اربعینِ نووی

حدیث نمبر 17
قسط 44
شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ

عَنْ أَبِي يَعْلَى شَدَّادِ بنِ أَوْسٍ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: (إِنَّ اللهَ كَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ. فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا القِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، وَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهُ)(رواہ مسلم)
أخرجه مسلم – كتاب: الصيد، باب: الأمر بإحسان الذبح والقتل وتحديد الشفرة، (19559،(57)
ترجمہ:ابویعلیٰ شداد بن اوسtسے مروی ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر شیٔ کےبارے میں احسان کرنا فرض قرار دے دیاہے،پس جب تم کسی کو قتل کرو تواحسان کے پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے (احسن طریقے سے)قتل کرو،اور جب تم جانور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو،اپنی چھری خوب تیز کرلواور اپنے ذبیحہ کو بوقت ذبح راحت مہیاکرو۔
حدیث کے راوی سیدنا شداد بن اوس بن ثابت الخزرجی ہیں،ان کا تعلق انصار کے معروف قبیلے بنوخزرج سے تھا،رسول اللہ ﷺ کے شاعر حسان بن ثابتtکے بھائی کے بیٹے تھے، ان کے والد اوس بن ثابت tکوبھی رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل تھا،جنگِ بدر میں شریک تھے،اس سے قبل اہلِ عقبہ میں بھی شامل تھے،جنگِ اُحد میںرتبۂ شہادت پر فائز ہوئے،شداد بن اوس کے بارے میں جنابِ عبادہ بن صامتtفرمایاکرتے تھے:شداد کو علم اور حلم دونوں چیزیں عطا ہوئی تھیں،جبکہ بیشتر لوگوںکو دونوںمیں سے ایک ہی چیز میسر ہوتی ہے،سعید بن عبدالعزیز ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے:شداد کو تمام انصار صحابہ پر دوفضیلتیں حاصل تھیں:گفتگوکے وقت قوتِ بیان اور غصہ کے وقت تحمل وبردباری۔
عبادات اور دیگر اعمالِ صالحہ کی انجام دہی میں خوب جدواجتہاد کا مظاہرہ فرماتے،سن ۵۸ھ میں جبکہ ان کی عمر پچھتر سال تھی فلسطین میںفوت ہوئے،بیت المقدس میں دفن کئے گئے۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ملخصاً:۲؍۱۳۸)
یہ حدیث کچھ انتہائی خوبصورت اسلامی آداب کے بیان کے تعلق سے، شریعت کے محاسن کو اجاگرکرنے کی ایک بہترین مثال ہے، جو اس امر کو واضح کررہی ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بندوں بلکہ جانوروں تک کے حق میں کس قدر رحیم وشفیق ہے،شریعتِ مطہرہ میں مخلوقات کے ساتھ رفق ورأفت کے برتاؤپر مبنی کیسی کیسی ہدایات جاری فرمائیں۔
یہ حدیث پانچ جملوں پر مشتمل ہے،جنہیں مختصر شرح کے ساتھ پیشِ خدمت کیاجاتاہے:
پہلاجملہ:(إِنَّ اللهَ كَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ.) یعنی: اللہ تعالیٰ نے ہر شیٔ کے بارے میں احسان کا رویہ اپنانا واجب قرار دیا ہے،ہر شیٔ سے مراد تمام مخلوقات ہیں،خواہ وہ انسان ہوںیاجانور،سب کے ساتھ احسان اور بھلائی کا برتاؤاختیار کرنا شرعی واجبات ومؤکدات میں شامل ہے،حدیث میں مذکور (كَتَبَ)کا صیغہ وجوب کی دلیل ہے،گویا احسان پر مبنی برتاؤواجباتِ دینیہ شرعیہ میں سے ہے۔
دوسرا جملہ:(فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا القِتْلَةَ)یعنی:پس جب تم کسی کو قتل کرو تواحسان کے پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے (احسن طریقے سے)قتل کرو۔
یہاں قتل کا لفظ اپنے عموم پر قائم ہے،کسی انسان کو قتل کریں یا جانور کو، اچھےطریقے سے قتل کرنا شرعی واجبات میں سے ہے۔
واضح ہو کہ انسان کو اچھے طریقے سے قتل کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کے قتل میں شرعی تعلیمات کو نافذ کیاجائے،مثلاً: شادی شدہ زانی کو رجم کی صورت میں قتل کرنا،یہی شریعت کی ہدایت ہے اور اسی کو اچھے طریقے سے قتل قراردیاجائےگا۔
اسی طرح کسی شخص کا بطورِ قصاص قتل ،شرعی ہدایت یہ ہے کہ کسی قاتل نے جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا،اسے اسی طرح قتل کرکے قصاص قائم کیاجائے،قتل کی یہ صورت اچھے طریقے سے قتل قرار پائے گی،صحیح بخاری ومسلم کی حدیث کے مطابق ایک یہودی نے کسی لونڈی کو اس کا سرکچل کر قتل کیاتھا،رسول اللہ ﷺنے حکم دیا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے بیچ رکھ کر کچل دیاجائے ؛تاکہ صحیح معنی میں قصاص کے تقاضے پورے ہوجائیں۔(صحیح بخاری:2413صحیح مسلم:1672)
جانور کوقتل کرنے میں اچھا طریقہ اختیار کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، جس کی صورت یہ ہےکہ اسے ایسے طریقے سے قتل کیاجائے کہ اس کی روح بآسانی اور جلدی نکل جائے،اس کاتعلق حرام اور موذی جانور کے ساتھ ہے،حلال جانور کے لئے قتل کی بجائے ذبح کی اصطلاح وارد ہے، جیسا کہ حدیث کے تیسرے جملے میں آرہا ہے۔
اگرکوئی کتاانسان کیلئے ایذاءرسانی کا سبب بن رہاہو اور اسے قتل کرنا ضروری خیال کیاجارہاہوتو اسے اچھے طریقے سے قتل کرنا شرعی واجبات میں سے ہے،جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے طریقہ یا آلہ سے قتل کیا جائے کہ اس کی روح تیزی سے نکل جائے اور بہت تڑپنے کی بجائے جلدی راحت پالے،مثلاً:گولی سے قتل کیاجانا،زہرخورانی سے قتل کیاجانایا بجلی کے جھٹکے وغیرہ سے،کہاجاتاہے کہ بجلی کے جھٹکے سے بہت جلدموت واقع ہوجاتی ہے اور مقتول کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔
بہرحال قتل کی آسان ترین شکل اختیارکرنا شرعی مؤکدات میں شامل ہے،بلکہ ایسا کرنے والے کیلئے اجروثواب کے وعدے مذکور ہیں۔
رسول اللہ ﷺنے ایک حدیث میںچھپکلی جیسے مکروہ،موذی اور زہر سے بھرے جانور کوزیادہ ضربوں کی بجائے ایک ضرب سے مارنے والے کیلئے زیادہ اجروثواب کا وعدہ فرمایاہے:
عن ابی ھریرۃ، قال: قال رسول اللہ ﷺ :(من قتل وزغۃ فی أول ضربۃ فلہ کذا وکذا حسنۃ، ومن قتلھا فی الضربۃ الثانیۃ فلہ کذا وکذا حسنۃ، لدون الأولی، وإن قتلھا فی الضربۃ الثالثۃ فلہ کذا وکذا حسنۃ، لدون الثانیۃ)(صحیح مسلم :2240)
ترجمہ:ابوھریرہtسے مروی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص پہلی ضرب میں چھپکلی کو مارڈالنے میں کامیاب ہوگیا،اس کیلئے اتنی اتنی نیکیاں ہیں(صحیح مسلم کی دوسری حدیث میں سونیکیوںکاوعدہ وارد ہے)اور جوشخص دوسری ضرب میں مارنےمیں کامیاب ہوا اس کیلئے پہلی ضرب والے سے کم ثواب ہے اورجوشخص تیسری ضرب میں مارنے میں کامیاب ہوا اس کیلئے دوسری ضرب والے سے کم ثواب ہے۔
سبحان اللہ! شریعتِ مطہرہ کی وسعت وسماحت ملاحظہ کیجئے اور اس سے بڑھ کر اللہ رب العزت جو اس شریعت کا بانی وموجد ہے کی رحمت و رأفت اور رفق واحسان کا اندازہ لگائیے کہ چھپکلی جیسے موذی جانور کو زیادہ اذیت میں مبتلا کرکے مارنے کو ناپسندیدہ قرار دیا اور ایک ہی ضرب میں مارنےکاباقاعدہ اجروثواب ذکرفرمایا؛تاکہ چھپکلی جوکہ خسیس ترین جانور ہے کم سےکم تکلیف برداشت کرکے موت کے منہ میں چلی جائے۔
تیسرا جملہ:(وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ)یعنی:اور جب تم جانور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔
ذبح اور قتل میں فرق یہ ہے کہ قتل کا تعلق انسانوںکے ساتھ ہے اور ایسے جانوروں کے ساتھ جن کا گوشت حرام ہے،جبکہ ذبح صرف حلال جانوروں کے ساتھ مقید ہےتاکہ انہیں ذبح کرکے ان کاگوشت کھایا جاسکے۔
اچھے طریقے سے ذبح کرنے سے مراد یہ ہے کہ ذبح کا آلہ (چھری وغیرہ)اس قدر تیز ہو کہ انتہائی تیزی کے ساتھ مذبوح جانور کی گردن پہ پھرجائے،ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ذبح کرنے والاشخص طاقتور ہو تاکہ پوری قوت اور مکمل تیزی کے ساتھ ذبح کا عمل مکمل ہوجائے اور جلد ازجلد جان نکلنے پر جانور راحت میں آجائے۔
یہ حکم بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات پر شدید رحمت کی دلیل ہے،نیز شریعتِ مطہرہ کے عمدہ محاسن کی مظہر بھی۔
دوچھوٹے چھوٹے واقعات
(۱)وعن ابن عمر رضی اللہ عنھما أن رسول اللہ ﷺ قال: عذبت امرأۃ فی ھرۃ سجنتھا حتی ماتت، فدخلت فیھا النار، لاھی أطعمتھا وسقتھا، إذ حبستھا، ولاھی ترکتھا تأکل من خشاش الأرض .(متفق علیہ)
سیدنا ابن عمرwسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیاگیا، اس نےاسے قید کردیا تھا،حتی کہ وہ مرگئی، وہ اس کی وجہ سے جہنم میں گئی۔ نہ اس نے اسے کھلایا پلایا جب کہ اس نے اسے قید کر رکھاتھا اور نہ اسے اس نے چھوڑا کہ وہ خود زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی۔
(۲) وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ، قال کنا مع رسول اللہ ﷺ فی سفر، فانطلق لحاجتہ، فرأینا حمرۃ معھا فرحان، فأخذنا فرخیھا، فجاءت الحمرۃ فجعلت تعرش فجاء النبی ﷺ فقال:من فجع ھذہ بولدھا، ردوا ولدھا الیھا، ورأی قریۃ نمل قد حرقناھا، فقال: من حرق ھذہ؟ قلنا: نحن،قال: انہ لاینبغی أن یعذب بالنارإلارب النار.رواہ ابوداؤد
سیدناابن مسعودtبیان فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ اپنی بشری حاجت کے لئے تشریف لے گئے،ہم نے (چڑیاکی طرح کا) ایک سرخ پرندہ دیکھا، اس کے ساتھ اس کے دوبچے تھے،ہم نے ان بچوں کوپکڑلیا۔ تو وہ پرندہ ان کے گرد منڈلانے لگا،اتنے میں نبی ﷺ تشریف لے آئے تو آپ نے فرمایا: اس پرندے کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے رنج پہنچایا ہے؟ اسے اس کے بچے لوٹادو۔ اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی دیکھی جس کو ہم نے جلادیاتھا،توآپ نے پوچھا: یہ بستی کس نے جلائی ہے؟ ہم نے جواب دیا،ہم نے(جلائی ہے )۔ آپ نے فرمایا: آگ کاعذاب دینا تو آگ کے رب کو ہی سزاوار ہے۔
یہ تمام نصوص اس بات پرشاہدہیں کہ شریعت کو جانوروں تک کی تکلیف گوارہ نہیں،اور جس جانور کو ذبح کرنامقصود ہو توبوقتِ ذبح ایسا اہتمام کرلینا ضروری ہے کہ وہ کم سے کم اذیت اٹھائےاور جلدازجلد جا ن کنی تکلیف سے فارغ ہوکر راحت میں آجائے۔
واضح ہو کہ اچھے طریقے سے ذبح کرنے سے جہاں یہ مراد ہےکہ جانور کو کم سے کم تکلیف میں ڈالاجائے،وہاں یہ بھی مراد ہے کہ بوقتِ ذبح شریعت کی جاری کردہ ہدایات کو اپنایاجائے۔
ایک ہدایت تو یہ ہے کہ ذبح کرنے والاذبح کی اہلیت رکھتاہو، چنانچہ یاتو وہ مسلمان ہو اوریاپھر اس کاتعلق اہل کتاب سے ہو،کافر یا مشرک کا ذبیحہ حلال نہیں،اسی طرح ایسے مسلمان کا ذبیحہ بھی ناجائز ہوگا جو مرتد ہوگیاہو۔
اہل کتاب کے ذبیحہ کے حلال ہونے کی دلیل،قولہ تعالیٰ: [وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۝۰۠ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّہُمْ۝۰ۡ]یعنی:اوراہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے۔
اہل کتاب سے مراد:یہودی اور عیسائی ہیں۔
دوسری ہدایت یہ ہے کہ ایسے آلہ کے ساتھ ذبح کیاجائے جو مذبوح کا خون بہانے کی صلاحیت رکھتاہو،خواہ وہ آلہ لوہے کا ہو یا سونے یا چاندی کاہو،خواہ کوئی تیز دھار کا پتھرہو،رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے:
(ماأنھر الدم وذکر اسم اللہ علیہ فکل )(صحیح بخاری:۲۴۴۸صحیح مسلم:۱۹۶۸)یعنی:جوآلہ خون بہادے اور ذبح کے وقت اس پر اللہ تعالیٰ کانام لے لیاگیاہوتو اسے کھالو۔
البتہ رسول اللہ ﷺ نے دوچیزوں کا استثناء ذکرفرمایاہے:ایک دانت،دوسری ناخن۔دانت سے ذبح کرنا اس لئے درست نہیں کہ وہ ہڈی ہےاور ہڈی سے ذبح کرنا ناجائزہے،اور ناخن سے ذبح کرنا اس لئے ناجائز ہے کہ وہ اہلِ حبشہ کی چھری ہے،اورہمیں عجمیوں کے تشبہ سے روکاگیاہے،جبکہ اہلِ حبشہ اصلاً عجمی ہیں اورفتوحات کے بعد ان پر عربیت داخل ہوئی۔
تیسری ہدایت یہ ہے کہ مذبوح جانور کا خون بہے،خون بہنے کی صورت یہ ہے کہ وہ دوہڈیاں جو حلق کو گھیرے ہوتی ہیں،کٹ جائیں۔
یہ دونوںہڈیاں دل کے ساتھ مربوط ہوتی ہیں، جن کے کٹ جانے سے تیزی سے خون بہہ جاتاہےاور انتہائی جلدی مذبوح کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
البتہ اگر جانور کو حلق میں چھری پھیرنے سے ذبح کرنا ممکن نہ ہوتو کسی بھی حصے سے ذبح کرناجائز ہے،مثلاً:کوئی اونٹ بھاگ نکلےا ور اسے پکڑنا ممکن نہ رہے،یا کوئی جانور کنوئیں میں گرجائے اور اسے نکال کر حلق پر چھری پھیرنا ممکن نہ ہو،تو پھر تیریا بندوق کے فائر سے،وہ جہاں بھی لگے، ذبح کیاجاسکتاہے،جیسے شکارشدہ جانورہوتا ہے،صرف شرط یہ ہے کہ وہ تیریافائر اس کے جسم کو پھاڑڈالے اور ساراخون نکل جائے۔
چوتھی ہدایت یہ ہے کہ بوقتِ ذبح،اللہ تعالیٰ کانام لیاجائے،جیساکہ اوپر بخاری ومسلم کی حدیث گزرچکی،اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:[وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ](الانعام:۱۲۱)
ترجمہ:اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے ۔
چوتھااورپانچواں جملہ:( وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، وَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهُ)یعنی:اپنی چھری خوب تیز کرلواور اپنے ذبیحہ کو بوقت ذبح راحت مہیاکرو۔
حدیث کا یہ جملہ ذبح میں استعمال ہونے والی چھری تیز کرنے کے وجوب پر دلالت کرتا ہے، چھری تیز کئے بغیر ذبح کرنا اور جانور کا ذبح ہوجانا اگرچہ اس معنی میں درست ہے کہ وہ ذبیحہ حلال قرار پائے گا، لیکن ایسا کرنے والاشخص گناہگارہوگا؛کیونکہ اس نے کُندچھری سے ذبح کرکے جانور کواذیت میں مبتلاکیاہے۔
چھری تیز کرنے کی صورت یہ ہے کہ اسے کسی پتھر وغیرہ پر رگڑ لیا جائے؛تاکہ اس کی دھار خوب یتزہوجائے،شریعت تو جانور کی اذیت کا اس قدر احساس کرتی ہے کہ جانور کے سامنے چھری تیز کرنےسے بھی منع کرتی ہے؛کیونکہ یہ بھی جانور کے لئے تکلیف دہ ہوسکتا ہے،اسی لئے بعض اوقات جانور تکلیف کے احساس سے بھاگ نکلتاہے۔
حدیث سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ بوقتِ ذبح لازماً یہ خیال رکھا جائےاور اس کا اہتمام بھی کیاجائے کہ جانور کو جلد راحت حاصل ہو جائے، اس کے لئے چھری کاتیز ہونا اور اس کا قوت سے پھرجانا ضروری ہے۔ کچھ لوگ بوقتِ ذبحہ جانور کے ہاتھ پاؤں یاتو باندھ دیتے ہیں یا مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں،یہ چیز بھی تکلیف دہ ہے،بہتر یہ ہے کہ جانور کے ہاتھ پاؤں کھلے چھوڑ دیے جائیں اور اسے تڑپنے دیاجائے،تڑپنے کی حرکت سے خون مزید تیزی سے خارج ہوگا اور جانور جلدازجلد راحت حاصل کرلے گا۔
رسول اللہ ﷺ کی بوقتِ ذبح سنت یہ تھی کہ آپ چھری پھیرتے ہوئے اپنی ایک ٹانگ مبارک جانور کی گردن کے قریب رکھ لیاکرتے؛ تاکہ جانور کھڑا نہ ہوسکے،باقی اعضاء کو کھلا چھوڑدیتے تھے۔
کچھ لوگ جلد موت کے چکر میں بوقتِ ذبح جانور کی گردن کی ہڈی توڑ دیتے ہیں،تاکہ جانور جلد موت کاشکارہوکر راحت حاصل کرسکے،
یہ قطعاً درست نہیں؛کیونکہ ہڈی توڑنے سے جانور شدید ترین تکلیف محسوس کرے گا،بہتر یہی ہے کہ گردن پر چھری پھیرکر اسے چھوڑ دیاجائے، جب تمام خون خارج ہوجائے گا،جانور خودبخود موت پاکر راحت حاصل کرلے گا۔
کچھ لوگ (قصاب وغیرہ)جلد ذبح کے چکر میں چھری پھیرتے ہی اسے جانور کے دل تک پہنچاکر،دل کوپھاڑ ڈالتے ہیں،جس سے جانور جلدی موت قبول کرلیتا ہے۔
یہ طریقہ بھی ناجائز ہے؛کیونکہ اس عمل سے خون کااخراج رک جائے گااور مکمل خون خارج نہیں ہوپائےگا،ایسے جانور کا گوشت بھی مضر صحت ہوتا ہے۔(واللہ اعلم)
الغرض یہ حدیث محاسنِ شریعت کواجاگرکرتی ہے ،شریعتِ مطہرہ میں کس قدر سماحت اور رحمت ووسعت کےآثار ہیں کہ جانوروں خواہ وہ حلال ہوںیاحرام کی آسان ترین موت کا اہتمام کیا،ایسے طریقہ سے انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے سے منع فرمادیا جو جانور کے لئے باعثِ اذیت ہو،تبھی تو اگرکوئی سینگ والی بکری،بغیرسینگ بکری کو ٹکرماردے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بغیر سینگ بکری کو سینگ والی بکری سے بصورتِ قصاص بدلہ دلائے گا۔
شریعتِ مطہرہ نے ہر قسم کے ظلم سے روکاہے ،اور دنیا کے ظلم کو خواہ وہ کسی انسان پر ہویاجانور پر،آخرت کے اندھیرے قرار دیا ہے۔ (واللہ المستعان وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وأھل طاعتہ أجمعین)

About admin

Check Also

ختم قران ۔ المعھد السلفی

شیخ عبداللہ ناصررحمانی تاریخ 2018-06-12, بمقام مسجد نورالعلم نیا نام مسجد جنید  (المعھد السلفی للتعليم …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے