Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ نومبر » اہل حدیث وشیعیت میں توافق کااتہام اورحقیقت قسط 2

اہل حدیث وشیعیت میں توافق کااتہام اورحقیقت قسط 2

قسط:۲

خطیب الھندمحمد جوناگڑھی پر باطل اتہام
اس کے بعد غازی پوری صاحب نے ’’غیر مقلدین کے ایک بڑے عالم‘‘کہہ کر ’’طریق محمدی ‘‘سے بزعم خویش ایک قصیدہ لکھا ۔لیکن مؤلف کا نام ظاہر نہ کیا البتہ حاشیہ میں فرمایا:
’’غیر مقلدین میں اس کتا ب کے مؤلف کا کیامقام ہے؟یہ جاننے کے لئے ’’جہود مخلصہ‘‘کی طرف ورق گردانی کیجئے،عبدالرحمن فریوائی لکھتے ہیں:
’’مشہور علماء اہل حدیث میںسے تھے ،دینی وعلمی حلقوں میں شہرت یافتہ تھے،تادم واپسیںتصنیف و تالیف ،احیاء سنت اوراشاعت سلفیت میںپوری جرأت وشجاعت اورشدت وقوت کے ساتھ لگے رہے،
بدعات وخرافات نیز تقلید او رمذہبی تعصب کے خلاف ہمیشہ لڑتے رہے ‘‘۔ (ص :193)(آئینہ ص:216،کچھ دیر ص:267،وقفہ ص:189)
جی ہاں !فریوائی حفظہ اللہ کی کتاب ’’جہود مخلصہ‘‘ صفحہ :193پر یہ سب کچھ علامہ محمد بن ابراہیم جوناگڑھی رحمہ اللہ کے تعارف میں ہی لکھا ہے۔اب سنیئے غازی پوری صاحب دیوبند یوں کے ’’رئیس المحققین‘‘
اس داعی توحید وسنت پر کیسا بہتا ن داغتے ہیں،لکھاہے:
’’مصائب اور تکالیف میں شیعوں کی طرح غیر مقلدین بھی امام غائب سے فریاد رسی کرتے ہیں(اور پکارتے ہیں)چنانچہ غیر مقلدین کے ایک بڑے عالم امام غائب کی شان میں اپنے ایک قصیدہ میں کہتے ہیں جس کا ترجمہ ہے :’’خوشی اور مسرت کے چڑھتے دریا کا پانی خشک ہوگیا ،اسلام کی فرحت جاتی رہی ،اور سکون کے ہار کے موتی بکھرگئے ۔گئے وہ دن اوروہ نظام بدل گیا ،اے اللہ امام غائب کاظہور تو اب ہونا ہی چاہیے کہ قافلۂ اسلام کا آج نہ کوئی رہنما ہے اور نہ اس کا کوئی تاج ہے‘‘۔(طریق محمدی ص:15)(کچھ دیر ص:267،آئینہ ص: 215 ،وقفہ ص:189)
غازی پوری کی خیانت
قارئین کرام!مولانا محمد جوناگڑھی کی کتاب’’طریق محمدی‘‘ عموماً دستیاب رہتی ہے۔ الحمدللہ اس کے کئی ایک ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور کئی ایک لوگوں کی اصلاح کا باعث بنی ہے۔یہ غازی پوری صاحب کی بیباکی وجسارت ہے کہ ایسی عام شائع وذائع متداول کتاب کا نام لے کر اتنابڑادھوکہ ،دھاندلی کی ٹھان لی اور خیانت کرگئے۔اس کے جس مقام سے غازی پوری صاحب نے خیانت میں اپنا کمال دکھانے کی کوشش کی وہ اصل عبارت دیکھیں مولاناجوناگڑھی نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حمیت وغیرت اور اتباع و احترامِ سنت کی چند مثالیں ذکر کرنے کے بعد لکھا:
’’لیکن آہ آج حضرت عمر فاروقtجیسے غیور مسلمان ہم کہاں ٹٹولیں؟ آج تو کوئی باپ دادوں کے رسم ورواج پیش کرتا ہے،کوئی اپنے پیروں فقیروں کی باتیں لاتاہے، کوئی اماموں اور مجتہدوں کی تقلید کرتاہے، کوئی ہدایہ اور کنز،قدوری کے فیصلے پراڑتاہے ؎
اسلام کی خوشی کوئی پامال کرگیا

دریائے انبساط چڑھا تھا اتر گیا
شیرازہ سکون وتمنا بکھر گیا

وہ دن گزر گئے، وہ زمانہ بدل گیا
یاالٰہی ہو امام وقت کا جلدی ظہور

قافلہ اسلام کا بے تاج وبے سر ہوگیا
(طریق محمدی ،ص:۲۱)
غازی پوری صاحب! بس یہی کل تین اشعارہیں،کہاں ہے ’’قصیدہ‘‘ کیا آپ کو اتنابھی نہیں معلوم کہ ’’قصیدہ‘‘ کسےکہتے ہیں؟ سنئے آپ کے مولانا خورشید انورقاسمی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
’’القصائد جمع القصیدۃ: سات یادس سے زائد اشعار کی نظم قصیدہ کہلاتی ہے۔(کماھوالمشھور)
کم از کم 19یا20اشعار قصیدہ میں ہونے چاہئیں۔(احسن القواعد)(الفوز العظیم ،ص:443مطبوع قدیمی کتب خانہ کراچی)
تعجب ہے’’فاضل دارالعلوم دیوبند‘‘ اور’’رئیس المحققین‘‘ لیکن صرف تین اشعار کو’’قصیدہ‘‘ قرار دے بیٹھے ہیں۔
پھر سے دیکھئے اس عبارت اور ان اشعار میں کہاں ہے کسی’’امام غائب‘‘ کا شدت سے انتظار؟انتظار تو درکنار ذکر تک نہیں لیکن قاسمی صاحب نے بات بنادی اور اشعار کے عربی ترجمہ میں غازی پوری صاحب نے تو’’امام الزمان‘‘ امام وقت لکھا تھا لیکن عباسی صاحب اسے ’’امام غائب‘‘ بنابیٹھے ،بہرحال اس میں کسی’’امام غائب‘‘ کا ذکر نہیں، فارجع البصر.
جی ہاں غازی پوری صاحب پھر سے دیکھئے اورخوب غور سے دیکھئے ان اشعار میں کسی’’امام غائب‘‘ تو کیا’’امام حاضر‘‘ سے بھی شدائد وتکالیف میں استغاثہ ونداء،فریاد رسی وپکار کاذکر کہاں ہے؟ علامہ جوناگڑھی صاحب تو ’’یاالٰہی‘‘ کہہ کر اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعافرمارہے ہیں اور سیاق وسباق سے واضح ہے کہ سیدناعمرtکی راہ پر گامزن ایک غیور اسلامی حکمران کے وجود کی دعا کررہے ہیںچونکہ اس وقت ہند پر انگریز غیر مسلم قابض حکمران تھے۔ لیکن غازی پوری صاحب کی دیدہ دلیری وسینہ زوری کا یہ عالم ہے کہ ’’امام غائب‘‘ سے فریاد رسی بنارہے ہیں۔آخر یہ سب باتیں ’’طریق محمدی‘‘ توکیا علامہ جوناگڑھی کی کسی بھی تصنیف وتالیف میں کہاںہیں؟؟؟[ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّہُوَحَسِيْرٌ۝۴ ] کاش غازی پوری صاحب اس مقام پر اپنے ہی درج ذیل جملوں کو فراموش نہ کربیٹھتے،لکھا ہے :
’’لیکن ان بیوقوفوں کوپتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کو پسند نہیں کرتاآخر کب تک دجل وفریب کا یہ بازار گرم رہے گا؟ کیاخدا قادر نہیں کہ ان جعل سازیوں کا پردہ فاش کردے اور اپنے کسی بندے کو کھڑا کردے جو ان کے نفاق کی قلعی کھولے اور ان کااصلی چہرہ امت کے سامنے بے نقاب کردے۔(آئینہ ،ص:78،کچھ دیر،ص:152، وقفہ ،ص:58)
غازی پوری صاحب !آپ کے ایسے کلام کوپڑھیں توایسا محسوس ہوتا ہے کہ جناب عدل وانصاف کی اعلیٰ روش پر قائم ہیں، جھوٹ اور دجل وفریب سے مجتنب،سچ کا پیکرعظیم انسان ہیں۔اور بہت ہی زیادہ فکر آخرت کے حامل اللہ سے ڈرنے والے متقی وپارساشخص ہیں!!! لیکن جب ان کی ہیرپھیر،غلط بیانی اور خیانتوں کا یہ طویل وعریض سلسلہ سامنے آتا ہے تو واضح ہوجاتا ہے کہ ’’حضرت ناصح‘‘ توا پنی ہی نصیحت آمیز جملوں سے یکسر بے خبروغافل ہیں، بس انشاءپردازی کا نمونہ پیش فرمادیتے ہیں۔ درحقیقت اپنے ہی اس منفی تبصرہ کے شاندار وشاہکار مثال ومصداق ہیں۔اللہ یصلحہ
یقین نہ آئے تو مولانا جوناگڑھی کے متصل بعد ان کا اگلا وارملاحظہ کیجئے:
مولاناعبدالوہاب ملتانی صاحب پر بہتان طرازی
غازی پوری صاحب فرماتے ہیں:
’’غیرمقلدین کے ایک اور مشہور عالم مولوی عبدالوہاب صاحب ملتانی جو جماعت غرباء اہل حدیث کے امیر اور’’شیخ الکل فی الکل‘‘ میاں نذیر حسین صاحب کے شاگردہیںاپنے امام ہونے کا اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں ہی امام وقت ہوں‘‘
(مقاصد امامت:ص:2)
’’(اورفرماتے ہیں-آئینہ)’’امام وقت اپنے نبی کا نائب ہوتا ہے جوحالت نبی کی ہوتی ہے وہ ہی امام کی ہوتی ہے۔‘‘(ص:14)
ایک اورمقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
’’جو امام وقت کی بیعت کے بغیر مرے گا وہ جاہلیت کی موت مرےگااور جو امام وقت کی اجازت کے بغیر زکوٰۃ دے گا تو اس کی زکوٰۃ قبول نہ ہوگی اور ایسے ہی امام وقت کی اجازت کے بغیر طلاق،نکاح بھی درست نہیں اور جو اس وقت (میرے علاوہ) مدعی امامت ہوگا وہ واجب القتل ہے۔‘‘(ایضا،ص:16)
امامت کے بارے میں ایک اور مقام پرفرماتے ہیں:
’’جب تک مسلمان امام کو نہیںبناتااس کا اسلام ہی معتبر نہیں۔‘‘(ص:16)
امامت کے بارے میں بعینہ یہی شیعوں کا عقیدہ ہے:ہم نہیں سمجھتےکہ اہل سنت والجماعت کے علماء میں سے کوئی بھی عالم اس قسم کے اعتقاد رکھے چہ جائیکہ شیخ ابن عبدالوہاب اور علامہ ابن تیمیہ اور ابن القیم کے متبعین میں سے کوئی سلفی ہو کر ان عقائد کا معتقد ہوجائے ،یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘(آئینہ ،ص:216،کچھ دیر،ص:268، وقفہ ،ص:189)
جواب:افسوس کہ غازی پوری صاحب یہاں بھی اپنی عادت مخصوصہ سے باز نہ آئے۔تفصیل ملاحظہ کیجئے:
پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے مولانا عبدالوہاب کے نظریات خود ان کی کتب سے نقل نہیں کیےبلکہ ان کی اصلاح کی خاطر لکھے گئے ایک رسالہ سے نقل کیے جو مولانا عبدالجبارمحدث کھنڈیلوی aکا تحریرفرمودہ ہے۔دوسری بات یہ کہ محدث کھنڈیلویaنے تو ابتداء ہی میں وضاحت فرمادی تھی کہ ’’امام وقت‘‘ سے ملتانی صاحب کی کیا مراد ہے؟چنانچہ لکھتے ہیں:
’’امام وقت کا یعنی خلیفہ(ہونے) کا دعویٰ کربیٹھے‘‘
(مقاصد امامت:،ص:2)
لیکن غازی پوری صاحب نے اپنی ملمع سازی سے اسے شیعت سے جاملایا،حالانکہ مندرجہ بالاوضاحت اسی صفحہ :2پر موجود ہے جس صفحہ سے جناب نے یہ عبارت نقل کی ہے۔الغرض کہ ان کی یہ ساری بحث خلیفہ ہونے نہ ہونے کے بارے میں ہے اورخلیفہ وخلافت اسلام کی سیاست کا مسئلہ ہے اس سے شیعہ کے عقیدۂ امامت کا کیاتعلق؟ان کے ہاں توخود غازی پوری صاحب کی منقولہ عبارات کے مطابق امام معصوم ،مؤید،موفق اور خطاؤں اورلغزشوں سے محفوظ ہوتاہے، اس کے پاس ملائکہ آتے ہیں، کائنات کے ذرے ذرے پر حکمران ومتصرف ہوتا ہے نیز امامت ،نبوت سے بھی اعلیٰ ہوتی ہے۔ نعوذباللہ (آئینہ ص:212)
الحمدللہ ان میں سے کوئی ایک عقیدہ وہ مولانا ملتانی ثم دہلوی سے ثابت نہیں کرسکے لیکن غلط بیانی کی انتہا کرتے ہوئے لکھ دیا کہ: ’’امامت کے بارے میں بعینہ یہی شیعوں کا عقیدہ ہے۔‘‘استغفراللہ
غازی پوری صاحب! یہ آپ کی ایسی صریح کذب بیانی ہے کہ اس کی تکذیب کے لئے ہمیں باہر سے مدد لانے اور محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں خود آپ کی اپنی کتاب’’وقفہ‘‘ کاصفحہ:186،آئینہ ،ص:213کافی وشافی ہے۔
غازی پوری صاحب کی خیانت
تیسری بات یہ ہے کہ جناب نے بعینہ شیعہ جیسا عقیدہ ثابت کرنے کے شوق میں ایک اور خیانت کاارتکاب فرمایا جب لکھا:’’فرماتے ہیں: امام وقت اپنے نبی کا نائب ہوتا ہے اور جوحالت نبی کی ہوتی ہے وہی امام کی بھی ہوتی ہے۔‘‘
(آئینہ ،ص:216،بحوالہ مقاصد امامت،ص:14)
توجناب نے اس سے متصل بعد والی عبارت نقل نہیں کی جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ’’حالت‘‘ سے ان کی کیامراد ہے؟معاذاللہ منصب ومقام قطعانہیں۔ اگلی عبارت ملاحظہ کیجئے،لکھاہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کیسی تھی وہ اتبداء میں کونساجہادکرتے تھے اور ابوبکرtآخری حالتِ نبوت کے خلیفہ تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے سیاست (مطلب امورریاست) سے کام کیا اور دوسرے اس وقت معاملہ پکاپکایاتھا، اب وہ زمانہ نہیں ہے۔ اس لئےابتداء سیاست کوئی ضروری امرنہیں۔‘‘( مقاصد امامت،ص:14)
لیکن غازی پوری صاحب نے خیانت کاارتکاب کرتے ہوئے ادھوری بات نقل کردی محض’’اہل حدیث اور شیعہ میں بعینہ موافقت‘‘ ثابت کرنے اور قارئین کومغالطہ دینے کے لئے کہ:’’یہ امام وقت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جیسی حالت کےقائل ہیں۔‘‘مکمل عبارت سے یہ باور کراناممکن نہیں رہتا تو ادھوری بات نقل کردی۔جبکہ مکمل عبارت سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولانا ملتانی صاحب کی ’’حالت‘‘ سے یہ مراد ہے کہ جس طرح اوائل نبوت میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریاست وحکومت ،سلطہ وقوت نہیں تھی، ابتداء جہاد مطلب قتال بھی فرض نہیں ہواتھا، اسی طرح حدود وتعزیرات کا معاملہ بھی نہیں تھا۔ بس اسی طرح گویا ہمارا معاملہ بھی مکی دور والاہے اگرچہ میںامام ہوں لیکن فی الحال حکومت نہیں۔
پھر اسی کتاب میں ان کے ان دلائل کےمکمل،کافی وشافی جوابات دیئے گئے،’’امامت وخلافت ‘‘کے اس مسئلہ میں جمہوراہل حدیث کے خلاف ان کے اس موقف کی زبردست تردید کی گئی ۔یہ ملتانی صاحب کی اپنی تالیف نہیں بلکہ ان کے موقف کے خلاف ہے، تفصیل کے لئے اصل کتاب دیکھ لی جائے۔
جاہلیت کی موت
چوتھی بات غازی پوری صاحب نے ملتانی صاحب کے مؤقف پر مبنی تیسرا اقتباس جو غازی پوری صاحب نے نقل فرمائی کہ:فرماتے ہیں:’’جو امام وقت کی بیعت کے بغیر مرے گاتو وہ جاہلیت کی موت مرے گا…۔توعرض ہے کہ اس بات کا بھی شیعت سےکوئی تعلق نہیں،بلکہ یہ بات ’’امام وقت‘‘ مطلب خلافت علی منہج النبوۃ کے قائم کرنے والے خلیفہ کے لئے ثابت ہے،امتِ مسلمہ کے حکمران جس کے لئے احادیث میں امام، امیر،سلطان،حاکم اور خلیفہ وغیرہ نام استعمال ہوئے ہیں۔ غلط فہمی دور کرنے کیلئےچندایک احادیث ملاحظہ کیجئے:
سیدنا عبداللہ بن عباسtسےمروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ كَرِهَ مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»
(صحیح بخاری:7053صحیح مسلم)
جس کسی نے اپنےامیر سے کسی چیز میں کراہت محسوس کی تو وہ صبر کرے چونکہ جوکوئی سلطان (اقتدار وریاست) سے بالشت بھر بھی نکلا وہ جاہلیت کی موت مرا۔
اسی طرح سیدناابوھریرہtسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً.(صحیح مسلم:1848)
جوکوئی(حاکم وقت کی) اطاعت سے نکلا اور(اس پر مجتمع) جماعت سے جداہواپس وہ جاہلیت کی موت مرا۔
اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حاکم وقت کی بیعت چھوڑنے والوں کے پاس آئے…..اور فرمایا:میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں ایک حدیث سنادوںجو میں نےر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا میں نے سناآپ فرمارہے تھے:
«مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»(صحیح مسلم:1851)
جس کسی نے(مسلم حکمران) کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا وہ قیامت کے دن اللہ سے ایسے ملے گا کہ اس کا کوئی عذر نہ ہوگا اور جو کوئی مرا اور اس کی گردن پربیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
سیدناابوذرالغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ»(سنن ابی داؤد:4758)
جس نےجماعت سے علیحدگی اختیار کی اس نے اسلام کا ربقہ اپنی گردن سے اتارپھینکا۔
ربقہ کا معنی:رسی کاحلقہ اور مراد یہ ہے کہ اسلام کی حدود واحکام اوامر ونہی کی پابندی۔
المختصر کہ امام وقت کے لئے یہ سب کچھ اہل السنہ کی اصح ترین کتب بخاری ومسلم سے ثابت ہیں۔ ہاں البتہ دیگرنصوص کی بناء پر شراح حدیث فرماتے ہیں کہ جاہلیت سےمراد کفر کی موت نہیں۔
جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
مولانا ملتانی صاحب خود کو بغیرحکومت کے بھی’’امام وقت‘‘سمجھتے تھے تو اپنے حق میں ان دلائل کی بناء پر ایسا کہتے تھے جمہور اہل حدیث دلائل سے ان پر یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ یہ سب کچھ حاکم وقت کیلئے ہےزکوٰۃ جمع کرنااور پھر تقسیم کرنا وغیرہ-قصہ مختصر کے ان احکام کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں۔ غازی پوری صاحب یا ان احادیث سے واقف نہیں(جس کا امکان کم ہے) یا پھر مغالطہ دے رہے ہیں کہ کسی طرح اہل حدیث کو شیعہ ثابت کرسکیں۔ مگر ایں خیال است ومحال است وجنون ۔اس کے بعد غازی پوری صاحب نےشیعہ کے عقیدۂ امامت وامام کے رد میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام نقل کیا تو ان کا کلام اپنے موقع محل پر بالکل بجاہے، لیکن معاف کیجئے گا کہ اہل حدیث کا شیعہ عقیدہ سے کیاتعلق۔ جناب اہل حدیث کی کسی ایک کتاب سے بھی شیعہ جیسے امامت کاتصور پایاجاناثابت نہیں کرپائے۔

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

گھمن صاحب کی تیسری خیانت  قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے