے آپ کاجواب ،سوائے ایک بات کے، سب کی بابت نفی میں ہوگا۔ اور وہ ایک بات ہے، کتاب والی، یعنی سزائے رجم کاسنت وغیرہ ہونے کا علم آپ کو کتاب سے ہوا ہے، اور وہ کتاب بھی حدیث ہی کی کتاب یا کتب ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں۔
اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ حدیث کی کتاب یا کتب حدیث میں سزائے رجم کی نوعیت وکیفیت کا بیان ہے یانہیں؟ یعنی یہ سزا کس جرم پر دی گئی، یا کس جرم کی بتلائی گئی ہے؟ زنا کے مجرم کے لیے، چاہے وہ شادی شدہ ہو یاغیرشادی شدہ؟ یا صرف زانی محصن(شادی شدہ) کے لیے؟یا صرف غندوں،بدمعاشوں اور فساد فی الارض کے مرتکبین کے لیے؟
جن احادیث سے آپ کو وہ باتیں معلوم ہوئی ہیں جن کا اعتراف آپ نے کیا ہے، کیا ان میں اس امر کی صراحت ہے کہ یہ سزا صرف غندوں اوربدمعاشوں کو دی گئی ہے، مطلق زانی محصن کو نہیں۔ اگر یہ صراحت ہے تو دکھادیں،یا ان کے ہم عصر صحابہ کی وضاحت دکھادیں کہ زنا کا مجرم صحابی پیشہ ورزانی تھا اورصحابیہ ڈیرہ دارنی (قحبہ) تھی۔ آپ کے صغریٰ، کبریٰ ملانے سے اس کاثبوت بہم نہیں پہنچتا یا رجم کی سزا دینے والے(رسول اللہ ﷺ اورخلفائے راشدین) کی طرف سےاس تفتیش کا ثبوت مہیا کریں کہ سزائے رجم دینے سے پہلے انہوں نے تحقیق کی تھی کہ یہ زنا کے عادی مجرم ہیں یااتفاقیہ یہ فعل سرزد ہوا ہے؟ یہ فساد فی الارض کےمرتکب ہیں، یانہیں؟
جب آپ کو دوسری باتوں کا علم ان احادیث سے ہوا ہے کہ یہ سزا سنت رسول ہے، سنتِ خلفائے راشدین ہے۔ شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا ہے۔ تو ان حدیثوں میں اس امر کی بھی واضح صراحت ہے کہ یہ سزا زانی محصن کی ہے اور جن کو یہ سزائیں دی گئیں، اس تفتیش وتحقیق کے بعد ہ دی گئیں کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود انہوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ جب احادیث میں جرم اور مجرم کی نوعیت وکیفیت کی بھی مکمل وضاحت موجود ہے۔ تو یہ علم وتحقیق کی کون سی قسم ہے کہ آپ احادیث کے ایک جز کو تو مان رہے ہیں اور دوسرے جز کاانکار کرکے ظن وتخمین کے تیر چلارہے ہیں ۔یہ ایمان تو یہودیوں والاہے، جیسا کہ اللہ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
[اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۝۰ۚ ] (البقرۃ:۸۵)
پھر یہ طرفہ تماشہ بھی خوب ہے کہ حدیث ظنی ہے جس کامطلب آپ کے نزدیک، محدثین کے مفہوم کے برعکس ،مشکوک ہونا ہےلیکن آپ کی اور آپ کے ائمۂ ثلاثہ اور آپ سمیت ائمۂ اربعہ کی اٹکل بچوباتیں اور مفروضات وحیٔ الٰہی کی طرح یقینی ہیں جن کی بنیاد پر چودہ سوسال کے تمام ائمہ فقہاء اور محدثین کے اس موقف کو جھٹلایاجارہا ہے جس کی بنیاد مستند احادیث سے حاصل ہونے والے یقینی علم پر ہے، فیاللعجب.
ایک اورسوال
پھر عمارصاحب سے یہ بھی سوال ہےکہ سنت ثابتہ، شریعت کا مقرر کردہ حکم، امرمنصوص ہے یا اجتہادی امر؟ اگر یہ اجتہادی معاملہ ہے اور آپ اس میں اجتہاد فرمارہے ہیں تو پھر یہ امرمنصوص تو نہ رہا۔ اورایک اجتہادی معاملے کو نہ سنت رسول کہاجاتا ہے اور نہ شریعت کا مقررکردہ حکم، جب کہ آپ خود اسے سنت ثابتہ بھی مان رہے ہیں اورشریعت کا مقرر کردہ حکم بھی۔ اور اگر یہ امرمنصوص ہے تو پھر آپ کو یا آپ کے ائمہ کو، یا کسی بھی اور شخص کو اجتہاد کاحق حاصل ہے؟ نہیں ہے، یقیناً نہیں ہے۔ پھر آپ کو رجم کی سنت ثابتہ اور شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا میں اجتہاد کرکے اس کو صواب دیدی سزا میں منتقل کرنےکاحق کس طرح حاصل ہوگیا ہے؟ اور اجتہاد بھی نہایت انوکھا اور دنیائے اجتہادمیں نرالا کہ اس سزا کو یوں سمجھ لیا جائے یاووں سمجھ لیاجائے۔ گویا حدرجم کے شرعی حکم کی حیثیت، جوچودہ سوسال سے امت مسلمہ میں مسلم چلی آرہی ہے، ابھی تک فراہی گروہ کے نزدیک غیرمتعین ہے، اور اب اس کے تعین کی کھکھیڑ اس گروہ کے سرآپڑی ہے جس کے لیے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے یہ گروہ مغزمازی کررہا ہے لیکن ان کی مغز ماری سے ان کا اپنا ہی ایک لائق ترین شاگرد بھی مطمئن نہیں ہوسکا اور اس نے ان کے فرسودہ’’دلائل‘‘ کی بجائے بہ زعم خویش حد رجم کےانکار کے لیے نئے ’’دلائل‘‘ تراش کے بڑا تیرماراہے۔ گویا ؎
ہم پیرویٔ قیس نہ فریاد کریں گے
ہم طرزِ جنوں اور ہی ایجاد کریں گے
الحمدللہ ہم نے حد رجم کی مستقل شرعی سزا بارے میں عمار صاحب کے اس سزا کے انکار پر مبنی غیرمنطقی موقف کے بودے پن اور بطلان کو واضح کردیاہے جو ان کے تضاد اورذہنی کشمکش کاغماز ہے۔
اسی بے بنیاد موقف کے اثبات کے لیے یہ گروہ حضرت ماعز بن مالک کو غنڈہ اورغامدیہ نامی صحابیہ کو قحبہ باور کرانے پرقلم وقرطاس کی تمام توانائیاں صرف کرر ہاہے، حالانکہ ان کی طہارت وپاکیزگی پر شک نہیں ،رشک کیا جاسکتا ہے کہ دونوں سےیہ گناہ سرزد ہواتو از خود آکر طہارت کے لیے سزا کےلیے اصرار کیا۔کیا یہ پیشہ وربدمعاشوں اور چکلے چلانے والے مردوں اور عورتوں کاکام ہوسکتا ہے؟ اور کیا عہدرسالت وعہد صحابہ میں چکلوں کاکوئی وجود تھا جس کوآج کل ’’بازار حسن‘‘ یا ’’اُس بازار‘‘ سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ ہمارا تویہ بات لکھتے ہوئے قلم کانپ رہا ہے اور یہ گمراہ گروہ اس مقدس ترین معاشرے میں لاہور کی ’’ہیرامنڈی‘‘ کی طرح’’بازارحسن‘‘ اور’’چکلہ‘‘ کا وجود ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تاکہ ان کے من گھڑت ’’نظریۂ رجم‘‘ کااثبات ہوسکے۔
(نعوذباللہ من ھذہ الجریمۃ المننۃ)
عمارصاحب نے بھی اپنے ’’ائمہ ضلالت‘‘ کی پیروی اور وکالت میں مذکورہ صحابہ وصحابیہ(w)کو پیشہ ورزانی اور زانیہ قراردیا ہے جس پر علمائے اہل سنت نےبجاطور پر انہیں صحابہ ٔ کرام کی توہین اور ان پر طعن وتشنیع کا مرتکب ٹھہرایاہے۔ اس کوعمار صاحب نے الزام سے تعبیر کیا ہے۔ حالانکہ یہ الزام،یا بے ثبوت بات نہیں ہے۔ ایک حقیقت ہے۔ الفاظ کی میناکاری اور ’’پوچ دلائل‘‘کے گورکھ دھندے سےاس الزام کو نہیں دھویا جاسکتا۔ان کے’’نظریۂ رجم‘‘ کی بنیاد ہی ان دونوں مقدس ہستیوں کو عادی زانی اورچکلے کی مخلوق ثابت کرنے پر ہے، اس کے بغیر ان کے نظریے کی خودساختہ عمارت دھڑام سے گرجاتی اورزمین بوس ہوجاتی ہے ۔ پھر اس کو’’الزام‘‘ کس طرح کہاجاسکتا ہے؟
اس الزام کی صفائی کے لیے بھی عمار صاحب نے وضاحت پیش کی ہےلیکن وہ یکسر غیرتسلی بخش، غبارآلودچہرے پرغازہ پاشی اور -کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے-کےمصداق اس الزام کو بہ زبان خود ثابت کرنے والی ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرام پر طعن وتشنیع ایمان کے منافی ہے اور کوئی مسلمان ارادۃً اور دیدہ ودانستہ ایسا کرنے کاتصور بھی نہیں کرسکتا‘‘
(الشریعۃ،خصوصی اشاعت، جون۲۰۱۴،ص۱۸۷)
لیکن الزام لگانے والوں نے یہ کب کہا ہے کہ آپ نے ایسا ارادۃً دیدہ ودانستہ کیا ہے؟ان کاکہنا تو یہ ہے (جس میں راقم بھی شامل ہے) کہ ارادی یاغیراداری اور شعوی یاغیرشعوری کی بات نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آپ نے اور آپ کے’’بڑوں‘‘ نے جو اپنی طرف سے صغریٰ کبریٰ گھڑے ہیں اور اس سے جو’’نتیجہ‘‘ اخذکیا ہے، اس سے ان دونوں مقدس ہستیوں کی توہین ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ان کی طرف غنڈہ گردی، بدمعاشی اور عادی زناکاری کا جو جرم منسوب کرر ہے ہیں، اس کا بھی کوئی ثبوت آپ نہ پیش کرسکے ہیں اور نہ کرہی سکتے ہیں۔ پھر اسے توہین اور طعن وتشنیع نہ کہاجائے تو کیا ان کی مدحت ومنقبت کہا جائے؟
پھر تو شیعہ حضرات کی بھی صحابۂ کرام پر طعن وتشنیع کا جواز ثابت ہو جاتا ہے اگر وہ بھی یہ کہیں کہ ہم ارادۃً اور دیدہ ودانستہ نہیں کررہے ہیں بلکہ ان کےیہ یہ جرائم ہیں اور آپ کے گروہ کی طرح، وہ بھی بے بنیاد ’’دلائل‘‘پیش کردیں جیسا کہ وہ کرتے ہیں۔ ایسے ’’پوچ دلائل‘‘ سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
آپ کی پالیسی تو پہلے ہی ان کے’’کفریہ عقائد‘‘ کو نظرانداز کرنے کی ہے، کیا اب آپ ان کو صحابۂ کرام کی توہین سے بھی’’پاک ‘‘ قرار دے دیں گے؟ فافہم وتدبر ولاتکن من الغافلین.
عمارصاحب آگے فرماتے ہیں:
’’میرے جس اقتباس کو صریح بددیانتی سے کام لیتے ہوئے اور میری طرف سے وضاحت کے باوجود مسلسل صحابہ پر طعن کی مثال کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، وہ دراصل عہد نبوی کے منافقین سے متعلق ہے اور اس میں بھی طعن وتشنیع کے پہلو سے نہیں، بلکہ قرآن مجید کی ایک آیت کامصداق متعین کرنے کے ضمن میں ایسے افراد کا ذکرکیاگیا ہے جو بدکاری کوبطورِ عادت اختیار کیے ہوئے تھے‘‘
ہم عرض کریں گے کہ الزام لگانے والے بددیانتی کاارتکاب قطعاً نہیں کررہے ہیں بلکہ آپ کے استدلال کاپائے چوبیں خود آپ کے استدلال کی بے تمکینی کو بھی ظاہر کررہا ہے اورصحابہ پر طعن وتشنیع کے الزام کااثبات بھی۔ آپ نے اس وضاحتی اقباس میں بھی ان پاک باز ہستیوں کو ’’منافقین‘‘قرار دیا ہے اور آیت محاربہ کا بلادلیل مصداق قرار دےکر فساد فی الارض کا مرتکب بھی۔حالانکہ ان دونوں باتوں کاثبوت آپ اور کے سارے گروہ کے محققین مل کربھی قیامت تک پیش نہیں کرسکتے۔
یہ آیت محاربہ آپ کے گروہ پرہی نازل نہیںہوئی ہے،یہ چودہ سو سال سے قرآن مجید میںموجود ہے، سیکڑوں مفسرین نےاپنی تفاسیر میں اس آیت کامفہوم بیان کیا ہے۔آپ کسی ایک مفسر،یا قرآنی احکام کے جمع وتخریج کرنے والے’’احکام القرآن‘‘ کے کسی ایک مصنف کانام بتلادیں کہ جس نے آیت محاربہ میں منافقین کو بالعموم او رمذکورہ صحابہ وصحابیہ کو بالخصوص اس آیت اور اس کی سزا کا مصداق قرار دیا ہو؟
عہد رسالت میں کسی منافق کو سزا نہیں دی گئی
جہاں تک عہد نبوی کےمنافقین کا معاملہ ہے، ان کے عمل وکردار کی بابت بہت سی ایسی باتیں روایات میں ملتی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں لیکن نبیﷺ نے ان پر دنیوی مؤاخذہ نہیں فرمایا، ان کے لیے کسی تعزیر یاسزا کا اہتمام نہیں کیا۔ حتی کہ حرم رسول، ام المؤمنین سیدہ عائشہrپر انہوں نے تہمت دھردی جوواقعہ افک کےنام سے مشہور ہے، اس کاسرغنہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تھا، اس کے جھوٹے پروپیگنڈے کاشکار بعض مخلص مسلمان بھی ہوگئے، جیسے حضرت حسان بن ثابت، حضرت مسطح بن اثاثہ اور حضرت حمنہ بنت  حجشyاور آیت براءت کے نزول کے بعد آپﷺ نے ان تینوں پرحدِقذف بھی جاری فرمائی۔(ترمذی،حدیث:۳۱۸۱ودیگر کتب حدیث) لیکن عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں میں سے کسی پر بھی قذف کی یہ حدجاری نہیں فرمائی۔
علاوہ ازیں بالخصوص اسی عبداللہ بن ابی کی بابت روایات میں صراحت ہے کہ اس نےلونڈیاں رکھی ہوئی تھیں جن سے وہ زناکاری کرواکے پیسے لیاکرتاتھا۔یہ دولونڈیاں تھیں، انہوںنے آکررسول اللہ ﷺ سے شکایت کی، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:[وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ](النور:۳۳،صحیح مسلم، التفسیر:۲ ۶،۲۷)فراہی گروہ کے’’امام ثانی‘‘نے لکھا کہ آٹھ لونڈیاں تھیں جن سے وہ کمائی کے لیے پیشہ کرواتاتھا۔(تدبرقرآن) اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کوتومذکورہ آیت کے ذریعے سے تنبیہ فرمادی، حالانکہ کوئی مسلمان اس کاتصور بھی نہیں کرسکتا۔لیکن خود نبیﷺ نے عبداللہ بن ابی یا اس کی لونڈیوں کی سزا وتعزیر کا کوئی حکم نہیں دیا۔
ان دومثالوں کےبیان سے مقصود عمار صاحب کی اس کج روی کی وضاحت ہے جس کااظہار وہ زیربحث صحابی اورصحابیہ کونعوذباللہ منافق باور کرانے کے لیے کررہے ہیں۔ اگر وہ واقعی منافق ہوتے تو رسول اللہ ﷺ نے ان پر حد ہی جاری نہ فرماتے۔ اگر وہ پیشہ ور بھی ہوتے تب بھی آپ ان پرحد جاری نہ فرماتے، کیونکہ پھر یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ یہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ منافق ہیں۔ اس لیے کہ وہ دور رسالت کے مسلمان تھے جن سے بہ تقاضائے بشریت غلطی کاصدور توممکن تھا،جیسا کہ صدور ہوابھی، لیکن اس کاتصور بھی ایمان کے منافی ہے کہ انہوں نے زناکاری کے اڈے کھولے ہوئے اور چکلے قائم کئے ہوئے تھے۔ نعوذباللہ من ذلک۔اس قسم کی بے بنیاد الزام تراشی اور تہمت طرازی ع
انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
اور اللہ تعالیٰ نے یہ ’’حوصلہ‘‘ فراہی گروہ کو وافر مقدار میں عطافرمایا ہے۔ع
یہ ’’نصیب‘‘ اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
محل اعتراض،اصل اقتباس
اس کے بعد عمارصاحب نےاپنی کتاب(براہین،ص:۱۶۲-۱۶) سے وہ اصل اقتباس نقل کیا ہے جس سے ان کامقصد صحابہ پر طعن وتشنیع کے الزام کی نفی ہے۔ لیکن اس اقتباس سے اس الزام کا بے حقیقت ہونا واضح ہوتا ہے، یا اس کااثبات ہوتاہے؟ لیجئے!آپ اصل اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیصلہ فرمائیں کہ معترضین کاالزام صحیح ہے یا وہ اس سے پاک ہیں؟
عمارصاحب کی یہ اقتباس حسب ذیل ہے:
’’سورۂ نساء کی آیات ۱۵،۱۶میں’’واللاتی یأتین الفاحشۃ‘‘، اور ’’والذان یأتیانھا‘‘ کا مصداق کون سے زانی ہیں اور پہلی آیت میں خواتین کو الگ ذکر کرکے ان کی سزا الگ بیان کرنے کی وجہ کیا ہے؟ ….ہم نے آیات کے داخلی قرائن کی روشنی میں اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ یہاں زنا کا اتفاقیہ ارتکاب کرنے والے عام مجرم نہیں، بلکہ اس کو پیشہ اور عادت کے طور پر اختیار کرنےو الے مجرم زیربحث ہیں اور قرآن نے پہلی آیت میں پیشہ وربدکارعورتوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کی تدبیر بیان کی جب کہ دوسری آیت میں یاری آشنائی کا مستقل تعلق قائم کرلینے والے جوڑوں کی تادیب وتنبیہ کا طریقہ بیان فرمایا ہے‘‘
جن صاحب نے عمار صاحب کی اس اقتباس سے صحابہ کی توہین کا مفہوم اخذکیا ہے، وہ عمار صاحب کے الفاظ میں حسب ذیل ہے:
’’مولانا محترم نے ہماری اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے…یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اس توجیہ کو ماننے کی صورت میں یہ تصور کرنا پڑے گا کہ ایک ’’انتہائی صالح مسلمان معاشرے میں، جس کی تربیت رسول اللہ ﷺ
کررہے ہوں، اس میں ایسے مسلمان افراد بھی ہوں جوبدکاری کے اڈے چلارہے ہوں یاجن کا ناجائز تعلق یاری آشنائی کی صورت میں روز مرہ کے معمول کی صورت اختیار کرچکاہو‘‘مولانا کافرمانا ہے کہ’’کوئی بھی باغیرت مسلمان اس تصور کو اپنے دل ودماغ میں جگہ نہیں دے سکتا‘‘(مقامِ عبرت ،ص:۳۰)‘‘(الشریعہ)
یہ کون سے مولاناہیں؟ عمار صاحب نے نام ذکر نہیں کیا، یہ کتاب ’’مقام عبرت‘‘ بھی ہماری نظر سے نہیں گزری کہ ان کاتعارف ہوجاتا۔ اس لیے ہم من قال کی بحث کوچھوڑ کر ماقال پر گفتگو کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں فاضل معترض کا اعتراض درست ہے اور وہ توہین کاالزام لگانے میں حق بجانب ہیں۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
(جاری ہے)

About حافظ صلاح الدین یوسف

Check Also

فتنۂ غامدیت قسط:25(آخری)

حافظ صلاح الدین یوسف قسط:25 (آخری) مشیر:وفاقی شرعی عدالت پاکستان فتنۂ غامدیت جوپیرہن اس کاہے وہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے