Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ مارچ » ’’مِنْ دُوْنِ اللہِ‘‘ کاصحیح مفہوم قسط:2

’’مِنْ دُوْنِ اللہِ‘‘ کاصحیح مفہوم قسط:2

ابوالاسجد محمد صدیق رضا قسط:2

من دون اللہ اور انبیاء(o)واولیاء(S)
اس سلسلے میں فریق ثانی کے مغالطوں کے ذکر سے ہلے وہ دلائل ملاحظہ کرلیجئے کہ جن سے واضح ہوجاتاہے کہ انبیاء اور اولیاء وصالحین بھی ’’من دون اللہ‘‘ میں شامل ہیں۔یہ نظریہ ان کی شان وعظمت کے قطعاً منافی نہیں بلکہ ان کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
تنبیہ: آیات کاترجمہ وتفسیر بریلویہ کے نامور علماء کے قلم سے پیش کئے جانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے اس شبہ کاخاتمہ ہوکہ ترجمے غلط ہیں، تفسیر وتشریح غلط کی گئی ہے۔ جیسا کہ ان کی جانب سے عام پروپگنڈا کیا جاتاہے کہ ’’وہابی غلط تشریح کرکے گمراہ کرتے ہیں۔‘‘ ان کے اپنے تراجم وتفاسیر سے اس شبہ کا ازالہ مقصود ہے۔
پہلی دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ۝۷۹ۙ ] ’’کسی آدمی کا یہ حق نہیں کہ اللہ اسے کتاب اور حکم وپیغمبری دے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کوچھوڑ کر میرے بندے ہوجاؤہاں یہ کہے گا کہ اللہ والے ہوجاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس سے کہ تم درس کرتے ہو۔‘‘(آل عمران :۷۹ ترجمہ از احمدرخان)
۱: بطور تفسیر میں ترجمہ کے حاشیہ میں نعیم الدین مرادآبادی صاحب نے لکھا:
’’یہ انبیاءسے ناممکن ہے اور ان کی طرف ایسی نسبت بہتان ہے۔ شانِ نزول نجران کے نصاریٰ نے کہا ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے حکم دیا کہ ہم انہیں رب مانیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تکذیب کی اور بتایا کہ انبیاء کی شان سے ایسا کہنا ممکن ہی نہیں اس آیت کے شان نزول میںدوسرا قول یہ ہے کہ ابو رافع یہودی اور سیدنصرانی نے سرور عالم ﷺ سے کہا یامحمد آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی عبادت کریں اور آپ کو رب مانیں حضور نے فرمایا اللہ کی پناہ میں غیراللہ کی عبادت کاحکم دوں نہ مجھے اللہ نے ایسا حکم دیا ہے نہ مجھے اس لئے بھیجا۔‘‘(خزائن العرفان ۱۰۷،مطبوعہ حافظ کمپنی لاہور)
۲: ان کے حکیم الامت احمدیارخان نعیمی صاحب نے اسی آیت کی تفسیر میں یہی بات نقل کی ہے۔(تفسیر نعیمی ۳؍۵۶۷،مطبوع نعیمی کتب خانہ لاہور)
۳: ان کے علامہ ابوالحسنات محمداحمدقادری صاحب نے بھی اس آیت کی تفسیر کے’’شان نزول‘‘ میں یہی کچھ لکھا ہے۔(دیکھئے تفسیر الحسنات ۱؍۵۲۸،مطبوع ضیاء القرآن پبلیکیشز لاہور ،کراچی)
۴: ان کے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں یہی بات اس طرح نقل کی ہے:’’امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ اپنی سند کے ساتھ عکرمہ سے روایت کرتےہیں:’’ حضرت ابن عباسwبیان کرتے ہیں کہ ابو رافع قرظی نے کہا….انہوں نے کہا اے محمد(ﷺ)کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی اس طرح عبادت کریں جیسے نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم کی عبادت کی تھی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم غیراللہ کی عبادت کرنےسے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں…الخ (تبیان القرآن ۲؍۲۲۵،فریدبک اسٹال لاہور)
۵: ان کے پیرآف بھیرہ کرم شاہ ازہری صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:
’’یعنی جسے انعامات سے سرفراز کیا وہ کسی کو اپنی پرستش اور عبادت کی دعوت نہیں دے گا بلکہ وہ تو سب کو یہی تلقین کرے گاکہ اللہ والے بن جاؤ….یہاں عیسائیوں کو بتایاجارہاہےکہ عیسیٰ uتو نبی تھے۔ وہ اپنے آپ کو خدایا خدا کافرزند کیونکر کہہ سکتے ہیں۔‘‘(ضیاء القرآن ۱؍۴۴۷)
۶: پیر سید نصیرالدین گولڑوی صاحب نے لکھا:
’من دون اللہ‘‘ کے اطلاق پر ایک اور قرآنی دلیل
کچھ سطور پہلے ہم نے ایک قاعدہ اور کلیہ بیان کیا کہ جہاں تک کتاب اللہ میں نفی شرک اور اثباتِ توحیدکا بیان ہورہاہووہاں غیراللہ یا’من دون اللہ‘‘ کے الفاظ میں ہر وہ شے اور ہر وہ شخصیت آجاتی ہے، جس کی عبادت کی جاتی ہو، کی جارہی ہو یا کیے جانے کاامکان ہو، چاہے وہ اصنام ہوں یا برگزیدہ بندے، اور اس پر ہم نے سورۂ مائدہ کی ایک آیت بطورِ شہادت پیش کی….اب ذیل میں ایک اور آیت مع ترجمہ اور شانِ نزول درج کی جارہی ہے ۔‘‘(اعانت واستعانت ،ص:۱۰۴)
اس کے بعد گولڑوی صاحب نے درج بالاآیت(آل عمران:۷۹) نقل کی اور تفسیر خازن کے حوالے سے ابورافع یہودی کا اعتراض اور جواب نقل کیا جسے مرادآبادی ،نعیمی اور سعیدی وغیرہ بھی بیان کرچکے ہیں۔(حوالہ بالا،ص:۱۰۴،۱۰۵)
قارئین کرام! آیت مبارکہ اور فریق ثانی کے نصف درجن اکابر کی تفاسیر وتوضیحات آپ کے سامنے ہیں۔ اس آیت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ انسان جنہیں اللہ عزوجل نےنبوت سے سرفراز فرمایاان میںسے ہر ایک نبی نے اللہ کے بندے بننے کی دعوت دی، کسی ایک نے بھی یہ دعوت نہیں دی کہ ’’میرے بندے بن جاؤ اللہ کے سوا‘‘
معلوم ہوا کہ تمام انبیاء o’من دون اللہ‘‘ ہیں ،اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہرہرنبی کو’من دون اللہ‘‘ ہی کہا ۔اگر یہ کہنا ان کی گستاخی ہوتی یا اس میں انبیاء oکی توہین کاکوئی پہلو ہوتا(نعوذباللہ) تو اللہ تعالیٰ قطعا ایسا نہیں فرماتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ تو انبیاء oپر ایمان لانے اور ان کے احترام کاحکم دیتا ہے، تو ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہے کہ جس سے انبیاءoکی گستاخی لازم آتی ہو،کلاوفلا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان تفاسیر کے مطابق جب یہود نے یہ تہمت لگائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سےاپنی عبادت چاہتے ہیں(نعوذباللہ) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس چیز سے کہ ’’غیراللہ کی عبادت کاحکم دوں۔نصیر الدین گولڑوی صاحب نے ’’نکتہ دقیقہ‘‘ کے عنوان سے تفصیلی کلام کرتے ہوئے یہ بھی لکھا:
’’یہاں آپؐ نےلفظ غیراللہ اپنے لئے ہی استعمال فرمایا اور متعدد تفاسیر کے حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت محولہ بالامیں ما کان لبشر سے مراد حضرت عیسیٰ uاور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘(اعانت واستعانت،ص:۱۱۱)
الغرض کہ یہ ’’شان نزول‘‘ نقل وبیان کرنے والے جملہ بریلویہ نے اس بات کو تسلیم کرکے یہ اعتراف کرلیاکہ افضل الخلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی’من دون اللہ‘‘ یعنی’’غیراللہ‘‘میں داخل ہیں، گولڑوی صاحب تو ویسے بھی اس بات کے منکر نہیں تھے۔
قارئین کرام! آپ دیکھ سکتےہیں کہ نعیمی صاحب نے’’جاء الحق ‘‘ میں تو اولیاء کو’من دون اللہ‘‘ میںشامل نہیں مانا مگر اپنی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غیراللہ ہوناتسلیم کرگئے۔
اسی طرح غلام رسول سعیدی صاحب نے آیت زیربحث کی تفسیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا’’غیراللہ ‘‘ہونا تسلیم کیالیکن آگے چل کر جلد۶ ص۳۷۴ پر معلوم نہیں انہیں کیا سوجھی کہ لکھ دیا:
’’وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ‘‘کامصداق اصنام اور بت ہیں،انبیاء اور اولیاء نہیں!‘‘
آخر ’’من دون اللہ‘‘ اور’’غیراللہ‘‘ میں معنی ومفہوم کے اعتبار سے کیافرق ہے؟جوسعیدی صاحب کو انکار کی ضرورت پیش آگئی۔ بہرحال پیر آف گولڑہ نصیرالدین صاحب کی سنیے، تفصیلی بحث کے بعد لکھا:’’اب بتایئے کہ ’من دون اللہ‘‘ اور غیراللہ کے الفاظ فقط بتوں کےلئے مخصوص رکھنے اور آیت ردِّ شرک کو زمانہ اولیٰ کے کفار ومشرکین پر ہی منطبق کرنے کی رٹ لگانے والے کہاں تک حقیقت پسند ہیں‘‘(حوالہ بالا،ص:۱۱۱)
عرض ہے کہ ان سے حقیقت پسندی کی توقع قریب قریب عبث ہے۔
دوسری دلیل:اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[وَاِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــہَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ ] اور جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دوخدابنالو اللہ کے سوا‘‘
(المائدۃ:۱۱۶،ترجمہ از احمدرضاخان)
۱: ان کے حکیم الامت احمدیارخان نعیمی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میںلکھا:
’’دون بہت معنی میں آتا ہے، دور،علیحدہ،مقابل،سوا، نہ کہ، غیر یہاں بمعنی سوا ہے۔ کیونکہ کوئی عیسائی یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ الٰہ نہیں صرف حضرت عیسیٰ ومریم الٰہ ہیں آیت بالکل صاف ہے ۔ یعنی اے مریم کے فرزند عیسیٰ کیا ان عیسائی انسانوں سے تم نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی الٰہ مان لینا۔‘‘
(تفسیر نعیمی ۷؍۱۹۲،مطبوع نعیمی کتب خانہ لاہور)
۲: ابوالحسنات قادری صاحب نےاسی آیت کی تفسیرمیں لکھا:
’’اللہ تعالیٰ کا یہ سوال استفہام انکاری کے طور پر ہے یعنی تم نے یہ نہ کہا تھا،اس سے عیسائیوں کوشرمندہ کرنامقصود ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے…یعنی اےمریم کے فرزند عیسیٰ علیہ السلام ان عیسائی انسانوں سے تم نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو الٰہ مان لینا۔‘‘
( تفسیر الحسنات ۲؍۲۷۱)
۳: پیر نصیرالدین گولڑوی صاحب نے اسی آیت کے تحت لکھا:
’’قیامت کے دن…اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھے گا کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے علاوہ مجھے(عیسی کو) اور میری ماں مریمؐ کو معبود بناکر پوجو؟ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ اور مریم علیھما السلام کے لئے لفظ من دون اللہ استعمال فرمارہا ہے۔‘‘
(اعانت واستعانت ،ص:۱۰۰)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے جلیل القدر رسول سیدنا عیسیٰ اور ان کی والدہ ماجدہ مریمiجن کی نیکی ،تقویٰ اور صالحیت کی گواہی قرآن مجید میں موجود ہے ،کو اس آیت مبارکہ میں ’’من دون اللہ‘‘ ہی کہا۔ فریق ثانی کے علماء نے بھی اپنی تحریرات میں اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ تو یہ کہنا کس طرح درست ہے ہوسکتاہے کہ انبیاء oاور اولیاء عظام ’’من دون اللہ‘‘ میں داخل نہیں، اگر ’’من دون اللہ‘‘ میں داخل نہیں (نعوذباللہ) تو پھر ان کی عبادت بھی باطل نہ ہوئی؟ پھر ان کی عبادت کرنے والوں کی مذمت کاکیامطلب!!!ان کے خود ساختہ خیالات کے مطابق وہ بھی تو اللہ ہی کی عبادت کررہے ہیں ’’من دون اللہ‘‘کی عبادت تو نہیں کررہے !
(جاری ہے)

About ابوالاسجد محمد صدیق رضا

Check Also

المھند کے دفاع کا علمی جائزہ بجواب المھند پر اعتراضات کا علمی جائزہ

گھمن صاحب کی تیسری خیانت  قارئین کرام! گھمن صاحب نےا پنی اس کتاب کے ص:۵۳پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے