احکام ومسائل

G.154
محترم جناب حافظ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال یہ ہے کہ میں ڈرائی کلینرز(دھوبی)کاکام کرتاہوں جب گاہک کوکپڑوں کی پرچی دی جاتی ہےتو اس پرچی کے ذریعے گاہک کو مطلع کیاجاتاہے کہ فلاں تاریخ کو اپنے کپڑے لے جانا ورنہ اس کے علاوہ کپڑے آگے پیچھے ہوگئے تو ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی، وہ گاہک پھر بھی اس تاریخ کو لینے نہیں آتا پھر میں بھی اس کا تین ماہ تک انتظار کرتاہوں،پھر بھی نہیں آتاتوکیا میں ان کپڑوں کو بیچ سکتاہوں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں۔
(سائل عبدالرحمٰن گلستان جوہر)
J
الجواب بعون الوہاب
صورت مسئولہ برصحت سؤال
بسا اوقات سائل جو مسئلہ دریافت کرتا ہے اصلاً وہ سوال بنتا ہی نہیں بلکہ سوال کچھ اور کرناچاہئے،اور وہ پوچھ کچھ اور رہاہوتا ہے۔ ایسی ہی صورت مذکورہ سوال میں ہے۔
عام طور پر ہمارے معاشرے میں درزی اوردھوبی اپنے کسمٹر کو جورسید دیتےہیں اس کے پیچھے کچھ ہدایات لکھی ہوتی ہیں جو انہوں نے بغیرعلماء کرام کے مشورے سے اپنے تحفظ میں لکھی ہوتی ہیںان میں ایک شق یہ ہوتی ہے کہ کسمٹر مذکورہ تاریخ تک نہیں آیا تو ہماری کوئی ذمہ داری نہیں۔ شرعاً یہ سوال درست نہیں ہے۔ سائل کو معلوم یہ کرنا چاہئے کہ ہم جو یہ رسید پرلکھواتے ہیں یہ لکھوانادرست ہے یانہیں؟ صحیح بات تو یہی ہے کہ لکھوانا ہی جائز نہیں ہے۔نہ کہ یہ معلوم کیاجائے کہ مذکورہ مدت تک اگر وہ نہ آئے یا کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اگر ہم اس کوبیچ دیں تو یہ جائز ہے یاناجائز؟کیونکہ جوکپڑے آپ کے پاس آتے ہیں وہ آپ کے پاس امانت ہیں اور آپ پر ہرممکن حد تک اس امانت کی حفاظت لازمی ہے۔شرعی نکتہ نظر سے اس کی اہمیت کااندازہ اللہ تعالیٰ کے فرمان سے کیجئے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:[اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ ](النساء:۵۸)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ تاکید فرماتاہے کہ تم امانت کو اس کے اہل تک پہنچاؤ۔
نیز حدیث لفظہ کو بھی سامنے رکھیئے اور وہ یہ ہے کہ راستے میں گری ہوئی کوئی چیز(جس کے ضائع ہونے کااندیشہ نہ ہو) مل جائے اور کوئی شخص اس کواٹھا لیتا ہے تو اس کی ذمہ داری بن جاتی ہےکہ وہ اس چیز کا اعلان کر ے اور ایک سال تک اس کی حفاظت کرے۔ اور پھر اس کو اپنے مال میں اس کوشامل کرے۔(بخاری)
مذکورہ روایت کو سامنے رکھتے ہوئے سائل کوچاہئے کہ اس اس کے لئے کوئی مسئلہ نہ ہو تو وہ اس کی جتنی حفاظت کرسکتاہے حفاظت کرے۔ اگر اس کی حفاظت میں جگہ کی تنگی کے سبب مسئلہ ہے تو پھر اس کو بیچ کر اس کی رقم کو خیرات کرد ے۔ جیسا کہ عبداللہ بن مسعود کے عمل سے واضح ہوتا ہے۔(بحوالہ بخاری)اور اگرخود مستحق ہے توخود استعمال کر ے۔

نوٹ:آخر میں ہم مشورۃًیہ تحریر کرتے ہیں کہ جب آپ کی مکمل کوشش یہ ہے کہ چیز اس کے مالک تک پہنچ جائےتو اس سلسلہ میں اگر آپ مذکورہ شخص کاموبائل نمبر یاایڈریس نوٹ کرلیتے ہیں تو بھی آپ اس کی امانت اس کے گھرتک پہنچاسکتےہیں ،البتہ گھر پہنچانے کا آپ الگ سے اضافی معاوضہ لیناچاہیں تو لے سکتے ہیں۔
ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب
رب کریم ہمیں جمیع معاملات میں قرآن وسنت کی روشنی میں عمل کی توفیق عطافرمائے۔

About حافظ محمد سلیم

مفتی جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

احکام ومسائل

مسئلہ وراثت محترم جناب مفتی صاحب! گزارش یہ ہے کہ وراثت کے معاملے میں کچھ رہنمائی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے