Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ نومبر » جرابوں پر مسح جائز ہے

جرابوں پر مسح جائز ہے

ج: حدیث میں آیا ہے کہ
عن ثوبان قال بعث رسول اللہ سریۃ….امرھم ان یمسحوا علی العصائب والتساخین.
ترجمہ: ثوبانtسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت بھیجی….انہیں حکم دیا کہ پگڑیوں اور پاؤں کوگرم کرنے والی اشیاء (جرابوں اورموزوں) پر مسح کریں۔
(سنن ابی داؤد ،الرقم:۱۴۶)
اس روایت کی سند صحیح ہے، اسے حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ اور حافظ ذھبیaدونوں نے صحیح کہاہے۔
(المستدرک والتلخیص ،الرقم:۶۰۲)
اس حدیث پر امام احمد رحمہ اللہ کی جرح کے جواب کےلئے نصب الرایہ (۱؍۱۶۵)وغیرہ دیکھیں۔
امام ابوداؤد aفرماتے ہیں:
ومسح علی الجوربین علی بن ابی طالب وابومسعود والبراء بن عازب وانس بن مالک وابوأمامۃ وسھل بن سعد وعمرو بن حریث وروی ذلک عن عمر بن الخطاب وابن عباس .
ترجمہ: اور علی بن ابی طالب ،ابومسعود(ابن مسعود)،البراء بن عازب ،انس بن مالک ،ابوأمامۃ ،سھل بن سعد اورعمرو بن حریث نے جرابوں پر مسح کیااور عمر بن الخطاب اورابن عباس سے بھی جرابوں پر مسح مروی ہے۔(y)(سنن ابی داؤد،الرقم:۱۵۹)
صحابہ کرام کے یہ آثار مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۸،۱۸۹)، مصنف عبدالرزاق (۱؍۱۹۹،۲۰۰)،محلی ابن حزم (۲؍۸۴)الکنی للدولابی(۱؍۱۸۱)وغیرہ میں باسند موجود ہیں۔
سیدناعلی رضی اللہ عنہ کا اثر الاوسط لابن المنذر (۱؍۴۶۲)میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے۔
جیسا کہ آگے آرہا ہے،علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:
’’ولان الصحابۃ رضی اللہ عنھم مسحوا علی الجوارب ولم یظھر لھم مخالف فی عصرھم فکان اجماعا‘‘
ترجمہ: اور چونکہ صحابہ نے جرابوں پر مسح کیا ہے اور ان کے زمانے میں ان کا کوئی مخالف ظاہرنہیں ہوالہذا اس پر اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا صحیح ہے۔(المغنی ۱؍۱۸۱مسئلہ۴۲۶)
خفین پر مسح متواتر احادیث سے ثابت ہے، جرابیں بھی خفین کی ایک قسم ہےجیسا کہ سیدنا انسt،ابراھیم نخعی، اورنافع وغیرھم سے مروی ہے، جو لوگ جرابوں پر مسح کےمنکر ہیں ،ان کے پاس قرآن،حدیث اور اجماع سے ایک بھی صریح دلیل نہیں ہے۔
(۱)امام ابن المنذر النیسابوریaنے فرمایا:
حدثنا محمد بن عبدالوہاب ثنا جعفر بن عون:ثنا یزید بن مردانبۃ: ثنا الولید بن سریع عن عمرو بن حریث قال: رایت علیا بال ثم توضأ ومسح علی الجوربین.
ترجمہ: عمروبن حریثtنے کہا میں نے دیکھا (سیدنا) علیtنے پیشاب کیا،پھروضوءکیا اور جرابوں پر مسح کیا۔(الاوسط ۱؍۴۶۲،وفی الاصل مردانیۃ وھو خطأ،طبعی)
اس کی سند صحیح ہے۔
(۲)سیدناابوامامہtنے جرابوں پر مسح کیا۔دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۸ح:۱۹۷۹،وسندہ حسن)
(۳)سیدنابراء بن عازب tنے جرابوںپر مسح کیا۔دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(۱؍۱۸۹ح:۱۹۸۴وسندہ صحیح)
(۴)سیدنا عقبہ بن عمروtنے جرابوںپر مسح کیا، دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۹ح۱۹۸)اور اس کی سند صحیح ہے۔
(۵)سیدنا سہل بن سعدtنے جرابوںپر مسح کیا، دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۹ح۱۹۹۰)وسندہ حسن
ابن منذر نے کہا:(امام) اسحاق بن راھویہ نے فرمایا:
’’صحابہ کا اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔(الاوسط ابن المنذر ۱؍۴۶۴،۴۶۵)
تقریبا یہی بات ابن حزم نے کہی ہے۔(المحلی ۲؍۸۶،مسئلہ نمبر۲۱۲)
ابن قدامہ کا قول سابقہ صفحہ پر گزرچکا ہے۔
معلوم ہوا کہ جرابوں پر مسح کے جائز ہونے کے بارے میں صحابہ کا اجماع ہے yاور اجماع (بذات خود مستقل)شرعی حجت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ میری امت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں کریگا۔(المستدرک للحاکم ۱؍۱۱۶ح۳۹۷،۳۹۸)
نیز دیکھئیے:ابراء اہل الحدیث والقرآن معا فی الشواھد من التھمۃ والبھتان‘‘ص:۳۲تصنیف حافظ عبداللہ محدث غازی پوری a(متوفی ۱۳۳۷ھ)
مزیدمعلومات:
(۱)ابراھیم النخعی رحمہ اللہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۱۸۸ح۱۹۷۷)اس کی سند صحیح ہے۔
(۲)سعید بن جبیر رحمہ اللہ نےجرابوں پر مسح کیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۱۸۹ح۱۹۷۹)اس کی سند صحیح ہے۔
(۱)عطاء بن ابی رباح aجرابوں پر مسح کے قائل تھے۔
(المحلی ۲؍۸۶)
معلوم ہوا کہ تابعین کا بھی جرابوں پر مسح کے جواز پر اجماع ہے ،والحمدللہ
(۱)بقول حنفیہ قاضی ابویوسف جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔
(الھدایہ ۱؍۶۱)
(۲)بقول حنفیہ محمد بن حسن الشیبانی بھی جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔ (ایضا ۱؍۱۶۱باب المسح علی الخفین)
(۳)آگے آرہا ہے کہ(بقول حنفیہ) امام ابوحنیفہ پہلے جرابوں پر مسح کے قائل نہیں تھے لیکن بعد میں انہوں نے رجوع کرلیاتھا۔
امام ترمذی aفرماتے ہیں:
سفیان الثوری،ابن المبارک ،شافعی، احمد اور اسحق (بن راھویہ) جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔(بشرطیکہ وہ موٹی ہوں)دیکھئے(سنن الترمذی ،ح:۹۹)
سیدنذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’باقی رہا صحابہ کا عمل، تو ان سے مسح جراب ثابت ہے، اور تیرہ صحابہ کرام کے نام صراحت سے معلوم ہیں، کہ وہ جرابوں پر مسح کیا کرتے تھے ۔(فتاویٰ نذیریہ ۱؍۳۳۲)
جورب: سوت یا اون کے موزوں کو کہتے ہیں۔
(درس ترمذی ۱؍۳۳۴تصنیف محمد تقی عثمانی دیوبندی)
نیز دیکھئے البنایہ فی شرح الھدایہ للعینی (۱؍۵۹۷)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خفین(موزوں) جوربین مجلدین اور جوربین منعلین پر مسح کے قائل تھے مگر جوربین (جرابوں)پر مسح کے قائل نہیں تھے ۔
ملامرغینانی لکھتے ہیں:
’’وعنہ انہ رجع الی قولھما وعلیہ الفتویٰ‘‘
اور امام صاحب سے مروی ہے کہ انہوں نے صاحبین کے قول پر رجوع کرلیاتھا اور اسی پر فتویٰ ہے۔(الھدایہ ۱؍۶۱)
صحیح احادیث،اجماع صحابہ، قول ابی حنیفہ اور مفتی بہ قول کے مقابلہ میں دیوبندی اور بریلوی حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے،اس دعویٰ پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
(شہادت، جنوری :۲۰۰۱)
سوال: جرابوں پر مسح کرنے والی روایت میں سفیان ثوری رحمہ اللہ عن سے روایت کرتے ہیں اور آپ سفیان ثوری کی عن والی روایت کو نہیں مانتے۔(دیکھئے نور العیین ،ترمذی کی روایت)
توکیاجرابوںپر مسح جائز ہے ؟کیا آپ کے پاس تحدیث یا ثقہ متابعت ہے؟
اگر ہے توضرور چاہئے ،علامہ مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی میں جراب پر مسح کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔
جواب: سیدناعلی رضی للہ عنہ سے باسند صحیح جرابوں پر مسح کرناثابت ہے۔
(الاوسط لابن منذر ۱؍۴۶۲ت۴۷۶)
اس روایت کی سند میں نہ تو سفیان ثوری ہیں اور نہ کوئی دوسرا مدلس راوی بلکہ یہ سند بالکل صحیح ہے۔
یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۱۸۹ح۱۹۸۶،میں بھی موجود ہے مگر غلطی سے عمرو بن حریث کے بجائے عمرو بن کریب چھپ گیا ہے۔
ان کے علاوہ دیگر کئی صحابہ سے المسح علی الجوربین ثابت ہےجن کا کوئی مخالف معلوم نہیں لہذا جرابوں پر مسح کے جواز پر صحابہ کا اجماع ہے۔
(۱؍۱۸۱،مسئلہ ۴۲۶،دیکھئے المغنی ابن قدامہ والاوسط لابن منذر ۱؍۴۶۴،۴۶۵،والمحلی ۲؍۸۷) اور ھدیۃ المسلمین ،ص:۱۷،۲۰ح۴)
اجماع صحابہ بذات خود بہت بڑی دلیل ہے لہذا سفیان ثوری کی معنعن روایت پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اسے صرف اس اجماع کی تائید میں پیش کیا جاسکتا ہے۔(شھادت جنوری:۲۰۰۳)

About محدث العصر شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے