Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ فروری » سیرت طیبہ سےقیادت کے سنہری اصول

سیرت طیبہ سےقیادت کے سنہری اصول

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ایک مسلمان کیلئے آئیڈیل ونمونہ ہے، زندگی کا وہ کونسا شعبہ ہےجس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی زندگی کا مکمل نمونہ نہ دیاہو۔چاہےوہ ایمان وعمل ہو، لین دین ہو، معیشت واقتصادیت ہو معاملات ہوں یا پھر قیادت وسیادت ہو۔
آج وطن عزیز جن مشکل حالات سے گزررہا ہے یہ سب ہمارے سیاسی لیڈروں کی نااہلی، ناانصافی، عدم برداشت اور اپنی عوام کو دھوکہ دینے کی وجہ سے ہے۔
جب ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی اور بطور حکمران کے، آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتےہیں تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1400سال پہلے اپنی امت کو اس راہ کی بھی مکمل رہنمائی فرمادی تھی اور کسی طرح بھی اپنی امت کو اندھیروں اورضلالتوں میں نہیں چھوڑا۔
اور اپنی امت کیلئے ریاست کےتمام ذمہ داروں، عہدیداروں، حکمرانوں کیلئے وہ سنہری اصول چھوڑے ہیں کہ قیامت تک آنے والے امراء اور ذمہ دار اگر ان اصولوں کو سمجھ لیں اور اپنالیں تو وہ کامیاب حکمران ثابت ہوسکتے ہیں۔
آیئے اب سیرت طیبہ کے اس حصے کامختلف پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں۔
mرعایا میں بھائی چارہ قائم کرنا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی نئی کمزور ریاست کی ابتداء میں مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت، بھائی چارے کےعظیم رشتے کو پرویا۔
کسی بھی ریاست کی مضبوطی کیلئے اس ریاست کے افراد کی آپس میں محبت اورہم آہنگی بنیادی شرط ہے۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:[وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِيْحُكُمْ ](الانفال:۴۶)
’’اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم ہمت ہار بیٹھوگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘
کسی بھی ریاست کی ترقی وفلاح ،آپس کی محبت اور اتحاد میں مضمر ہے اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو ایک ہی لڑی میں پرودیا اور ذات پات، قوم وقبیلہ کے فرق کو مٹادیا۔
اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات اور مواقع پر مسلمانوں سے اسلامی اخوت کاحق بھی بیان فرمایا،انہیں باہم تعاون وتناصر، اتحاد ویگانگت اور غمگساری وخیررسانی کی ترغیب بھی دی، یہاں تک کہ یہ اخوت تاریخ کی سب سے بلندچوٹی تک پہنچ گئی۔
mیہود کے ساتھ معاہدے:
شروع میں یہود کے ساتھ معاہدے کئے،ان کےشر سے بچنے کیلئے، کیونکہ یہ نئی ریاست ابھی جنگ نہیں کرسکتی تھی، اس معاہدے کے چند خاص خاص نکات ،حسب ذیل ہیں:
1یہود مسلمانوں کے ساتھ ایک امت ہونگے، ان کیلئے ان کادین ،اور مسلمانوں کیلئے مسلمانوں کادین ہوگا،ا ن کے ذمے ان کاخرچہ ہوگا اور مسلمانوں کے ذمے مسلمانوں کا۔
2اس معاہدے کے شرکاء کے درمیان خیرخواہی، خیر اندیشی اور فائدہ رسانی کے تعلقات ہونگے، گناہ کے نہیں۔
3یہ معاہدہ کسی ظالم یامجرم کیلئے آڑ نہیں بنےگا۔
اس عہد وپیماں کے ذریعے یثرب کے سارے باشندے مسلمان، مشرکین، اور یہود ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ ہو گئے، مدینہ اور اس کے اطراف کو ملا کر ایک آزاد وخودمختار حکومت قائم ہوگئی جس میں کلمہ مسلمانوں کانافذ تھا اور جس کے سربراہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
mمعاہدہ حدیبیہ:
معاہدہ حدیبیہ سخت اور کڑوی شرائط کے ساتھ طے ہوا، جوبظاہر مسلمانوں کے حق میں نہیں تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس صلح کےنتائج سے واقف تھے جس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کرلی۔
سیدناعمرtنے ان سخت شرائط پرآواز بھی اٹھائی اور اپنی بے چینی اور اضطراب کااظہار بھی کیا لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ جواب دیا،’’میں اللہ کارسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا، وہ میری مدد کرےگا اور مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو فتح مبین بنادیا۔
اس صلح کے نتائج:
1معاہدہ حدیبیہ تک مسلمانوں کے لشکر کی تعداد1400تھی لیکن اس معاہدے کے بعد فتح مکہ تک یہی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔
2اب مسلمان کئی محاذوں کے بجائے صرف ایک ہی محاذ یعنی یہود سے لڑنے کیلئے مستعد ہوگئے۔
3داعی اور مبلغین اب کھل کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگے، قریش کی طرف سے رکاوٹ کاخطرہ ٹل گیا۔
4یہود اور قریش کاخندق کےموقعے پر جواتحاد ہواتھا معاہدہ حدیبیہ کے بعد دونوں دشمنوں کاآپس میں اتحاد کرنا ممکن نہ رہا۔
5مسلمانوں سے معاہدہ کر کے درحقیقت قریش نے مدینے میں مسلمانوں کی ریاست کو تسلیم کرلیا جس سے تمام عرب میں مسلمانوں کی ریاست کی دھاک بیٹھ گئی اور ان کو مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ ہوگیا۔
mجنگی حکمتِ عملی:
احد کی جنگ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جغرافی اعتبار سے جبل رماۃ کی
اہمیت کوخوب سمجھتے تھے اس لئے جنگ سے پہلےاپنے پچاس ساتھیوں کوسخت احکامات دینے کے بعد وہاں کھڑا کیا اور اسی حکم سے روگردانی کی وجہ سے جنگ کاپانسہ پلٹ گیا اور فتح شکست میں بدل گئی۔
غزوہ احد میں نقصان کے بعد دشمن کے تعاقب میں صحابہyکا دستہ روانہ کیا تاکہ دشمن کی فتح کی خوشی ماند پڑجائے اور اسے معلوم ہوکہ نقصان کے باوجود مسلمانوں کے حوصلے ابھی پست نہیں ہوئے بلکہ وہ مستقبل میں زبردست مقابلے کیلئے مستعد ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ فتح کے بعد تین دن تک دشمن کے علاقےمیں پڑاؤ ڈالے رہتے، تاکہ دشمن پر مکمل رعب بیٹھ جائے اور اسے معلوم ہو کہ مسلمانوں کی یہ فتح محض اتفاقی نہیں بلکہ وہ اس فتح کیلئے مکمل قوت اور مضبوطی رکھتے ہیں۔
توریہ: مدینے میں منافقین آستین کے سانپ کی طرح رہ رہے تھے اس لئے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی دشمن کی طرف نکلنے کا ارادہ فرماتے تو اصل ٹارگٹ کوچھپاتے اور اس کے برعکس ہدف کوظاہر کرتے یہی عربی میں توریہ کہلاتاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چندمخصوص ساتھیوں کے علاوہ باقی مسلمانوں کو اصل ہدف کا علم نہیں ہوتا تھا، کیونکہ آپ کے تمام مخلص ساتھی کسی بھی طرف جنگ کرنے کیلئے ہروقت تیار رہتے تھے ، وہ جنگ کا اعلان سنتے ہی اپنی تیاری شروع کردیاکرتے تھے، کعب بن مالکtفرماتےہیں:
’’لم یکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرید غزوۃ الاوری بغیرھا‘‘(صحیح بخاری:2947)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاقاعدہ یہ تھا کہ جب کسی جنگ کا ارادہ کرتے تو اس کو صاف طور پر بیان نہ فرماتے بلکہ توریہ فرماتے۔‘‘
-اکثر سرایہ میں مفضول صحابہ کو افاضل صحابہ پر امیر بنایا اس کے اندر بے شمار مصالح پہناں ہیں۔
mرعایاسےمشورہ:
اللہ تعالیٰ کافرمان:[وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۝۰۠ ] (الشوریٰ:۳۸)
’’اور ان کے(ہر) کام باہمی مشورے سے ہوتےہیں۔‘‘
یعنی اہل ایمان ہر اہم کام باہمی مشاورت سے کرتے ہیں، اپنی ہی رائے کوحرفِ آخر نہیں سمجھتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مسلمانوں سے مشورہ کرو۔(آل عمران:۱۵۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگی معاملات اور دیگر اہم کاموں میں مشاورت کا اہتمام فرماتے جس سے مسلمانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی اور معاملے کےمختلف گوشے واضح ہوجاتے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا۔
صلح حدیبیہ کےموقع پر جب قریش کی طرف سے رکاوٹ کا علم ہوا تو اپنے ساتھیوں سےمشورہ لیا۔
«أَشِيرُوا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيَّ، أَتَرَوْنَ أَنْ أَمِيلَ إِلَى عِيَالِهِمْ وَذَرَارِيِّ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَصُدُّونَا عَنِ البَيْتِ، فَإِنْ يَأْتُونَا كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَطَعَ عَيْنًا مِنَ المُشْرِكِينَ، وَإِلَّا تَرَكْنَاهُمْ مَحْرُوبِينَ»، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَرَجْتَ عَامِدًا لِهَذَا البَيْتِ، لاَ تُرِيدُ قَتْلَ أَحَدٍ، وَلاَ حَرْبَ أَحَدٍ، فَتَوَجَّهْ لَهُ، فَمَنْ صَدَّنَا عَنْهُ قَاتَلْنَاهُ. قَالَ: «امْضُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ»(صحیح البخاری:4178)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:اے لوگو! مجھے مشورہ دو(کہ کیا کرناچاہئے) تمہاری کیا رائے ہے، میں کافروں کےاہل وعیال کو غارت کردوں جوکہ ہمیں بیت اللہ سے روکنے کاارادہ رکھتےہیں، اگر وہ ہمارا مقابلہ کرینگے تو اللہ بڑا بزرگ وغالب ہے، جس نے جاسوس کو مشرکین کے شر سے بچالیا اور اگر وہ ہمارا مقابلہ نہ کرسکے تو ہم انہیں لُوٹے ہوئے اور بھاگے ہوئے لوگوںکی طرح چھوڑ دینگے۔
سیدناابوبکرtنے عرض کی کہ یارسول اللہ! ہم صرف بیت اللہ کا قصد کرکے آئے ہیں،ہم کسی کومارنا یالوٹنا نہیں چاہتے ،آپ چلیے توسہی اگر کوئی ہمیں روکے گا تو ہم لڑینگے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نام پر چلو۔
غزوہ خندق کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلمان فارسیt کاخندق کھودنے کامشورہ قبول کیا۔
mزبانی حوصلہ افزائی:
غزوہ خندق میں سخت سردی میں سیدنا زبیر بن عوامt آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم پر بنوقریظہ کی جاسوسی کرنے گئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئےفرمایا:
«إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَحَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ»
(صحیح البخاری:2846)
’’ہر نبی کے حواری(سچے مددگار) ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نئے ہونے والے مسلمان اور کمزور اہل ایمان کے درمیان ان کی تالیف قلبی کیلئے مالِ غنیمت کے خمس میں سے مال تقسیم کیاکرتے تھے تاکہ ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوجائے اورا نہیں اسلام سے محبت ہوجائے۔ اس کے علاوہ کئی مسلمان ایسے بھی تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال نہیں دیا کرتے تھے ۔عمرو بن تغلب صحابی ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں:
أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا وَمَنَعَ آخَرِينَ، فَكَأَنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ: «إِنِّي أُعْطِي قَوْمًا أَخَافُ ظَلَعَهُمْ وَجَزَعَهُمْ، وَأَكِلُ أَقْوَامًا إِلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الخَيْرِ وَالغِنَى، مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ» فَقَالَ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُمْرَ النَّعَمِ،(صحیح البخاری:3145)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےکچھ لوگوں کو دیا اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا۔ غالباً جن لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیاتھا، ان کوناگوار ہوا۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ میں کچھ ایسے لوگوں کو دیتاہوں کہ مجھے جن کے بگڑ جانے (اسلام سے پھرجانے)اور بے صبری کاڈر ہے، اور کچھ لوگ ایسےہیں جن پر میں بھروسہ کرتاہوں، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں بھلائی اور بےنیازی رکھی ہے(ان کو میں نہیں دیتا) عمروبن تغلب tبھی انہیں میں شامل ہیں۔ عمرو بن تغلبtکہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری نسبت یہ جوکلمہ فرمایا اگر اس کے بدلے سرخ اونٹ ملتے تو بھی میں اتناخوش نہ ہوتا۔
پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے،جن کو مال نہ ملا اس کی علت اور وجہ بھی بیان فرمادی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی پیارے انداز میں عمروبن تغلبtکی زبانی حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔
mاپنی ذات پراصول:
خطبہ حجۃ الوداع کےموقعے پر،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وربا الجاھلیۃ موضوع واول ربا اضع ربانا ربا عباس بن عبدالمطلب فانہ موضوع کلہ.(صحیح البخاری)
’’آج کے دن جاہلیت کاسود رائیگاں ہے اور سب سے پہلا سود جسے میںرائیگاں قرار دے رہاہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے یہ سود آج کے دن سب کاسب ختم ہے۔‘‘
غزوۂ بدر کے موقع پر مسلمانوں کوقیدی ہاتھ لگے ان قیدیوں میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباسtبھی تھے جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ،انصار صحابہ نے جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر اپنے چچا کی وجہ سے دکھ اور تکلیف کا احساس ،پھر ان انصار صحابہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے فدیہ معاف کرنے کا کہا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاتدعون منھا درھما. (صحیح البخاری:3048)
’’ان سے فدیہ کا ایک درہم بھی معاف نہیں کرتا۔‘‘
آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اصول وقوانین کو ایک عام شہری سے لیکر اعلیٰ طبقے کے افراد پھر بھی نافذ کیے حتی کہ ان اصول وقوانین سے اپنی ذات کو بھی مستثنیٰ نہیں فرمایا۔
فتح مکہ کے سال ایک عورت نے چوری کی، اس عورت کے قبیلے والوں نے سیدنااسامہ بن زیدtکے ذریعے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفارش بھیجی تواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو اکٹھا کر کے خطبہ ارشاد فرمایا کہ
’’لو ان فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا‘‘
’’اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کاحکم دیتا۔
mاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلماپنے ساتھیوں کےساتھ خود بھی کام کرواتے:
مدینہ طیبہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کاآغاز فرمایا، تعمیراتی کام کیلئے آپصلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین وانصار کے ساتھ خود بھی پتھرڈھو رہے تھے اور ہر کام میں پیش پیش تھے اور اینٹیں اٹھاٹھاکر دے رہے تھے۔
غزوۂ احزاب میں جب خندق کھودنے کامعاملہ آیا توآپصلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس خود اس کھدائی میںشریک ہوئے، جب ساتھیوں نے بھوک اور پیاس کی شکایت کی اور پیٹ پربندھے پتھر دکھائے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی بطن مبارک سے کپڑا ہٹایا تو تین پتھر بندھے ہوئے تھے۔
دورانِ کھدائی سیدناجابر بن عبداللہ tنے آپ کو صرف چند ساتھیوں کےساتھ دعوت دی مگر آپ نے اپنے باقی تمام ساتھیوں کو چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور تمام صحابہ کرام کو اس دعوت میں شریک فرمایا۔
ذرادیکھئے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رعایا سے کس قدر ایثار وہمدردی اور محبت تھی کہ آپ نے آخر میں سیدناجابررضی اللہ عنہ کی بیوی کو کہلوابھیجا کہ:
کلی ھذا وأھدی فان الناس اصابتھم مجاعۃ.
’’اس کھانے میں سے توبھی کھا اور لوگوں کو ہدیہ کردے کیونکہ لوگوں کو بھوک نے گھیر لیاہے۔‘‘(صحیح البخاری:4101)
mبہادری:
غزوۂ حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ جنگ میںنہ صرف یہ کہ آپ تھوڑے سے انصار ومہاجرین کی معیت میں ثابت قدم رہے بلکہ دشمن کی طرف بڑھنے کیلئے خچر کوایڑی لگاتے اور فرماتے جارہے تھے:
’’انا النبی لاکذب أنا ابن عبدالمطلب‘‘
(صحیح البخاری:2864)
’’میں نبی ہوں جھوٹانہیں، میں عبدالمطلب کابیٹاہوں۔‘‘
دورانِ لڑائی ہر جنگ میں پیش پیش رہتے اور سب سے پرخطر جگہ پر آپ ہوتے تھے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رعایا میں امن وامان کوبحال فرماتے اور ریاست سے ڈر وخوف کوفوراً ختم فرماتے، سیدنا انسtفرماتے ہیں:
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادرتھے، ایک رات دھماکہ ہوا اور لوگ گھبرا کر اس سمت نکلےجہاں سےآواز آئی تھی، اچانک لوگوں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہیں، گردن میں تلوار لٹک رہی ہے اور آپ لوگوں سے فرمارہے ہیں:’’لم تراعوا لم تراعوا‘‘(صحیح البخاری:2908)
mرعایا سے بدگمانی اور تشویش کوفی الفور ختم کرنا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ا پنی رعایا سےبدگمانی اور تشویش کافوراً ازالہ فرماتے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق براگمان اور شکوک وشبہات انسان کو کفر میں بھی داخل کرسکتے ہیں۔
سیدہ ام المؤمنین صفیہrزوجہ ٔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس اعتکاف میں آپ کی زیارت کیلئے مسجد میں آئیں ،تھوڑی دیر آپ کے پاس بیٹھ کر باتیں کیں، پھر آپ جانےلگیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو چھوڑنے ان کے ساتھ چل دیئے راستے میں انصار کے دوآدمی ادھر سے گزرے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
’’علی رسلکما ،انما ھی صفیۃ بنت حیی‘‘
(صحیح البخاری:2035)
’’تم دونوںٹھہروجاؤ! یہ صفیہ بنت حیی ہیں۔‘‘
ریاست کے حکمران کو چاہیے کہ وہ ایسے امور سے اجتناب کرے جن کی وجہ سے رعایا میں شکوک وشبہات او ر تشویش کا مادہ، اور رعایا میں اپنے حکمران کے خلاف بغاوت کاعنصر پیداہوتاہو۔
mاللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کمزوروں پربوجھ نہیں رکھتے تھے:
ایک بدوی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرہجر ت کرنے کی خواہش کااظہارکرتا ہے،توآپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
«وَيْحَكَ، إِنَّ شَأْنَ الهِجْرَةِ شَدِيدٌ، فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَهَلْ تُؤَدِّي صَدَقَتَهَا» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَاعْمَلْ مِنْ وَرَاءِ البِحَارِ، فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَتِرَكَ مِنْ عَمَلِكَ شَيْئًا»(صحیح البخاری:6165)
’’تجھ پر افسوس !ہجرت کو تم نے کیا سمجھا ہے یہ بہت مشکل ہے، تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں، انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تم ان کی زکاۃ ادا کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کی جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر سمندرپار عمل کرتے رہو،اللہ تمہارے کسی عمل کے ثواب کوضائع نہیں کرے گا۔‘‘
mمعاملات اور مشاورت میں ذاتی فیصلہ مسلط نہیں فرماتے:
غزوۂ طائف میں جب دشمنوں سے لڑتے لڑتے پورا ایک مہینہ گزر گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا ارادہ کیا، مگر ساتھیوں نے مزید لڑنے کی خواہش کااظہار کیا توانہیں موقعہ دیا۔
ثقیف اور ہوازن جب تائب ہوکرآئے اور اپنی عورتیں اور بچے واپس لینے کی استدعا کی توآپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا۔ آپ
کے تمام صحابہ ان کوچھوڑنے پرراضی ہوگئے، لیکن پھر بھی ہر ایک کی انفرادی رضامعلوم کرنے کیلئے ہر قبیلے کے بڑے پر یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ اپنے لوگوں کی رضامعلوم کرلے۔(صحیحح البخاری:2539)
mرعایا میںانصاف:
ایک جنگ کےموقع پر کچھ صحابہ نے مالِ غنیمت میں سے قبل از تقسیم کچھ اونٹ اوربکریاں ذبح کرکے گوشت پکنے کیلئے آگ پرہنڈیاں چڑھادیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام ہنڈیوں کوالٹ دیاجائے، پھرآپ نے مالِ غنیمت تقسیم فرمایا۔
محاسبہ:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے میں ایک شخص بازار میں غلہ بیچ رہاتھا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس غلے میں ہاتھ ڈالاتو وہ اندر سے گیلاتھا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کامحاسبہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’لیس منا من غش‘‘
(رواہ ابوداؤد:3452وصححہ البانی)
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو دھوکہ دے۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو وطن عزیز میں نافذ کرکے ہی ترقی وفلاح، امن وامان،خوشحالی ،عدل وانصاف قائم ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک میں امن وامان قائم ہو اور اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے۔آمین

About محمد ریحان بن عبدالسبحان انصاری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے