Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ فروری » اللہ جل وعلا عرش پر مستوی ہے

اللہ جل وعلا عرش پر مستوی ہے

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول ﷲ (صلی اللہ علیہ وسلم) وبعد!
قارئین کرام! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف نے اسلام آباد کے جنوب میں ایک سوبیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کٹاس ارج مندر کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ :
وہ دن دور نہیں، جب پاکستان کو عالمی سطح پر اقلیت دوست ملک کے طور پر پہچاناجائے گا، میں صرف مسلمانوں کا نہیں پورے پاکستان کاوزیراعظم ہوں، اقلیتوں کی حفاظت اور انہیں مساوی حقوق دینا ہمارے ایمان کاحصہ ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے پنجابی شاعری کاسہارالیتےہوئے ،اپنےخیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
مندر ڈھادے، مسجد ڈھادے، ڈھادے جو کچھ ڈھیندا
پردل نہ کسے داڈھاویں بندیا، رب دلاں وچ رہندا
(روزنامہ امت کراچی13جنوری2017ء)
جہاں تک وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف کے اقلیت کے حوالہ سے اظہار خیال کا تعلق ہے تو ہمارا بھی یہی مؤقف ونظریہ ہے کہ تمام اقلیتوں کا مکمل تحفظ اور انہیں مساوی حقوق دینا ریاست کی ذمہ داری ہے باقی رہی بات یہ کہ انہوں نےبھرے مجمع میں جو شعر پڑھا ہے اس سے صوفی نظریے وحدت الوجود کااظہار ہورہا ہے، جو کہ سراسرقرآن وحدیث سے متصادم عقیدہ ہے، قرآن وحدیث کے دلائل سے الم نشرح ہےکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ذات کے اعتبار سے عرش پر مستوی ہے، ہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات، سمع،بصر،قدرت وغیرہ پوری کائنات کو گھیرے ہوئے ہیں اور اس کی کیفیت کا علم بھی باری تعالیٰ کوہی ہے۔
سب سے پہلے وحدت الوجود کے حوالے سے چنداقوالِ صوفیہ ملاحظہ ہوں:
.1مثنوی مولانا رومی میں ہے:

گرنہ بودے ذات حق اندر وجود

آب وگل را کے ملک کردے سجود

یعنی آدم uکےاندراللہ تھا، تبھی تو فرشتوں نے ان کی طرف چہرہ کرکے سجدہ کیا ورنہ وہ محض پانی ومٹی کو سجدہ کرنے والے نہ تھے۔
.2شاہ بھٹائی کی کتاب’’شاہ جو رسالو‘‘ صفحہ:۳۶میں ہے کہ:
پائی کان کمان م میان مارمَ مون مون م آھین تون متان تنھنجوئی تو کی لگی.
یعنی:(اللہ کومخاطب کرتا ہے کہ) تیر کمان میں ڈال کر مجھے مت مار(اس لئے کہ) میرےاندرتو، توہی ہے لہذا مارے گا توتجھے ہی لگے گا۔
.3اسی طرح خواجہ غلام فرید ،دیوانِ فرید،ص:۶۱،۶۲میں دنیا میں موجود بے شمار اچھی بری اشیاء کا نام لیکر کہتا ہے کہ ان میں اللہ ہے۔(نعوذباللہ)
.4اور کتاب قبرپرستی،ص:۶۸بحوالہ اضواء التوحید ،ص:۱۰۴،۱۰۵میں ایک شعر اس طرح درج ہے:

شریعت کا ڈر ہے نہیں توصاف کہہ دوں

حبیبِ خدا خود خدا بن کے آیا

وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر

اتر پڑا مدینہ میں مصطفے ہو کر

.5اسی کتاب ،قبرپرستی ،ص:۶۹بحوالہ اضواء التوحید ،ص:۱۱۳میں مذکور صوفیاء کا ایک اور شعر ملاحظہ ہو:

چاچڑ وانگ مدینہ ڈِسے

کوٹ مٹھن بیت اللہ

ظاہر دے وچ پیر فریدن

باطن دے وچ اللہ

.6اور شمائم امدادیہ (حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی ملفوظات )ص:۷۵میں ہے کہ :
کسی گرو کا چیلہ توحیدوجودی میں مستغرق تھا، راستے میں ایک فیل مست ملا، اس پر فیل بان پکارتا آتھا تھا کہ یہ ہاتھی مست ہے، میرےقابو میں نہیں ہے، اس چیلے کولوگوں نے بہت منع کیامگر اس نے نہ مانا اور کہا کہ’’وہی تو ہے اور میں بھی وہی ہوں، خدا کو خدا سے کیاڈر‘‘
مذکورہ بالاحوالہ جات سے معلوم ہوا کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں محولہ بالاشعرپڑھ کر اسی طبقہ کی ترجمانی کی ہے جبکہ قرآن وحدیث کی نصوص اس عقیدہ کارد کرتی ہیں۔
قارئین کرام! اب اللہ تبارک وتعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے متعلق قرآن وحدیث کی نصوص ملاحظہ فرمائیں:
.1سورۂ اعراف ،یونس،رعد، طہ، فرقان، سجدہ، حدید ان سب میں یہ جملہ موجود ہے :[ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ]یعنی :پھر وہ (اللہ تعالیٰ) عرش پر مستوی ہوا۔
.2سورۂ فاطر میں ہے:
[اِلَيْہِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُہٗ۝۰ۭ ](فاطر:۱۰)
یعنی :تمام ترپاکیزہ کلمات اسی کی طرف چڑھتے(بلند ہوتے)ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتاہے۔
پاکیزہ کلمات اور نیک اعمال کااللہ تعالیٰ کی طرف اوپربلند ہونا،بتلارہاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نیچے، ہرمخلوق میں نہیں بلکہ بلند وبالا،عرش پر مستوی ہے۔
.3یہی استواء علی العرش کاعقیدہ قرآن مجید میں ایک اورانداز سے یوں مذکور ہے:
[تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَيْہِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَۃٍ۝۴ۚ ](المعارج:۴)
اسی کی طرف چڑھتے(بلند ہوتے) ہیں فرشتے اور جبریل ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں جابجا اللہ تبارک وتعالیٰ کے مندرجہ ذیل اسماء حسنیٰ مذکور ہیں:
.4وھو العلی العظیم(اور وہ بلند اورعظمت والاہے) وھو العلی الکبیر(اور وہ بلند اور کبریائی والاہے) انہ علی حکیم( بیشک وہ بلند حکمت والاہے)
قرآن مجید میں مذکور استواء علی العرش کے اس عقیدہ کو پیارے پیغمبرﷺ نے بھی اپنے مبارک فرامین میں بیان فرمایاہے۔
ملاحظ ہو:
.1قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:الراحمون یرحمھم الرحمن ارحموا اھل الأرض یرحمکم من فی السماء.(ابوداؤد)
یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ترس کھانے والوں پر رحمٰن رحم کرتا ہے(لہذا) تم اہل زمین پر ترس کھاؤتو وہ جوآسمان میں ہے تم پر رحم کرے گا۔
.2قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :ان ربکم حیی کریم یستحیی من عبدہ اذا رفع یدیہ الیہ فیردھما صفرا.(ابوداؤد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بیشک تمہارا رب حیادارکریم ہے وہ اپنے بندے سے حیاء کرتا ہےکہ اس کابندہ اس کی طرف ہاتھ بلند کرے اور وہ اس کے ہاتھوں کوخالی لوٹادے۔
دعاکرتے وقت بندے کا ہاتھوں کو بلندی کی طرف اٹھانا بتلارہا ہے کہ استواء علی العرش کا عقیدہ ،انسان کی فطرت میں موجودہے۔
.3ام المؤمنین زینب بنت جحش rکا رسول اللہﷺ کے ساتھ نکاح اللہ نے آسمان پرکرایا(سورۃ الاحزاب) سیدہ زینب اس بات کااظہار ان الفاظ میں کیاکرتیں:
ان اللہ انکحنی فی السماء.(بخاری،کتاب التوحید)
یعنی: بیشک اللہ نے میرانکاح آسمان میں کرایا۔
دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
زوجکن اھالیکن وزوجنی اللہ فوق سبع سماوات.
یعنی: (اے ازواج مطہرات) تمہاری(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) شادیاں تمہارے گھروالوں نے کرائیں اور میری شادی اللہ نے سات آسمانوں سے اوپرکرائی۔
مذکورہ بالاتمام نصوص سےا ظہر من الشمس ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات عرش پر مستوی ہے نہ کہ نیچے زمین پر اور ہر مخلوق میں۔
قارئین کرام!استواء علی العرش کاعقیدہ ہرمخلوق کی فطرت میں ہے جیسا کہ یہ بات سنن دارقطنی کی مندرجہ ذیل حدیث سے عیاں ہے:
.4قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :خرج نبی من الانبیاء یستسقی فاذا ھو بنملۃ رافعۃ بعض قوائمھا الی السماء.
(ایک اور روایت کے الفاظ ہیں)وتقول :أللھم انا خلق من خلقک لیس بنا غنی عن سقیاک.
یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: انبیاء میں سے ایک نبی بارش طلب کرنے نکلے، اچانک ان کی نظر ایک چیونٹی پر پڑی، وہ اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھی اور کہہ رہی تھی:یااللہ! ہم تیری مخلوق ہیں، ہم تیری بارش سے مستغنی نہیں ہوسکتے، یہ دعا سنتے ہی وہ نبی اپنے مصاحبین سے فرمانے لگے:ارجعوا فقد استجیب لکم من اجل شان النملۃ.یعنی: واپس چلوچیونٹی کی طلبِِ بارش کی دعاقبول کرلی گئی ہے۔
معلوم ہوا چیونٹی جیسی چھوٹی دماغ والی مخلوق بھی اسی فطری عقیدے کی حامل ہے جبکہ صوفی حضرات کادماغ اس عقیدہ کو قبول کرنے سے قاصر ہے اور وزیراعظم جناب نواز شریف صاحب دانستہ یانادانستہ ان کی ترجمانی کررہےہیں۔
آخر میں ہم وزیراعظم پاکستان سے گذارش کریں گے کہ اپنا عقیدہ قرآن وحدیث کے مطابق بنائیں، اس کیلئے قرآن وحدیث کا مطالعہ کریں۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ جلاوطنی کے دور میں ۹سال تک جس ملک کے باسی تھے وہاں کے علماء وعوام کا بھی وہی عقیدہ ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہےیعنی اللہ تبارک وتعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور وہ زمین وآسمان میں موجود تمام مخلوقات کو دیکھ اور سن سکتا ہے اور ان کی نصرت واعانت، سزاوعذاب پر قادر ہے۔
آخر میں استاذ العلماء فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصررحمانیdکی کتاب’’توحید-حقیقت،ضرورت،اہمیت، فضیلت کے صفحہ :91,92سے ایک اقتباس ملاحظ ہو:
حافظ ابونصر السجزیa(کتاب الإبانۃ) میں فرماتے ہیں:
ہمارے تمام ا ئمہ کرام،جیسے:سفیان ثوری،مالک بن انس،سفیان بن عیینہ، حماد بن سلمہ،حماد بن زید،عبداللہ بن مبارک، فضیل بن عیاض،احمد بن حنبل اور اسحٰق بن راھویہSمتفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ اپنے عرش پر مستوی ہے،اور اس کاعلم پوری کائنات کو گھیرے ہوئے ہے۔(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ۳؍۲۶۲)
ان اسماء حسنیٰ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عقیدوں کا جائزہ لیجئے،کیاہمارا اللہ تعالیٰ کے ان مبارک ناموں(العلی،الأعلیٰ،المتعال)اور ان سے حاصل ہونے والی صفتِ علو پر ایمان ہے؟کیا ہم اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ حاضرتو نہیں مانتے؛ کیونکہ حاضر ہونے کامعنی :بذاتہ کہیں موجود ہونا ہے،جبکہ اللہ تعالیٰ بذاتہ اپنے عرش پر مستوی ہے اور بعلمہ وقدرتہ پوری مخلوق کومحیط ہے؟کیا ہم اللہ تعالیٰ کو مخلوقات میں مختلط تونہیں مانتے؟صوفیہ حلولیہ کے عقیدہ کے مطابق اسے مخلوقات میںحلول اختیارکرنےوالاتو نہیں مانتے؟قائلینِ وحدت الوجود کے عقیدۂ فاسدہ کے مطابق،خالق اورمخلوق کا ایک وجود تونہیں قرار دیتے؟
اگرایسا ہے تو آپ نے اسماء حسنیٰ(العلی،الأعلیٰ،المتعال)کوماناہی نہیں، ان ناموں سے حاصل ہونے والی صفتِ (علو ) کو تسلیم کیاہی نہیں،یہ فاسد عقیدہ،توحید کا وہ اختلال ہےجوتمام اعمال کے اکارت جانے کا موجب ہےاور اخروی وعیدوں کاباعث بھی۔(واللہ المستعان)
شیخ عبدالرزاق ابراہیمی اور محترم نثاراللہ کھوکھر کیلئے دعا کی اپیل
شیخ عبدالرزاق ابراہیمی dمدیرمدرسہ شمس العلوم بدین کی والدہ محترمہ3جنوری2017ء بروز منگل انتقال کرگئیں، انا للہ وانا الیہ راجعون. ان کی نماز جنازہ دوبجے سہ پہر سینہری کھوئی تھرپارکر میں ادا کی گئی۔
بلاشبہ یہ شیخ ابراہیمی کیلئے بہت بڑا صدمہ ہے، ادارہ ماہنامہ دعوت اہل حدیث شیخ عبدالرزاق ابراہیمی سے مسنون تعزیت کرتا ہے اور قارئین سے ان کیلئے صبرجمیل اور ان کی والدہ کیلئے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا کی اپیل کرتا ہے۔
گلشن حدید کے مخلص جماعتی محترم نثاراللہ کھوکھر dعرصہ دوماہ سے شدید علیل ہیں، لیاقت نیشنل اسپتال کراچی میں ان کی ٹانگ کا آپریشن ہوا ہے۔آج کل گھر میں صاحبِ فراش ہیں۔ قارئین سے ان کی صحتیابی کیلئے دعا کی پرزور اپیل ہے۔

About شیخ ذوالفقارعلی طاہررحمہ اللہ

.سابق ناظم امتحانات جمعیت اہل حدیث سندھ اور ایڈیٹر دعوت اہل حدیث اردو مجلہ ٣ جنوری ٢٠١٨ کو ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے ‏اللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا، كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وأبدله داراً خيراً من داره، وأهلاً خيراً من أهله، وزوجاً خيراً من زوجه، وأدخله الجنة، وأعذه من عذاب القبر، ومن عذاب النار

Check Also

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے

کاوش : شیخ عبداللہ محمدی (مدرس : مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث ،ساماروموری) خطبہ مسنونہ کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے