Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ نومبر » فضل الخلیل فی فوائد تقدیم الجرح والتعدیل قسط 2

فضل الخلیل فی فوائد تقدیم الجرح والتعدیل قسط 2

معاصر علماء ،طلباء ومحققین کیلئے اسلاف Sکے اقوال، افعال اور قابل محبت آثار پیش خدمت ہیں

اسلاف اور کتابت
حدیث کی کتابت زمانہ سلف سے مروج ومدون ہے:
جابررضی اللہ عنہ صحابی کی لکھی ہوئی کتاب،تابعی ابوسفیان طلحہ بن نافع کے پاس تھی جس سے ابوسفیان طلحہ بن نافع حدیثیں بیان کرتے تھے.
(الجرح والتعدیل ۱؍۸۰وسندہ صحیح)
سفیان بن عیینہ المدنی رحمہ اللہ(المتوفی۱۹۸ھ)نے حدیث کی کتابیں لکھیں تھیں۔(الجرح والتعدیل ۱؍۸۰وسندہ صحیح)
یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ(المتوفی۱۹۸ھ)نےسفیان سے سن کر احادیث کی کتب لکھی تھیں۔
(الجرح والتعدیل ۱؍۱۰۲وسندہ صحیح)
امام شعبی رحمہ اللہ اور عطاء بن ابی رباح کےپاس علیtکی لکھی ہوئی کتاب موجود تھی۔(الجرح والتعدیل ۱؍۱۳۴وسندہ صحیح)
مقسم تابعی نے کتاب لکھی تھی جو حکم بن عتیبہ کے پاس تھی۔
(الجرح والتعدیل ۱؍۱۳۵وسندہ صحیح)
امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی تھی ان سے وہ کتاب حفص بن سلیمان نے لے لی تھی۔
(الجرح والتعدیل ۱؍۱۴۲وسندہ صحیح)
سلمان بن مھران الاعمش تابعی کی روایات کی ایک کتاب تھی جو یحی بن سعید القطان کے پاس تھی۔
(الجرح والتعدیل ۱؍۲۱۱وسندہ صحیح)
محمدبن جعفرالغندررحمہ اللہ(المتوفی۱۹۳ھ)نےبھی حدیث کی کتاب لکھی تھی۔(الجرح والتعدیل ۱؍۲۳۱وسندہ صحیح)
یونس بن یزید الایلی رحمہ اللہ(المتوفی۱۵۹ھ)نےبھی حدیث کی کتاب لکھی تھی۔(الجرح والتعدیل ۱؍۲۳۲وسندہ صحیح)
امام یحیٰ بن معینرحمہ اللہ(المتوفی۲۳۳ھ)نےبھی حدیث کی کتاب لکھی تھی۔(الجرح والتعدیل ۱؍۲۶۱وسندہ صحیح)
یہی وہ تصانیف ہیں جو تحویل زمانہ سے بخاری،مسلم،ترمذی وغیرھم میں ضم ہوگئیں۔یا امت سے مفقود ہوگئیں۔
سلسلۃ الذھب
محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ(المتوفی۲۰۴ھ)فرماتے ہیں:
کان مالک اذا شک فی بعض الحدیث طرحہ کلہ.
(الجرح والتعدیل ۱؍۵۹وسندہ صحیح)
(اگر)مالک (بن انس رضی اللہ عنہ)کو حدیث کے کسی حصے میں شک ہوتا تو وہ پوری حدیث کو ترک کردیتے تھے۔
فائدہ اول: امام مالک رحمہ اللہ اگر کسی روایت کو ترک کردیں تو لازم نہیں کہ وہ روایت قابل ترک ہی ہو، بلکہ وہ صحیح بھی ہوسکتی ہے کیونکہ مالک رحمہ اللہ کسی حصے کو مشکوک سمجھتے ہیں تو پوری روایت ترک کردیتے ہیں۔
فائدہ ثانی: مالکaنہایت محتاط رہنے والے محدثین میں سے تھے۔
ایک واسطے سے امام مالک رحمہ اللہ کے امام ابوحنیفہa شاگرد ہیں۔
ابراھیم بن طھمان رحمہ اللہ(المتوفی۱۶۷ھ)فرماتے ہیں:
أتیت المدینۃ، فکتبت بھا ثم قدمت الکوفۃ فاتیت اباحنیفہ فی بیتہ فسلمت علیہ فقال لی: عمن کتبت ھناک؟ فسمیت لہ فقال: ھل کتبت عن مالک بن انس شیئا؟ فقلت نعم فقال: جئنی بھا کتبت عنہ، فاتیتہ بہ فدعا بقرطاس ودواۃ فجعلت املی علیہ وھو یکتب.(الجرح والتعدیل ۱؍۵۳وسندہ صحیح)
میں مدینہ آیااور امام مالک سے کچھ روایات لکھیں، پھر کوفہ کارخ کیا اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پاس ان کے گھر آیا، انہیں سلام کیا مجھے انہوں نے کہا:وہاں (روایات) کس سے لکھ آئے ہو، میں نے ان کا نام لیا،کہا: (امام )مالک بن انسtسے کچھ لکھا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! کہا: جو لکھا ہے وہ لے آؤ،(ابراھیم بن طھمانرحمہ اللہ)فرماتے ہیں میں وہ لےآیا ،آپ (یعنی امام ابوحنیفہa)نے کاغذ ودواۃ منگائی، میں بتاتا جاتا وہ لکھتے جاتے۔
امام مالک رحمہ اللہ حدیث بیان کرتے ہوئے جب’’حدثنی الثقۃ‘‘ کہیں تو اس وقت ’’الثقہ‘‘ سے مراد’’مخرمہ بن بکیر بن الاشج‘‘ ہوتے ہیں۔
ابوحاتم محمد بن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی۲۷۷ھ)فرماتے ہیں:
سألت اسماعیل بن ابی اویس قلت :ھذا الذی یقول: مالک بن انس حدثنی الثقۃ ،من ھو؟ قال: ھو مخرمۃ بن الاشج.
(الجرح والتعدیل ۱؍۶۴وسندہ صحیح)
میں نے اسماعیل بن ابی اویس(امام مالکaکے شاگرد اور ان کے بھانجے) سے پوچھا کہ:مالک جب’’حدثنی الثقۃ‘‘ کہتے ہیں تو ’’الثقہ‘‘ سے مراد کون ہوتاہے؟ فرمایا: وہ مخرمہ بن(بکیر بن) الاشج ہیں۔
امام مالکaثقہ ہی سے روایت لیتےہیں۔
بشر بن عمر رحمہ اللہ(المتوفی۲۰۹ھ)فرماتے ہیں:
میں نے امام مالکaسےکسی آدمی کے بارے میں پوچھا، آپaنے فرمایا:
لو کان ثقۃ رأیتہ فی کتبی.
(الجرح والتعدیل ۱؍۶۶وسندہ صحیح)
اگر وہ ثقہ ہوتاتوآپ اسے میری کتاب میں دیکھ لیتے۔
فائدہ: امام مالکaثقہ ہی سے روایت لیتے ہیں۔
تنبیہ: لیکن شایدامام مالک رحمہ اللہ اس اصول پر قائم نہیں رہ سکے، کیونکہ کئی روایات انہوں نے ضعیف رواۃ سے بھی لی ہیں،مثلاً:
(ا) عفیف بن عمرو السھمی (موطا ح:۲۱۹،۳۰۵،دار المعرفۃ)
(۲) مسور بن رفاعہ (موطا ح:۱۱۵،دار المعرفۃ)
(ا) عبد الرحمن بن ابی عمرہ(موطا ح:۱۵۳۹دار المعرفۃ)
ان تینوں رواۃ کو ابن حجرaنے اقوال ائمہ حدیث کی روشنی میں’’مقبول‘‘ قرار دیا ہے جو کہ ابن حجرaکے ہاں ضعیف کا درجہ رکھتےہیں ،دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ امام مالکaکے ہاں یہ شخصیات ثقہ تصور کی جاتی ہونگی ،واللہ اعلم
امام مالک رحمہ اللہ ابن عمرtکی روایت دوسرے صحابہ کے بنسبت زیادہ پسند کرتے تھے، خلیفہ ابوجعفر نے انہیں کہا:
یا مالک مالی اراک تعتمد علی قول ابن عمر من بین اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قلت : یا امیر المؤمنین کا ن اخر من بقی عندنا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاحتاج الناس، فسألوہ فتمسکوا بقولہ.
(الجرح والتعدیل ۱؍۶۹وسندہ صحیح)
اے مالک!میں دیکھتاہوںکہ آپ صحابہ میں سے ابن عمررضی اللہ عنہ کے قول پر(زیادہ) اعتماد کرتے ہیں(یہ بھلاکیوں؟اما م مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں) میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! وہ ہمارے ہاں آخری صحابہ میں سے ہیں، لوگ ان کی طرف زیادہ رجوع کرتے تھے، ان سے پوچھتے تھے ،ان کی بات کو لیتے تھے (تو اس لئے میں بھی انہیں زیادہ پسند کرتاہوں)
سب سے پہلے باسند روایت امام زہریaنے بیان کی تھی۔
امام مالک بن انس رحمہ اللہ (المتوفی۱۷۹ھ)فرماتے ہیں:
اول من اسند الحدیث ابن شھاب.
(الجرح والتعدیل ۱؍۶۳وسندہ صحیح)
سب سے پہلے باسند روایت(محمد بن مسلم) بن شھاب (الزھریرحمہ اللہ )نے بیان کی تھی۔
توضیح: امام زہری رحمہ اللہ مالک رحمہ اللہ کے استاذ ہیں۔
سفیان بن سعید الثوریرحمہ اللہ (المتوفی۱۶۱ھ)
فرماتے ہیں:
رأیتہ جاء الی الزھری سنۃ ثلاث وعشرین واحسب ما بلغ ثلاثین.
(الجرح والتعدیل ۱؍۶۷وسندہ صحیح)
میں نے انہیں (یعنی مالک رحمہ اللہ کو)سن ۱۲۳ھ میں دیکھا کہ وہ (امام )زھری رحمہ اللہ کے پاس آئے تھے، میں سمجھتاہوں کہ (اس وقت مالکرحمہ اللہ )تیس سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچے ہونگے۔
ایک ہی شہر میں ایک ہی وقت ایک سے زیادہ علماء مذاکرہ کراسکتے ہیں۔
امام شعبہ بن حجاج العتکی رحمہ اللہ (المتوفی۱۶۰ھ)فرماتے ہیں:
دخلت المدینۃ ونافع حی، ولمالک حلقۃ.
(الجرح والتعدیل ۱؍۶۷وسندہ صحیح)
میں مدینہ میں داخل ہوا(امام) نانع زندہ تھے (یعنی ان کامذاکرہ جاری تھا) اور امام مالکaکے پاس بھی (مذاکرے کے لئے) حلقہ موجود تھا۔
امام مالک رحمہ اللہ کے ہاں سنت وحدیث ایک ہی چیز ہے۔
عبداللہ بن وھب المصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عندنا فی ذالک سنۃ .
اس مسئلے میں ہمارے پاس سنت موجود ہے، پھر میں نےوہ سنت پیش کی، آخر میں مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:
ان ھذا الحدیث حسن، .
یہ بہترین حدیث ہے۔
(الجرح والتعدیل ۱؍۷۰وسندہ صحیح ملخصا)
علماء سلف ومحدثین امت بچپن ہی سے علمی اسفار کےمسافر اور طلب علم کے مشتاق تھے۔
سفیان بن عیینہ a(المتوفی۱۹۸ھ)فرماتے ہیں:
جالست ابن شھاب وانا ابن ست عشرۃ وثلاثۃ اشھر.(الجرح والتعدیل ۱؍۷۲وسندہ صحیح )
میں ابن شھاب(زھری) کی مجلس میں بیٹھا اور اس وقت میری عمر۱۶ سال تین ماہ تھی۔
امام محمد بن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ (المتوفی۱۵۰ھ)پر اہل مدینہ نے کوئی جرح نہیں کی، جب سفیان بن عیینہ نے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
جالست ابن اسحاق منذ بضع وسبعین سنۃ، وما یتھمہ احد من اھل المدینۃ، ولا یقول فیہ شیئا.
(الجرح والتعدیل ۱؍۷۴وسندہ صحیح)
میں ابن اسحاق کیساتھ سترسال سے بھی زیادہ عرصہ بیٹھاہوں، ان پر مدینہ والوں میں سے کسی نے جرح نہیں کی، نہ ہی ان کے متعلق ایسی بات کی ہے(جو جرح کے زمرے میں آتی ہو)
فائدہ: ابن اسحاق کے متعلق امام مالک وغیرہ کا جو کلام نقل کیا جاتا ہے وہ جرح کے باب سے نہیں ہے۔
ہر حدیث بیان کرنیوالابندہ محدث نہیں ہوتا۔
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (المتوفی۱۹۸ھ)سےکسی حدیث بیان کرنیوالے بندے کے متعلق پوچھاگیا،فرمایا:
ولم یکن صاحب حدیث.
(الجرح والتعدیل ۱؍۷۴وسندہ صحیح)
وہ محدث(یا اہل حدیث) نہیں ہے۔
تقلید، محدثین واسلاف کی بھی، کسی صورت میں جائزومناسب نہیں، کیونکہ ان سے بھی غلطی کا احتمال ممکن ہے، تصحیح وتضعیف میں ایک سے زیادہ محدثین وعلماء کا فیصلہ مل جائے تو وہ بہت بہتر ہے۔
ابوحاتم محمد بن ادریس الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷ھ)فرماتے ہیں:
کان ابن عیینۃ یقدم الاحوص بن حکیم علی ثور فی الحدیث ،قال: وغلط ابن عیینۃ ، الاحوص منکر الحدیث ،وثور صدوق.
(الجرح والتعدیل ۱؍۷۶)
ابن عیینہ رحمہ اللہ احوص بن حکیم کو ثورaپر حدیث میں فوقیت دیتے تھے، (ابوحاتم نے) کہا یہ ابن عیینہ نے غلط کیا ہے(کیونکہ) احوص منکر الحدیث ہیں، اور ثور توصدوق ہیں۔
توضیح :امام ابوحاتمaکا ابن عیینہ رحمہ اللہ سے لقاء وسماع ثابت نہیں ہے لیکن ابوحاتم کی یہ بات درست ہے کیونکہ ابن عیینہ سے ایساکرنا ثابت ہے۔
(التاریخ الکبیر للبخاری ۲؍۵۷وسندہ صحیح دائرۃ المعارف)
کوئی محدث کسی علاقے میں رہائشی پذیر ہونے کے باوجود آبائی شہر کی طرف بھی منسوب ہوسکتا ہے،مثلا:
صدقہ بن یسار رحمہ اللہ (المتوفی۱۳۲ھ)مکہ میں رہتے تھے۔
(تقریب ،ت ۲۹۲۳،دار الحدیث القاھرہ)
لیکن سفیان بن عیینہ انہیں پھر بھی کوفی کہتے تھے، اس لئے کہ ان کا آبائی شہرکوفہ تھا۔
(الجرح والتعدیل ۱؍۸۱وسندہ صحیح ملخصا)
علماء سلف اپنے شیوخ کے اساتذہ (یعنی استاذ الاساتذہ یا شیخ الشیوخ) سے روایت لینے کی کوشش کرتے تھے۔
شعبہ بن حجاج العتکی a(المتوفی۱۶۰ھ)فرماتے ہیں:
ما حدثنی احد عن شیخ الا واذا سألتہ ، یعنی ذالک الشیخ .
(الجرح والتعدیل ۱؍۹۴وسندہ صحیح)
مجھے کوئی(اپنے) شیخ سے حدیث سناتا تو میں(اس کے شیخ تک جاتا اور) اس سے اس کا پوچھتا۔
فائدہ: معاصرین طلباء کو چاہئے کہ وہ سلف کی اس خوبی کو قطعا نہ بھولیں ،امت کےکبار علماء اور ائمہ کے پاس علمی ارتحال واسفار جاری رکھیں۔
بدعتی سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں۔
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (المتوفی۱۸۱ھ)فرماتے ہیں:
سئل سفیان بن سعید عن ثور بن یزید الشامی فقال: خذوا عنہ، واتقوا قرنیہ ، یعنی انہ کان قدریا.
(الجرح والتعدیل ۱؍۹۸وسندہ صحیح)
سفیان بن سعید(الثوری) سے ثور بن یزید الشامی کے بارے میں پوچھاگیا ،فرمایا: ان سے(روایت) لے لو، اور ان کے فتنے سےبچو، اس لئے کہ وہ قدری تھا۔
بقیۃ بن ولید رحمہ اللہ (المتوفی۱۹۷ھ)فرماتے ہیں:
قلت لشعبۃ: لم تروی عن حماد بن ابی سلیمان وکان مرجئا؟ قال کان صدوق اللسان.
(الجرح والتعدیل ۱؍۱۴۰وسندہ صحیح)
میں نے شعبہ بن حجاج کو کہا:حماد بن ابی سلیمان سے روایت کیوں لیتے ہووہ تو مرجیٔ تھا،فرمایا: زبان کا سچا ہے۔(اس سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔)
بقیہ بن ولید مزید کہتے ہیں:
قلت لشعبۃ: لم تروی عن عمرو بن مرۃ، وکان مرجئا؟ قال :ا صغر القوم واکثرھم علما.
(الجرح والتعدیل ۱؍۴۷وسندہ صحیح)
میں نے شعبہ (بن حجاج) کو کہا: عمرو بن مرہ سے آپ روایت کیوں بیان کرتے ہیں وہ تو مرجیٔ تھا، کہا: وہ اپنی قوم میں چھوٹا ہے، لیکن ان میں کثیر العلم ہے۔
بدعتی کی دلی تعظیم نہ کی جائے، اس ڈر سے اس کی روایت اس کے بجائے اس کے کسی شاگرد سے لی جائےتو یہ زیادہ محتاط راستہ ہے۔
سفیان ثوری جرجان کے شہر سے گذرے لیکن جواب فامی جرجانی عالم سے رویت نہیں لی بلکہ کچھ آگے جاکر ان کے شاگرد سے ان کی روایت لی ساتھی نے وجہ پوچھی تو فرمایا:
لانہ کان مرجئا.
(الجرح والتعدیل ۱؍۱۰۳وسندہ صحیح)
(میں نے اس سے روایت) اس لئے(نہیں لی) کہ وہ مرجیٔ (یعنی بدعتی )تھا۔
بدعتی اور اس کی روایت سے اگر فتنے کاڈر ہو تو اس کی روایت کو ترک بھی کیاجاسکتا ہے۔
امام ابن سیرین رحمہ اللہ (المتوفی۱۱۰ھ)فرماتے ہیں:
کانوا لایسألون عن الاسناد فلما وقعت الفتنۃ سألوا عنہ فکانوا ینظرون الی اھل السنۃ فیؤخذ حدیثھم والی اھل البدع فلا یؤخذ حدیثھم.
(الجرح والتعدیل ۱؍۳۱۷وسندہ صحیح)
شروع دور میں سند کے متعلق اتنی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی، جب ( ہر طرف سے)فتنے رونما ہونے لگے تو(لوگ احتیاط کے پیش نظر) پوچھ گچھ کرنے لگے، اور سنت کے متبعین کی روایات قبول کی جانے لگی اور اہل بدعت !بس ان کی روایات کو رد کیاجانے لگا۔
تفسیر ابن عباس سمیت کلبی نے جو کچھ، عن ابی صالح، عن ابن عباس کی سند سے ذکر کیا ہے وہ سب ناقابل اعتماد ہے۔
سفیان بن سعید الثوری a(المتوفی۱۶۱ھ)فرماتے ہیں:
قال لنا الکلبی: ما حدثت عنی عن ابی صالح ، عن ابن عباس فھو کذب ،فلا تروہ.
(الجرح والتعدیل ۱؍۹۸وسندہ صحیح)
مجھے(محمد بن سائب) کلبی نے کہا:جوآپ مجھ سے عن ابی صالح ، عن ابن عباس کے واسطے ذکر کرتے ہیں وہ(سارا) جھوٹ ہے وہ نہ بیان کریں۔
طلباء کا بیان چیک کرنااسلاف کا طریق ہے۔
یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ (المتوفی۱۹۸ھ)فرماتے ہیں:
قال لی سفیان، ھات کتبک اعرضھا علی.
(الجرح والتعدیل ۱؍۱۰۲وسندہ صحیح)
مجھے سفیان( بن سعید الثوری) نے کہا: اپنی کتابیں لاؤمجھے پڑھ کر سناؤ ۔
دورسلف میں اسلاف میت کو دائیں کروٹ لٹاکر دفن کرتے تھے۔
ابوداؤد عمر بن سعد الحفری a(المتوفی۲۰۳ھ)فرماتے ہیں:
رأیت سفیان الثوری یوما وقد اضطجع علی شقہ الایمن ویقول: ہکذا نکون فی القبر.
(الجرح والتعدیل ۱؍۱۱۵وسندہ صحیح)
میں نے ایک دن سفیان ثوری کو دائیں کروٹ پرلیٹے اور یہ کہتے ہوئےدیکھا کہ:کہ ہم قبر میں اس طرح ہوں گے۔
امام شعبہ رحمہ اللہ کے ہاں مرسل حجت نہیں تھی۔
یحی بن سعید القطان a(المتوفی۱۹۸ھ)فرماتے ہیں:
کان شعبۃ یوھن مرسلات معاویہ بن قرہ، یری انھا عن شھر .(الجرح والتعدیل ۱؍۱۳۵وسندہ صحیح)
شعبہ معاویہ بن قرہ کی مرسل روایات کو کمزور قرار دیتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ (معاویہ) یہ شھر(بن حوشب) سے نقل کرتے ہیں۔
فائدہ: شھر بن حوشب ثقہ عندالجمہور شعبہ کے نزدیک ضعیف تھے۔
چال ڈھال میں تصنع سے بچنا علماء وطلباء کے لئے ازحدلازم ہے دورِ سلف میں اگر کوئی ان عادات کا حامل ہوتا تو اسلاف ان سے روایات تک لیناترک کردیتے تھے۔
یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ (المتوفی۱۹۸ھ)فرماتے ہیں:
اتی شعبۃ المنھال بن عمرو، فسمع صوتا فترکہ ، حدثنا عبدالرحمٰن ، سمعت ابی، یقول :یعنی سمع صوت قراءۃ بالحان ، فترک الکتابۃ عنہ لاجل ذالک.
(الجرح والتعدیل ۱؍۱۶۳وسندہ صحیح)
امام شعبہ کے پاس منھال بن عمرو آئے(شعبہ نے ان کی) آواز سنی ،اور انہیں ترک کردیا، ابوحاتم فرماتے ہیں: اس کامقصد یہ ہے کہ انہوں نے (منھال بن عمرو سےتصنع والے) آواز میں تلاوت سنی تو اس وجہ سے ان سے روایت لیناچھوڑ دیا۔
فائدہ: دورحاضر میں محفل حسن قرأۃ کے روح رواں قراء اس زد میں آسکتے ہیں۔واللہ اعلم

About حافظ شبیر جمالی

Check Also

فضل الخلیل فی فوائد تقدیم الجرح والتعدیل قسط 3

معاصر علماء ،طلباء ومحققین کیلئے اسلاف کے اقوال، افعال اور قابل محبت آثار پیش خدمت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے