پیکر علم وعمل

03-01-2018کو شیخ ذوالفقار علی طاہر رحمہ اللہ کی وفات کےبعد 05-01-2018کاخطبہ جمعۃ المبارک جامع مسجد ابوعبیدہ بن جراح ڈرگ روڈ کراچی ،جہاں شیخ ذوالفقار علی طاہر رحمہ اللہ مستقل خطیب تھے، میں فضیلۃ الشیخ محمد داؤد شاکر حفظہ اللہ نے ارشاد فرمایا،جسے شیخ صاحب کی نظرثانی کے بعد افادہ عام کے لئےمجلہ ’دعوت اہل حدیث‘‘ میں شایع کیاجارہاہے۔

اس خطاب کی اعداد وترتیب قاری محمد اسحٰق مؤذن جامع مسجد ابوعبیدہ بن جراح اور درجہ ثامنہ کےطالب علم فیصل یاسین نے کی ہے۔(ادارہ)

خطبہ مسنونہ کے بعد:

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم، [قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۰ۭ ] (الزمر:۹) [يَرْفَعِ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ۝۰ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ۝۰ۭ ]

(مجادلۃ:۱۱)

اللہ رب العزت نے متعدد جگہوں پر علم اور علماء کی فضیلت بیان کی ہے ان میں سے’’دو‘‘مقام میں نے آپ کے سامنے پڑھے ہیں۔

چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:[قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۰ۭ ]

اے محمدﷺ آپ لوگوںسےپوچھیں کہ کیا اہل علم اور وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے کیا یہ دونوں برابرہوسکتے ہیں؟

اہل علم کا اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک اونچامقام ہے اور جوعلم سے محروم ہیں وہ اس اونچے مقام ومرتبہ سے بھی محروم ہیں،علم اور عالم کے مقام ومرتبہ اور اس کی شان کے متعلق ایک عظیم محدث امام زہری رحمہ اللہ  کا قول ہے:’’ما عبداللہ بمثل علم‘‘ کہ علم سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کی گئی۔

ایک عالم جو علم سے وابستہ ہوتا ہے اس وجہ سے اس کا پل پل اللہ کی عبادت میں گزرتا ہے، ایک عابد اور ایک زاہد عبادت کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔

عالم اگرچہ عابد وزاہد کی طرح کثرت سے نوافل اورتطوعات کا اہتمام نہیں کرپاتا،لیکن کیونکہ اس کا سینہ علم سے بھراہوتاہے، اس کا دل پاکیزہ ،اس کی سوچ پاکیزہ، ہر وقت اللہ کاخوف اورڈر،اللہ پر توکل،اللہ پر مکمل یقین وہ چلتے پھرتے کائنات کےذرے ذرے پرغور کرتا ہے اور وہ ہمہ وقت لوگوں کی اصلاح وتربیت میں مصروف رہتا ہےاس طرح وہ گویاہمہ وقت عابد اور زاہد سے بھی بڑھ کر اللہ کی عبادت میں  مشغول رہتا ہے۔

عبادت کا اپنامقام ہے لیکن علم کی صورت میں پاکیزہ جذبات ، ٹھوس فکر کی بنیاد پر جو بندہ اللہ سے تعلق قائم کرتا ہے بہت بڑا عابد اور زاہد بھی اس مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:ایک عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسے چودھویں کی رات کے چاند کو تمام ستاروں پر۔ (مشکوٰۃ المصابیح:۲۱۲)یہ فضیلت ہے عالم کی عابد پر، جاہل پر نہیں، لاعلم پر نہیں ،بدعمل پر نہیں،عابد اس شخص کو کہتے ہیں جو فرائض اور واجبات پرپوری طرح قائم ہونے کے بعد کثرت سے نفلی روزے رکھتا ہے،کثرت سے تہجد پڑھتا ہے ،کثرت سے اذکار کرتا ہے، کثرت سے تلاوت کرتا ہے، کثرت سے صدقات وخیرات کرتاہے، کثرت سے وظائف کرتا ہے، تو ایک عام مسلمان پر کتنی فضیلت ہوگی ،جب عالم کی عابد وزاہد پر اتنی فضیلت ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا ایک اور فرمان ہے:

’’فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم‘‘

ایک عالم کی ایک عابد اورزاہد پر فضیلت ایسے ہے جس طرح میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ سےادنیٰ شخص پر ہے۔

(جامع ترمذی:۲۶۸۶)

آپ غورکریں!یوں نہیں فرمایا کہ جتنی میری فضیلت ابوبکروعمر رضی اللہ عنہ پر ہے بلکہ فرمایا مجھ محمدﷺ کی جو کسی ادنیٰ امتی پرفضیلت ہے اتنی فضیلت ایک عالم کی عابد پر ہے۔

دوسری آیت کریمہ ملاحظہ فرمائیں:

[يَرْفَعِ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ۝۰ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ۝۰ۭ ](المجادلۃ:۱۱)

اللہ تعالیٰ ایمان والوں اور اہل علم کے درجات بلند کرتا ہے یعنی اہل ایمان کے درجے غیراہل ایمان پر اور اہل علم کے درجے اہل ایمان پر۔

ایمان والوں میں جوعلماء ہیں ان کے درجات بڑھتے رہتے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ان کا کردار ان کی اپنی ذات تک محدود نہیںہوتا ان کا کردار پورے معاشرے کی اصلاح ہوتاہے،ایک عابد اور ایک زاہد کی محنتوں کااثر اس پر یا زیادہ سے زیادہ اس کے گھر اورخاندان پر پڑتاہے لیکن ایک عالم کاکردار جامع اور وسیع ہوتاہے، کتنے ہیں جو شرک اور کفر میں ڈوبے ہوئے ہیں جو علماء کی محنتوں سے توحید وسنت کی طرف آئےہیں ،کتنے ہیں فسق وفجور کی وادیوں میں بھٹکنے والے، جوعلماء کے خطبات ودروس تحریر وتصنیف سے عملِ صالح کی طرف آئے ہیں،کتنے چور،ڈاکواورلٹیرے ہیں جو علماء اورناصحین کی نصیحتوں سے اپنے اپنے جرائم سے باز آئے ہیں۔

آپ دیکھ لیں!جب اس مسجد کاآغاز ہواتھا ایسے بھی مواقع آئے جب نمازباجماعت کےلئے امام اورمؤذن کے علاوہ کوئی نہیں ہوتاتھا،صرف’’دو‘‘ بندے جماعت کرواتے تھے اور آج دیکھ لیں کس طرح مسجد بھری ہوئی ہے ،عام نمازوں میں بھی دوصفیں ہوجاتی ہیںاور جمعہ میں تومسجد بھری ہوتی ہے، یہ ساری محنت اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے ایک عالم دین شیخ ذوالفقار علی طاہر رحمہ اللہ کی ہے،ان کی کوششوں اور محنت سے اصلاح ہوئی جو دین سے جڑے، جن جن کی تربیت ہوئی ان سب کا اجر وثواب انہیں بھی ملے گا،ان شاء اللہ

یہ ایک عالم کا کردار ہوتا ہے کہ اس کی کوششوں اور محنت سے کتنے ہی لوگ شرک وبدعت کوچھوڑ کر توحید وسنت کی طرف آتے ہیں جس سے ان کے اجروثواب میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس طرح ان کے درجات اہل ایمان اور عباد وزھاد پربڑھتے رہتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’من دل علی خیر فھو کفاعلہ‘‘(صحیح مسلم:۱۸۹۳،ترمذی:۲۶۷۰)

کہ جوخیرخواہی اور بھلائی کے کاموں پر دوسروں کی راہنمائی کرتا ہے اسے بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا اس عملِ صالح کرنے والے کوملےگا۔

رسول اللہ ﷺ نے سیدناعلیtکو فرمایا:اے علی!میں تمہیں ایک قوم کی طرف بھیج رہا ہوں وہ اپنے کفرپرڈٹی ہوئی ہے،تمہیں فوج کاکمانڈر بناکر روانہ کررہاہوں ان سےجہاد کرنے کے لئے لیکن ان سے لڑائی کرنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر توحید کی دعوت دینا،اگر تمہاری دعوت دینے سے، سمجھانے سے، کہنے سے ایک شخص بھی کفر کوچھوڑ کر اسلام کی طرف آگیا اس ایک بندے کا اسلام تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہترہے۔(صحیح بخاری:۳۷۰۱،صحیح مسلم:۲۴۰۶)

ایک اور حدیث میں فرمایا کہ تمہاری محنت سے ایک آدمی کا اسلام قبول کرنا ان تمام خزانوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ دنیاکاکون ساکونہ ایسا ہے کہ جس پر سورج کی کرنیں نہ پڑتی ہوں۔

’’سبحان اللہ‘‘ایک عالم کے لئے درجات ہی درجات ہیں یہ علماء کا بہت عظیم کردار ہے کہ وہ لوگوں کے مصلح ہوتے ہیں،لوگوں کے حقیقی خیر خواہ ہوتے ہیںکیونکہ یہ لوگ انبیاء والاکام کرتےہیں، انبیاء جوامانت دے کر جاتےہیں یہ اس امانت کے محافظ ہوتےہیں یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے،رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا، جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد کی معروف حدیث ہے، اس طویل حدیث کا ایک حصہ ہے:

’’العلماء ورثۃ الانبیاء…‘‘

علماء انبیاء کے وارث ہیں۔

انبیاء درہم ودینار چھوڑ کر نہیں گئے وہ تو علم کی وراثت چھوڑ کر گئے ہیں جس نے اس وراثت سے کچھ حصہ لےلیا اس نے ایک بڑا ہی عظیم حصہ لیا۔(سنن ابی داؤد:۳۶۴۱)

ہم تو مال ودولت اور عہدوں پر خوش ہوتےہیں شاید ہماری نظروں میں ان علماء’’جو انتہائی غریب ومسکین اور بے گھر وبے سہارا ہیں‘‘ کی کوئی قدر نہیں حالانکہ یہ لوگ توانبیاء کے وارث ہیں، علمِ دین ورثہِ نبوت ہے اس علم سے جس کے پاس کچھ آگیا سمجھ لو اس کے پاس بہت کچھ آگیا۔

سیدناابوھریرہtجنہوں نے خوب ورثہِ نبوت سے حصہ لیاجب اسلام قبول کیا۷ہجری میں، اس کے بعدپلٹ کر اپنے علاقے میں گئے ہی نہیں اور نبیﷺ کا دامن ایک پل کے لئے بھی نہیں چھوڑا۔(الرحیق المختوم۳۶۴،اسد الغابۃ۶؍۳۱۴)

ایک مرتبہ بازار سےگزررہے تھے تولوگوں سےکہا کہ مسجد نبوی میں ورثہِ نبوی تقسیم ہورہا ہے اورتم یہاں کاروبار میں پڑے ہوئے ہو، لوگ فوراًمسجد نبوی کی طرف دوڑے ،دکان کاروبار چھوڑ کر بھاگے تاکہ وہ ورثہِ نبوت میں سےکچھ حصہ لے لیں، تھوڑی دیر بعد واپس آئے اور ابوھریرہ کو کہاوہاں تو کوئی ورثہ تقسیم نہیں ہورہا،انہوں نے سمجھاہوگا کہ وہاں پر دولت تقسیم ہورہی ہوگی یاجونبی ﷺ کے متعلق اشیاء ہیں وہ تقسیم کی جارہی ہوگیں،آپﷺ کے بال،کپڑے،جوتے کسی کےپاس برتن ہوں گے جوآپﷺ کے استعمال میں رہے ہوں گے وہ تقسیم ہورہے ہوں گے لیکن وہاں تو کچھ ایسا تقسیم نہیں ہورہاتھا۔

بہرحال!ابوھریرہtنےکہا تم نے مسجد میں کچھ دیکھا بھی یا نہیں؟ لوگوں نے کہا وہاں حلقے لگے ہوئے تھے کہیں حدیث بیان ہورہی تھی کسی عالم سے کچھ لوگ فتویٰ پوچھ رہے تھے، کوئی کسی کوقرآن سکھارہاتھا ،ابوھریرہtنے فرمایا یہی تو ورثہِ نبوت ہے۔

آج اس علم،اس ورثہِ نبوت کی قدرنہیں، بڑے سے بڑا عالم آیا ہوا ہو،اس کاپروگرام ہو،لوگ پروگرام میں آنے اور سننے کے لئے تیار نہیں،حصول علم کا کوئی ذوق وشوق نہیں، کہیں سے آواز آجائے کہ کہیں موئے مبارک کی زیارت ہورہی ہے،صرف زیارت حالانکہ آج کے دور میں اس کی کوئی صورت نہیں ہے، خوامخواہ کے دعوے ہیں تو دیکھو لوگوں کا ذوق وشوق کس قدر شدید ہوتا ہے۔اِدھر یہ حال ہے اور اُدھر جہاں اصل ورثہِ نبوت ،علم نبوت(قرآن وحدیث) ہے وہاں کوئی توجہ ہی نہیں۔

بات ہورہی تھی درجات کی ،بہت اونچے درجات ہیں ایک عالم کےلئے بالخصوص ایسے علماء جو صحیح معنوں میںٹھوس علم رکھتے ہیں،مضبوط علم رکھتے ہیں، باقاعدہ معروف طریقوں سے علم حاصل کیا ہو،پڑھاہواور پھر پڑھاتے پڑھاتے صحیح معنوں میں مفتی اور عالم کے منصب تک پہنچے ہوں،اِن کا وجود تو بہت ہی مبارک ہوتا ہے، ایسوں کو اپنی ذات کی کوئی فکر نہیں ہوتی،انہیں صرف اور صرف امت کی فکر ہوتی ہے، دین کی فکر ہوتی ہے ،انہیں صحیح معنوں میں دین کا درد ہوتا ہے، اس کے لئے بطورِ مثال کے بہت سے علماء کو پیش کیاجاسکتا ہے ،لیکن بالکل واضح مثال آپ کے سامنے ہم سب کے ممدوح جناب الشیخ ذوالفقار علی طاہررحمہ اللہ ہیںجو ان تمام اوصاف کے حامل تھے،سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی وفات سے پوری جماعت غمزدہ ہے ہم کل ان کے گاؤں میں ان کے جنازے میں تھے میں بھی اور محترم حافظ محمد سلیم صاحب بھی،ماشاء اللہ اتنی کثیر تعداد میں لوگ تھے کہ حیرت واستعجاب کی کیفیت تھی کہ اتنے لوگ کہاں سےآگئے؟ سندھ کا کوئی ایسا علاقہ نہیں تھا جس کی نمائندگی نہ ہو، جہاں سے لوگ وہاں نہ پہنچے ہوںاور تدفین کے بعد بھی لوگ دوردراز کے علاقوں سے آرہے تھے،ہمیں بعد میںبتایاگیا کہ لوگوں کی آمد کا سلسلہ کئی دن تک جاری رہا۔

پوراپاکستان بالعموم ، صوبہ سندھ اوربالخصوص ہم لوگ،آپ لوگ بڑے غمزدہ ہیں، اور افسردہ ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ آج خطبہ جمعہ کیلئے حاضری آپ احباب سے تعزیت کی غرض سے ہے آپ کو تسلی دینے آیا ہوں، یقینا آپ کےلئے ہم سب کے لئے بڑے دکھ اورغم کی بات ہے ایک دولت ،ایک سرمایہ تھاوہ آ پ سے اور ہم سے چھن گیااب معلوم نہیں کہ اس قحط الرجال کےد ور میں ان جیسا عالم آپ کو یہاں میسر آئے گا یانہیں؟

ابھی بھی کراچی میں سندھ میں کئی ایسے مراکزہیں جہاںصحیح معنوں میں جیدعلماء کرام دستیاب نہیںہیں اور یہ تواستادالاساتذہ، شیخ الحدیث اور مفتی جیسے عظیم اور جلیل القدر مناصب تک پہنچے ہوئے تھے، ایک بات کہوں؟محسوس نہ کیجئے گا،جنہوں نے ان کی قدر کی کرلی ،کرلی اور جنہوں نے نہیں کی اب وہ ساری زندگی افسوس ہی کرتے رہیں گے۔

ایک حدیث طبرانی کبیر میں ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’من لم یرحم صغیرنا ولم یؤقرکبیرنا ولم یعرف عالمنا حقہ فلیس منا‘‘

جس شخص نے ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کی ،بڑوںکی عزت نہیں کی اور ہمارے علماء کا حق نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں۔

یہ علماء تو روحانی باپ ہوتے ہیں پھر ان کا کتناحق ہوگا یہ حقیقی بڑے ہوتے ہیں ان سے بڑا کون ہوسکتا ہے،عمرمیں کوئی ان سے بڑا ہوسکتا ہے،عہدے میں بھی بڑا ہوسکتا ہے،لیکن یاد رکھیں وہ علم میں بڑے ہونے کی وجہ سے سب بڑوں کے بڑے ہیں۔

سب کااحترام کرو، اپنے دادا،تایا،چچا،ماموں سب بڑوں کا احترام کرو، اپنے بڑے بزرگوں کااحترام کرو، لیکن اگر تمہارے پاس کوئی عالم ہے تو اس کا احترام سب سے بڑھ کر ہوناچاہئے۔ان سے بڑھ کر کسی اور کااحترام نہیں!علماء کا آپ مقام جانتے ہیں؟ یہ روحانی معالج ہیںیہ دین کے معالج ہیں لہذا حقیقی معالج اور ڈاکٹر یہی لوگ ہیں۔اگر کسی علاقے میں ایک ماہرڈاکٹر آجائے تو لوگ خوش ہوتےہیں کہ یہ معروف ڈاکٹر ہمارے علاقے میں آگیا ہے اور اگر وہ مشفق مہربان ہو، لوگوں سےا چھا سلوک کرتاہوہروقت ہرگھڑی حاضر ہو تو کیا ہی بات ہے۔واللہ!اس سے بڑھ کر کسی علاقے یا محلے کے لئے خوشی کی بات ہے کہ وہاں پر ایک مستند اور جیدعالم دین ہو۔

کوئی مریض خود ہی میڈیکل اسٹور چلاجائے اِدھراُدھر سے پوچھ کر دوائی لے کرآجائے کوئی اس کو عقلمند نہیںکہے گا،کچھ باتیں بندے کو معلوم ہوتی ہیں اس میں اس کو کسی مستند ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن میں یہ طریقہ نہیں چلتا اب کسی ایسے ہی مرض میں یہ طریقہ اختیار کرنا یعنی کسی مستند ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے کسی ڈاکٹرکی کتاب کو پڑھ کر اور مرض آپ ہی سمجھ کر یا کسی غیر مستند ڈاکٹر سے پوچھ کر خود ہی میڈیکل اسٹورسے دوائی لے آناپرلے درجے کی جہالت اور حماقت ہے اس سےفائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی پہنچے گا،جب یہ بے وقوفی ہے تو پھر بتایاجائے کہ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ دین کے معاملات میں مستند جید اور تجربہ کارعلماء کی طرف رجوع نہ کیاجائے بلکہ خود ہی پڑھیں اور سمجھیں اور خود ہی اپناروحانی علاج کرتے پھریں، یاپھر مستند اور مضبوط علماء کی بجائے کسی سرسری علم دین رکھنے والے شخص کو اپنا مفتی اور پیشوا بنالیں؟؟؟

اس طرزِ عمل کا ایک غلط پہلو یہ بھی ہے کہ علماء کی قدرختم ہوگئی ہے، اکرام ختم ہوگیا ہے۔

یادرکھیں!یہ علمائے کرام ان کا وجود معاشرے کےلئے انتہائی خیروبرکت کا باعث ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے،خوش نصیب ہیں وہ لوگ اور خوش نصیب ہے وہ علاقہ جہاں جید عالم موجود ہو،جہاں تجربہ کار عالم ہو اور بڑی محرومی اور حقیقی غم اور دکھ کی بات ہوتی ہے جب یہ نعمت چھن جائے۔

شیخ ذوالفقار علی طاہر aکا وجود اس علاقے بالخصوص آپ حضرات کے لئے بڑی سعادت اورخیروبرکت کا باعث تھا،انہوں نے اس علاقے کی اور آپ کی خدمت کی،کتاب وسنت کی تعلیمات سےآپ کو آگاہ کرتے رہے، سچااورصحیح منہج آپ کو سمجھاتے رہے ،ان کی وفات سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔

میں بھی دعاکرتاہوں آپ بھی دعاکریں اللہ تعالیٰ آپ کو ان کا اچھا نعم البدل دے۔

وہ بڑے خصائص کے حامل تھے،وہ ایک منجھے ہوئے عالم دین تھے تقریباً۲۵سال سے تدریس اور تبلیغ دین سے وابستہ تھے، صحیح بخاری کے علاوہ تمام کتبِ حدیث سبقا سبقا پڑھائی ہیں اور عرصہ ۱۲سال سے صحیح مسلم پڑھارہے تھے ،علم وعمل اور تعلیم وتبلیغ سے طویل اور مسلسل تعلق تھا جو تادم حیات قائم رہا، اگر میں یہ کہوں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ ان کی پوری زندگی علم وعمل سے عبارت ہے۔یہ ہے حقیقی زندگی یہ ہے مبارک زندگی۔

یہ کوئی معمولی بات ہے کہ وہ بیک وقت مستند اور جید عالم دین، ایک کامیاب اور منجھے ہوئے مدرس، ایک نامورخطیب،ایک پختہ لکھاری، زمانے کے فتنوں میں صحیح اور مستقیم منہج کی پہچان اور اس پر پامردی سے قائم رہنےوالے تھے۔

شیخ ذوالفقار علی طاہر رحمہ اللہ کی پوری زندگی توحیدوسنت کی دعوت دیتے اور شرک وبدعت کی تردید کرتے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کے اعمال واخلاق کی اصلاح کرتے ہوئے گزری اور یہی لوگوں کے ساتھ حقیقی خیرخواہی ہے۔

چنانچہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:

عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ، فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ: إِنِّي جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَدِيثٍ بَلَغَنِي، أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جِئْتُ لِحَاجَةٍ، قَالَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:«مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ، وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ، وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ، كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا، وَلَا دِرْهَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ»،(سنن ابی داؤد:۳۶۴۱)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جوشخص علم کی تلاش میں نکل پڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کے راستوں کوآسان کردیتا ہے اور فرشتے طالب علم پر اپنے پروں کا سایہ کرتےہیں اور عالم کے لئے جو کچھ زمین وآسمان میں ہے سب دعائیں کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی کی تہہ میں عالم کے لئے دعائیں کرتی ہیں عالم کی عابد پرفضیلت ایسے ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت دیگر ستاروں پر ہوتی ہے۔

یعنی ایک عالم جولوگوں کو خیر وبھلائی(دینی تعلیمات) سکھانے والاہوتاہے،کے لئے یہ ساری مخلوق اللہ سے رحمت کی دعائیں کرتی ہیں گویا اللہ تعالیٰ نے ان جمادات اورحیوانات کو شعور دیا ہےکہ زمین پر یہ جو خیروبرکت موجود ہے تو وہ صرف دین کی وجہ سے ہے۔

اے لوگو!یاد رکھویہ جو تم زندہ ہو تمہیں روزی ملتی ہے اور یہ جو اتنی معصیتوں کے باوجود دنیا اب تک قائم ہے یہ سب دین کی برکت کی وجہ سے ہے اور اس دین کو پھیلانے والے ہی دراصل ساری دنیا کے بقاء اور اساس کی بنیاد ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جب تک ایک شخص بھی اللہ اللہ کہنے والاموجود رہے گا قیامت نہیں آئے گی، اور یہ بات معلوم ہے کہ اس توحید کی دعوت دینے والے یہ علمائے کرام ہی ہیں یعنی جب تک دعوتِ توحید دینے والے علماء موجودہیں توحید بھی موجود رہے گی اور جب تک توحید موجود ہے تو یہ دنیا بھی قائم رہے گی۔توگویا کہ اس دنیا کی بقاء کی بنیادعلمائے کرام کی جماعت ہے، یہ شعور اللہ تعالیٰ نےحیوانات کو بھی دیا ہے اس لئے یہ ساری مخلوق ایک عالم دین کے لئے دعائیں کرتی ہے۔

ان علمائے کرام کا جو لوگوں کوحق وسچ کی تعلیم دیتے ہیں،جب حیوانات وجمادات تک کو یہ شعور ہے تو اے انسانو!تمہیں تو یہ شعور بالاولیٰ ہوناچاہئے کم از کم جن علماء سےوابستہ ہو جن سے روحانی فیض حاصل کرتے ہو اور جن علماء سے علم دین سیکھا ہے،جن سے توحید وسنت اور منہج مستقیم سیکھا ہے ان کاحق ہے کہ آپ ان کے لئے دعائیں کریں، ان مصلحین کو دعاؤں میں یاد رکھاکرو، یہ ان کاحق ہے ،ہمارے ممدوح شیخ طاہرaبھی ایسے ہی ایک عالم دین تھے جن کے خطبات کا اخص موضوع توحید وسنت ہی ہوتا تھا، وہ آپ کی دعاؤں کے بہت زیادہ حقدار ہیں۔

حضرات!کچھ لوگ آپ میں سے لیٹ آئے ہیں وہ شیخ ذوالفقار علی طاہررحمہ اللہ کی آج عدم موجودگی اورمیری یہاں آمد اور جوموضوع چل رہا ہےاس بابت شایدکچھ بھی نہ جانتے ہوں تو وہ یہ افسوسناک خبر سن لیں کہ آپ کےخطیب وامام ،مدرس ومعلم شیخ ذوالفقار علی طاہر رحمہ اللہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی جوارِ رحمت میں جگہ پاگئے ہیں ،ان شاءاللہ

حضرات!انہوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری، وہ علم کے پیکر تھے ،عمل کے پیکر تھے، اور اخلاقِ حسنہ کے پیکر تھے، ہمارے شیخ امیر محترم علامہ عبداللہ ناصررحمانی حفظہ اللہ شیخ طاہررحمہ اللہ کے جنازےکے موقع پر فرمارہے تھےکہ وہ میرے بڑے ہی وفادار اورفرمانبردار شاگرد تھے، وہ میرے مخلص ساتھی تھے، ہماری جماعت کے مضبوط رکن تھے، اور ہمارے ادارے کے ایک اہم فرد تھے، وہ جماعت اورادارہ کا سرمایہ تھے جب بھی میں نے کسی بھی حوالے سے کوئی بھی ذمہ داری عائد کی تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا، اور اگر ایک ذمہ داری ہٹا کردوسری ذمہ داری لگائی تو بھی خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ایک ذمہ ادری پر دوسری ذمہ داری لگائی تو کبھی یہ نہیں کہا کہ میں پہلے ہی مشکل میں ہوں وقت نہیں ملتا۔

یہ تھے امیرمحترم حفظہ اللہ کے احساسات اور جذبات ہمارے ممدوح شیخ طاہر رحمہ اللہ کے بارہ میں۔

جماعت کاماہانہ مجلہ’’دعوت اہل حدیث‘‘ (جوالحمدللہ طویل عرصہ سے نشرتوحیدوسنت میں مصروفِ عمل ہے)کے ایڈیٹر تھے،اس کے علاوہ ادارہ المعہد السلفی کے ایک اہم رکن تھے، جمعیت اہل حدیث سندھ کی طرف سے بعض انتظامی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ان کے کاندھوں پر تھا، مسلسل مصروفیات تھیں،بڑی مبارک زندگی تھی۔

محترم شیخ علامہ عبداللہ ناصررحمانی حفظہ اللہ فرمارہے تھے کہ شیخ طاہر رحمہ اللہ میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ فیصلہ کرنے کی بڑی صلاحیت رکھتے تھے،سندھ بھر میں خاندانوں اورافراد کے بیچ میں تنازعات اور اختلافات کے حل کے لئے ہم انہی کو بھیجاکرتے تھے اور وہ بڑے عمدہ اورحکیمانہ فیصلے کرتے تھے۔

حضرات!میں شیخ طاہر صاحب رحمہ اللہ کی زندگی کے کن کن گوشوں اور خوبیوں کی نشاندہی کروں، مختصر یہ کہ ان کی زندگی جہدِ مسلسل اور اخلاص سے عبارت تھی، تمام ذمہ داریاں انہوں نے انتہائی احسن انداز سے نبھائیں، جزاہ اللہ فی الدنیا والآخرۃ.

شیخ طاہررحمہ اللہ ان دینی اور جماعتی ذمہ داریوں میں ہی منہمک اور مصروف تھے ،اپنی فیملی کے معاملات،ضروریاتِ زندگی کی طرف انہوں نے شاید دیکھا ہی نہیں ،سوچاہی نہیں۔

اپنی ذات کی شاید انہیں کوئی فکر نہیں تھی، ہاں!اپنی ذات کی فکر تھی اور وہ یہ کہ اللہ کے دین کی خدمت کرکے، اللہ کے بندوں کی حقیقی خدمت کرکے اپنے رب کے ہاں سرخروہوجاؤں اور یہی اصل اپنی فکر ہے اور وہ ان شاء اللہ اس فکر میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

ابھی جب ان کے گھر کاسامان لے جایاگیا ،گھر کا وہ سامان سچ بات تو یہ ہے کہ بتانے کی بھی ہمت نہیں ہورہی ا س سے تو کسی عام سے فقیر کا سامان زیادہ ہوگا،سوائے چندکتابوں،بستروں اوربرتنوں کے کچھ بھی نہیں تھا، جو ساتھ میں روانہ کیاجاتا،اپنی کوئی غرض نہیں تھی، آپ کی خدمت کی،ادارے کی خدمت کی، جماعت کی خدمت کی ،دین کی بے لوث ہوکرخدمت کی، کوئی دنیا کی لالچ نہیں تھی، جو تنخواہ مقرر ہوئی بس اسے ہی قبول کیا،یہاں مسجد کے موذن کے لئے کہتے تھے کہ ان کی تنخواہ بڑھائیں، خادم کے لئے کہتے تھے کہ ان کی تنخواہ کم ہے،مگر اپنی ذات کےلئے تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ نہیں کیا کہ میری تنخواہ بڑھاؤاور جو ان کو یہاں تنخواہ ملتی ہوگی میں نہیں سمجھتا کہ ۱۳،۱۲ہزار سے زیادہ ہو گی۔

کبھی شکوہ یاشکایت نہیں کی، ہم جب بھی حال احوال پوچھتے جواب دیتے الحمدللہ یہاں بہت اچھا کام ہورہا ہے ،بہت محبت کرنے والے ساتھی ہیں، اور خاص طور پر محمود صاحب کانام ضرور لیتے تھے ، کیونکہ ان کے آنے سے مسجد کانظام بہت اچھا ہوا ہےاور ان کوبہت دعائیں دیتے تھے،اور جب تفصیلی بات ہوتی تو بہت سارے ساتھیوں کی خدمات اور ان کی محبتوں کاذکرکرتے تھے ،اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے ،لیکن میں ایک بات کہہ رہاہوں شاید آپ کو ان کی قدرومنزلت کااندازہ ان کی زندگی میں نہ ہوسکا ہو لیکن آج ان کی عدم موجودگی میں ان کی قدرومنزلت کا اندازہ ہورہاہوگااور جوں جوں وقت گزرے گا آپ کو نہیں بلکہ پوری جماعت کو اندازہ ہوگا۔

کتنی بڑی نعمت،کتنا بڑا عالم دین، ہماراکتنابڑا مصلح، ہمارا روحانی ڈاکٹر دنیا سے رخصت ہوگیا آپ حضرات انہیں خصوصا دعاؤں میں یاد رکھیں۔

اس مسجد کے بانی ومؤسس جناب محترم خادم حسین صاحب کی خدمات بہت زیادہ قابل قدر ہیں ،کمیٹی کے دیگر اراکین کی محنتیں بھی قابل ستائش ہیںمیں اس موقع پر مسجد ہذا کی انتظامیہ اورنمازی حضرات کوخصوصی نصیحتیں کرناچاہتاہوں، دیکھیں!شیخ طاہر صاحب نے آپ حضرات کے تعاون سے یہاں بیٹھ کرخوب دین کی خدمت کی،اہل علاقہ کی اصلاح کےلئے بہت کام کیا کوئی ذاتی منفعت ان کے پیش نظر نہیں تھی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے انہوں نے کام کیا، آپ اس مسجد کے انتظام کو پہلے سے بہتر بنائیں یہ مسجد اور یہاں تعلیمی اور دعوتی پروگرام ان کاصدقہ جاریہ ہے، ان کی محنت ہے، ان کی محنت کوضائع نہ ہونے دینا، اجتماعیت اور پیارومحبت کی فضاء کوہمیشہ قائم رکھنا، مسجد کی رونقوں اور تعلیم وتربیت کے ماحول کو ایسے ہی قائم رکھنا جیسے پہلے تھا بلکہ پہلے سے بھی بہترکریں، ان شاءاللہ آپ کی یہ خدمات آپ کے لئے بھی اور شیخ طاہر صاحب کے لئے بھی اجروثواب کاباعث ہوں گی،اس طرح ہوسکتا ہے کہ اس کمی اورکوتاہی کابھی ازالہ ہوسکے گا جو ان سے محبت اور تعلق کے حوالے سے آپ اپنے اندرمحسوس کررہے ہوں، انہوں نے اپنی ذات کے لئے کچھ نہیں مانگااب بھی ہم ان کی ذات کے لئے کچھ نہیں مانگتے ،اس مسجد اور ادارے کے لئے جو ان کی خدمات ہیں آپ اس کے پاسبان بن جائیں، شیخ طاہر aکا اس مسجد سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے،جیسے دوچیزیں آپس میں لازم وملزوم ہیں ،جب بھی اس مسجد کاذکر آئے گا توشیخ طاہرaکا بھی ذکر ساتھ آئے گا ،اب آپ اپنی ذمہ داری سمجھیں اور یہاں کے نظام کو بہتر بنائیں، تاکہ اللہ کے دین کا یہ کام قائم رہے، وہ اللہ اور رسول ﷺ کا ایک عظیم سپاہی تھا،عظیم مجاہد تھاخاص طور پر توحید وسنت کے فہم میںاور توحید وسنت کی تبلیغ اور شرک وبدعت کے ردمیں ماشاءاللہ وہ ہم سب سے بہت آگے تھے،منہج کی پہچان اور اس پر استقامت میں وہ نمونہ تھے۔

امام احمدرحمہ اللہ سےکسی نے پوچھا ایک شخص ہے نوافل اور صدقات کابہت اہتمام کرتا ہے ایک اور شخص ہے جو ان نوافل اور صدقات کا اہتمام تونہیںکرپاتا بس فرائض اور واجبات کا ہی اہتمام کرتا ہےلیکن وہ اہل بدعت پررد کرتا ہے شرک وبدعت کےخلاف بولتا ہے آپ بتائیں ان دونوں میں سےبہتر کون ہے؟ امام احمدaنے کہا یہ جو بدعات کا ردکرتا ہے یہ اس عابد اورزاہد سےبہتر ہے کیونکہ یہ شخص مسلمانوں کےفائدے کاکام کرتا ہے ،دین کوواضح کررہا ہے اور اہل بدعت نے دین میں جوبگاڑ پیداکررکھا ہے یہ اس بگاڑ اور فساد سے دین کو پاک کرتاہے۔

حضرات! یہ انہی علمائے ربانین اور حقیقی مجاہدین ملت کا کردار ہے کہ دین محفوظ ہے اور اہل توحید موجودہیں، توحید وسنت کی پہچان موجود ہےاگر ان عظیم لوگوں کی یہ محنتیں اور کاوشیں نہ ہوتیں تو پتہ نہیں یہ دین کب کامٹ چکاہوتا۔

آپ میں سے کتنےہی لوگ ہیں جو توحیدوسنت کوسمجھتےہیں، شرک اور بدعت سے متنفرہیںیہ سب شیخ طاہرaکی محنتوں کاثمرہ ہے جن کا ہربیان توحید وسنت سے شروع ہوتا تھا اور توحید وسنت پر ہی ختم ہوتا تھا،ان کاکوئی بیان شرک وبدعت کی تردید کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتا تھا، یہ معاشرے کے حقیقی سرجن اور ڈاکٹر تھے یوں سمجھیں! اپنی پوری زندگی اس بیمار معاشرے کاآپریشن کرتے رہے، معاشرے کو شرک وبدعت سےپاک اورصاف کرنے میں لگے رہے ۔

ایک شخص کے متعلق امام احمدرحمہ اللہ کو مطلع کیاگیا کہ وہ کہتا ہے کہ میں توصرف اپنی ذات کی اصلاح میں ہی مصروف ہوں لوگوں سے، سوسائٹی سے مجھےکوئی غرض نہیں ہے کہ وہ کیاکررہےہیں،میں صرف اپنی اصلاح کررہاہوں،میں خوامخواہ لوگوں پرتنقید نہیںکرتا۔گویا اس شخص کو اس بات پر غصہ آیا کہ یہ محدثین جو شرک وبدعت کاحکم لگاتے پھرتے ہیں اور لوگوں پر تنقید کرتے پھرتے ہیں ان کا یہ طرز عمل غلط ہے۔

امام احمدرحمہ اللہ کوغصہ آگیا ،فرمایا: توخود توبزدل اورڈرپوک ہے،تجھے امت کی ہدایت کی کوئی پرواہ نہیں،میں اگر کچھ کام کررہا ہوں یاکوئی اور کام کررہا ہے اس پر تجھے اعتراض ہے اگر تم بھی خاموشی اختیار کرلو اور میں بھی خاموشی اختیار کرلوں تولوگوں کو حق کون بتائے گا؟ لوگ باطل کو کیسے جانیں گے؟

حضرات! بجائے اس کے کہ اس بات پرخوش ہواجائے کہ فلاں آدمی دین کاکام کررہا ہے،شرک وبدعت کی تردید وتنقید میںکوشاں ہے، قرآن وحدیث کا سچاداعی اور مبلغ ہے اور ایسے شخص کو سرآنکھوں پر بٹھایا جائے،الٹا ان پر اعتراض کیے جاتےہیں انہیں فتنہ پھیلانے والا قرار دیاجاتاہے،یادرکھیں! یہی علماء ہی نبیوں کے حقیقی وارث ہیں، یہی علماء خیرخواہِ امت ہیں، یہ امانت محمدی کےمحافظ ہیں،یہ دین کے مددگار  اور معاون ہیں آپ کچھ اور نہیں کرسکتے تو کم از کم اعتراض تو نہ کریں ان پر کیچڑ تونہ اُچھالیں، ان کے خلاف باتیں تو نہ کریں ،آج کے دور میں اصل کام وہ ہے جو شیخ طاہررحمہ اللہ کرتے تھے، بے لوث ہو کر دین کی حقیقی خدمت میں مصروف تھے، لوگوں کی حقیقی اصلاح کررہے تھے، کراچی کی کوئی مسجد نہیں جہاں انہوں نے درس نہ دیاہو، سندھ کا کوئی ایسا شہر نہیںجہاں شیخ طاہررحمہ اللہ نہ گئے ہوں، بالخصوص’’مجلہ دعوت اہل حدیث ‘‘میں ان کااداریہ جو ایک حقیقی اور سچی دعوت کا آئینہ دار ہوتا تھا، اداریہ کے علاوہ وہ حسبِ حال مختلف موضوعات پر شذرات لکھتے تھے ،اس طرح ایک سچی اورکھری دعوت پورے ملک میں پہنچ رہی تھی،پھر نیٹ کے ذریعے یہ سارےمضامین دنیا بھر میں پڑھے جارہے تھے معلوم نہیں کتنے ہی لوگ ’’مجلہ دعوت اہل حدیث‘‘پڑھ کر صراط مستقیم اورمنہج حق قبول کرچکے ہوں گے۔

تویہ انتہائی مبارک زندگی تھی، اجروثواب سے بھرپور، صدقات جاریہ سےمالامال۔

حضرات!جماعت کا یہ مرکزی ادارہ’المعہد السلفی‘ شیخ طاہررحمہ اللہ  کے لئے ایک عظیم صدقہ جاریہ ہے،وہ المعہد السلفی کے مؤسسین میں سے ہیں، المعہد السلفی میں ان کاانتہائی بھرپورکردار ہے وہ ایک فل ٹائم مدرس بھی تھے اور منتظمہ کے اہم رکن بھی، المعہد السلفی سے اب تک172علمائے کرام تیارہوچکےہیں جوملک بھر میںدعوت کاکام کررہے ہیں جوشیخ طاہررحمہ اللہ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔

کراچی اور پھر ان کے گاؤں (ساماروشاخ تعلقہ سندھڑی ضلع میرپورخاص) جنازے میں ہمارے اور شیخ طاہررحمہ اللہ کے نئے اور پرانے شاگردوں کا ایک جم غفیر اُمڈآیاتھا،دیگرعلماء بھی کثیرتعداد میں تھے، توعلم اور شاگردوں کی صورت میں یہ عظیم صدقہ جاریہ ہے۔

حضرات!علم سے تعلق کے حوالے سے آپ سب کو نصیحت ہےکہ علم سے وابستہ ہوجائیں، علماء سے تعلق جوڑیں، دین کے کام کے ساتھ جڑجائیں ،جو دین کاکام کررہے ہیں ان کے معاون بنیں، یہ مسجد توحید وسنت کامرکز ہے اس کی حفاظت آپ سب کی ذمہ داری ہے بلکہ آپ کے لئے یہ ایک فرض بھی ہے اور قرض بھی، یہاں تعلیم اور دروس کا سلسلہ جاری ہے ان امور کی سرپرستی آپ کی ذمہ داری ہے آپ کی یہ سرپرستی دین کی خدمت ہے۔

حضرات!میں پوری امانت ودیانت اورصداقت کےسا تھ شیخ ذوالفقار علی طاہررحمہ اللہ کے بارہ میں یہ گواہی دیناچاہتاہوںکہ’’ وہ انتہائی نیک اورصالح انسان تھے،عالم باعمل تھے انہوں نے بے لوث ہوکر دین کی خدمت کی‘‘ کیوں کہ ان کا اورمیراتعلق 33سال سے ہے، کوئی معمولی بات نہیں،اتناطویل ساتھ اور وہ بھی انتہائی قربت کا مجھے یاد پڑتا ہے کہ ۳یا۴سال ہم دونوں بحیثیت طالب علم ساتھ ایک ہی کمرے میں رہے، فراغت کے بعد اگرچہ وہ جامعۃ الاحسان میں استادمقرر ہوئے لیکن رہائش میرےساتھ جامعہ دارالحدیث رحمانیہ میں ہی تھی، پھر وہ بھی جامعہ رحمانیہ میں ہی مدرس ہوگئے، اور پھر ۲۰سال تو المعہد السلفی میں دامن چولی کاساتھ ہے، کئی سال یہاں بھی ایک کمرے میں اکٹھے رہے، اس طرح عرصہ33سال سے گویاہردن کی ملاقات تھی، یہ گواہی اس لئے دیناچاہتاہوں تاکہ میری یہ گواہی اس حدیث نبوی کامصداق بن جائے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت پاجائے، وہ حدیث یہ ہے:

’’ایک میت گزری لوگوں نے اس کے لئے اچھی باتیں کیں اس کی تعریف کی توآپﷺ نے فرمایا:وجبت.(واجب ہوگئی) تھوڑی دیر بعد ایک اور میت گزری لوگوں نے اس پر بری باتیں کیں یہ یوں تھا اس میںیہ برائیاں تھیں، توآپﷺ نے فرمایا: وجبت. (واجب ہوگئی) صحابہ کرام نے پوچھا کہ یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آئی پہلی میت کے لئے وجبت. کہا اور دوسری میت کے لئے بھی وجبت. کہا۔ حالانکہ لوگوں نے دونوں کے بارہ میں مختلف باتیں کیں توآپﷺ نے فرمایا:دیکھو! جس پہلے شخص کی آپ لوگوں نے تعریف کی اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جنت واجب کردی،دوسرے شخص کی آپ لوگوں نے برائیاں بیان کیں اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے دوزخ واجب کردی۔‘‘

پھرآپ ﷺ نےفرمایا:انتم شھداء اللہ علی الأرض

کہ تم لوگ زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔(سنن ترمذی:۱۰۵۸)

یقیناً ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے ممدوح شیخ طاہررحمہ اللہ ایک بہترین انسان تھے اور بہترین مسلمان اور بہترین عالم دین تھے، وہ انتہائی اعلیٰ اخلاق وکردار کے مالک تھے، انہوں نے دین کی خوب خدمت کی، دین کابڑا درد رکھنے والے تھے، ان کی وفات سےان کے خاندان،فیملی، المعہد السلفی ،جمعیت اہل حدیث سندھ اور اس مسجد میں بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے اللہ تعالیٰ اس خلاکوپرفرمائے،اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے،اللہ تعالیٰ ان کے اہل وعیال کی حفاظت فرمائے اور انہیں اس صدمہ پر صبر کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ اس دینی مرکز کی حفاظت فرمائے ،اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسلام کی زندگی اور ایمان کی موت نصیب فرمائے۔آمین

شیخ طاہر صاحب رحمہ اللہ کی اچانک موت ہم سب کے لئے نصیحت ہے ہم سب سمجھیں اگلامنٹ اور اگلاسیکنڈ ،اگلا سانس ہمیں ملے گایانہیں؟ پتا نہیں ہم یہاں سے گھر پہنچ بھی پائیں گے یانہیں؟ شیخ طاہرصاحب رحمہ اللہ نے آخری دن بھی اپنےمعمول کےمطابق گزارا،وقت مقررہ پر مدرسہ پہنچے،اسباق پڑھائے،کھانے کے وقت حسبِ معمول اساتذہ کےساتھ کھاناکھایا، پھر نمازِ ظہر جماعت کے ساتھ اداکی، پھر اس کے بعد ہم حسبِ معمول امیرمحترم شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کے ساتھ بیٹھے ’’جمعیت اہل حدیث سندھ‘‘ اور المعہد السلفی کے متعلق بہت سے امور پر مشاورت ہوتی رہی،۳بجے کے قریب شیخ صاحب چلے گئے شیخ طاہر صاحب رحمہ اللہ  آرام کرنے چلے گئے سوگئے، قیلولہ کیا اذان کےبعد مجھے بھی نمازِ عصر کے لئے اٹھایا پھرنمازِعصر کے بعد تھوڑی دیر بیٹھے رہے، اہ! کسی کو کیا خبراب یہ جانے والادوبارہ واپس نہیں آئے گا۔

بھائیو!کسی بھی لمحے اچانک موت آسکتی ہے موت کی تیاری کرکے رکھو،توبہ کرتے رہو، اعمال صالحہ کرتے رہو، شرک وبدعت سے بچ کر رہو،دین کے ساتھ سچاتعلق جوڑلوتاکہ آخرت سنورجائے۔

وماعلیناالاالبلاغ

About شیخ داؤد شاکر

Check Also

خطبہ عیدالفطر

خطبہ مسنونہ کے بعد: تقبل اللہ منا ومنکم میں آپ تمام حضرات کو،مرد وخواتین کو، …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے