Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ فروری » بدیع التفاسیر قسط 188

بدیع التفاسیر قسط 188

۔ قسط 188 ۔۔۔ احسن الکتاب فی تفسیر ام الکتاب

پانچویں فصل:
اہل کتاب سے منقول روایات کابیان
بخاری شریف میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاصwسے مرفوع روایت مروی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ:
حدثوا بنی اسرائیل ولاحرج ومن کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار.(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء،باب ما ذکر عن بنی اسرائیل :۳۴۶۱)
یعنی تم بنی اسرا ئیل سے روایتیں نقل کرسکتے ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جو مجھ پر جانتے بوجھتے جھوٹ گھڑے گا اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں جان لینا چاہئے۔
حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر ۱؍۴میں یہ حدیث لاکرفرماتے ہیں:
"وَلَكِنَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ الْإِسْرَائِيلِيَّةَ تُذكر لِلِاسْتِشْهَادِ، لَا لِلِاعْتِضَادِ. فَإِنَّهَا عَلَى ثَلَاثَةِ أَقْسَامٍ: أَحَدُهَا: مَا علمنا صحتَه مما بأيدينا مما نشهدُ لَهُ بِالصِّدْقِ، فَذَاكَ صَحِيحٌ. وَالثَّانِي: مَا عَلِمْنَا كذبَه بِمَا عِنْدَنَا مِمَّا يُخَالِفُهُ. وَالثَّالِثُ: مَا هُوَ مَسْكُوتٌ عَنْهُ، لَا مِنْ هَذَا الْقَبِيلِ وَلَا مِنْ هَذَا الْقَبِيلِ، فَلَا نؤمِنُ بِهِ وَلَا نُكَذِّبُهُ، وتجوزُ حكايتُه لِمَا تَقَدَّمَ. وغالبُ ذَلِكَ مِمَّا لَا فَائِدَةَ فِيهِ تعودُ إِلَى أمرٍ دِينِيٍّ. وَلِهَذَا يَخْتَلِفُ عُلَمَاءُ أَهْلِ الْكِتَابِ في مثل هَذَا كَثِيرًا، وَيَأْتِي عَنِ الْمُفَسِّرِينَ خلافٌ بِسَبَبِ ذلك. كما يَذكرون في مثل أَسْمَاءَ أَصْحَابِ الْكَهْفِ وَلَوْنَ كَلْبِهِمْ وعِدّتهم، وَعَصَا موسى من أيِّ شجر كَانَتْ؟ وَأَسْمَاءَ الطُّيُورِ الَّتِي أَحْيَاهَا اللَّهُ لِإِبْرَاهِيمَ، وَتَعْيِينَ الْبَعْضِ الَّذِي ضُرِبَ بِهِ القتيلُ مِنَ الْبَقَرَةِ، وَنَوْعَ الشَّجَرَةِ الَّتِي كلَّم اللَّهُ مِنْهَا مُوسَى إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا أَبْهَمَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْقُرْآنِ، مِمَّا لَا فَائِدَةَ فِي تَعْيِينِهِ تَعُودُ عَلَى الْمُكَلَّفِينَ فِي دُنْيَاهُمْ وَلَا دِينِهِمْ. وَلَكِنَّ نقلُ الْخِلَافِ عَنْهُمْ فِي ذَلِكَ جَائِزٌ.
یعنی اسرائیلی روایات بطور تائید وشہادت ذکر کی جاسکتی ہیں مگر ان سے دلیل نہیں لی جاسکتی ایسی روایات کی تین صورتیں ہیں: 1جن روایات کاصحیح ہونا ہمیں معلوم ہو یعنی وہ قرآن وحدیث کے موافق ہوں2جو روایات قرآن وحدیث سے متصادم ہوں ان کا جھوٹا ہونا ظاہرہے 3تیسری وہ قسم ہے جنہیں ہم نہ سچا کہہ سکیں اور نہ جھوٹا قرار دے سکیں ،قرآن وحدیث سے نہ ان کی تائید ہوتی ہو اور ہی تردید۔ ایسی روایات کوصرف حکایت کے طور پر بیان کیاجاسکتا ہے لیکن حجت قرار نہیں دیاجاسکتا، ان روایات کا کوئی خاص دینی فائدہ بھی نہیں ہوتا، مثلاً: اصحاب الکھف کے نام اور ان کے کتے کا رنگ کیا تھا، موسیٰuکا عصا(لاٹھی) کس درخت کی لکڑی کاتھا، جوپرندے ابراھیمuکی آواز پر زندہ ہوئے وہ کونسے تھے؟ جس درخت کے پاس موسیٰuاللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے وہ کونسا تھا؟ یہ اور اس قسم کی دیگر باتیں جن کے معلوم کرنے کا کوئی دینی فائدہ نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انہیں ظاہر نہیں کیا بلکہ مبہم رکھا ہے ،ایسی روایات حجت لینے کے قابل نہیں کیونکہ ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، بلکہ خود علماء اہل کتاب ان پر متفق نہیں ،اس حوالے سے ان میں بھی باہم کافی اختلاف موجود ہے۔
ناظرین! عام خطباء وواعظین کایہی طریقہ کار ہوتا ہے کہ وہ اکثر اسرائیلی روایات اور ان سے منقول سابقہ انبیاء اور ان کی امتوں کے عجیب وغریب قصے بیان کرتے ہیں جن کی کوئی بھی بنیاد نہیں ہوتی، ایسے واقعات سے ہدایت وراہنمائی کے بجائے عوام الناس گمراہ ہوتے رہتے ہیںبلکہ ان قصوں سے انبیاء کی توہین کے پہلو نکلتے ہیں اور ان کی طرف ایسے نامناسب کام منسوب کردیئے جاتےہیں جن کی نسبت ایک ادنیٰ مسلمان کی طرف کرنا بھی جائز نہیں ہے،مثلاً:داؤد u پر اوریا کی بیوی پر عاشق ہونے کا بہتان،سلیمانuکی طرف انگوٹھی کی طاقت سے ملک (بادشاہی) چلانے کی خطرناک اورجھوٹی نسبت، زکریاuپر درخت سے پناہ مانگنے کی عظیم تہمت، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاء جن کی زندگی مخلوق کے لئے مثالی اور واجب الاتباع ہوتی ہے انہیں شرک، کفر اور فسق جیسے بدترین گناہوں میں ملوث کیاجاتا ہے ، ایسے واقعات کی تردید تفسیر میں اپنے مقام پر آئے گی۔ ان شاء اللہ
یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ یہ واعظی مولوی حضرات نہ تحقیق کرتےہیں نہ روایت کی سند پر غور کرتےہیں کہ اس کے رواۃ ثقہ ہیں یا ضعیف، روایت معتبر ہے یاغیرمعتبر بلکہ بڑی بے باکی سے نقل کرتے رہتے ہیں، امت میں اکثر فتنوں کاباعث اسی قبیل کے مولوی ہیں، اس لئے کسی روایت کو بیان کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ روایت پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہےیانہیں؟ چنانچہ صحیح مسلم ،المقدمۃ باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع،ح:۵میں سیدنا ابوھریرہtسے حدیث مروی ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفی باالمرء کذبا ان یحدث بکل ماسمع.
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: کسی شخص کےجھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیرتحقیق کے) آگے بیان کرتا رہے۔ یعنی وہ یہ تحقیق ہی نہ کرے کہ جو روایت میں بیان کررہاہوں وہ ثابت بھی ہے یا نہیں، نیز دوسری حدیث میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اتقوا الحدیث عنی الاماعلمتم فمن کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار.(مشکاۃ، ص:۳۵جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ ،ح:۲۹۵۱)
یعنی میری وہی حدیث پیش کرو جس کو تم جانتے (یعنی اس کے صحیح ومعتبر ہونے کاتمہیں یقین ہو،کہیں میری طرف جھوٹی یا غلط نسبت نہ ہوجائے) کیونکہ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ گھڑا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں جان لے۔
چھٹی فصل:
صوفیوں کی تفسیر کابیان
اس کے لئے بھی وہی قاعدہ ہے کہ ان کی تفسیر قرآن،حدیث ، صحابہ کرامyکی تفسیر کے خلاف نہ ہو اسی طرح لغت عربیہ وعقائد اسلامیہ سےمتصادم نہ ہو تودوسری تفاسیر کی طرح قابل قبول ہوگی، مگر اکثر وبیشتر ان کی تفسیر کسی دلیل پر مبنی نہیں ہوتی، بلکہ زیادہ تر ذہنی تخیلات واوہام پر مبنی ہوتی ہے، لیکن ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ انہیں یہ تفسیر بذریعہ الہام معلوم ہوئی ہے حالانکہ باتفاق اہل علم الہام نہ تو کوئی حجت ہے اور نہ دلیل چنانچہ علماء حنفیہ کے عقائد کی کتاب شرح عقائد نسفیہ ،ص:۱۵ میں ہے کہ:
والالھام المفسر بالقاء المعنی فی القلب بطریق الفیض لیس من اسباب المعرفۃ بصحۃ الشیٔ عند اہل الحق.
یعنی الہام جسےصوفی قلبی او ر اندرونی فیض کہتےہیں،اہل حق کے نزدیک ایسا علم کسی چیز کی حقانیت وصحت معلوم کرنے کاطریقہ وذریعہ نہیں ہے۔
ایسے مفسرین قرآن مجید کے ایسے معانی بھی کرتےہیں جن سے اسلامی عقائد کو سخت نقصان پہنچتاہے اور کتنے ہی شرعی احکام معطل وباطل ہو کر رہ جاتے ہیں،ان مفسرین میں ابوالحسن محمد بن حسین السلمی الصوفی بھی ہیں جن کیلئے مشہور ہے کہ وہ صوفیوں کی تائید کے لئے احادیث گھڑتے ہے۔(میزان الاعتدال للذھبی ۳؍۴۹)
اس کی تفسیر کے بارے میں محدث ابن الصلاح اپنے فتویٰ میں مفسر ابوالحسن الواحدی سےنقل کرتے ہیں کہ:
صنف ابوعبدالرحمٰن السلمی حقائق التفسیر فان کان قد اعتقد ان ذالک تفسیر فقد کفر.
(مجموعۃ الرسائل المنیریہ ۳؍۴۹)
یعنی جو کچھ اس نے اپنی کتاب حقائق التفسیر میں لکھا ہے اگر وہ اس بارے میں تفسیر قرآن کا اعتقاد رکھتا ہے تو وہ کافر ہوچکا۔
نیز شیخ ابن عربی حاتمی کی تفسیر بھی عجیب تاویلات سے بھرپور ہے جن میں سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے ،سورۂ حجر کے آخر میں تفسیر کرتے ہوئے لکھتاہے :
وکن من الساجدین سجود الفناء فی ذاتہ واعبد ربک بالتسبیح والتحمید والسجود المذکورۃ حتی یأتیک حق الیقین فتنتھی عبادتک بالقضاء وجودک فیکون ھو العابد والمعبود جمیعا لاغیرہ .
(تفسیر ابن عربی برھامش عراش البیان ۱؍۵۶۲)
یہاں سجدہ سے مراد فنا فی الذات لیتا ہے۔ عبادات کو معطل کرنے کیلئے صوفیوں کا یہی حیلہ ہے نیز یقین سے مراد حق الیقین کا درجہ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس درجہ پر پہنچنے کے بعد عبادت مکمل ہوگئی اور یہ وجود ختم ہوچکا اور عابد ومعبود ایک ہوگئے یعنی وہی عابد وہی معبود بن گیا ،نعوذباللہ من ذالک. ملتانی شاعر خواجہ غلام فرید نے ابن عربی کی تعلیمات کی ترجمانی کچھ اس انداز سے کی ہے:
ملواٹے دے وعظ نہ بھاٹے

بیشک اساندا دین ایماٹے
ابن العربی دی دستور
عاشق ست مدام مدامی

کہہ سبحانی بن بسطامی
آکھ انا الحق تھسی منصور
حسن پرستی عین عبادت

شاہد مستی صرف سعادت
غیبت غفلت محض حصور
ریت فرید دی پٹھری ساری

رھندا صوم صلا توں عاری
رندی مشرب ہے مشہور
(دیوان فرید،ص:۷۲)
اسی طرح عرائش البیان فی حقائق القرآن مصنفہ روزبھان بقلی شیرازی بھی مجموعہ لغویات ہے،چنانچہ آیت ثم استوی علی العرش (الرعد) کی تفسیر میں لکھتا ہے:
ثم استوی انوار تجلیہ علی عرش القلوب . (۱؍۴۵۴)
یعنی اللہ تعالیٰ کے نور کی تجلیات دلوں پر پڑیں، یہ تفسیر نص قرآنی، احادیث متواترہ، اجماع الصحابہ والتابعین وجمیع سلف صالحین کے سراسر خلاف ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت استواء علی العرش کا انکار کیا گیا ہے ،جس کابیان تمام آسمانی کتب میں مذکور ہے ،اللہ تعالیٰ کی صفتِ کو تمام رسولوں نے بیان کیا ہے، جیسا کہ سید عبدالقادرجیلانی نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین ۱؍۵۷میں ذکر کیا ہے، اسی طرح مذکورہ تفسیر میں اللہ تعالیٰ کے عرش کا بھی انکار ہے جس کاذکر کئی قرآنی آیات اور بے شمار احادیث میں ہے، اس کے علاوہ بھی کئی مفاسد اس تفسیر میں موجود ہیں۔
(جاری ہے)

About شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ

جمعیت اہل حدیث سندھ کے بانی ومئوسس شیخ العرب والعجم سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ ہیں جوکہ اپنے دور کے راسخین فی العلم علماء میں سے تھے بلکہ ان کے سرخیل تھے۔ صوبہ سندھ میں موجود فتنوں ،فرقوں ،ضلالتوں،تقلیدجامد اور ان کی نشاطات کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس صوبہ کو اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بنالیاتھا۔

Check Also

مقدمہ بدیع التفاسیر(قسط نمبر:221)

نعم:یہ فعل انشاء ہےجو کہ مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ غیر منصرفہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے