Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2018 » شمارہ جنوری » عقیدہ ختمِ نبوّت کے چار بنیادی تقاضے

عقیدہ ختمِ نبوّت کے چار بنیادی تقاضے

﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا۰۰﴾ (الاحزاب:۴۰ )
’’محمدeتمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ‘‘
نبی کریم eکی ازواجِ مطہرات مومنوں کی مائیں تھیں ان میں سے سیدہ خدیجۃ الکبریٰ rکے بطن سے آپeکی چاربیٹیاں ہوئیں جن کے اسمائے گرامی زینب ،رقیہ ،امّ کلثوم، فاطمہg ہیںاور بیٹے قاسم ،طیب ہیں۔ آپ کا تیسرا بیٹا آپ کی لونڈی ماریہ قبطیہ rکے بطن سے پیدا ہوا جس کا نام ابراہیم تھا۔
نبی eکے تینوں بیٹے اس آیتِ کریمہ کے نازل ہونے سے پہلے فوت ہوچکے تھے ان کے بعدآپ کے ہاں کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا ۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ محمدeمردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں آپ ’’اللہ‘‘ کے رسول اور خاتم المرسلین ہیں اللہ تعالیٰ ہر بات اور کام کو اچھی طرح جانتا ہے۔
1اللہ تعالیٰ اس حکمت کوجانتا ہے کہ اس نے آپ eے بیٹوں کو کیوں حیات نہیں رکھا۔
2اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیدنا محمد eخاتم المرسلین ہیں جو بہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے مگر تم نبی eی شوکت و عظمت کو پوری طرح نہیں جانتے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ حقیقت میں اس کے نبی کا کیا مقام ہے ۔
3 جب سیدنا محمدeتمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں تو زید tکی بیوی آپ کی بہو کیسے بن گئی۔
نبیeکی بعثت سے پہلے نبوت کے چار بنیادی تقاضے پورے نہ ہوئے تھے اس لیے آپ سے پہلے سلسلہ نبوت جاری رکھا گیا۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کے حوالے سے تمام تقاضے اور ضرورتیں پوری ہو گئیں لہٰذا اب کسی اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اسی لیے نبی eکو خاتم النبیین کے عظیم الشان اور بے مثال اعزاز سے نوازا گیا۔
جب پہلے نبی کو جھٹلادیا جاتا تو دوسرا نبی مبعوث کیا جاتا:
سلسلہ نبوت کو جاری رکھنے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ تھی کہ پہلے نبی کو کلّی طور پر جھٹلا دیا جاتا تو اس کی تائید اور تصدیق کے لیے دوسرے اور تیسرے نبی کو بھیجا جاتا جیساکہ سورۃ یٰسین میں ہے:
﴿وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ١ۘ اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَۚ۰۰ اِذْ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا۠ فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ۰۰ قَالُوْا مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا١ۙ وَ مَاۤ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَيْءٍ١ۙ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ۰۰﴾ (یٰسٓ:۱۳ تا ۱۵)
’’انہیں بستی والوں کا واقعہ سنائیں جب اُس میں رسول آئے۔ ہم نے ان کی طرف دورسول بھیجے انہوں نے دونوں کو جھٹلا دیا پھر ہم نے ان کی تائید کے لیے تیسرا رسول بھیجا انہوں نے اپنی قوم کو کہا کہ ہم تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔بستی والوں نے کہا تم کچھ بھی نہیں مگر ہم جیسے انسان ہو ،الرّحمان نے ہرگز کوئی چیز نازل نہیں کی ہے تم جھوٹ بولتے ہو۔‘‘
اگرچہ کچھ لوگوں نے نبیeکو جھٹلا دیا لیکن آپeکا کلمہ پڑھنے والے مکی دور سے لے کر اب تک رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے ۔آپeکی امت قیامت کے دن تمام امتوں سے زیادہ ہو گی۔
(( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ tقَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ eيَوْمًا فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ فَجَعَلَ يَمُرُّ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الرَّجُلُ وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الرَّجُلَانِ وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الرَّهْطُ وَالنَّبِيُّ وَلَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الْأُفُقَ فَرَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ أُمَّتِي فَقِيلَ هَذَا مُوسَى فِي قَوْمِهِ ثُمَّ قِيلَ لِي انْظُرْ فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الْأُفُقَ فَقِيلَ لِي انْظُرْ هَكَذَا وَهَكَذَا فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الْأُفق فَقيل هَؤُلَاءِ أُمَّتُكَ وَمَعَ هَؤُلَاءِ سَبْعُونَ أَلْفًا قُدَّامَهُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ هُمُ الَّذِينَ لَا يَتَطَيَّرُونَ وَلَايَسْتَرْقُوْنَ وَلَا يَكْتَوُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ رجل فَقَالَ ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَقَالَ سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ)) (متفق علیہ)
’’حضرت عبداللہ بن عباس tبیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی محترم eباہر نکلے اورارشاد فرمایا‘ مجھ پر اُمتیں پیش کی گئیں۔ ایک پیغمبر گزرا ‘اس کے ساتھ اس کا ایک پیروکار تھا۔کسی کے ساتھ دوآدمی تھے، کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی۔ اوربعض ایسے پیغمبر بھی آئے‘ جن کا کوئی پیروکار نہیں تھا۔ میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑااجتماع دیکھا‘ جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ میں نے خیال کیا‘ شاید یہ میری امت ہے لیکن بتایا گیا کہ یہ موسیٰ uکی امت ہے۔ پھر مجھے کہا گیا‘ آپ نظر اٹھائیں، تو میں نے بہت بڑا اجتماع دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو بھرا ہواہے ۔مجھ سے دائیں اوربائیں جانب دیکھنے کے لیے کہا گیا۔میں نے دیکھا ادھر بھی بہت زیادہ لوگ آسمان کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مجھ سے کہا گیا‘ یہ سب آپ کے اُمتی ہیں اور ان کے ساتھ ستر ہزار وہ بھی ہیں۔ جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہیں‘ جو نہ بدفالی اورنہ دم کراتے ہیں اور نہ گرم لوہے سے داغتے ہیں بلکہ صرف اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں ۔ یہ سن کر عکاشہ بن محصنtنے کھڑے ہوکر کہا‘ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل فرمائے۔ آپ eنے دعاکی‘ اے اللہ! اسے ان میں شامل فرما۔ اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا‘اس نے آپ سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ مجھے بھی ان سے شامل کرے۔ آپeنے فرمایا‘ عکاشہ تم سے سبقت لے گیا۔‘‘
(( عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّtعَنِ النَّبِيِّeقَالَ۔۔۔ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا فَقَالَ أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا فَقَالَ أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا فَقَالَ مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلَّا كَالشَّعَرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَبْيَضَ أَوْ كَشَعَرَةٍ بَيْضَاءَ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَسْوَدَ)) (رواہ البخاری: باب قصۃ یأجوج ومأجوج)
’’حضرت ابو سعید خدری tبیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول eنے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے، میں امید کرتا ہوں کہ جنتیوں میں چوتھائی تعداد تمہاری ہو گی ہم نے اللہ اکبر کہا آپ نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ جنتیوں میں تمہاری تعداد تیسرا حصہ ہوگی ہم نے اللہ اکبر کہا پھر آپ نے فرمایا میں امید کرتا ہوں، کہ تم جنت والوں میں نصف ہو گے ہم نے اللہ اکبر کہا آپ نے فرمایا تمہارا تناسب لوگوںمیں ایک سیاہ بال کی طرح ہے جو سفید رنگ کے بیل پر ہو یا سفید بال کی مانند جو سیا ہ رنگ کے بیل پر ہو۔ ‘‘
﴿اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ۰۰ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ۰۰ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ١ انَّهٗ كَانَ تَوَّابًا ۰۰﴾ (النصر)
’’جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے اور اے نبی آپ دیکھ لیں کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ اپنے رب کا شکر اور اس کے حضور استغفار کیجئے، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
2پہلے انبیاء کرام oکی شریعتیں نامکمل تھیںآپ کا دین کامل اور اکمل ہے اس لیے آپ کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں:
ابتدائی دور میں انسان کے شعور میں اتنا ارتقاء پیدا نہیں ہوا تھا اور نہ ہی انسان نے تمدن، سماج اور دیگر شعبہ جات میں اتنی ترقی کی تھی کیونکہ انسانی زندگی کا ارتقائی دور تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کی خاطر دین میں ارتقائی اور تدریجی عمل پسند فرمایا۔ نبی eکے دور میں انسان نے کافی حد تک شعور حاصل کر لیا تھا اس لیے ہمیشہ کے لیے دین یعنی دستور حیات کو مکمل کر دیا گیا اور اعلان ہوا:
﴿اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا١ؕ﴾ (المائدۃ:۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے، میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور اسلام کو دین کے طورپر پسند کر لیا‘‘
(( عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ tأَنَّ رَجُلًا مِنَ اليَهُودِ قَالَ لَهُ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ اليَهُودِ نَزَلَتْ لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا قَالَ أَيُّ آيَةٍ قَالَ ﴿اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا﴾ قَالَ عُمَرُ قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ وَالمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ e وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ)) (رواہ البخاری: باب زیادۃ الایمان ونقصانہٖ)
’’سیدنا عمر tفرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے مجھے کہا اے امیر المؤمنین! تمہاری کتاب میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے، میں نے پوچھا وہ کونسی آیت ہے؟ اس نے کہا: ﴿[اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ] عمر tفرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ مجھے وہ دن اور مقام یاد ہے جہاں نبی eپر یہ آیت نازل ہوئی اس وقت آپ جمعہ کے دن عرفات میں کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔‘‘
3پہلے انبیاء کرامoکی لائی ہوئی کتب مسخ کر دی گئیں ،اس لیے ایک مکمل کتاب، داعی اور نبی آخرالزمان کی ضرورت تھی لہٰذا آپؐ مبعوث کیے گئے:
پہلی آسمانی کتابوں کو تبدیل کردیا گیا جس کی وجہ سے نبوت کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔
﴿وَ قَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرہ:۷۵)
’’حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کا کلام سن کر سمجھنے اور جاننے کے باوجود اسے بدل دیتے ہیں۔‘‘
دوسری کتابوں کے مقابلے اور حقیقت کے اعتبار سے قرآن مجید اپنی زبر، زیر کے ساتھ محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا یہاں تک کہ آپeکی احادیث اور اس کے بیان کرنے والے راویوں کے نام اور کوائف بھی محفوظ کر لئے گئے ہیں۔لہٰذا اب کسی نبی کی ضرورت نہیں ۔
﴿وَاَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ۰۰﴾ (النحل: ۴۴)
’’اور ہم نے آپ کی طرف نصیحت نازل کی ،تا کہ آپ اسے لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں جو کچھ ان کی طرف اُتارا گیا ہے اس لیے کہ وہ غوروفکر کریں ۔‘‘
﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾(الحجر:۹)
’’یقیناً ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔‘‘
﴿لَا تُحَرِّكْ بِہٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۝۱۶ۭ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۝۱۷ۚۖ فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۝۱۸ۚ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗ۝۱۹ۭ ﴾
’’اے نبی وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں۔ اس کو جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔ لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں تو اس کی قرأت غور سے سنتے رہیں۔ یقیناً اس کا بیان کروانا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ ‘‘(القیامۃ:۱۶تا ۱۹)
ان آیات میں قرآن مجید کو ’’اَلذِّکْرْ‘‘ قرار دے کرفرمایا ہے کہ ہم نے اسے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف قرآن مجید کی حفاظت کا بندوبست کر دیا ہے بلکہ قرآن مجید کی تشریح یعنی حدیث مبارکہ کو بھی قیامت تک کے لیے محفوظ فرما دیا گیا ہے۔
عرب میں پڑھنے لکھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ مذہبی‘ ثقافتی اور تجارتی مرکز ہونے کے باوجود مکہ میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد بیس سے زیادہ نہ تھی اور یہ بھی معمولی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ شدید علمی فقدان اور پڑھائی لکھائی کا رواج نہ ہونے کے باوجود نبی معظم eنے اس بات کا اہتمام فرمایا کہ جوں ہی قرآن مجید کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ اسے اپنی نگرانی میں مرتب کرواتے۔ کاغذ کی عدم دستیابی کی وجہ سے قرآن مجید کو ہڈی‘ لکڑی‘ پتھر یہاں تک کہ بعض درختوں کے پتے اس طریقے سے تیار کیے جاتے کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا جیسا کہ پرانے زمانے کے کتبات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس طرح مکمل قرآن مجید مختلف کتبات کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا۔
4پہلے انبیاء کرام oمخصوص قوم اور زمانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے لیکن آپ کو eقیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا ہے لہٰذا اب کسی نبی کی ضرورت نہیں:
﴿قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا ا۟لَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ١۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۰۰﴾
’’فرما دیں اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں جو زندہ کرتا اورمارتا ہے پس اللہ اور اس کے نبی امی پر ایمان لائو جو اللہ اور اس کی باتوں پرایمان رکھتا ہے۔ اور اس کی پیروی کروتاکہ تم ہدایت پائو۔‘‘ (الاعراف:۱۵۸)
امام ابن کثیرaنے اس آیت سے آپ کی ختم نبوت کا استدلال کیا ہے کیونکہ آپ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے رسول منتخب کیے گئے ہیں لہٰذا آپ کے بعد اب کسی نبی اور رسول کی گنجائش نہیں۔ آپ کی عالمگیر نبوت کا یہ بھی ثبوت ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا بلا شرکت غیرے مالک اور معبود ہے اسی طرح کسی شراکت کے بغیر سیدنا محمدﷺبھی قیامت تک کے لیے بنی نوع انسان کے لیے رسول ہیں ۔
﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۰۰﴾(سبا:۲۸)
’’اے نبی eہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ۰۰﴾(الانبیاء: ۱۰۷)
’’اے نبی ہم نے آپ کو دنیا والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے ۔‘‘
(( عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ الْأَنْصَارِیِّtقَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ eأُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی کَانَ کُلُّ نَبِیٍّ یُبْعَثُ إِلَی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ إِلَی کُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تُحَلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَیِّبَۃً طَہُورًا وَمَسْجِدًا فَأَیُّمَا رَجُلٍ أَدْرَکَتْہُ الصَّلَاۃُ صَلَّی حَیْثُ کَانَ وَ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ بَیْنَ یَدَیْ مَسِیرَۃِ شَہْرٍ وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَۃَ)) (رواہ مسلم: کِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاۃَ )
’’سیدنا جابر tبیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرمeنے فرمایا: مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیںجو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔
1۔پہلے انبیاء کو ان کی مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔
2۔میرے لیے مال ِ غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا ۔
3۔میرے لیے ساری زمین مسجد بنا دی گئی ہے ، جہاں بھی نماز کا وقت ہوجائے اُسی جگہ نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
4۔ایک مہینے کی دوری پر ہونے کے باوجوددشمن مجھ سے ڈرتا ہے ۔
5۔مجھے قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کا حق دیا جائے گا۔‘‘
((عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ tأَنَّ رَسُولَ اللہِ eقَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ)) (رواہ مسلم :کتاب المساجد ، و مواضع الصلاۃ )
’’سیدنا ابو ہریرہ tبیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مجھے انبیاء پر چھ فضیلتیں عنایت کی گئی ہیں۔
1۔ مجھے جوامع الکلم کی صلاحیت عطا کی گئی ۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصی رعب اور دبدبہ سے میری مدد فرمائی ہے۔
3 ۔ مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا ۔
4۔میرے لیے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا ۔
5۔ مجھے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا اور مجھ پر سلسلۂ نبوت ختم کر دیا گیا۔ ‘‘
(( عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ tأَنَّ رَسُولَ اللهِ eقَالَ إِنَّ مَثَلِي وَ مَثَلَ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَ أَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ))(رواہ البخاری: باب خاتم النبیین)
’’سیدنا ابوہریرہ tبیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول eنے فرمایا: میری اور پہلے انبیاء کی مثال اس طرح ہے۔ ایک آدمی نے بڑا خوبصورت گھر بنایا لیکن اس عمارت میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس گھر کو دیکھتے اور اس کے حسن و جمال پر تعجب کرتے ہوئے سوچتے اور کہتے ہیں کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟ فرمایا: میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘
(( عَنْ ثَوْبَانَ tقَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ eلَاتَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالمُشْرِكِينَ وَحَتَّى يَعْبُدُوا الأَوْثَانَ وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي)) (رواہ الترمذی:باب ماجاء لاتقوم الساعۃ)
سیدنا ثوبان tبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم eنے فرمایا: ’’قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں سے مل جائیں گے اور بتوں کی عبادت کرنے لگیں گے، عنقریب میری امت میں تیس کذاب آئیں گے، ہر ایک اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہوگا حالانکہ آخری نبی میں ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘

About میاں محمد جمیل ایم اے

Check Also

رمضان المبارک میں کرنے کے کام

روزے یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۰ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے