Home » مجلہ دعوت اہل حدیث » 2017 » شمارہ اپریل » داڑھی بڑھانا ہی مشروع ومسنون ہے قسط:2

داڑھی بڑھانا ہی مشروع ومسنون ہے قسط:2

 کراچفہم سلف

بلاشبہ کتاب وسنت کا وہی مفہوم ومراد معتبر ہے جو سلف صالحین صحابہ، تابعین وائمہ دین سےماخوذ ہو لیکن جو مسئلہ سلف صالحین میں بھی مختلف فیہ ہو تو اس صورت میں انہی اسلاف کےموقف کو درست تصور کیاجائے گاجن کاموقف کتاب وسنت کے موافق ہوگا۔
جیسا کہ ضابطہ الٰہی ہے:
[يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۝۵۹ۧ ](النساء:۵۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔
زیربحث مسئلہ بھی اسی نوعیت کا ہے،کیونکہ داڑھی کٹوانے اور نہ کٹوانے میں سلف کااختلاف رہا ہے اب اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اصول کےمطابق کتاب وسنت کی طرف رجوع کرناہوگا۔ہم گذشتہ سطور میں یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑدینے کاحکم دیاہے۔الحمدللہ
قارئین کرام! بنظر انصاف دیکھئے کہ کن اسلاف کا موقف صحیح احادیث کے موافق ہے؟؟؟
یہی اصول اپناتے ہوئے ائمہ دین نے متعدد مسائل میں سلف کے ساتھ اختلاف کررکھاہے۔
عمران الٰہی صاحب کا اس مسئلے میں اپنے پسندیدہ آثار کو فہم سلف باور کرانا اور دیگرآثار سلف سے صرف نظرکرنا ،انتہاء درجے کی ناانصافی ہے۔
تنبیہ: حافظ عمران صاحب نے اپنے مؤقف کے حق میں جوآثار نقل کئے ہیں ان میں سے اکثر بلحاظ سند ثابت ہی نہیں بلکہ بعض تو بے سند ہیں جن پر تفصیلی بحث آئندہ ہوگی۔ان شاء اللہ
الاعتبار بروایۃ الراوی لابرأیہ
داڑھی کٹوانے کے مجوزین کی طرف سے یہ بات بڑے زور وشور سے کہی جاتی ہے کہ داڑھی بڑھانے والی حدیث کے بعض رواۃ(ابن عمرt) سے داڑھی کاٹنا ثابت ہے ،اگرداڑھی کاٹنا جائز نہ ہوتا تو وہ قطعاً اس کے مرتکب نہ ہوتے؛ کیونکہ راوی ہی حدیث کامعنی بہتر جانتا ہے۔
تجزیہ: سیدناعبداللہ بن عمرwکےعمل سے ان کی بیان کردہ حدیث میں تخصیص کرنا زیادتی ہے کیونکہ ابن عمر کا یہ عمل اپنی بیان کردہ حدیث سے متصادم ہے اس صورت میں اصول فقہ کے قاعدہ ’’الاعتبار بروایۃ الراوی لابرأیہ‘‘
(راوی کی بیان کردہ روایت کا ہی اعتبار ہوگا نہ کہ راوی کی رائے کا۔)(فتح الباری ۲؍۹۷)
کے پیش نظر روایت ہی کو لیاجائیگا۔
مقصود کو مزید واضح کرنے کے پیش نظر چندامثلہ ذکر کئے دیتے ہیں جواس اصول پر پوری اتر رہی ہیں۔
mرسول اللہ ﷺ نے مرد کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب خواتیم الذھب.صحیح مسلم،کتاب اللباس، باب تحریم استعمال اناء الذھب والفضۃ علی الرجال والنساء….)
جبکہ اس روایت کے راوی براء بن عازب tسے سونے کی انگوٹھی پہننا ثابت ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج۶ص:۶۷،الرقم:۲۵۱۵۱،دار الفکر وسندہ حسن ،مسند احمد ۴؍۲۹۴)
کیا بزعم عمران الٰہی مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی استعمال کرنے کے جواز کافتویٰ دیاجاسکتاہے؟؟حاشاوکلا
نیز ائمہ حدیث نے بھی براء بن عازب tکے عمل کا حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے انکار کیاہے۔
(الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ فی الحدیث لابی بکر الحازمی ۲؍۲۰۵)
mسیدہ عائشہr فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
انما الرضاعۃ من المجاعۃ.
(صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب من قال لارضاع بعد حولین)
یعنی رضاعی رشتہ، بھوک کی وجہ سے دودھ پینے پر قائم ہوتاہے۔
یہ حدیث اپنے مقصد میں بلکل واضح ہے کہ بچہ جب اس عمر میں دودھ پئے جس عمر میں دودھ سے اس کی بھوک زائل ہوجاتی ہے یعنی مدت رضاعت میں ہوتورضاعی رشتہ ثابت ہوگا اس کے بعد اگر کوئی دودھ پئے تو رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
اس حدیث کے برعکس اس کی راویہ(سیدہ عائشہr) کافتویٰ تھا کہ بڑی عمرکابالغ شخص بھی اگر کسی عورت کادودھ پی لے تو وہ اس کا رضاعی بیٹابن جائیگا۔(صحیح مسلم،کتاب الرضاع ۱؍۲۶۹قدیمی کتب خانہ، ابوداؤد ،کتاب النکاح ،باب من حرم بہ ،رقم:۲۰۱۶)
کیا اس بناء پر سیدہ عائشہ کے مذکورہ فتوے کو لینا درست ہوگا؟؟
mسیدہ عائشہr سفر میں مکمل نماز پڑھنے کی قائل تھیں۔
(صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین ۱؍۲۴۱)
جبکہ سفر میں قصر(دورکعت) پڑھنے والی روایت کی بھی روایہ سیدہ عائشہ ہی ہیں۔(دیکھئے:صحیح بخاری، ابواب تقصیر الصلاۃ ،باب یقصر اذا خرج من موضعہ)
یہاں پر بھی ائمہ نے سیدہ عائشہ کی روایت کو لیا ہے نہ کہ ان کے عمل کو ۔ اس طرح اور بھی بہت سی امثلہ سےکتب حدیث بھر ی پڑی ہیں۔ اختصار کے پیش نظر انہی پر اکتفاء کیاجاتاہے۔
قارئین کرام! مندرجہ بالامثالوں کوٹھنڈے دل سے پڑھنے کے بعد ہمارے موقف پر غور کریں۔
جس طرح مذکورہ مقامات پر روایان حدیث کے عمل کو چھوڑ کر ان کی روایت کو لیاجاتاہے بعینہ یہی طرزعمل اہل علم نے زیربحث مسئلہ میں اپنایا ہے۔والحمدللہ
تنبیہ:بعض کی طرف سے یہ بھی کہاجاتاہے کہ ابن عمرwسنت پر بہت زیادہ عمل کرنے والے تھے، لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ انہوںنے داڑھی کاٹ کر سنت کی مخالفت کی ہو۔
توعرض ہے کہ کیابراء بن عازب ،سیدہ عائشہ ودیگرصحابہy سنت پر عمل کرنے والے نہ تھے یہ بات جمیع اصحاب رسول میں سے کسی کے متعلق بھی کہنادرست نہیں،تمام صحابہ سنت پر عمل کرنے والے تھے۔
جہاں تک تعلق ہے ابن عمر کے اس عمل کا تو وہ جلیل القدر وعظیم الشان انسان ہونے کے ساتھ غیرمعصوم عن الخطا تھے۔
اس لئے ان سے خطا کا سرزد ہونا عین ممکن ہے۔
جس طرح دیگرصحابہ کرام کے شاذ فتاویٰ جات کو علماء حق کسی عذر پر محمول کرتے ہیں یہی رویہ اس عظیم الشان صحابی کے بارے میں اپنایا جائیگا۔
اجماع کے دعوے کی حقیقت
حافظ عمران الٰہی صاحب لکھتے ہیں: میرا تو یہ دعویٰ ہے کہ ایک مشت سے زائد داڑھی کٹانے کےجواز پرصحابہ کرام کا اجماع ہے۔
(ضیائے حدیث جلد۲۵شمارہ۱۱،ص:۵۱،۵۲)
موصوف کے اس دعوے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ جن صحابہ سے داڑھی کٹوانا ثابت ہے ان پر کسی بھی صحابی نے اعتراض نہیں کیا۔
چانچہ موصوف لکھتے ہیں:…اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک مشت سے زائد داڑھی کے کٹانے کے جواز میں کوئی صحابی ان کامخالف بھی نہ تھا۔(ضیائے حدیث ص:۵۳)
مزید لکھتے ہیں: ہمارے علم کے مطابق کسی صحابی نے بسندصحیح ایک مٹھی سے زائد داڑھی کٹوانے کوحرام یاناجائز قرار نہیںدیا۔
(ضیائے حدیث ص:۵۳)
تجزیہ:
1اجماع کا یہ دعویٰ بہت ہی عجیب ہے؛کیونکہ یہ مسئلہ صحابہ کرام سے تاحال مختلف فیہ ہے، یعنی جس طرح بعض صحابہ سے داڑھی کٹوانا ثابت ہے اسی طرح کئی صحابہ سے داڑھی بڑھانا بھی ثابت ہے۔
جیسا کہ مشہور تابعی شرحبیل بن مسلمaفرماتے ہیں:میں نے پانچ صحابہ کو دیکھا وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو بڑھاتے تھے اور ان کو رنگتے تھے،سیدنا ابوامامہ الباہلی، سیدنا حجاج بن عامر الشمالی، سیدنا مقدام بن معدی کرب، سیدنا عبداللہ بن بسرالمازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمیy(معجم الکبیر للطبرانی ۱۲؍۲۶۲رقم:۳۲۱۸دار الکتب العلمیہ وقال الھیثمی فی المجمع ۵؍۱۶۷اسنادہ جید)
عمران صاحب کا مختلف فیہ مسئلے پراجماع کادعویٰ کرنا محض سینہ زوری ہے۔
2ائمہ محدثین (بالخصوص جنہوں نے اجماعی مسائل پر کتب تحریر فرمائی ہیں)میں سے کسی نےبھی اس مسئلے پر اجماع کادعویٰ نہیں کیا۔
3محض صحابہ کااعتراض نہ کرنا اس بات کو قطعا مستلزم نہیں کہ وہ اس عمل سے راضی تھے اگر بزعم عمران الٰہی اجماع کے ثبوت کیلئے یہ کسوٹی مقرر کی جائے تو کئی مسائل پر اجماع کادعویٰ کیاجاسکتاہے۔
مثلاً:بعض صحابہ سے سیاہ خضاب کا استعمال ثابت ہے۔
(صحیح بخاری،الرقم:۳۷۴۸،معجم الکبیر للطبرانی، الرقم:۲۵۳۵،مصنف ابن ابی شیبہ ۶؍۵۲دار الفکر)
اس کے برخلاف حدیث رسول ﷺ میں اس کی مخالفت مذکور ہے۔(صحیح مسلم،الرقم:۱۲۰۲)
مذکورہ صحابہ کے عمل پر کسی بھی صحابی نے اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی کسی بھی صحابی سے اس کی حرمت ثابت ہے۔ اگر اجماع کے دعوے کامعیار یہی ہے تو کیاخیال ہے عمران صاحب!
اس مسئلے پر بھی اجماع کا دعویٰ کرنا درست قرارپائیگا؟؟
ممکن ہے کوئی کہے کہ اس مسئلے میں دیگرصحابہ کی عملاً مخالفت ثابت ہے جی بلکل یہی معاملہ زیربحث مسئلہ میں ہے کیونکہ داڑھی کٹوانے والےصحابہ کی دیگرصحابہ نے عملاً مخالفت کررکھی ہے۔
فماجوابکم فھوجوابنا
4باقی رہے وہ آثار تابعین جن میں انہوں نے لفظ کانوا کے ساتھ داڑھی کٹوانے والاعمل نقل کیا ہے توضروری نہیںکہ اس لفظ کے عموم میں صحابہ ہی آتے ہوں جب کہ اس سے تابعین بھی مراد ہوسکتے ہیں اگر اس سے صحابہ بھی مراد لئے جائیں تو اس میں تمام صحابہ کا احصار مقصود نہیں بلکہ بعض کاعمل ہے کیونکہ کئی صحابہ سے داڑھی کولمباکرنا بھی ثابت ہے، خاص دلیل کے مقابلے میں عام سے استدلال کرناکہاں کاانصاف ہے؟؟؟
اور یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اس حوالے سے موصوف کے نقل کردہ آثار تابعین میں سے سوائے ایک کے سنداً ثابت ہی نہیں ان پر بحث اپنے مقام پر ہوگی۔(ان شاءاللہ)
(جاری ہے)

About محمدابراھیم ربانی

Check Also

اتمام المنن فی فوائد انوارالسنن

محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی  رحمہ اللہ کی کتاب انوارالسنن فی تحقیق آثارالسنن (جو کہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے