Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ ستمبر » مناظر اسلام مولانا عبدالکریم شر

مناظر اسلام مولانا عبدالکریم شر

اپریل2017ء کی بات ہے کہ میں قمبر سے رتودیرو گیا اور وہاں سے فضیلۃ الشیخ مولانا حافظ رحیم بخش شر صاحب کو بتایا کہ آپ میرے ساتھ چلیں تاکہ مناظر اسلام مولانا عبدالکریم شر کے گاؤں سے ان کے متعلق معلومات حاصل کریں تو مولانا رحیم بخش شر نے اگلے دن چلنے کا کہا اگلے دن مولانا صاحب نےکسی جماعتی ساتھی کی موٹرسائیکل لی جس پر ہم دونوں سوار ہوکر گڑھی یاسین ،ضلع شکارپور کی طرف روانہ ہوگئے، راستہ میں مولانا رحیم بخش شر صاحب نے کہا:
’’آصف بھائی !آپ کو کس نے بتایا کہ مولانا عبدالکریم شرaکے نام کا بھی کوئی اہل حدیث عالم اور مناظراسلام اس علاقہ میں رہتا تھا؟تو میں نے کہا میں جب 2010ءمیں’’عاقل ‘‘گاؤں لاڑکانہ میں پڑھاتا تھا تو فضیلۃالشیخ بقیۃ السلف مولانا فیض اللہ سیالdنے شکار پور میں دینی پروگرام رکھوایا اور مجھے فون کیا کہ کل ان شاء اللہ ہم دونوں شکار پور چلیں گےوہاں ایک دینی پروگرام میں شرکت کرنی ہے، اس لئے آپ بھی تقریر کاذہن بنالیں ،اگلے دن میں لاڑکانہ پہنچا تو مولانا فیض اللہ سیال صاحب پہلے سے تیار تھے، جب ہم مسجد سےنکلنے لگے تو ہمارے ساتھ مولانا عبدالرحیم کنگوصاحب بھی تیارہوگئے ہم جب شکار پور پہنچے تو عشاء کا وقت ہوچکا تھا نماز کے بعد میری تقریر ہوئی ،پھر بقیۃ السلف مولانا فیض اللہ سیال نے ’’اطاعت رسولﷺ‘‘پر مفصل خطاب فرمایا، پھر کھانے کے لئے سعیداحمد بھٹو صاحب اپنے باڑے میں پہلی منزل پر لے گئے کھاناکھانے کے بعد ایک بزرگ پر نظرپڑی،جن کاحلیہ سفیداور لمبی داڑھی، کمزور جسم، میانہ قدتھا، جو دینی گفتگو میں مشغول تھے جو مختلف مسالک کے اعتراضات کو بیان کرتے جارہے تھے اور ساتھ ساتھ ان کے جوابات بھی بیان فرماتے جاتے ان کی گفتگو سے ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے انہوں نے اپنی زندگی اسی میں ہی لگادی ہو، ان کی گفتگو جاری تھی کہ بستر لگ گئے اور میں بستر پر لیٹا ہی تھا کہ آنکھ لگ گئی ،پتا نہیں ان کی یہ گفتگو کب تک جاری رہی،اگلے دن جب ہم واپس آرہے تھے تودن کی روشنی میں اس بزرگ کو دیکھا وہ شکار پورمیں وین پر بیٹھنے تک ہمارے ساتھ آئے اور اب کی بار میں نے ان کو دیکھا تو میں حیرت میں پڑ گیا کہ یہ وہی بوڑھا ہے جو ان مختلف مسالک پر رد فرما رہا تھا ،اتنا سادہ، سرپر پرانی پگڑی، جسم پر پرانا لباس، اور پرانی لنگی تہبند کے طور پر استعمال کئے ہوئے تھے جو کہ آدھی پنڈلی تک تھی اور پاؤں میں پرانی ٹوٹی ہوئی چپل تھی اور اس تھوڑے سے سفر میں بھی ان کو دینی گفتگو میںہی مشغول پایا او اپنے مختلف مسالک سے مناظروں کا تذکرہ بھی کرتے جارہے تھے ان کی گفتگو سے ایسےلگ رہا تھا کہ جیسے وہ دین کی اشاعت کی بڑی تڑپ رکھتا ہو اوراس کی خواہش ہو کہ ساری کائنات مسلک حق،مسلک اہل حدیث کو قبول کرلے اگر ایسا نہیں کریں وہ خود بھی انہیں تبلیغ کرے گا اور اوروں سے بھی کہے گا کہ بھئی ان کو سمجھاؤ اور ان کو بتاؤ کہ حق صرف اور صرف اہل حدیث ہونےمیں ہےاور بس ،پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ مناظر اسلام مولاناعبدالکریم شر ہیں۔
اس طرح کی ہماری گفتگوجاری تھی کہ مولانا رحیم بخش شر صاحب نے کہا کہ ہم آرائیں گاؤں پہنچ گئےہیں اب یہاں سے پوچھتے ہیں کہ مولانا عبدالکریم شرaکے گاؤں کو کون سا راستہ جاتا ہے وہاں مولانا شرف الدین صاحب سے ملاقات کی اور ظہر کی نماز کے بعد فورا وہ کھانا لے آئے ،کھانا کھانے کے بعد ان سے راستہ پوچھا اور گڑھی یاسین کی طرف روانہ ہوگئے ،بیابان علاقوں سے ہوتے ہوئے ہم گڑھی یاسین پہنچ گئے اور ایک شخص سے مولانا عبدالکریم شرaکے گاؤں کا پوچھاکہ’’رکھیل جی وانڈھ‘‘ کہاں ہے اس نے بتایا کہ نہرکے کنارے پر جاتے رہیں آگے ہی ہے، وہاں پہنچے تو پتاچلا اور آگے ہے بالآخر وہاں پہنچے اور وہاں سے پوچھا توا نہوں نے دور آباد چندگھروں کی طرف اشارہ کیا اور ساتھ ہی کہا کہ وہاں کوئی باقاعدہ رستہ نہیں جاتا آپ کو کھیتوں اور زمینوں سے گزرنا ہوگا وہاں چل دیئے تو مولانا رحیم بخش شر صاحب نے کہا:
’’کیا کوئی سوچ سکتاہے کہ ایسی جگہ پر بھی اہل حدیثوں کا مناظر اسلام رہا ہے جہاں جانے کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں…..‘‘
بہرحال وہاں پہنچ کر مولانا محکم الدین صاحب کوبلوابھیجا اور مولانا محکم الدین سے پرمسرت ملاقات ہوئی۔
مولانا محکم الدین،مولاناعبدالکریم شرصاحب کے بھتیجے ہیں ،مولانا محکم الدین سےملاقات کرتے وقت ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے مولانا عبدالکریم شر aسےمل رہے ہوں،مولانا محکم الدین صاحب نے ہمیں اونچی جگہ بیٹھنے کو کہا جو مٹی کا ڈھیر تھا جس پر چندچادریں تنی ہوئی تھیں، بیٹھنے کے بعد مولانا محکم الدین صاحب کہنے لگے یہ ہماری مسجد ہے، پانچ نمازیں اور خطبہ جمعہ بھی یہی ہوتا ہے ،تھوڑی دیر کے بعد شربت آگیا بہرحال ان حضرات کی حالت دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے بہت غربت کی زندگی بسرکررہے ہوں،جس کی شرح بعد میں ہوگئی، بہرحال گفتگو شروع ہوئی اور مناظراسلام مولانا عبدالکریم شر aکے متعلق معلومات اکھٹی کرنے کے مقصد کااظہار کیا تو انہوں بتایا:
مناظراسلام مولانا عبدالکریم شرaکے والد صاحب کا نام شرف الدین تھا جو کہ مولانا تاج محمود امروٹی صاحب کے مرید تھے ، آپ کے والد حج پر گئے تو مولانا عبدالکریم شر کو بھی ساتھ لے گئے تھے، مولانا شر صاحب کے چاربھائی :(۱)محمد حسن (۲)عبدالقادر(۳)نجم الدین (۴)محکم الدین اور ایک بہن تھیں اور اولاد میں دوبیٹے(۱)مولانا شفیع محمد(۲)عبدالحی اور چاربیٹیاںہیں۔ مولانا صاحب نے دیوبندی مدرسہ ٹھیڑی میں تعلیم حاصل کی اور دیوبندیوں کے مشہور عالم مولانا عبداللہ چانڈیو سے بھی پڑھا اسی طرح دیوبندی مولوی محمد یوسف چنوسے شکار پور میں پڑھا اور پھر اہل حدیث ہونے کے بعد ان سےمناظرہ بھی کیا، اسی طرح آپ نے لاڑکانہ ،کندھ کوٹ، شکار پور میں پڑھایا اس کے بعد اپنے گاؤں میں ہی رہے اور کھیتی باڑی بھی کرتے اور ساتھ ساتھ دین کی تبلیغ واشاعت میں بھی مصروف رہے کوئی مناظرے وغیرہ کیلئے بلاتا تو اس کے لئے بھی جاتے اور اگر کوئی انہیں خود تنگ کرتا تو اسے بھی منہ دیتے اور کبھی کبھی خود مختلف مسالک کےعلماء کے پاس حق پہنچانے کے لئے پہنچ جاتے ،آپ کے مناظرےدیوبندی،بریلوی،شیعہ علماء وغیرہ سے ہوتے تھے، شیعوں کے مشہور ذاکر عبداللہ جروار سے بھی آپ کامناظرہ ہوا، دیوبندیوں کے مشہور مولوی عبدالکریم قریشی بیر والے کے پا س گئے اور ان سے سوالات کیے اور جوابات میں آپ نے اسے مسلک اہل حدیث کی حقانیت پر دلائل پیش کئے جسے وہ خاموش ہوکرسنتا رہا، ایک بار آپ کے بھائی عبدالقادر نے آپ سے بحث کی اور کہا کہ دیوبندی حق پر ہیں اور باقی سب راہِ حق سے ہٹے ہوئے ہیں، اور ساتھ ہی کہا کہ چلوچل کے مولوی عبدالکریم قریشی بیر والے سے پوچھتےہیں تو مولانا عبدالکریم شراپنے بھائی کے ساتھ بیر پہنچے اور مولوی عبدالکریم بیر والے سے کہا کہ آپ یہ بتائیںکہ’’ایمان میں عمل شامل ہے یانہیں؟ اس پرکافی دیر تک دونوں میں بحث مباحثہ ہوتا رہا اور بالآخر شر صاحب کے دلائل کی وجہ سے مولوی عبدالکریم قریشی صاحب بیر والے کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ مسلک اہل حدیث حق پر ہے۔
ایک بار سکھر کے مشہور دیوبندی عالم مولانا عبداللہ شاہ بخاری ’’ڈرکھن‘‘ شہر میں تقریر کررہےتھے تو مولانا شر صاحب نےان کو ’’چٹھی‘‘ لکھی کہ نماز کن کن کے پیچھے نہیں ہوتی؟ تو مولانا بخاری صاحب نے جواب دیا ’’شیعہ اور بریلوی کے پیچھےنہیں ہوتی ،دیوبندی اور اہل حدیث کے پیچھے آپ نماز پڑھیں۔‘‘
ایک بار آپ کسی جگہ مناظرے کے لئے گئے تووہاں لوگ جمع تھے اور ان میں لعل حسین جتوئی صاحب بھی تھے، جتوئی صاحب نے مولانا صاحب سے پوچھا آپ کس قوم سے ہیں؟ تو مولانا صاحب نے بتایا کہ میرا شر برادری سے تعلق ہے ،توجتوئی صاحب نے کہا’’شر برادری تو بڑی مُڑی ہوئی برادری ہے ایسی قوم میں آپ کو عالم دیکھ کر مجھے توبڑی حیرت بھی ہور ہی ہے اور خوشی بھی ہورہی ہے کہ الحمدللہ ،اللہ تعالیٰ نے ایسی قوم میں عالم پیدا کردیا ہے۔
مولانا عبدالکریم شرaکی پیدائش :1/11/1940ء کو ماروی کاکے بوٹا گاؤں تحصیل گڑھی یاسین ضلع شکارپور میں ہوئی۔
آپ کا اپنے گاؤں میں طریقہ تبلیغ یہ تھا کہ گاؤں والوں کو جمع کرتے اور روزانہ رات کو ان کےسامنے حدیث کی کتاب پڑھتے، جس کی وجہ سے کئی لوگوں نے مسلک اہل حدیث قبول کیا۔
آپ’’آرائیں‘‘ گاؤں گئے وہاں اہل حدیث عالم مولانا قاری عبداللہ سومروaسے ملاقات کی تو وہاں مولانا سومرو صاحب سے آپ کی دینی امور پر گفتگوہوئی اس وقت مولانا شر صاحب دیوبندی تھے تو ہر ایک نے اپنے اپنے دلائل پیش کئے، جب مولانا شر صاحب نے دیکھا کہ مولانا سومرو صاحب کے دلائل قوی ہیں تو مولانا شرصاحب نے وہیں دیوبندیت سے توبہ کرکے مسلک اہل حدیث قبول کیا اور پھر اس کا پرچار کرتے رہے یہاں تک کہ آپ بیمار ہوگئے اور تین چار سال تک مسلسل تھوڑی تھوڑی بیماری میں مبتلا رہے کہ بروز منگل یاپیر ستمبر2016ء کو فجر کے وقت اپنے حقیقی اللہ سے جاملے،اناللہ وانا الیہ راجعون.
اپنے پیچھے اپنے بھتیجے اور اپنے شاگرد مولانا محکم الدین شر صاحب چھوڑ گئے۔
مولانا محکم الدین شرdشاگرد ہیں شیخ الکل مولانا محمد حیات لاشاری aکے حنفی دور کے جب مولانا لاشاری صاحب دیوبندی ہوا کرتے تھے اس طرح دیوبندی مولوی محمد یوسف چنوصاحب سے بھی شکار پور میں پڑھا۔
گلستان سعدی، علم النحو، علم الصرف، ارشاد الصرف، مشکاۃ المصابیح، قدوری، ھدایۃ ثانی، ترجمۃ القرآن ،جامع ترمذی، اور صحیح بخاری انہوںنے مناظراسلام مولانا عبدالکریم شر aسے پڑھی۔
مولانا محکم الدین شرصاحب بھی پہلے دیوبندی تھے ،مولانا عبدالکریم شرaاکثر انہیں حق کی تبلیغ کرتے تھے ایک دن مولانا محکم الدین شر صاحب کو مولانا عبدالکریم شر صاحب نے کہا کہ اگر رفع الیدین میں تجھے صحیح بخاری میں دکھادوں تو پھر مان لے گا تو مولانا محکم الدین شر نے حامی بھرلی تو مولانا عبدالکریم نے انہیںصحیح بخاری میں رفع الیدین کی روایت دکھا دی تو مولانا محکم الدین شر نے بھی مسلک اہل حدیث قبول کرلیااور اب مولانا عبدالکریم شر aکی جگہ مسجد میں خطبہ اور رات کو حدیث کی کتاب پڑھ کر سناتے ہیں،آپ کی پیدائش1955ء کی ہے، آپ کے چار بیٹے ہیں:(۱)عبدالرحیم(۲)عبداللہ(۳)حماد اللہ(۴) محمد اور چھ بیٹیاں ہیں آپ کا بیٹا محمد زیرتعلیم ہے۔

About آصف فاروق کمبوہ

Check Also

انٹرویو: فضیلۃ الشیخ پروفیسر بشیراحمدلاکھوحفظہ اللہ

سوال:اپنا نام ونسب بیان کیجئے؟ جواب:میرا نام بشیراحمد ہے،اوروالدکانام عبدالمجید ہے اور میرا نسب یوں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے