Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ اپریل » فکری وعملی انحراف میں فرق اور ان سے بچاؤ کی تدابیر

فکری وعملی انحراف میں فرق اور ان سے بچاؤ کی تدابیر

جمع وترتیب:ـحافظ محمد عمر بن حافظ محمد سلیم

خطبہ مسنونہ کے بعد:فرمایا:
وقال اللہ تعالیٰ:[ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِيْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ يُصِيْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ] (النور:۶۳)
وقال رسول اللہ ﷺ :«بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا»(صحیح مسلم،الرقم:186)
فکری وعملی انحراف:
انحراف کی دوصورتیں ہیں، ایک عملی اور ایک فکری۔
فکری انحراف ،عملی انحراف سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے، مثلاً ایک شخص اگرنمازنہیں پڑھتا، یہ عملی کفر ہے لیکن اگر فکری طور پر نماز کو مانتا ہی نہیں ہے تو یہ اعتقادی کفر ہے، ایسا انسان ملت اسلامیہ سے ، ایمان سے خارج ہوکر کفر میں داخل ہوجاتاہے۔
ایک شخص کسی کو قتل کردیتا ہے تو یہ عملی انحراف ہے لیکن کسی کو قتل کرتا ہے حلال سمجھ کر یہ فکری انحراف ہے۔
اور یہ زیادہ خطرناک ہے یہ پھر حقیقتاً کفرہوگا،رسول کریم ﷺ نے قتل غارت گری کی خبر دی ہے فرمایا:
(لاتذھب ایام الدنیا)
یہ دنیا کے دن ختم نہ ہونگےاس وقت تک جب تک یہ منظرآپ نہ دیکھ لیں کہ
(لایدری القاتل فیما قتل ولاالمقتول فیما قتل)
ایک انسان کا قتل ہوگا قاتل کو معلوم نہ ہوگا کہ وہ کس کو قتل کررہا ہے اور کیوں قتل کررہاہے اور مقتول کو معلوم نہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل کیاجارہاہے۔
فرمایا کہ اس وقت دنیا کےدن ختم نہیں ہونگے جب تک یہ منظر نہ آجائیں۔
اور ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
(اذا رأیتم ذلک فانتظر الدجال اما الیوم اما الغد)
اگر قتل کی یہ صورت تم دیکھ لو تو پھر انتظار کرنا دجال آج بھی آسکتا ہے اور کل بھی۔
معنی قتل وغارت گری کی یہ صورت بڑی بھیانک اور قیامت کی قریبی علامت بن سکتی ہے۔جب قتل وغارت گری کی یہ شکل ہوتودجال کاظہور وخروج قریب ترین ہوجائے گا۔لیکن قتل اگر اس فکر کے ساتھ کیا جائے کہ فلاں کو قتل کرنا حلال ہے جیسےآج کل مذہبی ،سیاسی ،لسانی گروہ بندی ہے، ان گروہ بندیوں میں تعصب کا عالم یہ ہے کہ دوسرے گروہ کا خون بہانا جائز سمجھاجاتاہے،خواہ وہ اختلاف لسانی بنیاد پر ہویا مذہبی اور سیاسی بنیاد پر،لہذا قتل کوجائز سمجھ کر کرنا یہ کفر ہے، یہ فرق ہے عملی اور فکری انحراف میں۔
عملی انحراف بخشش کے قابل ہے،اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کے سوافراد کے قاتل کومعاف کیا۔
حدیث کے الفاظ ہیں:
(قتل تسعۃ وتسعین نفسا ظلما)
اس نے ننانوے قتل کیے تھے ظلم وبربریت میں نہ کہ قصاصاًپھر ایک قتل اور کیا اس مفتی صاحب کا جس نے علم کے بغیر فتوی دے دیا۔تو یہ ظلماً تھا ،بربریت میں تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس کومعاف کیا بلکہ اس کے جنت کے داخلے کی تدبیریں فرمائیں، جونیکی کی زمین تھی اس کوقریب کردیا اور معصیت کی زمین کو دور کردیا ،اس کو اس طرح گرایا کہ اس کا پاؤں معصیت کی زمین کے قریب تھا اور اس کادل توبہ کی زمین کے قریب تھا،لہذا دل کے مقام پر فیصلہ ہوا،دل اشرف الاعضاء ہے لہذا سوافراد کاقاتل معاف کردیاگیا لیکن اگر فکری انحراف ہو کہ فلاں پارٹی کے بندے کو قتل کرنا حلال ہے تو اگرایساایک بھی قتل ہو تو یہ کفر ہے اور کفر ناقابل معافی گناہ ہے یہ فرق ہے عملی اور فکری انحراف میں۔
عملی انحراف قابل بخشش ہے،لیکن فکری انحراف چونکہ کفر ہے اور کفر قابل بخشش نہیں ہے۔ایک انسان کافر ہوجائے اس کی نیکی ،اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا جب تک کفر کو ترک نہ کردے اور کفر کو ترک کرکے توبہ کرے اس تناظر میں آج کادور انتہائی خطرناک ہے ۔
فتنوںکی یلغار اور دل
نبیuنے صحیح بخاری کی ایک حدیث میں فتنوں کے وقوع کی خبر دی ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان فتنوں کی یلغار دل پر ہوگی،یہ دل فکروعقیدے کامرکز ہے ،منہج کے فہم کامرکز ہے۔
حذیفہ بن یمانtاس حدیث کے راوی ہیں،فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(تعرض الفتن علی القلوب کعرض الحصیر عودا عودا.)
کہ فتنے دلوں پر پیش کیے جائیں گے اور وہ ایک دوفتنے نہیں ہوں گے بلکہ وہ فتنے چٹائی کی مانند ہونگے جیسے چٹائی ایک ایک تنکے سے بنتی ہے لہذا تنکوں کی مانند فتنے انسان کے دل پر پیش کیے جائیں گے،چٹائی بہت سے تنکوں سے بنتی ہے ،ایک تنکا ،پھر دوسراتنکا ،پھر تیسرا تنکا جوڑتے جاتےہیں، پھرآخر میں دھاگے کوکھینچ کر چٹائی کی شکل بناتے ہیں،فرمایا کہ فتنوں کی یہ یلغار انسان کے دل پر ہوگی۔
پھر فرمایا:ـ
(ای قلب اشر بھا نکتت فیہ نکتۃ سوداء)
جس دل نے اس فتنے کو قبول کرلیا اس فتنے کے بدلے اس میں ایک سیاہ نشان لگادیاجائےگا۔
سیاہ نشان علامت ہے کہ یہ دل فکری انحراف کاشکارہوچکاہے ، فتنے چٹائی کے تنکوں کی مانند آئیں گے دل پریلغار کریں گے اور جو دل ان کو قبول کرتا گیااس پر ایک سیاہ نشان لگادیاجائے گا،دوسرے فتنے پر دوسرانشان اور تیسرے فتنے پر تیسرا نشان۔
(وأی قلب انکرھا )
اور جس دل نے فتنوں کاانکار کیا،فرمایا کہ
(نکتت فیہ نکتۃ بیضآء)
اس دل میں نور کا سفید چمکتاہوا نشان لگادیاجائے گا۔
جو اس بات کی علامت ہوگا کہ یہ دل منہجی طور پر استقامت پر قائم ہے ،نبیuکا فرمان ہے کہ :
(لایضرھاشیٔ مادامت السمآوات والارض)
اس دل کو کوئی چیز نقصان نہیں دی سکتی۔
کوئی تحریک، کوئی ظلم، کوئی تشدد ،کوئی بربریت یاکوئی طاغوتی طاقت ،اس دل کونقصان نہیں دے سکتی۔جس دل میں ایک فکری ومنہجی فہم ہو،جو فتنوں کوقبول نہیں کرتا بلکہ ان کا انکار کرتا ہے اور وہ دل جو فتنوں کوقبول کرلیتا ہے فرمایا کہ
(کلکوز مجخیا)
کہ یہ دل الٹے گلاس،الٹے پیالے کے مانند ہے۔
بڑی خطرناک مثال ہے۔گلاس ،پیالےمیں کوئی چیز ہو ،دودھ ہو، پانی ہو، اگر اس کو آپ الٹادیں توسارا دودھ؍پانی گِرجائے گا۔
معنی جو ایمان ہے وہ ختم ہوجائے گا ،اب الٹے پیالے یا گلاس میں آپ کچھ داخل کرسکتے ہیں؟
پانی ،دودھ وغیرہ جو تھا وہ گرگیا آئندہ اس میںکچھ داخل نہیں ہوسکتا،اگرسیدھا ہوتو امکان ہے ،الٹاہوتوکوئی امکان نہیں،یہ بڑی خطرناک تشبیہ ہے، جو دل فتنوں کو قبول کرے گاوہ ایک تو سیاہ ہو جائے گا اوردوسرا الٹے پیالے کی مانند ہوجائے گا۔
جوایمان کی رمق اندر موجود ہے وہ گرجائے گی اور چونکہ پیالہ الٹا ہے تو اب کچھ داخل نہیں ہوسکتا، یہ ہے فتنوں کی یلغار انسان کے دل پر اور میں یہ سمجھتاہوں ۔(واللہ اعلم)ہر گناہ پرمعصیت جو انسان کے سامنے آتی ہےو ہ فتنہ ہے اورواقعی فتنے ایک چٹائی کے تنکوں کی طرح یکے بعددیگرے آرہے ہیں ہرجگہ فتنہ ہے ،گھروں میں فتنے، بازاروں میں فتنے حتی کہ مساجد میں فتنے ، وہ لوگ جوفتنوں کا باعث بنتے ہیں یا فتنوں کو قبول کرتے ہیں ،فتنوں کا اقرار یااعتراف کرتے ہیں، اس حدیث کی رو سے ان کےد ل سیاہ ہوچکے ہیں جب فتنے قبول کرکرکےپورے سیاہ ہوجائیں گے پھر وہ الٹے پیالے کے مانند ہوںگے جو اندر ایمان ہے وہ نکل جائے گا اور آئندہ اندرداخل نہیں ہوسکے گا یہ اس امت کا المیہ ہے کہ یہ امت فتنوں سےد وچار ہوگی۔
فتنوں کی اقسام:
جتنے بھی فتنے ہیں ان کی دوقسمیںہیں :1فتنہ شہوات2فتنہ شبہات
شہوات کافتنہ: آپ کے دل کی خواہشات مال کی محبت ہے تو حلال وحرام کی تمیز نہیں اور دل کا میلان اگر زنا کی طرف ہے تو وہ سوچ بندے پر غالب ہوتی ہےہمیشہ ایک ہی سوچ سوچتا ہے۔یہ شہوات کا فتنہ ہے۔ اولاد کی محبت ہے تو ان کی محبت میں ان کی ہرخواہش پوری کرنا، حلال وحرام کانہ سوچنا، بیوی کی محبت ہے تواتنا اس کوغالب کرے کہ اس کی ہرخواہش کوپوراکرنے پر مستعد ہو،حلال وحرام کی تمیز نہ کرے ،گھر میں خیروشردونوںآرہے ہیں ،یہ شہوات کے فتنے ہیں ،ان کا معاملہ ہلکا ہے۔
دوسرا ہے شبہات کافتنہ:شبہات کافتنہ یہ ہے کہ علم کی کمی کی بناء پر ،کتاب وسنت سے دوری کی بناء پر ،دینی حقائق میں شبہات وارد ہوجائیں ،حق واضح نہ ہو، حق خلط ملط ہوجائے ،التباس آجائے اور یہ زیادہ خطرناک فتنہ ہے۔
لہذا ہر قسم کا فتنہ انسان کےدل پر یلغارکرے گا اور جوشخص قبول کرتاگیا وہ اس عذاب الیم سے دوچارہوگا کہ اللہ اس کے دل کو سیاہ کرکے پیالے کی طرح اُلٹ دے گا جو ایمان کی رمق تھی وہ نکل جائے گی اور آئندہ اس میں ایمان کاقطرہ بھی داخل نہیں ہوسکے گا۔
فتنوں سے انکار کی بنیاد؟
اور انکار کی بنیادکیا ہے ؟انکار کی بنیاد علم ہے ،اور علم کی بنیاد کیا ہے؟ علماء۔ لائبریری میں موجود کتابوں میں علم ہے لیکن وہ آپ کیلئے کافی نہیں ،ایک ہے علم اور ایک ہے علم کا فہم ،کتابوں سے علم آپ کے سامنے آسکتا ہے ،علم کافہم نہیں آسکتا۔ یہ فہم آپ کو علماء دینگے۔
حسن بصریaکاقول ہے، جو کہ بہت بڑے تابعی ومحدث تھے اور اپنےد ور کے فقہاء کے سردار تھے فرمایا کرتے تھے :
(الفتنۃ اذا اقبلت عرفھا کل عالم واذا ادبرت عرفھا کل جاہل)
فتنہ جب آتا ہے ،حملہ آور ہوتا ہے تو ہر عالم اس کو پہچان سکتا ہے، جاہل نہیں پہچان سکتا، کیوں کہ جاہل تو ایک شیٔ کی رنگینی کو دیکھے گا ،بعض اوقات ایک شیٔ اندر سے جھوٹی ہوتی ہے لیکن اس کے اوپر ملمع سازی ہوتی ہے ۔باطل پر حق کی ملمع سازی جہلاء کو نظر نہیں آتی علماءمحسوس کرلیتے ہیں اور جب فتنہ واپس پلٹتا ہے پوری طرح تباہ کرکے،پھر جاہل بھی پہچان جاتے ہیں کہ یہ فتنہ تھا۔
لیکن ایک جاہل اگر علماء کی صحبت اختیار کرےاور آج کے پر فتن دور میں علماء سے تعلق رکھے ،رابطہ رکھے، تو پہلی یلغار پر علماء اس فتنے کو پہچان لیں گے اور جہلاء بھی پہچان لیں گے، اور بچاؤ ممکن ہوگا۔
عالم کے فتنے کوپہچان لینے کی ایک مثال
دیکھیں!دجال کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ ہے، اتنابڑا فتنہ ہے کہ رسول کریم ﷺ ہرنماز میں اس فتنہ سے پناہ طلب کیاکرتے ،فرمایا کہ
(اذا صلی احدکم فتعوذ باللہ اربع)
جب نماز پڑھوتو چارچیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔
(اللھم انی اعوذبک من عذاب القبر ومن عذاب جہنم ومن فتنۃ المحیاوالممات ومن شر فتنۃ المسیح الدجال)
کہ دجال کے فتنے سے پناہ طلب کرو، جب دجال آئے گا تو اچھے خاصے لوگ اس کی لپیٹ میں آجائیں گے ۔
دجال آئےگا کس دور میں؟جب اکثرلوگوں کی عقل کم ہوچکی ہوگی، دین کی کمزوری ہوگی اور لوگ تفرق کاشکار ہونگے ،دجال انہی چیزوں سے فائدہ اٹھائے گا،اور چوتھی ہولناک چیز یہ ہوگی کہ دنیا کی معیشت تباہ ہوچکی ہوگی اور دجال معیشت سے مالامال ہوکر آئے گا ۔
مسنداحمد کی حدیث ہے کہ دجال کی آمد سے تین سال قبل کا جو دور ہوگا اس میں پہلے سال اللہ رب العزت آدھی بارش روک دے گا اور زمین کی آدھی فصل روک دے گا،دوسرے سال دوتہائی بارش ختم ہوجائے گی اور زمین کی دوتہائی پیداوار بندہوجائے گی اور تیسرے سال پوری بارش رُک جائے گی ایک قطرہ بھی نہیں برسے گا اور زمین سے ایک دانا بھی نہیں اُگے گا،معیشت تباہ وبرباد ہوچکی ہوگی اور لوگوں پر ایک فاقہ کشی کی کیفیت ہوگی۔مویشی ہلاک ہورہے ہوں گے ،لوگ موت کے منہ میں پہنچ چکے ہوں گے اس وقت دجال آئے گا دنیا کی ثروتوں سے مالامال، اشاروں سے بارش برسائے گا، اشاروں سے اناج اُگائے گا ،تو پھر یہ لوگ کس طرح اس کے فتنے سے محفوظ رہ سکیں گے، بڑا خطرناک فتنہ ہے، بچے گا وہی جس کو اللہ توفیق دے دے، اور خاص طور پر آج کے جہلاء !
ہم نے کئی ایسے لوگ دیکھیں ہیں جو لباس سے عاری ہوتے ہیں ان کوکوئی ہوش نہیں ہوتا لباس کا ،پاکی وپلیدی کا ،عقل سے بیگانہ، غلاظتوں کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں ،چاروں طرف سے جانوروں کی یلغار ہے، اور لوگ ان کو مشکل کشا مانتے ہیں توایسے لوگ جب دجال کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ جناب یہ توبہت بڑاپیر ہے،یہ تو اشاروں سے بارش برسا رہا ہے ،اشاروں سے اناج اگارہا ہے یہ تو بہت ہی پہنچا ہوا ہے یہ تو بڑا مشکل کشا ہے ،یہ لوگ جوننگ دھڑنگ ملنگوں کو اپنا الٰہ مانتے ہیں،دجال کو تو فوراً قبول کرلیں گے لیکن بچاؤ کس کوحاصل ہوگا؟
جس کے پاس علم نافع ہوگا جب یہ دجال مدینہ کے قریب پہنچے گا، مدینہ میں داخل ہونے کےلئے سبخاء مقام پر، جو نمکینی زمین ہے، جس پر سفیدی کی تہہ جمی ہوتی ہے جوفصل پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتی وہاں تک پہنچے گا ، وہاں اس کوملائکہ نظرآئیں گے جوتلواریں سونت کر کھڑے ہونگے کہ آگے بڑھے توسہی ذرا۔
دجال ملائکہ کے خوف سے وہی رُک جائے گا۔
حدیث میں آتا ہے کہ تین جھٹکے مدینہ کو لگیں گے ان جھٹکوں سے وہ لوگ ڈرجائیں گے جن کے ایمان میں کمزوری ہوگی، نفاق ہوگا، جومعصیت کے دلدادہ ہونگے اور مدینہ سے بھاگ نکلیں گے لیکن جن کے دلوں میں ایمان کی استقامت ہوگی، دین کی پختگی ہوگی وہ مدینے کو نہیں چھوڑیں گے ،چنانچہ قرب قیامت مدینہ پاک صاف ہوجائے گا، منافقین سے اور اہل معاصی سے ۔
اور یہ لوگ مدینہ سے بھاگ کر دجال کی فوج میں شامل ہوجائیں گے۔
حدیث میں آتا ہے کہ مدینہ میں ایک شخصیت ہوگی اس کانام محمد بن عبداللہ ہوگا جس کوآپ امام مہدی کہتے ہیں وہ دجال کےپاس آئیں گے اور اس کاکھلے عام انکارکریں گے،دجال کہے گا تم کیسے انکار کرسکتے ہو؟
میری طاقت دیکھو کہ میں اشارے سے بارش برساسکتاہوں، اشارے سے اناج پیداکرسکتا ہوں،امام مہدی کہیں گے اچھا کرو، وہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا ،پھر کہے گا :میں اشارے سے تم کو مارسکتا ہوں، لوگ حیران ہونگے کہ آپ مار بھی سکتےہیں،اشارہ کرے گا ، امام مہدی نیچے گرجائیں گے ۔پھرکہے گا:میں اشارے سے زندہ بھی کرسکتا ہوں،لوگ کہیں گے :کرکے دکھاؤ۔دجال اشارہ کرے گا وہ کھڑے ہوجائیں گے ،پیچھے جہلاء مزید اس کے قائل ہوجائیں گے اور یہ محمد بن عبداللہ امام مہدی کھڑے ہوکرکہیں گے کہ میرایقین پہلے سے بڑھ گیا ہے کہ تو جھوٹا ہے،دجال ہے، کیونکہ یہ ساری علامتیں اللہ کے پیغمبرﷺ نے بیان فرمائی ہیں کہ دجال ایک آنکھ سے کاناہوگا ،ماتھے پر کافر لکھا ہوگا، اور پھر اشارے سے بارش برسانا اور اشارے سے اناج پیدا کرنا، اشارے سے مارنا ،اشارے سے زندہ کرکے اٹھادینا،میرے پیارے پیغمبر کافرمان ہے تو ایسا سب کچھ کرے گا اور جب یہ کرے گا تو ایک بار کرنے میں کامیاب ہوگا پھر دوبارہ مارنے اور زندہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔اب مجھے مار کے دکھا۔
اب دجال اشارہ کرے گا مگر ناممکن ہوگا اور پھر امام مہدی کہیں گے پیارے نبیuکی احادیث ہم نے پڑھی ہیں،رب کو دنیا میں کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا ،اور تم کیسے رب ہو جو سامنے نظر آرہے ہو، رب کو تو قیامت کے دن دیکھنا ممکن ہوگا ،وہ بھی قیامت کی نگاہوں سے،دنیا کی نگاہوں سے نہیں۔دنیا کی نگاہیں کمزورترین ہیں،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بصارت میں وہ قوت دے گا جس قوت سے اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہوگا۔
کیاثابت ہوا کہ فتنوں سے بچاؤ کی واحد اساس علم نافع ہے۔
موجودہ پرفتن دور
فتنوں کادور ہم دیکھ رہےہیں ،اپنی نگاہوں سے قتل وغارتگری کی یہ کیفیت جو قرب قیامت کی علامت ہے کہ قاتل کو معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کیوں قتل کررہا ہے اور مقتول کو معلوم نہیں ہوگا کہ اس کاقاتل کون ہے۔
چنانچہ یہ جو اجتماعی قتل ہورہے ہیں ،دھماکے ہورہے ہیں اس میںقاتل کو کیا معلوم کون کون ماراجائے گا اور ان مقتولین کو کیامعلوم ہمیں کون قتل کرے گا۔
فرمایا کہ قتل کی جب یہ کیفیت ہو تو پھر انتظار کرنادجال آج بھی آسکتا ہےاور کل بھی۔
بڑا پُرخطردورہے،اور اس دور میں فتنوں کی جویلغار ہے اس میں اپنے ایمان کو سلامتی ،ایمان کی عافیت سب سے مقدم معاملہ ہے، اپنے ایمان کی فکرکریں، اپنی توجہ آخرت کی استعداد پرمرکوز کریں، اور یہ کوشش کریں کہ ہم فتنے کاحصہ نہ بنیں ۔
پیارے پیغمبر محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا :
(ان ایام الھرج )
قتل وغارتگری کے ایام میں اپنی تلوار کو لے کر رات کی تاریکی میں پہاڑ پرچلے جانا اورچٹان پرتلوار کومارتے جانا حتی کہ تلوار کُند ہوجائے پھر اس کونیام میں لے کر واپس آجانا ،دنیا سمجھے کہ آپ کے پاس تلوار ہے ،آپ کو پتا ہے کہ کُند ہے ،یہ کسی کاقتل نہیں کرسکتی، دنیا آپ سے تلوار کے سبب دوررہے گی۔
اور بعض احادیث میںہے کہ
(خذ سیفا من خشب)
کہ لکڑی کی تلوار لے لو۔
لوہے کی تلوار ختم کرکے لکڑی کی تلوار نیام میں ڈال لینا ،صرف لوگوں کو یہ دکھانے کیلئے کہ میرے پاس تلوار ہے،جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ لکڑی کی ہے، قتل نہیں کرسکتی۔اس طرح فتنوں سے بچیں۔
حتی کہ نبیuکی حدیث ہے:
(کن عبداللہ المقتول ولاتکن عبداللہ القاتل)
جب ایام ہرج ہونگے تم اللہ کے مقتول بندے بن جانا قاتل نہ بن جانا۔
اور ایک حدیث میں ہے:
(کن کخیر ابنی آدم)
کہ آدم کے دوبیٹےتھے جوبہتر تھا وہ بن جانا۔
ایک ہابیل دوسراقابیل ،قابیل قاتل تھا اور ہابیل کو قتل کیاگیا ،جو بہتر بیٹا تھا یعنی ہابیل وہ بن جانا۔
فتنوں سے بچاؤ کی تدابیر
اسی طرح فتنوں سے بچاؤ کی آپ ﷺ نے ترغیب دی،فتنے خطرناک چیز ہیں حتی کہ نبیuدعاکیاکرتے تھے:
(واذا اردت فی الناس فتنۃ فاقبضنی الیک غیر مفتون)
یااللہ جب توبندوں میں فتنوں کافیصلہ فرمادے تو مجھے اس دور سے پہلے ہی اٹھالینا۔
یہ حدیث کس قدر جھنجھوڑ رہی ہے اور دانا انسان وہ ہوگا جو فتنوں سے اپنے آپ کو دوررکھے گا۔
عقبہ بن عامرtنےنبیuسے پوچھا:
(ما النجاۃ یارسول اللہ)
اے اللہ کے رسول!نجات کیا ہے؟
فرمایا: کہ تین چیزیں نجات ہیں:
(امسک علیک لسانک)
فتنوں کےد ورمیں اپنی زبان کوبندکرلو،تم فتنوں کی تشہیر نہ کرنا،آج ہم بڑے شوق سے خبرنشر کرتے ہیں، میڈیا سے سن لیا اور میڈیا یعنی شیطان جھوٹی سچی ہرخبر آگے منتقل کررہاہے ،ایک سےد س اور دس سے سو تک ۔
فرمایا کہ تم فتنوں کے معاون کیوں بن رہے ہو،زبان کو بندکرلو۔
(وابک علی خطئتک)
اور یہ سوچ کر کہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے اپنے گناہوں پر روناشروع کردو تو بۃ النصوح کرلو جیسے کل وہاں یلغار ہوئی ہےآج یہاں بھی ہوسکتی ہے،گناہوںپر رؤ۔
(ولیسعک بیتک )
اور تمہاراگھر تمہارے لئے کافی ہو، اپنے گھر کو اپنے لئے کافی سمجھو،گھر کی چار دیواری کافی سمجھو، معنی زیادہ وقت گھر میں گزارو جس کے دوفائدے ہیں:1فتنوں سے دوری2اپنے اہل وعیال پر نظر،ان کی اصلاح،ان کے درمیان رہنا یہ نہ ہو کہ میں تو گھر میں ہوں یا گھر سے باہر ہوں اور بچے باہرپھرناشروع کردیں فتنوں کی لپیٹ میں آجائیں۔
نبی uکی حدیث ہے کہ دجال کے ظہور کے وقت سب سے دانا انسان وہ ہوگا جو گھر سے نکلے تو اپنی عورتوں کو رسی سے باندھ کر نکلے، تاکہ یہ جھانک بھی نہ سکیں، نکلنا تودور کی بات ہے کیونکہ عورتیں فتنہ زیادہ جلدی قبول کرنے والی ہوتی ہیں، شبہات کا شکار ہوجاتی ہیں، عقیدے کچے ہوتے ہیں، فکر کمزور ہوتی ہے، ناپختگی ہوتی ہے۔ کس قدر عافیت کی تعلیم آپ ﷺ نے دی ہے کہ توجہ علم کی طرف ہو، علم نافع کی طرف اور اپنےآپ کو فتنوں سے دور کرنا ۔
میں نے عرض کیا کہ آج ہر مقام پر فتنہ موجود ہے۔آپuکی ایک حدیث آپ کی پیشگوئی ،آپ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے، آپ کا معجزہ ہے،آپﷺ نے ارشا د فرمایا،صحیح مسلم کی حدیث ہے جناب جابرtکی روایت سے:
(ان الشیطان قد یئس ان یعبدہ المصلون فی جزیرۃ العرب .)
شیطان مایوس ہوچکا کہ جزیرہ عرب میں نمازی اس کی عبادت کریں۔
(ولکن فی التحریث بینھم)
تحریث کا معنی لوگوں میں بگاڑپیداکرنا، لوگوں میں تفرق اختلاف ڈالنا، انتشار قائم کرنا،شیطان اس میں کامیاب ہوگا۔
یہ حدیث قابل غور ہےکہ شیطان مایوس ہوچکا کہ جزیرہ عرب میں اس کی دعوت پر کوئی شرک کریگا۔
اس سے مراد اجتماعی شرک ہے، اِکادُکامثالیں ہوسکتی ہیں، دوبندے ،چار بندے لیکن پورا جزیرہ عرب جیسے پہلے شرک پر قائم تھا اب نہیں ہوسکتا۔
عقیدے ٹھوس ہوچکے، اب تحریث میں شیطان کامیاب ہوسکتا ہے، تحریث یعنی لوگوں میں بگاڑ پیداکرنا،اس بگاڑ کو ایسا فتنہ بنانا جو انتہائی ضعف اور کمزوری کا باعث ہو، جس سے دین کی قوت ختم ہو جائے،اس تفرق وبگاڑاور کینے سے شیطان ان کے دلوں کو بھرےگا، اور دلوں میں ایسابغض پیداکریگا کہ لوگوںمیں دوریاں ہوجائیں گی، ایک بھائی دوسرے سے دور ہو، شوہربیوی میں ناچاکیاں ہوں، باپ بیٹے میں اختلاف ہو،یہ تو بڑے مقدس رشتے ہیں لیکن شیطان اس میں کامیاب ہوگا۔
یہاں ایک چیز قابل غور ہے کہ نبیuنے’’مصلون‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کیا، کہ نمازی شیطان کی عبادت کریں اس سے شیطان مایوس ہوگیا، یوں کہہ دیاہوتا کہ لوگ اس کی عبادت کریں، لیکن نمازی کاذکر کیوں ہے؟ معنی شیطان کا نشانہ وہ لوگ ہیں جو مسجدوں میں آتے ہیں، نمازیں پڑھتےہیں، مسجدوں کو آباد کرنے والے ،نمازیں قائم کرنے والے، شیطان تحریث ان میں زیادہ پیدا کرے گا،تب ہی تو آج مساجد میں فتنے ہورہے ہیں، دوریاں ،غیبتیں ایک دوسرے کے خلاف آوازیں، یہ آپﷺ کافرمان کتنا حرف بہ حرف پوراہواکہ نمازی اس کی عبادت کریں یہ ممکن نہیں، شیطان آکرکہے کہ جاؤ جاکرفلاں قبر پر سجدہ کرو، آپ کریں گے ؟ نہیں کریں گے، اتنے مستحکم عقیدے ،اتنی ٹھوس توحید کافہم، اس میں شیطان کامیاب ہوہی نہیں سکتا، لیکن شیطان کا نقطہ یہ ہے کہ وہ تحریث پیدا کرے گا، اور یہ جوتفریق ہے یہ سارے فتنوں کی جڑ ہے،دعوت کمزور ہوجاتی ہے دین کامعاملہ کمزور ہوجاتاہے۔
اللہ رب العزت نے ہماری ناکامی کا ایک سبب بیان کیا ہے، وسائل کم ہوںکوئی پروانہیں، تعداد کم ہو کوئی پرواہ نہیں،ہاں تمہارا تفرق یہ تمہاری کمزوری ہے اورتمہاری یہ کمزوری تمہارے دشمن کی طاقت ہے، اور تمہاری وحدت ومضبوطی تمہارا اتفاق واتحاد ،تمہاری باہمی محبت یہی تمہاری طاقت ہے،تم طاقتور ہوگے دشمن کمزور ہوجائے گا۔یہ تمہارے غلبے کی داستان ہے توقابل غور ’’مصلون‘‘ کا لفظ ہے لیکن جو مساجد سے دور ہیں ہوسکتا ہے ان میں آپس میں محبت ہو، لیکن جو مساجد میں داخل ہوتے ہیں ان پر شیطان زیادہ وارکرےگا، اب جو اس وار میں آگیا اس تحریث کو قبول کربیٹھا، وہ شیطان کا چیلابن گیا، وہ شیطان کی خوشی کاباعث بن گیا۔
نبیuکی حدیث ہے صبح ہوتی ہے، ’’یبعث سرایاہ‘‘ شیطان اپنے تخت پر بیٹھ کر اپنےلشکر کو بھیجتا ہے کہ جاؤ اور جاکر اللہ کے بندوں کو گمراہ کر کے آؤ اور شام کو رپوٹ پیش کرو،شام ہوئی سارے آگئے، رپوٹیںپیش ہورہی ہیں کہ فلاں بندہ حج کرنا چاہ رہا تھا تو میں نے کہا کہ یہ پانچ چھ لاکھ روپیہ کانقصان ہوگا، یہ تمہارے فلاں کام آجائےگا، اتنے مسئلے پیداکیے کہ اس کو حج کرنے سے روک دیا۔شیطان کہے گا تم نے کوئی خاص کام نہیں کیا، فلاں بندہ نماز پڑھنے جارہاتھا میں نے اس کوروک دیا ، شیطان اس سے بھی یہی کہے گا ،ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں گھر میں داخل ہوا اوراس وقت تک نہ نکلا جب تک کہ میں نے میاں بیوی میں ناچاقی پیدا نہ کردی،اختلاف وتفرق پیدانہ کردیا ،ابلیس اس کوقریب کرلے گا اس کو گلے سے لگائے گا کہ تم آج کے ہیروہو،آج کے میرے تمام چیلوں میں تم سرفہرست ہو ۔
یہ شیطان کاہتھیار ہے ،کوئی شیطان کی اس چال میں آجائے وہ بھی اس کا چیلا بن جاتا ہے آپ حق اور نا حق کو نہ دیکھیں ،فتنے کودیکھیں چونکہ مسجد کی بات ہورہی ہےمسجد کی ایک انتظامیہ بنتی ہے، اس کو قبول کرلو۔
انتظامیہ غلط ہے یا صحیح، دوہی صورتیں ہیں،اگرصحیح ہے :’’الحمدللہ‘‘ غلط ہے تواس کی اصلاح کرو، اصلاح کا طریقہ درے پردہ،فتنہ کھڑا کرکے نہیں کہ یہ آپ کی غلطی ہے ،اس کو آپ تسلیم کرلیں، اگرانتظامیہ تسلیم کرلے تو آپ کا بھی فائدہ،عنداللہ اس کااجر ہے۔ اور اگر وہ تسلیم نہ کرے ،آپ پیچھے ہٹ جائیں ،قیامت کی جواب دہی آ پ پر نہیں ہے۔ قیامت کے دن انتظامیہ بھگتے گی، لیکن میں اگر اس کو فتنہ بنادوں، انتشار پھیلاؤں، تو میں اس سے بڑا مجرم ہوں۔
(والفتنۃ اشد من القتل)
اللہ کے بندو ،فتنہ قتل سے بڑا گناہ ہے۔
یہ بھی ایک منہجی بگاڑ ہے،منہجی اعتبار سے جو ہماری کمزوری ہے اس میں سرفہرست تفرق ہے۔
[وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا ](الانفال:۴۶)
تنازع مت کرو ورنہ کمزور ہوجاؤگے۔
دیکھیں تنازع کا نقصان ۔
نبیu گھر میں تشریف فرما تھے ،بڑا خوش ہو کر باہر نکلے، مسجد میں آئے، صحابہ کرام کو جمع کیا کہ آؤایک خوشخبری سن لو،مسجد میں داخل ہوئے، دو بندوں میں جھگڑا ہورہا ہے ،اختلاف ہوگیا، اختلاف کی نحوست بابرکت دور میں بھی اثرانداز ہوتی ہے، اللہ کے پیارے پیغمبر کے دور سے بڑھ کر بابرکت دور کون سا ہوسکتا ہے؟ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام کو جمع کیااور فرمایا کہ آج میں گھر میں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے شب قدر کاتعین فرمادیا، اس رات کو متعین کردیاتھا، کہ یہ فلاں رات ہے، میں بڑا خوش گھر سے باہر نکلا، میں مسجد میں آیا تو دوشخص جھگڑرہے تھے، ان کی آوازیں بلند ہورہی تھیں ان کے اختلاف اورجھگڑے کی نحوست سے شب قدر کاعلم میرے سینے سے اٹھالیاگیا،میں بھلادیاگیاکہ وہ رات کونسی ہے، اللہ نے وہ علم چھین لیادو افراد کے تفرق کی بناء پر۔
یہ مسجد ہے کوئی اکھاڑانہیں ہے ،مسجد اللہ کے ذکر کرنے کی، اللہ کے سامنے رونے کی جگہ ہے، زمین کی سب سے بہترین جگہ مساجد ہیں اور ہم اس کو جھگڑے کی جگہ بنالیں، یہ فکری انحراف ہے، اور یہ بہت بڑے نقصان کاباعث ہے اور اگر تم آپس میں پیارومحبت قائم کرلوتو یہ تمہاری قوت ہے، تمہاری دعوت کی قوت ہے۔
ایک سفر سے اللہ کے پیارے پیغمبر لوٹ رہے تھے، اور صحابہ سائے کی تلاش میںپھیل گئے، کسی کو وہاں سایہ ملا تو کسی کو وہاں، کسی کو دوفرلانگ دور ملا، پھیل گئے ،شدت کی گرمی ،نبیuنے سب کو جمع کیا، اور فرمایا:
(مالی ار اکم متفرقین)
کہ تم اس طرح پھیل کر کیوں بیٹھے ہو،جداجداکیوں ہو، باہم ساتھ مل کربیٹھو، صحابہ کرام نے یہ بات ایسی پلے سے باندھ لی کہ پھر جب بھی سفر میںکہیں پڑاؤڈالتے تو اس طرح مل کر بیٹھتے کہ ایک چادر ان پر سائبان بن جاتی،اتناجڑ جاتے۔
گفتگوکاماحاصل
تو آج کی بات کاماحاصل یہ ہے کہ فکری انحراف ، عملی انحراف سے زیادہ خطرناک ہے۔
اور فکری ومنہجی انحراف کاازالہ تعلق بالوحی میںہے، تعلق بالعلماء میں ہے، علماءِراسخین ،علماءِ ربانیین کے ساتھ تعلق جوڑنے اور قائم کرنے میںہے،اس لئے کہ اللہ رب العزت نے علماء کے وجود کو لوگوں کیلئے خیر کہا، خیرکاباعث قراردیا۔
[شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ۝۰ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۸ۭ] (آل عمران:۱۸)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اکیلاہوں اور اس پر تین دلیلیں ہیں۔
1ایک یہ کہ میں خود گواہی دے رہاہوں۔
2میرے فرشتوںکی گواہی ۔
3میرے علماء کی گواہی۔
اللہ تعالیٰ نے علماء کو توحید کا گواہ بنا کر پیش کیا۔میں اکیلا ہوں ’’وحدہ لاشریک لہ‘‘ ہوں، علماء سے پوچھ لو۔
معنی جوعالم اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک لہ نہیں مانتا ،قبروں اور آستانوں کا قصد کرتا ہے ،وہ عالم نہیں ہے، عالم ربانی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید پرقائم ہے ۔
یہ علماء کی شان ومقام ہے اور نبیuکا فرمان ہے:
(العلماء ورثۃ الانبیاء)
کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔جانشین ہیں، علماء انبیاء کاکام کرنےو الے ہیں۔
جو مشن انبیاء کاتھاوہ علماء کا ہے، معنی جو عالم اس مشن پر قائم نہ ہو وہ عالم نہیں ،حقیقی عالم کی تعریف یہ ہےکہ وہ توحید پر قائم ہو ،انبیائے کرام کے مشن پر قائم ہو، دین کا داعی ہو، سچی لگن واخلاص کےساتھ ہو۔
حافظ ابن قیمaفرمایا کرتے تھے:
جس بستی میں عالم نہ ہو ،اس بستی والوں پر ہجرت کرنا فرض ہوجاتی ہے۔
اپنے علاقے کوچھوڑ دوایسے علاقے میں جاؤجہاں دین کے علماء موجود ہوں۔
فرمایا کرتے تھے: اس امت کو ڈاکٹر سے زیادہ ایک عالم کی ضرورت ہے،ڈاکٹر جسم کا معالج ہے اور عالم روح کا معالج ہے۔
جسم کاعلاج ا گر نہ بھی ہو تو فقط موت واقع ہوجائے گی، لیکن اگر روح کا علاج نہ ہو تو روح کی موت دنیا وآخرت کی تباہی وبربادی کاباعث ہے۔
اورڈاکٹر جوعلاج کرتاہے بعض اوقات یہ علاج ایک عام شخص کو بھی معلوم ہوتا ہے ،کچھ تجربہ ہوتا ہے لیکن شریعت تجربہ کانام نہیں ہے مشورے کانام نہیں ہے، شریعت وحی الٰہی کا نام ہے، جس کے حامل علماءِ کرام ہیں۔ اسی لئے قرب قیامت علماءکا اُٹھ جانا جہل کے پھیل جانے کی علامت ہوگی۔
(ان اللہ لاینتزع علما بصدور الرجال ولکن ینتزعہ بقبض العلماء)
اللہ تعالیٰ علم ،علماء کے سینوں سے نہیں اٹھائے گابلکہ علم کو اٹھائے گا علماء کواٹھاکر۔
کتابیں موجود ہونگی، مگر علم نہیں ہوگا، علم کیوں نہیں ہوگا ؟ علماء نہیں ہونگے ۔
علم ،علماءکی وجہ سے ہے اسی لئے ان سے محبت کرنا ، ان سے علم لینا اور فتنوں سے بچاؤ اختیار کرنا یہ اشد ضروری ہے تاکہ کوئی فکری ومنہجی انحراف پیدا نہ ہو۔اپنی اصلاح کیلئے ،خُلق کی، عقیدے کی ،عمل کی، سیاست کی اصلاح کیلئے علماء کے ذریعے علم سے جُڑ جانا انتہائی ضروری ہے،اور یہی چیز کامیاب کرنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطافرمائے۔

About الشیخ عبدﷲ ناصر رحمانی

امیر جمعیت اہل حدیث سندھ

Check Also

اربعینِ نووی

حدیث نمبر:33 ،قسط نمبر72 عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے