احکام ومسائل

G.149
جناب مفتی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
وراثت کے متعلق ایک سوال ہے جس کا مفصل جواب مطلوب ہے، مرحوم عبدالمغنی فوت ہوگئے ہیں ور ان کے وارث تین بیٹے، دو بیٹیاں اور ان کی ایک بیوہ ہے اور ان کی کل وراثت 30لاکھ روپے ہے۔
قرآن وحدیث رسول کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کہ ہر وارث کے حصہ میں کتنا حصہ آئے گا۔جزاکم اللہ خیرا.
(سائل :عبدالمجید)
J
الجواب بعون الوہاب
صورت مسئولہ برصحت سؤال
سائل عبدالمجید ولد عبدالمغنی نے اپنے والد مرحوم کی وراثت جو کہ تیس لاکھ روپے کی درج ذیل ورثا ء میں شرعی تقسیم معلوم کی ہے ۔ہم بتوفیق اللہ عز وجل اسکا جواب تحریر کرتے ہیں ۔سب سے پہلے کل مال میں سے مرحوم کی بیوہ کا بموجب فرمان باری تعالیٰ فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم (سورۃ نساء 12)یعنی بیوہ مرحوم کے مال میں سے اولاد کی موجودگی میں آٹھواں حصہ ہے۔آٹھواں حصہ نکال کر باقی جو بچے گا اسکا بموجب فرمان باری تعالیٰ :یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل …………(سورۃ نساء 11)یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کی نسبت تاکید کرتا ہے کہ بیٹے کا حصہ بیٹی کی نسبت دوگنا ہے ۔مذکورہ قاعدے کے مطابق باقی ماندہ رقم کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے چھ حصے تین بیٹوں کو ،اور دوحصے دو بیٹیوں میں تقسیم کردیئے جائیں ہر ایک کا حصہ ذیل میں تحریر کیاجا ہے
مرحوم کی بیوہ کا حصہ : 375000
ہر ایک بیٹے کا حصہ: 656250
ہر ایک بیٹی کا حصہ : 328125
رب کریم ہمیں جمیع معاملات میں قرآن و سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
G.150
جناب مفتی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
درجہ ذیل مسئلہ میں شرعی راہنمائی مطلوب ہے ہم میاں بیوی میں ایک طویل عرصہ کے بعد تقدیر الٰہی سے جدائی واقع ہوگئی ہے بصورت طلاق اور اب رجوع کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس حوالے سے دو اہم مسئلے سامنے آئیں ہیں۔
(۱)اہلیہ جہیز میں کچھ سامان اپنے کپڑے یابرتن وغیرہ لائی تھیں اب وہ کپڑے بوسیدہ ہوگئے ہیں، برتن ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، کیا یہ چیزیں شرعا واجب الادا ہیں یا نہیں، اسی طرح میری بڑی بچی کی شادی کے موقع پر میں نے اپنی استطاعت کے مطابق خرچہ کیا تھا اور میں کسی مزید خرچہ کامتحمل
نہیں تھا اس موقع پر اہلیہ نے کہا تھا کہ میرے پاس50,000ہزار وپے ہیں،یہ آپ شادی کے اخراجات میں شامل
کرلیں، وہ رقم انہوں نے نہ مجھے قرض طور پر دی تھی اور نہ کہیں اس رقم کا انہوں نے آخری طلاق سے قبل مطالبہ کیا تھا تو کیا ایسی صورت میںبھی یہ رقم میرے ذمہ واجب الادا ہے۔
(سائل عبدالرؤف ،کراچی)
J
الجواب بعون الوہاب
صورت مسئولہ برصحت سؤال
میاں بیوی کے درمیاں تقدیر الہی سے ایسا موڑ آجا تا ہے کہ انکے درمیاں جدائی واقع ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں بیوی جو بھی اسکا سامان تھا جو اسکے والدین نے اسے دیا تھا یا اس نے اپنی خرچی سے لیا تھا یا شوہر نے اسے گفٹ کردیا تھا وہ اسکا ہے نیز حق مہر میں بھی اسکاحق ہے اگر شوہر نے وہ ادا نہیں کیا تو وہ بھی اسے ادا کرنا چاہیے ۔ اسی طرح اگر شوہر نے اپنی اہلیہ سے کوئی قرض لیا ہو تو وہ بھی قابل واپسی ہے اور شوہرکے ذمے واجب الاداء ہے البتہ اگر شادی کے موقع پر کچھ کپڑے ،برتن وغیرہ والدین نے اپنی بیٹی کو دیئے اور وہ ایک طویل عرصہ تک استعمال کرتی رہیں اب وہ کپڑے بوسیدہ ہوکرپھٹ گئے۔ اور یہ ہی حال برتن کا بھی ہو ا تو اس صورت حا ل میں طلاق کے بعد سابقہ اہلیہ کا اسکا تقاضہ کرنا سابقہ شوہر سے شرعاً وقانوناً کس طرح بھی مناسب نہیں ۔
اسی طرح بیٹی کی شادی کے موقع پر سائل کی اہلیہ یعنی بیٹی کی والدہ نے 50,000 پچاس ہزار روپے اس شادی میںا ستعمال کیلئے دیئے جوکہ شوہر استعمال نہیں کرنا چاہ رہے تھے لیکن اہلیہ نے اصرار کے ساتھ وہ رقم دی کہ آپ اسکو خرچ کریں ۔ یہ رقم شوہر پر واجب الاداء نہیں ہے۔البتہ وہ اپنی خوشی سے اسکو لوٹا ئے تو بہتر ہے بطور احسان کے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

About admin

Check Also

ختم قران ۔ المعھد السلفی

شیخ عبداللہ ناصررحمانی تاریخ 2018-06-12, بمقام مسجد نورالعلم نیا نام مسجد جنید  (المعھد السلفی للتعليم …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے